سیدنا امامِ حسن رضی اللہ تعالی عنہ کا یومِ شہادت
آج سیدنا امامِ حسن رضی اللہ تعالی عنہ کا یومِ شہادت ہے
✍🏻 نثار مصباحی
سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے ذکر پاک کی محفل خواہ ۲۸ صفر کو کی جائے یا ۵ ربیع الأول کو یا کسی اور دن، یہ بہر حال سعادت ہی سعادت ہے۔ اس قدسی رشک نواسۂ حبیب کا ذکرِ پاک ہر صاحبِ ایمان کے روح کی غذا اور قلب کا سکون ہے، جسے کسی دن منع کرنا بڑی محرومی ہے۔ اور اگر معاذ اللہ ان کے ذکر پاک سے کسی کو انقباض ہو تو یہ بدبختی اور ناصبیت کی علامت ہے۔ (رب عزوجل اپنی عافیت میں رکھے۔)
ان کی پاکیزہ سیرت، اور ان کی حیاتِ طیبہ کے تذکرے موقع بموقع کرتے رہنا چاہیے۔ اہلِ قلم کو ان کی سیرت و اخلاق اور محاسن و کمالات پر لکھنا بھی چاہیے۔ خاص طور سے ان کی ولادت و وفات کی تاریخوں میں اس پر توجہ دینا چاہیے۔ ان کی ولادت 15 رمضان 3ھ کو ہوئی اور زہر کے اثر سے شہادت 5 ربیع الأول سنہ 49ھ (اور دوسرے قول کے مطابق 50ھ) میں ہوئی۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی شہادت کی تاریخ 28 صفر ہے، مگر یہ درست نہیں۔ کئی درجن مستند اور قدیم کتابیں دیکھنے کے بعد بھی صفر میں شہادت کی صراحت مجھے نہیں مل سکی۔ جب کہ اس کے برعکس درجنوں مستند کتابوں میں ماہ ربیع الاول میں ان کی شہادت کی صراحت ملی۔ وہ بھی متعدد کتابوں میں تاریخ کی تعیین کے ساتھ ۵ ربیع الأول وارد ہے۔
واضح رہے کہ کئی کتابوں میں صرف مہینے (ربیع الأول) کا ذکر ہے اور کئی کتابوں میں تاریخ (۵ ربیع الأول) کا بھی ذکر ہے۔ اور یہ دونوں قسم کے حوالے بہر حال صفر میں شہادت کی نفی کر دیتے ہیں۔
ہم پہلے وہ حوالہ جات ذکر کرتے ہیں جن میں صرف مہینے کا ذکر ہے، اور پھر تاریخ کی تعیین والے حوالہ جات ذکر کریں گے۔
مولانا محمد مزمل برکاتی مصباحی(پوربندر، گجرات) کا ایک مختصر مضمون چند دنوں پہلے نظر سے گزرا۔ اس میں انھوں نے پانچ کتابوں کی عبارات درج کی ہیں جن میں ‘ربیع الأول’ کی صراحت ہے:
1- قاضی ابن خلکان(متوفی 681ھ) کی ‘وفیات الأعیان’۔
2- علامہ صفدی(متوفی 764ھ) کی ‘الوافی بالوفیات’،
3- حافظ ابن کثیر(متوفی 774ھ) کی ‘البدایہ والنہایہ’،
4- امام ابن حجر عسقلانی(متوفی 852ھ) کی ‘الاِصابہ’،
اور 5- امام ابن حجر ہیتمی مکی (متوفی 974ھ) کی ‘الصواعق المحرقہ’۔
مولانا نے دو مزید حوالے دیے ہیں جن میں تاریخ کا بھی ذکر ہے۔(ان دونوں کتابوں کے نام آگے آ رہے ہیں)
ہماری معلومات کے مطابق مذکورہ پانچ کے علاوہ بھی کئی کتابوں میں ربیع الأول میں شہادت کی صراحت موجود ہے۔ مثلا:
6 – تیسری صدی ہجری کے مشہور مورخ احمد بن یحیی البلاذری (متوفی 279ھ) کی کتاب ‘انساب الأشراف’ میں ہے:
“قال الواقدي : توفي الحسن في شهر ربيع الأول سنة تسع و أربعين.”(٣/٣٠٠)
یعنی امام واقدی (متوفی 207ھ) کہتے ہیں: امام حسن کی وفات ماہ ربیع الأول 49ھ میں ہوئی۔
7 – چوتھی صدی ہجری کے معروف محدث امام ابن حِبّان (متوفی 354ھ) اپنی کتاب ‘مشاہیر علماء الأمصار’ میں امام حسن کے تذکرے میں لکھتے ہیں:
مات بالمدينة في شهر ربيع الأول.(ص : 12)
مدینہ منورہ میں ماہِ ربیع الأول میں ان کا وصال ہوا۔
[[نوٹ : انھوں نے سنہ 51ھ لکھا ہے۔ واضح رہے کہ امام حسن کے سالِ وفات میں اگرچہ ۵ یا ۶ اقوال ہیں، مگر تین قول زیادہ مشہور ہیں: 49ھ، 50ھ، اور 51ھ۔ ان میں بھی سب سے راجح اور معروف قول 49ھ کا ہے۔ پھر اس کے بعد 50ھ والا قول ہے۔]]
8 – امام ابو الحجاج المزی (متوفی 742ھ) ‘تھذیب الکمال’ میں لکھتے ہیں:
“قال الواقدي و خليفة بن خياط و غير واحد: مات سنة تسع و أربعين، زاد بعضهم: في ربيع الأول.” (6/257)
ترجمہ : امام واقدی(متوفی 207ھ)، خلیفہ بن خیاط(متوفى 240ھ)، اور دیگر حضرات نے کہا ہے کہ 49ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ ان میں سے بعض نے مزید یہ کہا کہ: ربیع الأول میں۔!!
9 – یہی بات امام شمس الدین ذہبی (متوفی 748ھ) کی ‘تذھیب تھذیب الکمال'(2/301) میں بھی ہے۔
10 – امام ذہبی نے ‘سیر أعلام النبلاء’ میں بھی امام حسن کے تذکرے میں دومرتبہ لکھا ہے کہ ربیع الأول میں ان کی وفات ہوئی۔
11 – جب کہ ‘تاریخ الاِسلام’ میں جزم کے ساتھ انھوں نے لکھا ہے:
“توفي الحسن رضي الله عنه في ربيع الأول سنة خمسين”.(٢/٤٠٣)
یعنی امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات ربیع الأول سنہ 50ھ میں ہوئی۔
12 – امام شمس الدین سخاوی(متوفی 902ھ) ‘التحفۃ اللطیفۃ فی تاریخ المدینۃ الشریفۃ’ میں لکھتے ہیں:
“كانت وفاته في ربيع الأول سنة خمسين”. (1/491)
امام حسن -رضی اللہ تعالی عنہ- کی وفات ربیع الأول سنہ 50ھ میں ہوئی۔
ان سبھی مشہور و معروف اور اپنے فن میں معتمد و مستند مانی جانے والی کتابوں میں صراحت ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت ماہِ ربیع الاول شریف میں ہوئی ہے۔ البتہ ان میں تاریخ کی صراحت نہیں۔ اس لیے اب ہم تاریخ کی صراحت والے حوالہ جات ذکر کرتے ہیں:
مولانا مزمل نے اپنے اسی مضمون میں:
13 – امام ابن عساکر(متوفی 571ھ) کی ‘تاریخ دمشق’،
اور
14 – امام سیوطی(متوفی 911ھ) کی ‘تاریخ الخلفاء’ کی بھی عبارت درج کی ہے، اور ان دونوں میں ۵ ربیع الأول تاریخ کی صراحت ہے۔ یعنی صاف لکھا ہے کہ ۵ ربیع الاول کو امام حسن کی شہادت ہوئی۔
ان دو کے علاوہ ہماری نظر میں مزید دو اہم حوالے ہیں:
15 – بلاذري (متوفی 279ھ) کی ‘انساب الأشراف’ میں ہے:
“قالوا : و كانت وفاة الحسن سنة تسع و أربعين، و يقال سنة خمسين، لخمس خلون من شهر ربيع الأول”.(٣/٢٩٩)
علما و ائمہ نے کہا ہے کہ پانچ ربیع الأول 49ھ میں امام حسن کی وفات ہوئی۔ اور ایک قول یہ ہے کہ 50 ھ میں ہوئی۔
16- چھٹی صدی ہجری کی معروف شخصیت امام ابن الجوزی(متوفی 597ھ) نے ‘صفۃ الصفوۃ’ میں لکھا ہے کہ امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت 5 ربیع الاول کو ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں:
“توفي لخمس ليال خلون من ربيع الأول سنة خمسين، و قيل: سنة تسع و أربعين، و دفن بالبقيع. رضي الله تعالى عنه.”
یعنی : امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات 5 ربیع الأول سنہ 50ھ میں ہوئی۔ اور ایک قول یہ کہ 49ھ میں ہوئی۔ اور بقیع شریف میں تدفین ہوئی۔
الغرض، 5 ربیع الاول ہی شہادتِ امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی تاریخ ہے۔ مذکورہ حضرات میں سے کسی نے اس سلسلے میں ماہ صفر کا نام تک نہیں لیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ 28 صفر والا قول اہلِ سنت میں کہاں سے اور کیسے آ گیا۔
واللہ تعالی أعلم۔
#نثارمصباحی
۵ ربیع الأول ۱۴۴۴ھ
