تحریک پاکستان میں علماء کا سیاسی کردار

معین نوری
1857ء کی تحریک ِآزادی علامہ فضل ِ حق خیر آبادی (1797ء۔1861ء)کے فتوےٰ سے شروع ہوئی،جس کی پاداش میں انگریزوں نے علامہ کو کالے پانی کی سخت سزا سنائی، جہاں اس مردِ مجاہد نے انتقال کیا۔ وہ علماء جنہوں نے انگریز کے تسلط کو ختم کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی انہیں تختہ دار پر کھینچ دیا گیایا قید و بند میں انسانیت سوز اذیتیں دی گئیں۔ ان سرفروشوں میں مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی، مفتی کفایت علی کافی،مولانا عنایت احمد کاکوری، مولانا فضل رسول بدایونی، مفتی صدر الدین آزردہ، مولانا رضی الدین بدایونی، مولانا رحمت اللہ کیرانو ی، مفتی سعید احمد بدایونی اورامام بخش صہبائی کے نام نمایاں ہیں اورجن لوگوں نے ان مجاہدین سے ہمدردی کا اظہار کیا انگریز سرکار نے انھیں بھی گولیوں سے بھون دیا۔ایک اعداد و شمار کے مطابق تقریباً5لاکھ مسلمانوں کو سزائے موت ہوئی(مفتی عطاء اللہ نعیمی، تخلیق ِ پاکستان میں علماء اہلسنت کا کردار، مطبوعہ جمعیت اشاعت اہلسنت کراچی،2010ء صفحہ 11)۔
تحریک کے بعد مسلمانوں کے متعدد مدارس و مساجد کو ختم کر دیا گیا اورمسلمانوں کو معاشی،سماجی اور مذہبی طور پر سخت نقصان پہنچایا گیا۔1857ء کی تحریک آزادی کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکی مگر آگے چل کر ان ہی مبارک ہستیوں کی قربانیاں قیامِ پاکستان کی بنیاد بنیں۔ تحریک آزادی کے ان مجاہدوں کا تعلق اہلسنت و جماعت سے تھا جسے آج اہلسنت و جماعت بریلوی مکتبہ فکر کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔اس مکتب کا قیامِ پاکستان میں لازوال کردار رہا۔ بدقسمتی سے یہ کردار اس مکتب کے علما ء و مشائخ کی شرافت،سادہ لوحی اور سازشی ھتکنڈوں سے ناواقفیت کے باعث مخالفین کے تعصب کی نذر ہوگیا اور کتابی تاریخ میں وہ جگہ نہ پاسکا جس کا یہ مستحق تھا۔
بریلی کے مولانا احمد رضا خاں (1921-1856ء) بھی1857ء کے مجاہدوں کے ہی فکری جانشیں تھے۔ وہ شروع سے ہندو مسلم اتحاد کے سخت خلاف تھے اور مسلمانوں پر اپنا علیحدہ تشخص قائم رکھنے پر زور دیتے تھے۔ وہ مرتے دم تک اپنے اس موقف پر قائم رہے۔مولانا احمد رضا نے 1904ء میں بریلی میں دار العلوم منظر اسلام قائم کیا۔ اس دارالعلوم سے فارغ التحصیل علماء ا ور اُن کے تلامذہ نے آگے چل کر تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔
1916 ء میں مسلم لیگ اور کانگریس کے مابین میثاق لکھنو کے ذریعے ہندو مسلم اتحاد کی کوشش کی گئی تو علامہ محمد اقبال اور مولانا احمد رضا نے اس معاہدے کی مخالفت کی اور بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ ان افراد کا موقف درست تھا (پروفیسر ڈاکٹر جلال الدین احمد نوری، ”فاضل ِ بریلوی کا سیاسی کردار، مکتبہ نوریہ کراچی، 2007ء صفحہ58)۔
جب ہندوستان میں ارتداد کا فتنہ سر اٹھانے لگا تومولانا احمد رضا نے اس کے مقابلے کے لیے 1917ء میں ”جماعت رضائے مصطفی“ قائم کی(پروفیسر محمد مسعود احمد، تحریک آزادی ہند اور السواد ِ اعظم، رضا پبلی کیشنز لاہور،1979ء صفحہ233)۔ اس تنظیم نے مولانا کے انتقال کے بعد بھی شدھی تحریک کے خلاف اہم کردار ادا کیا۔1918ء میں مولانا احمد رضا کے خلیفہ مولانا نعیم الدین نے مراد آباد سے ماہنامہ ”السوادِ اعظم“ جاری کیا جس نے مسلمانوں کے مسائل اجاگر کرنے میں نمایاں حصہ لیا۔
1921-1919ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس گاندھی کی سربراہی میں ہندوستان میں تحریک خلافت، تحریک ترکِ موالات اور تحریک ہجرت شروع کی۔ 3ذیقعدہ 1338ھ/1920ء کو مولانا محمود حسننے ترک ِ موالات کی حمایت میں فتوی جاری کیا۔ اس کے بعد یہی فتویٰ جمعیت علماء ہند کے متفقہ فتوے کی صورت میں تقریباً 500 علماء کے دستخطوں سے شائع ہوا(عبد الرشید ارشد، بیس بڑے مسلمان اورڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی علما اِن پالیٹکس)۔ مئی1920ء میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے ہندوستان کو دار الحرب قرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنے کا فتوی جاری کیا۔ ان تحریکوں سے مسلمانوں کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑا اور ان کے نتیجے میں مسلمان فاقوں تک پر مجبور ہوگئے(پروفیسر احمد سعید، حصول ِ پاکستان، ایجوکیشنل ایمپوریم لاہور،1979ء صفحہ160-158)۔مولانا عبدالباری فرنگی محلی بعد میں ہندوؤں کی حمایت سے دستبردار ہوگئے اور اپنا توبہ نامہ شائع کرایا(دوقومی نظریہ کے حامی علماء صفحہ13)۔
ان حالات میں ہندوستان میں مولانا احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی پہلے عالم ِ دین تھے جنہوں نے اپنے فتویٰ کے ذریعے مسلمانوں کو اس سازش سے آگاہ کیا اور ان تحریکوں سے الگ رہنے کی تلقین کی۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں کے بڑے بڑے دینی و سیاسی راہ نما ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ ایسے وقت میں فاضلِ بریلوی نے دو قومی نظریے کے جس تصور سے قوم کو آگاہ کیا وہ ہندو مسلم اتحاد کے نا قابلِ عمل ہونے پر ایک تاریخی دستاویز ہے۔تحریک پاکستان کے ممتاز راہ نما، مورخ و محقق اور جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلرڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے بقول ”مولانا احمد رضا خاں نے ترکِ موالات کی مخالفت اصولی بنیادوں پر کی تھی“ (دو قومی نظریہ کے حامی علماء اور ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی، سورتی اکیڈمی کراچی،1982ء صفحہ20)۔
اہلسنت و جماعت بریلوی مکتب فکر کے علماء و مشائخ نے تقدیس ِ رسالت کے تحفظ میں تاریخی کردار ادا کیا۔ تحریک موالات اور تحریکِ ہجرت کی مخالفت کی، گاندھی کو مسلمانوں کا راہ نما تسلیم کرنے سے انکار کردیا، مسلمانوں پر الگ تشخص قائم رکھنے پر زور دیا اورقیام ِ پاکستان کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔ اِن علما نے ہر موقع پر اُن فیصلوں کی مخالفت کی جن سے مسلمانوں کو نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ اپنے اس کردار کے باعث اِن علماء نے کانگریس اور دیوبند کے اُن علماء کی مخالفت مول لے لی جو ہندوؤں کے شانہ بشا نہ سرگرم تھے۔ اس صورتحال نے برصغیر میں مذہبی فرقہ واریت کے فروغ نے اہم کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (1981-1903ء) لکھتے ہیں ”بریلوی مکتب فکر کے علماء کانگریس کی قیادت قبول کرنے کے اس لیے خلاف تھے کہ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ اس طرح مسلمان آہستہ آہستہ اپنی جداگانہ شخصیت کو ضائع کردیں گے اور ہندوؤں کے خیالات اور طور طریقے قبول کر لیں گے“ (ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، علماء میدان سیاست میں، اردو ترجمہ ہلال احمد زبیری، شعبہ تصنیف و تالیف کراچی یونیورسٹی، 1994ء صفحہ440)۔ مولانا احمد رضا کی انگریز دشمنی کا تو یہ عالم تھا کہ آپ ڈاک کے لفافوں پر برطانیہ کی ملکہ اور بادشاہ کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ، تصویر الٹا کرکے چسپا ں کیا کرتے تھے(عکس لفافہ، پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد، گناہِ بے گناہی، ادارہ تحقیقات امام احمد رضا، 1984ء صفحہ38)۔ 1921ء میں مولانا احمد رضا خاں رحلت فرما گئے۔
حضرت مجدد الف ثانی(1624-1564ء)، علامہ فضل حق خیر آبادی(1861-1797ء) اور مولانا احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی(1921-1856ء) کی فکر کے وارث علماء ومشائخ 19-16مارچ1925ء کو مراد آباد میں منعقدہ سنی کانفرنس میں جمع ہوئے۔ اس موقع پر مسلمانوں کے مذہبی و سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے ”آل انڈیا سنی کانفرنس“ کے نام سے ایک تنظیم کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔اس تنظیم کے صدر پیر جماعت علی شاہ(متوفی30اگست1951ء) اور ناظم اعلیٰ مولانا نعیم الدین مراد آباد ی(متوفی22اکتوبر1948ء) منتخب ہوئے۔ پاکستان کی کوئی تاریخ”آل انڈیا سنی کانفرنس“ اور علماء اہلسنت کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں کہلائی جاسکتی۔
اس کانفرنس کے بعد ہندوستان کے طول و عرض میں ”آل انڈیا سنی کانفرنس“ کے جلسے ہوئے۔ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی بیان کرتے ہیں ”مولانا نعیم الدین مراد آبادی، سید محمد محدث کچھوچھوی، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دیگرعلما نے سنی کانفرنسیں منعقد کرکے تحریک ِ پاکستان کی حمایت کی اور اپنے مکتب ِ فکر کے علماء اور عوام کو اس کی حمایت پر آمادہ کیا۔ یقینا ان علما ء کی اس جدوجہد سے تحریک ِ پاکستان کو تقویت پہنچی کیونکہ ان علماء کا اثر تھا اور کافی تھا“(انٹرویو ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، دو قومی نظریہ کے حامی علماء، سورتی اکیڈمی کراچی،1982ء صفحہ 22بحوالہ ہفت روزہ افق کراچی شمارہ8جنوری1979ء)۔1930ء، یہ وہی زمانہ ہے جب علامہ محمد اقبال اس طرف متوجہ ہوئے اور 1933ء میں محمد علی جنا ح عملی طور پر مسلم لیگ میں دوبارہ متحرک ہوئے۔
23مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور کے جلسے میں جن ممتاز علماء و مشائخ نے شرکت کی اُن میں علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری، مولاناعبدالغفور ہزاروی، مولانا عبدالحا مدبدایونی،پیر عبداللطیف زکوڑی شریف، پیر صاحب مانکی شریف اور مولانا عبدالستار خاں نیازی شامل تھے۔ مولانا بدایونی نے قرار داد کی حمایت میں اس جلسے سے خطاب بھی کیا(محمد صادق قصوری، تحریک پاکستان میں علماء و مشائخ کا کردار، تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ لاہور،2008ء متفرق صفحات)۔
مارچ1940ء کی قرارداد پاکستان کے بعد”آل انڈیا سنی کانفرنس کا نیا دستور ترتیب دیا گیا اور اس کا نیا نام”جمہو ریہ اسلامیہ“ رکھا گیا(ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی، علماء میدان سیاست میں، صفحہ441 بحوالہ حیات صدر الافاضل از غلام معین الدین نعیمی)۔
مارچ1946ء میں 50سے زائد علما و مشائخ نے اپنے دستخطوں سے مسلم لیگ کی حمایت میں فتویٰ جاری کیا(عکس فتوی، محمد جلال الدین قادری، تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس،سعید برادران گجرات،1999ء،صفحہ208)۔ 30-27اپریل1946ء کو بنارس میں عظیم الشان سنی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں دو ہزار سے زائد علماء و مشائخ اور 60ہزار کے قریب عام مسلمان شریک ہوئے(پروفیسر ڈاکٹر جلال الدین احمد نوری، ”فاضل ِ بریلوی کا سیاسی کردار، صفحہ136 اور خواجہ رضی حیدر قائد اعظم کے 72سال)۔ اس میں تنظیمی،تربیتی، سیاسی اور تبلیغی نوعیت کے مختلف فیصلے بھی کیے گئے۔ کانفرنس میں بھرپور انداز میں مطالبہ ئ پاکستان کی تائید کا اعلان کیا گیا اور کانفرنس کے مقررین نے پاکستان مسلم لیگ کو اپنی ہر ممکن حمایت کا یقین دلایا۔ اس موقع پر پاکستان کا دستور بنانے کے لیے ممتاز علماء کرام پر مشتمل 13رکنیکمیٹی تشکیل دی گئی۔اس تنظیم کے نئے صدر سید محمدمحدث اشرفی کچھوچھوی منتخب ہوئے جبکہ مولانا نعیم الدین مراد آبادی تنظیم کے ناظم اعلیٰ اور مولانا عبدالحامد بدایونی ناظم نشر و اشاعت منتخب ہوئے(محمد جلال الدین قادری، تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس، صفحہ238،260)۔
پاکستان کی حمایت کرنے کے وجہ سے مختلف علماء و مشائخ کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ پیر سید امین الحسنات (مانکی شریف)، پیر صاحب زکوڑی شریف، خواجہ قمر الدین سیالوی، پیر صاحب گولڑہ شریف، مولانا ابراہیم چشتی، پیر آف تونسہ شریف، پیر صاحب مکھڈشریف اور دیگر اکابر پابند سلاسل ہوئے(محمد جلال الدین قادری، تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس صفحہ301)۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں ”یہ جماعت پاکستان کے لیے اپنے عہد و پیماں میں اس قدر راسخ تھی کہ مولانا نعیم الدین مراد آباد ی نے پنجاب شاخ کے ناظم ابوالحسنات سید محمد احمد قادری کو ایک خط میں لکھا ”جمہوریہ اسلامیہ اپنے اس مطالبے کو کسی حال میں ترک نہیں کرسکتی خواہ مسٹر جناح خود اس کے حامی رہیں یا نہ رہیں“ (ڈاکٹر اشتیاق احمد قریشی، علماء میدان سیاست میں، مترجم ہلال احمد زبیری، شعبہ تصنیف و تالیف کراچی یونیورسٹی، صفحہ441)۔ ”آل انڈیا سنی کانفرنس“ کا مذکورہ فیصلہ دبدبہ سکندری رام پور میں 10جون1946ء کے شمارے میں بھی شائع ہوا(خبر کا عکس،خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس، مکتبہ رضویہ گجرات، 1978ء صفحہ 312) اور یہی بات مولانا عبدالحامد بدایونی نے قائد اعظم سے اپنی ملاقات میں دہرائی (جلال الدین قادری تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس صفحہ384، بحوالہ دبدبہ سکندری رام پور، شمارہ21مئی1947ء)۔
آل انڈیا سنی کانفرنس کے راہ نماؤں نے مطالبہ پاکستان کو متعارف کرانے کے لیے پورے ہندوستان کے دورے کئے۔ علاوہ ازیں اس مطالبے کو عالمی سطح پر متعارف کرنے کے لیے مولانا عبدالعلیم صدیقی اور مولانا عبدالحامد بدایونی پر مشتمل وفد مختلف اسلامی ممالک بھیجا گیا۔ قیام پاکستان سے قبل علماء اہلسنت نے مشرقی اور مغربی حصو ں کے درمیان خطہ اتصال نہ ہونے کی طرف بھی توجہ دلائی(جلال الدین قادری، تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس صفحہ294-292)۔ اگر مسلم لیگ ابتدا سے اس خطہ اتصال کو بھی اپنے مطالبات میں شامل کر لیتی تو شاید مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ نہ ہوتا۔
*
👇 تحریکِ پاکستان میں علمائے دیو بند کا کردار* 👇
تحریک پاکستان میں بعض علمائے دیوبند کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اِ ن میں مولانا اشرف علی تھانوی(1943-1863ء)، مولانا شبیر احمد عثمانی(1949-1886ء) اورمفتی محمد شفیع(1976-1897ء) سر فہرست ہیں۔ دیگر علمائے دیوبند کی پاکستان مخالفت کے پیشِ نظر، اِن علما ئے دیوبند کی پاکستان کی حمایت، سیاسی نکتہ نگاہ سے غنیمت تھی۔ تاہم علماء دیوبند کی بھار ی اکثریت نے ہندوؤں کے شانہ بشانہ انڈ ین نیشنل کانگریس (قیام1885ء)،جمعیت علمائے ہند(قیام1919ء) اور دیگر تنظیموں کی چھتری تلے مسلمانوں کے علیحدہ وطن کی مخالفت میں بھر پور حصہ لیا۔ بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ”دو چار علماء کے علاوہ دیوبندیوں کا باقی ماندہ حصہ تو ہندوؤں میں بالکل مدغم ہوچکا تھا“ (دو قومی نظریہ کے حامی علماء، صفحہ20)۔
دار العلوم دیوبند کے ممتاز عالم مولانا حسین احمد مدنی نے مسلم لیگ میں شرکت کو حرام کو قرار دیا(ڈاکٹر ایچ بی خان، تحریک پاکستان میں علماء کا سیاسی و علمی کردار، الحمد اکادمی کراچی، 1995ء صفحہ342)۔ دار العلوم دیوبند کو بحیثیت ادارہ پاکستان کی مخالفت میں بھر پور طور پر استعمال کیا گیا۔ بقول مفتی محمد شفیع ”دیوبند میں کانگریسی مزاج پختہ ہوتا چلا گیا“ (انٹر ویو مفتی محمد شفیع، اردو ڈائجسٹ لاہور، جولائی1968ء صفحہ28)۔
پاکستان مخالفت مہم میں اسلامی شعائر کی پامالی سمیت پاکستان، قائد اعظم اور اُن کے حامیوں کے بارے میں ایسے گندے اور نا زیبا الفاظ استعمال کیے گئے جو دین کے نام لیواؤں کے منصب کے یکسر منافی تھے۔ اس بے ہودہ فحش مہم میں علامہ شبیر احمد عثمانی کو بھی نہیں بخشا گیا(مکا لمتہ الصدرین)۔ علامہ شبیر احمد عثمانی بیان کرتے ہیں ”آج دارالعلوم نہ صرف ہنود کا مداح ہے بلکہ ان کے رنگ میں بہت کچھ رنگا جا چکا ہے“(حیات شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، تالیف فیض الانبالوی و شفیق صدیقی، ادارہ پاکستان شناسی لاہور، 2002ء صفحہ59 بحوالہ دبدبہ سکندری5نومبر1945ء)۔
پاکستان کو پلیدستان، خاکستان، خونخوار سانپ، پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو سور کھانے والے، مسلم لیگ میں شرکت کو حرام اور قائد اعظم کو کافرِ اعظم قرار دیا گیا(تخلیق پاکستان میں علماء اہلسنت کا کردار، صفحہ102)۔ جماعت اسلامی کے مولانا سید ابو الاعلی مودودی جیسے سنجیدہ شخص نے مطالبہئ پاکستا ن کو بَکر ی کی بولی قرار دیا (سیاسی کشمکش حصہ سوم، صفحہ99)۔ جماعت اسلامی کے اپریل 1947ء کے اجلاس منعقدہ پٹنہ میں کانگریس کے ہندو راہ نما گاندھی جی دو خواتین کے ہمراہ بنفسِ نفیس شریک ہوئے اور اجلاس میں کی جانے والی تقریر پر مسرت کا اظہار کیا(رودادِ جماعت اسلامی حصّہ پنجم، شائع کردہ شعبہ نشرو اشاعت جماعت ِاسلامی، ملتان روڈ لاہور،1992ء صفحہ251)۔
مولانا اشرف علی تھانوی کے سوانح نگار پروفیسر احمد سعید لکھتے ہیں ”مسلمانوں نے مندروں میں جاکر دعائیں مانگیں۔ وید کو الہامی کتاب تسلیم کیا گیا۔ رامائن کی پوجا میں شرکت کی گئی۔ مسلمانوں نے اپنے ماتھے پر تلک لگائے۔ گنگا پر پھول اور بتاشے چڑھائے گئے۔ بار بار اس بات کا اعلان کیا جاتا کہ ”گاندھی مستحق نبوت تھا“ اور یہ کہا گیا کہ ”اگر نبوت ختم نہ ہوتی تو گاندھی نبی ہوتا۔ گائے کی قربانی موقوف کرنے کی تجاویز پیش کی گئیں اور سب سے غضب یہ کیا کہ دہلی کی جا مع مسجد میں منبر رسول پر ایک متشدد اور متعصب ہندو شردھانند سے تقریر کروائی گئی“ ّ (پروفیسر احمد سعید، حصول ِ پاکستان، الفیصل تاجران کتب، لاہور، 1996ء صفحہ123)۔
ممتاز محقق اور قائد ِ اعظم اکیڈمی کے سابق ایکٹنگ ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر تحریک پاکستان میں ”دارالعلوم دیوبند“ کی عدم شرکت کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ”8جون 1936ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل اور مرکزی پارلیمنٹری بورڈ کے اجلاس لاہور میں ہوئے۔ ان اجلاسوں سے مولانا حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمد سعید نے بھی خطاب کیا اور انہوں نے کہا کہ دیوبند کا ادارہ اپنی تمام خدمات لیگ کے لیے پیش کردے گا بشرط یہ کہ پروپیگنڈہ کا خرچ لیگ برداشت کرے۔ اس کام کے لیے پچاس ہزار کی رقم بھی طلب کی گئی جو لیگ کی استعداد سے باہر تھی“ (خواجہ رضی حیدر، قائد اعظم کے 72سال، نفیس اکیڈمی کراچی،1986ء صفحہ303)۔ واقعہ کی تفصیل تحریک پاکستان کے ممتاز راہ نما اور قائد اعظم کے دستِ راست مرزا ابوالحسن اصفہانی(1981-1902ء) نے بھی اپنی کتاب “Quaid-e-azam as I knew him”، اردو ترجمہ بعنوان ”قائدِ اعظم جناح میری نظر میں“ مطبوعہ روٹا پرنٹ ایجنسی کراچی، 1968ء کے صفحہ30پر تحریر فرمائی۔
تحریک پاکستان کے طالب علم راہ نمااور کالم نویسضیاء الاسلام زبیر ی تحریر کرتے ہیں ”سیدعطا اللہ شاہ بخاری اور اس قسم کے دوسرے لوگ فنِ خطابت کے امام تھے۔ ہندو کانگریس نے ان کے فن ِ خطابت ہی کی وجہ سے ان کو بھاری قیمت کے عوض خرید رکھا تھا“(پر وفیسر ڈاکٹر جلال الدین احمد نوری، ”فاضل ِ بریلوی کا سیاسی کردار،صفحہ146، بحوالہ روزنامہ نوائے وقت26اگست1971ء)۔
دیوبند اور بریلوی مکتب فکر میں تحریک ِ پاکستان کے حوالے سے ایک واضح فرق یہ ہے کہ بریلوی مکتب ِ فکر کے علماء شروع سے پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کرتے رہے۔ یہ وہ قافلہ تھا جس نے 1857ء میں پھانسی کے پھندوں اور خون کے نذرانوں سے تحریک آزادی کی بنیاد رکھی جبکہ تحریک پاکستان میں شریک بعض علمائے دیوبند آخری دنوں میں تحریک میں شریک ہوئے۔
ممتاز کانگریسی لیڈر ابو الکلام آزاد(1958-1888) نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب India Wins Freedomتحریر فرمائی۔ یہ کتاب ان کے انتقال (22فروری1958ء) کے بعد 1958ء میں ہی چھپی۔کتاب کے کچھ ابواب ان کی وصیت کے مطابق 30سال بعد1988ء میں اس کتاب کے نئے ایڈیشن میں شامل کیے گئے۔ ان ابواب میں آزاد لکھتے ہیں ”مجھے افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ کانگریس کی قوم پرستی ابھی اس سطح تک نہیں پہنچی تھی،جہاں یہ فرقہ واریت سے بالا تر اور اقلیت و اکثریت سے بے نیاز ہو کر محض اہلیت کی بنیاد پر اپنے لیڈروں کا انتخاب کرسکتی“(بحوالہ اعتراز احسن، سندھ ساگر اور قیام ِ پاکستان، دوست پبلی کیشنز اسلام آباد،1999صفحہ418)۔
غرض یہ کہ کسی دینی، سماجی اور سیاسی پلیٹ فارم پر پاکستان کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہوسکی اور پاکستان1947ء کے رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں معرض وجود میں آگیا۔

معین نوری