فرمانِ حضرت علی ؓ”یہ اہل جمل والے ہمارے (دینی) بھائی ہیں”
فرمانِ حضرت علی ؓ”یہ اہل جمل والے ہمارے (دینی) بھائی ہیں”
تحریر: اسد الطحاوی
نیز امام ابن ابی شیبہ نے بھی مذکورہ روایت کو اپنی سند سے بیان کیا ہے:
يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي الْعَنْبَسِ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، قَالَ: سُئِلَ عَلِيٌّ عَنْ أَهْلِ الْجَمَلِ، قَالَ: قِيلَ: أَمُشْرِكُونَ هُمْ؟ قَالَ: مِنَ الشِّرْكِ فَرُّوا , قِيلَ: أَمُنَافِقُونَ هُمْ؟ قَالَ: إِِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِِلَّا قَلِيلًا ; قِيلَ: فَمَا هُمْ؟ قَالَ: إِِخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَيْنَا
امام ابو بختری کہتے ہیں :
حضرت علی سے سوال ہو ا اہل جمل کے بارے ان سے کہ گیا کہ وہ مشرکین میں سے تھے ؟تو حضرت علی نے کہا وہ شرک سے دور تھے ، ان سے کہا گیا کیا وہ منافقین میں سے تھے ؟ تو حضرت علی نے کہا اگر وہ منافقین میں ہوتے تو اللہ کا ذکر نہ کرتے سوائے شاذو نادر کے ، ان سےکہا گیاتو وہ کیا تھے ؟ تو حضرت علی نے کہا وہ ہمارے بھائی ہیں اور انہوں نے ہم سے زیادتی(بغاوت) کی
[مصنف ابن ابی شیبہ، برقم: 37763، وسندہ لا باس بہ فی شواہد]
اس روایت کے سارے رجال ثقہ و صدوق ہیں البتہ ابو بختری کا سماع حضرت علی سے نہیں ہے
اعتراض: انقطاع سند کے سبب یہ روایت ضعیف ہے
الجواب:
لیکن امام احمد سے انکے بارے ایک قول ملتا ہے :
قال ابن هانىء: قلت: (يعني لأبي عبد الله) : فأبو البختري سمع من علي؟ قال: لا، بينهما عبيدة.
ابن ھانی کہتا ہے میں نے امام احمد سےسوال کیا کہ کیا ابو بختری نے حضرت علی سے سماع کیا ؟ تو انہوں نے کہا نہیں بلکہ انکے درمیان عبیدہ (راوی ) ہوتا ہے۔
[سؤالاته» (2189)]
یہ حضرت علی کے مشہور شاگرد امام عبيدة بن عمرو السلماني المرادي الكوفي ہیں
جنکے بارےامام ذھبی لکھتے ہیں :
الفقيه، المرادي، الكوفي، أحد الأعلام.وأخذ عن: علي، وابن مسعود، وغيرهما.
[سیر اعلام النبلاء]
اور یہ متفقہ طور پر ثقہ ثبت امام ہیں اور یہ منفرد سند حسن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیز اس سے ملتجی جلتی متن کے ساتھ اور سند سے امام بیھقی بھی یہ روایت نقل کرتے ہیں جو یہ ہے:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو سعيد بن أبي عمرو , قالا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب , ثنا أحمد بن عبد الجبار، ثنا حفص بن غياث، عن عبد الملك بن سلع، عن عبد خير، قال: سئل علي رضي الله عنه عن أهل الجمل، فقال: إخواننا بغوا علينا فقاتلناهم , وقد فاؤوا وقد قبلنا منهم
امام عبد الخیر نے کہا : حضرت علی ؓ سے سوال ہوا اہل جمل والوں کے بارے تو حضرت علیؓ نے فرمایا ”یہ ہمارے بھائی ہیں ” انہوں نے ہمارے ساتھ زیادتی یا بغاوت کی اور ہم ان سے لڑے ور جب یہ لوگ لوٹے پس ہم نے انہیں قبول کیا
[السنن الکبری ، برقم: 16752، وسندہ حسن]
اعتراض: اسکی سند میں ایک راوی احمد بن عبد الجبار پر محدثین کی جروحات ہیں
اور
اسکا شیخ حٖفص بن غیاث اختلاط شدہ راوی ہے
مذکورہ اعتراضات کا تحقیقی جائزہ:
1۔ پہلے راوی امام حاکم جو امام بیھقی کے شیخ ہیں اور انکی متابعت امام ابو سعید بن ابی عمرو نے کر رکھی ہے جو کہ متفقہ علیہ ثقہ ہیں
2۔دوسرے راوی : امام محمد بْن يعقوب بْن يوسف بْن مَعْقِل بْن سِنان، أَبُو العباس الأموي
امام ذھبی کہتےہیں :
شيخ ثقة سَمِعَ ابن عُيَيْنَة، ووَكِيعًا. وسمع ” المغازي ” وغيرها من أحمد بْن عَبْد الجبّار العُطَارِديّ؛
یہ ثقہ شیخ ہیں انہوں نے امام ابن عیینہ سے سماع کیا اور امام وکیع سے اور انہوں نے مغازی امام احمد بن عبد الجبار عطاری سے سماع کی ہے
[تاریخ الاسلام ، برقم: 243]
3۔ تیسرے راوی : امام أَحْمَد بْن عَبْد الجبار بن عطارد. أبو عمر التَّميميُّ العُطَارديُّ
یہ بھی ثقہ راوی ہیں ان پر کچھ مبھم جروحات ہیں جسکا رد ہم محدثین سے پیش کرتے ہیں
امام ذھبی انکے بارے امام خطیب کے طریق سے امام مطین کا کلام نقل کرتے ہیں :
قول مطين فيه: روى الخطيب بإسناده إِلَى جَعْفَر الخلدي قَالَ: قَالَ محمد بْن عَبْد الله الْحَضْرَمِيّ: أَحْمَد بْن عَبْد الجبار العطاردي كان يكذب.
امام مطعین کا انکے بارے قول ہے جسکو امام خطیب نے اپنی سند سے روایت کیا ہے جعفر خلدی سے وہ کہتا ہے کہ محمد بن عبداللہ مطعین کہتا ہے : احمد بن عبدالجبار یہ غلط بیانی کرتا تھا
اسکا رد کرتے ہوئے امام ذھبی لکھتے ہیں :
قلت: هَذَا إنّ كان كما قَالَ، فمحمولٌ على نطقه ولهجته، لا أنه كان يكذب فِي الحديث، إذ ذلك معدوم. لأنه لم يوجد له حديث تفرد به، وإن عنى بأنه روى عمن لم يدركه فذاك مردود
میں (ذھبی) کہتا ہوں انکا جو یہ قول ہے اسکو لہجہ پر محمول کیا جائے گا نہ کی حدیث میں ان پر تکذیب کا قول ہے اگر ایسا ہے تو غلط ہے ۔ انہوں نے کوئی بھی ایسی حدیث بیان نہیں کی جس میں انکا تفرد ہو ، اور اگر انکا مطلب یہ ہے کہ اس (راوی) نے کسی ایسے سے روایت کیا جنکا ادراک نہیں کیا تو یہ مردود ہے
اور امام ذھبی امام ابن عدی کا کلام نقل کرتے ہیں اس میں بھی یہی بات نظر آتی ہے
جیسا کہ امام ابن عدی کہتے ہیں :
وقَالَ ابنُ عدي: رأيتهم مجمعين على ضعفه. ولم أر له حديثا منكرًا. إنما ضعفوه لأنه لم يلق الذين يحدث عنهم.
امام ابن عدی کہتے ہیں : میں نے انکی تضعیف پر لوگوں کو جمع ہوتے دیکھا ہے لیکن میں اسکی کوئی منکر روایت نہیں جانتا اور انکو ضعیف قرار دینے والے وہ ہیں جنکا موقف ہے کہ یہ جس سے روایت کرتے ہیں ان سے ملے نہیں
پھر امام ذھبی لکھتے ہیں :
وقَالَ الأصم: سمعت أَبَا عبيدة السري بْن يحيى، وسأله أبي عن العطاردي فوثقه. وقال الدارقطني: لا بأس به. قد أثنى عليه أبو كُرَيْب وقد أثنى عليه الخطيب، وقواه.
امام عاصم کہتے ہیں میں نے ابو عبیدہ سری سے سنا انہوں نے اننے والد العاردی کے بارے سوال کیا تو انہوں نے اسکو ثقہ قرار دیا اور امام دارقطنی کہتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور امام ابو کریب نے انکی تعریف کی ہے اور امام خطیب نے بھی انکی توثیق کی ہے اور (اس راوی ) کو قوی قرار دیا
[تاریخ الاسلام ، برقم: 30]
نیز دیوان میں لکھتے ہیں :
أحمد بن عبد الجبار العطاري: مختلف فيه، وحديثه مستقيم.
احمد جب جبار اسکے بارے میں اختلاف واقع ہوا ہے اور اسکی حدیث پختہ ہوتی ہے
[دیوان الضعفاء، برقم: 78]
اسی طرح اپنی آخری تصنیف سیر اعلام میں فرماتے ہیں :
الشَّيْخُ، المُعَمَّرُ، المُحَدِّثُ، وَمِمَّا يُقَوِّي أَنَّهُ صَدُوْقٌ فِي بَابِ الرِّوَايَةِ: ، وَقَدْ أَثنَى عَلَيْهِ الخَطِيْبُ وَقَوَّاهُ، وَاحْتَجَّ بِهِ البَيْهَقِيُّ فِي تَصَانِيْفِهِ. وَقَعَ حَدِيْثُهُ عَالِياً
اور یہ امر واقع ہوا ہے کہ یہ صدوق ہے روایات کے باب میں ، اور انکی مدح و تعریف امام خطیب نے کی ہے ۔ اور امام بیھقی نے اپنی تصانیف میں ان سے احتجاج کیا ہے
[سیر اعلام النبلاء برقم: 43]
نیز امام مغلطائی مزید ائمہ سے انکی توثیق نقل کرتے ہیں :
ولما ذكره البستي في كتاب ” الثقات ” وقال مسلمة بن قاسم الأندلسي: أحمد بن عبد الجبار صاحب يونس بن بكير لا بأس به، حدث من فروع فتكلم فيه وقال أبو محمد بن الأخضر: ثقة لا بأس به وقال الخليلي في ” الإرشاد “: ليس في حديثه مناكير، لكنه روى عن القدماء فاتهموه لذلك. وصحح الحاكم حديثه في ” مستدركه “. وقال أبو حاتم الرازي: ليس بالقوي.
امام ابن حبان نے انکو ثقات میں درج کیا ہے
امام مسلمہ بن قاسم کہتے ہیں یہ اصحاب یونس میں سے ہیں اور ان میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور انہوں نے فروع کے باب میں روایات کیا اور ان پر کلام ہوا (اس سبب) امام ابو محمد الاخضر کہتے ہیں یہ ثقہ ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور امام خلیلی کہتے ہیں ان سے کوئی منکر روایت مروی نہیں ہوئی انہوں نے قدیم لوگوں سے روایت کیا ہے جسکی وجہ سے ان پر تھمت عائد کی گئی امام حاکم نے انکی مروایات مستدرک میں تخریج کی ہیں اور امام ابو حاتم کہتے ہیں یہ قوی درجہ کے نہیں تھے ۔
[ إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال، برقم: 68]
تو اس راوی پر مبھم جروحات ہیں جو بغیر دلیل کے ہیں اور اسکی توثیق ہی راجح ہے جیسا کہ امام ذھبی نے فیصلہ کیا ہے اور یہی جمہور ناقدین کا فیصلہ ہے
امام ابن حجر عسقلانی نے انکو رروایت حدیث میں ضعیف اور سیر کے باب میں صحیح سماع قرار دیا لیکن یہ انکی خطاء ہے
جیسا کہ وہ تقریب میں لکھتے ہیں :
أحمد بن عبد الجبار بن محمد العطاردي، أبو عمر الكوفي: ضعيف، وسماعه للسيرة صحيح،
احمد بن جبار یہ کوفی ہے ضعیف ہے لیکن سیر کے باب میں ان کا سماع صحیح ہے
اس پر رد کرتے ہوئے علامہ شعیب الارنووط کہتے ہیں :
بل: صدوق حسن الحديث ربما خالف، فقد أثنى عليه أبو كريب، ووثقه أبو عبيدة السري بن يحيى، وأبو محمد بن الأخضر. وقال الدارقطني ومسلمة بن قاسم الأندلسي: لا بأس به.۔۔۔الخ
[تحریر تقریب التہذیب ، برقم: 64]
4۔ چوتھے راوی : امام حفص بن غياث الكوفي
یہ متفقہ علیہ طور پر ثقہ ہیں
ان پر ہلکی پھلکی جرح امام ابو حاتم سے ملتی ہے کہ انکو آخر میں اختلاط ہوا تھا لیکن یہ بہت قلیل تھا اور وفات سے قبل ہوا تھا
جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
ثقة فقيه تغير حفظه قليلا فى الآخر
یہ ثقہ اور فقیہ ہیں ، انکو تغیر ہو گیاتھا حافظے میں تھوڑا لیکن زندگی کے بالکل آخر میں
[تقریب التہذیب ، برقم: 1430]
تو ایسے راوی کی روایت حسن درجہ سے نیچے بالکل نہیں گرتی
نیز اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ان پر تدلیس کی جرح ہےتو یہ قلیل التدلیس تھے
جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے انکو طبقہ اولیٰ کے ان مدلسین میں ذکر کیا ہے جنکی تدلیس بہت نادر ہے
5۔پانچواں راوی : عبد الملك بن سلع الهمداني
: صدوق
[تقریب التہذیب برقم: 4183]
6۔ چھٹے راوی : امام عبد خير بن يزيد، أبو عمارة
امام خطیب کہتے ہیں :
أدرك النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلا أنه لم يلقه، سكن الكوفة وحدث بها عن علي بن أبي طالب،
انہوں نے نبی اکرمﷺ کا دیدار کیا لیکن ملاقات نہیں ، یہ کوفہ کے رہائشی تھے ، اور حضرت علی سے روایت کرتے
عُثْمَان بْن سعيد يَقُولُ قلت- يعني ليحيى بن معين- فعبد خير؟ فقال: ثقة.
عبد الله العجلي قال: عبد خير كوفي تابعي ثقة.
[تاریخ بغداد ، برقم: 5820]
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس روایت کی سند بھی حسن ہے اور یہ روایت صحیح لغیرہ درجہ کی ہے دو اسناد سے تقویت حاصل کرکے!
اس سے چند نکات واضح ہوتے ہیں :
1۔ اہل جمل جنہوں نے مولا علی سے عرفی بغاوت کی تھی باوجود بغاوت کے مولا علی نے ان کو بھائی قرار دیا یعنی بغاوت کی حالت میں بھی انکا بھائی چارہ کا رشتہ قائم رہتا ہے ۔
2۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی انکی بغاوت کے خلاف لڑے اور پھر بات چیت کی طرف آئےتو ہم نے یہ بات قبول کی ۔
یعنی مولا علی کے نزدیک وہ جماعت صحابہؓ جو انکے خلاف بغاوت کی مولا علی نے نہ ہی انکو فاسق قرار دیا ، نہ ہی ان کے بارے منافق کا فتویٰ دیا بلکہ انکو اپنا بھائی قرار دیا ۔
اور اسی طرح اہل جمل کو بھائی کہنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب اہل صفین جنہوں نے مولا علی سے اہل جمل کے موقف پر عرفی بغاوت کی تو وہ بھی مولا علی کے فتوے کے تحت انکے بھائی ہی قرار پائیں گے ۔ اور یہ بھائی چارا دینی ہے۔
تحقیق: دعا گو اسد الطحاوی