کیا یہ حدیث رسولﷺ ”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے” ضعیف ہے ؟
تحریر : اسد الطحاوی

اسکی مکمل اسناد کا احاطہ کرنے اور ائمہ علل کی آراء اور پھر محدثین متقدمین سے متاخرین و محققین کی آراء کو پڑھنے کے بعد میں نے جو نتیجہ نکالا ہے اسکو آسانی سے مختصر مگر مدلل بیان کرنے کی کوشش کرونگا!

سب سے پہلے اسکے طریق نقل کرتے ہیں :
پہلا طریق:
حدثنا محمد بن يزيد يعني الواسطي، أخبرنا ابن ثوبان، عن حسان بن عطية، عن أبي منيب الجرشي، عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” بعثت بالسيف حتى يعبد الله لا شريك له، وجعل رزقي تحت ظل رمحي، وجعل الذلة، والصغار على من خالف أمري، ومن تشبه بقوم فهو منهم
[مسند احمد]

دوسرا طریق:
ما قد حدثنا أبو أمية، حدثنا محمد بن وهب بن عطية، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الأوزاعي، عن حسان بن عطية، عن أبي منيب الجرشي، عن عبد الله بن عمر، قال: قال رسول الله عليه السلام: ” بعثت بالسيف بين يدي الساعة ليعبد الله عز وجل وحده لا شريك له وجعل رزقي تحت رمحي وجعل الذل والصغار على من خالفني ومن تشبه بقوم فهو منهم “
[مشکل الاثار]

تیسراطریق:
حدثنا محمد بن مرزوق، قال: أخبرنا عبد العزيز بن الخطاب، قال: أخبرنا علي بن غراب، قال: أخبرنا هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن أبي عبيدة بن حذيفة، عن أبيه رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من تشبه بقوم فهو منهم»
وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن حذيفة مسندا إلا من هذا الوجه، وقد رواه غير علي بن غراب عن هشام، عن محمد، عن أبي عبيدة، عن أبيه موقوفا
[مسند البزار]

چوتھا طریق:
أخبرنا أبو القاسم الحسن بن محمد الأنباري، ثنا أبو بكر، محمد بن أحمد بن مسور ثنا مقدام، ثنا علي بن معبد، ثنا عبد الله بن المبارك، عن الأوزاعي، عن سعيد بن جبلة، قال: حدثني طاوس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم فهو منهم»
نوٹ: اس میں سفیان ثوری اور عیسی بن یونس نے بھی امام ابن مبارک کی متابعت کر رکھی ہے اوزاعی سے اس سند سے روایت کرنے میں !

پانچواں طریق:
صدقة بن عبد الله، عن الأوزاعي عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي (ص) قال: بعثت بالسيف بين يدي الساعة، وجعل رزقي تحت ظل رمحي، وجعل الذل والصغار على من خالفني، ومن تشبه بقوم فهو منهم
[العلل لابن أبي حاتم]

خلاصہ :
[] ایک روایت حضرت ابن عمر سے مروی ہے (اس روایت کو حسان بن عطیہ سے روایت کرنے میں امام اوزاعی اور ابن ثوبان ایک دوسرے کے متابع ہیں اس پر کلام آخر میں ہوگا)
[] ایک روایت حضرت مجاہد سے مرسل مروی ہے
[] ایک روایت حضرت ابو حذیفہ سے موقوفا مروی ہے
[] ایک روایت ابی سلمہ کے زریعہ حضرت ابو ھریرہ سے مروی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں تک یہ ثابت ہو گیا کہ اسکے کل پانچ طریق ہیں
اب سب سے پہلے یہ نتیجہ نکالنا ہے کہ اس روایت کے اصل رواتہ کون کون سے ہیں جو ائمہ علل کے نزدیک صواب ہیں اور دیگر میں نکارت و وھم ہیں!

ائمہ علل کے مطابق اس کے دو طریق متفقہ اصل دو ہیں
یعنی ایک روایت جو امام اوزاعی سے مرسل مروی ہے جسکو امام مجاہد نے روایت کیا ہے مرسل نبی اکرمﷺ سے!
اس میں ایک ضعف ہے کہ سند میں انقطاء ہے حضرت مجاہد نے نبی اکرمﷺ تک اپنی سند بیان نہیں کی جسکو امام ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے ۔

دوسرا طریق
وہ ہے جس کو امام بزار نے روایت کیا ہے جو کہ حضرت حزیفہ سے مروی ہے جسکی سند بظاہر حسن ہے لیکن اس میں علی بن غراب سے غلطی ہوئی اس نے اسکو مرفوع روایت کر دیا حضرت حذیفہ سے لیکن اسکے مقابل دیگر نے اسکو حضر ت حذیفہ سے موقوف روایت کیا ہے
جیسا کہ امام بزار فرماتے ہیں :
وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن حذيفة مسندا إلا من هذا الوجه، وقد رواه غير علي بن غراب عن هشام، عن محمد، عن أبي عبيدة، عن أبيه موقوفا
یہ حدیث کے علاوہ ہم نہیں جانتے حضرت حذیفہ سے مرفوعا سوائے اس طریق کے ۔ جبکہ علی بن غراب کے علاوہ باقی رجال نے اسکو ہشام سے ابن سیرین کے طریق سے ابو عبیدہ سے انکے والد کے طریق سے موقوف روایت کیا ہے

معلوم ہوا یہ بھی اصل روایت ائمہ علل سے اصل میں حضرت حذیفہ سے موقوفا ثابت ہے پس

نتیجہ:
اس میں متفقہ طور پر ائمہ کے نزدیک دو طریق ثابت ہیں ۔
۱۔ حضرت مجاہد سے مرسل
۲۔حضرت حذیفہ سے موقوف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ائمہ علل سے امام اوزاعی کی مروایات میں اختلاف واقع ہوا ہے
یعنی امام اوزاعی سے اس روایت کے تین مختلف طریق مروی ہیں
۱۔ پہلا طریق جس میں امام اوزاعی حضرت مجاہد سے مرسل روایت کرتے ہیں وہ صواب ہے متفقہ
۲۔دوسرا طریق جو امام اوزاعی سے یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے جسکو امام اوزاعی کا شاگرد صدقہ روایت کرتا ہے یہ ائمہ علل کےنزدیک متفقہ طور ضعیف ، منکر و غیر ثابت ہے !!
لیکن
۳۔ امام اوزاعی سے تیسرا طریق جو وہ حسان بن عطیہ کے طریق سے تابعی ابو منیب جرشی سے حضرت ابن عمر سے روایت کرتے ہیں :
اس میں ائمہ علل کے درمیان اختلاف ہوا ہے
امام ابو حاتم کی رائے مختلف ہے اور امام دارقطنی کی رائے مختلف ہے

پہلے امام ابو حاتم کا کلام درج ذیل ہے :
وسألت أبي عن حديث رواه عمرو ابن أبي سلمة، عن صدقة بن عبد الله، عن الأوزاعي ، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي (ص) قال: بعثت بالسيف بين يدي الساعة، وجعل رزقي تحت ظل رمحي، وجعل الذل والصغار على من خالفني، ومن تشبه بقوم فهو منهم؟
قال أبي: قال لي دحيم: هذا الحديث ليس بشيء؛ الحديث حديث الأوزاعي، عن سعيد بن جبلة، عن طاوس، عن النبي (ص).

امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے سوال کیا اس حدیث کے بارے جسکو روایت کرتے ہیں عمرو بن ابی سلمہ اپنے شیخ صدقہ سے اور وہ اپنے شیخ اوزاعی سے اور وہ یحییٰ بن ابی کثیر کے طریق سے ابی سلمہ سے بروایت حضرت ابوھریرہ سے مرفوعا روایت کرتے ہیں نبی اکرم نے فرمایا الخ۔۔۔۔۔
تو میرے والد نے کہا مجھے دحیم (محدث) نے کہا یہ حدیث کچھ بھی نہیں (یعنی خطاء ہے) یہ(اصل میں ) حدیث امام اوزاعی کی سعید بن جبلہ سے طاوس سے مرسل مروی ہے
[اعلل ابن ابی حاتم]

نتیجہ :
امام ابو حاتم نے ابو ھریرہ کے طریق کو امام دحیم کی تائید میں معلل و منکر و غیر ثابت قرار دیا اور اسکے مقابل امام طاوس سے مروی امام اوزاعی کو اصل طریق قرار دیا !

انکے مقابل

امام دارقطنی علیہ رحمہ کی رائے درج ذیل ہے :
وسئل عن حديث أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بعثت بين يدي الساعة، وجعل رزقي في ظل رمحي، وجعل الذل والصغار على من خالفني، ومن تشبه بقوم فهو منهم.
فقال: يرويه الأوزاعي واختلف عنه؛
فرواه صدقة بن عبد الله بن السمين وهو ضعيف، عن الأوزاعي، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة.
وخالفه الوليد بن مسلم، رواه عن الأوزاعي، عن حسان بن عطية، عن أبي منيب الجرشي، عن ابن عمر وهو الصحيح.

سوال ہوا امام درقطنی ابی سلمہ کی حدیث کے تعلق سے جو ابو ھریرہ سے مروی ہے مرفوعا نبی اکرم سے ۔۔۔الخ
تو امام دارقطنی کہتے ہیں یہ روایت امام اوزاعی سے مروی ہے اور ان سے روایت کرنے والوں میں اختلاف واقع ہوا ہے
اور پھر اسکو روایت کیا ہے صدقہ بن عبداللہ نے جو کہ ضعیف ہے امام اوزاعی سے یحییٰ کے طریق سے ابو سلمہ سے ابو ھریرہ سے روایت کرتا ہے
اور اسکی مخالفت ولید بن مسلم (متفقہ ثقہ) نے کی ہےوہ اس رویت کو امام اوزاعی کے طریق سے حسان بن عطیہ عن ابی منیب جرشی سے ابن عمر سے روایت کرتے ہیں اور یہی طریق صحیح ہے
[العلل للدارقطنی]

خلاصہ:
امام اوزاعی سے جو حضرت ابو ھریرہ سے مروی روایت ہے جسکو ہم سب سے اوپر تصریحا لکھ آئے ہیں کہ یہ متفقہ منکر و معلل ہے
لیکن اسکے مقابل اصح روایت میں ائمہ علل کا اختلاف واقع ہوا ہے
امام اوزاعی سے حضرت ابو ھریرہ سے مروی روایت جو کہ غلط ہے اسکے مقابل امام ابو حاتم و دحیم کے نزدیک اصل روایت امام اوزاعی کی امام مجاہد سے مرسل روایت ہے
اسکے مقابل
امام دارقطنی کے نزدیک امام اوزاعی سے مروی حضرت ابو ھریرہ سے مروی غلط روایت کے مقابل انکے نزدیک امام اوزاعی کی حسان بن عطیہ سے ابو منیب جرشی سے حضرت ابن عمر کے طریق والی روایت صحیح اور ثابت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا موقف:
میرے نزدیک امام ابو حاتم و امام دارقطنی کے کلام سے حتمی طور پر یہ نتیجہ اخذ نہین کیا جا سکتا ہے کہ امام اوزاعی کی اصل روایت دو ہیں یا ایک ہے ؟
یعنی امام اوزاعی سے یہ روایت اصل میں ہی دو طریق سے مروی ہے یا ایک طریق سے
کیونکہ امام ابی حاتم نے امام اوزاعی سے اختلاف کی صورت میں انکی حسان بن عطیہ سے روایت کرنے کو بیان نہیں کیا
اور
امام دارقطنی نے امام اوزاعی سے اختلاف کرنے والوں میں سے امام اوزاعی سے مجاہد کے طریق کو بیان نہیں کیا

اس سے دو نتیجہ نکل سکتے ہیں :
پہلا: امام اوزاعی کی اصل دو مروایات ہیں ایک وہ مجاہد سے بیان کرتے تھے اور امام اوزاعی سے یہ طریق
امام سفیان
امام ابن مبارک
امام عیسی بن یونس بیان کرتے ہیں امام اوزاعی سے جو کہ حفاظ و ثقات ہیں

جبکہ اسکے مقابل
ولید بن مسلم (جو متفقہ ثقہ ہیں ) وہ حسان بن عطیہ سے ابن عمر والا طریق روایت کرتے ہیں لیکن وہ اس میں منفرد نہیں بلکہ انکی متابعت ابن ثوبان نے کر رکھی ہے جو کہ صدوق درجہ کا راوی ہے
اگر امام اوزاعی کی اصل روایت ایک تسلیم کی جائے تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ولید بن مسلم جو متفقہ ثقہ راوی ہے اس نے امام اوزاعی سے سند کو اس طرح مقلوب بنایا ہے کہ اسکی سند بالکل ابن ثوبان کی بیان کردہ سند کے بالکل موافق ہو گئی ہے جو کہ محال ہے
جبکہ
اگر امام اوزاعی کی اصل دو مرویات کو تسلیم کیا جائے تو جیسا کہ امام دارقطنی کے کلام سے تصریح ملتی ہے کہ امام اوزاعی ایک روایت مجاہد سے مرسل علیحدہ بیان کرتے تھے
اور
دوسری روایت ابن عمر سے مرفوع علیحدہ روایت کرتے تھے تو یہ بات سمجھ آتی ہے اور یہ قرائن کے بھی زیادہ قریب ہے

یہی وجہ ہے کہ پہلے علامہ شعیب االارنووط و البانی صاحب بھی اسکو معلل و منکر قرار دیتے تھے لیکن
اسکے دو طریق اصل ہیں جس میں خفیف ضعف ہیں ایک مرسل ہے اور ایک موقوف ہے اور تیسرا طریق جس میں اوزاعی و ابن ثوبان متابع ہیں ایک دوسرے کے اس میں اب ناقد کی مرضی ہے کہ وہ کونسا قرینہ مقدم کرتا ہے کیونکہ اس میں حتمی دلیل کسی کے پاس بھی نہیں ہے اور جب اس طرح مسلہ پیدا ہو جائے تو پھر سند کے ظاہر پر حکم لگانا زیادہ اصح ہے

یہی وجہ ہے کہ امام ابن حجر عسقلانی و امام ذھبی علیہ رحمہ جنہوں نے ان علتوں کو بھی بیان کیا ہوا ہے لیکن اسکے باوجود وہ ا س روایت کی تحسین کے قائل تھے اور پھر علامہ شعیب الارنووط بھی اسکی تحسین کے قائل ہو گئے اور ایسے ہی البانی صاحب

جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں متعدد مقامات میں یوں کہتے ہیں :
أخرج أبو داود منه قوله من تشبه بقوم فهو منهم حسب من هذا الوجه وأبو منيب لا يعرف اسمه وفي الإسناد عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان مختلف في توثيقه وله شاهد مرسل بإسناد حسن أخرجه بن أبي شيبة من طريق الأوزاعي عن سعيد بن جبلة عن النبي صلى الله عليه وسلم

اور تخریج کی ہے امام ابو داود نے ابن عمر سے مرفوعا ” جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے” اور اسکا راوی ابو منیب اسکا نام میں نہیں جانتا ۔ اور اس سند میں ابن ثوبان ہے جسکی توثیق میں اختلاف ہے۔ اور اسکاایک شاہد حسن سند سے مروی ہے جسکو امام ابن ابی شیبہ نے اوزاعی کے طریقہ سے سعید بن جبلہ کے طریق سے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے
[فتح الباری]

اور اب چونکہ جید شاہد موجود ہے تو دونوں کے ایک دوسرے کو تقویت دینے سے حدیث مجموعی طور پر حسن بن گئی جسکو امام ابوداود نے روایت کیا ہے وہ بھی اور جسکو امام ابن ابی شیبہ نے مرسل مجاہد سے روایت کیا ہے وہ بھی
یہی وجہ ہے کہ امام ابن حجر عسقلانی کچھ صفحات آگے پھر یوں فرماتے ہیں:
وقد ورد حديث بن عمر رفعه من تشبه بقوم فهو منهم قلت أخرجه أبو داود بسند حسن
اور حدیث وارد ہے حضرت ابن عمرؓ سے ” جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے” میں (ابن حجر) کہتا ہوں اسکی تخریج کی ہے امام ابو داود نے اپنی سند حسن سے
[فتح الباری]

اور ایسے ہی امام ذھبی علیہ رحمہ سیر اعلام میں فرماتے ہیں :
عن أبي منيب الجرشي، عن ابن عمر، قال:
قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: (بعثت بين يدي الساعة بالسيف، حتى يعبد الله وحده، لا شريك له، وجعل رزقي تحت ظل رمحي، وجعل الذل والصغار على من خالف أمري، ومن تشبه بقوم فهو منهم) .
اور پھر فرماتے ہیں :
إسناده صالح
اس روایت کی سند صالح ہے (1)
[سیر اعلام النبلاء]
ّّّّّّّّ
اور اسی کتاب پر حاشیہ میں علامہ شعیب الارنووط جنہوں نے تفصیلی طور پر مسند احمد کے حاشیہ میں اس روایت پر نکارت و دیگر علتوں کو بیان کیا تھا
جبکہ ا س کتاب میں مذکورہ روایت کی دوسری سند سے مروی اسی روایت کے حاشیہ میں لکھتے ہیں :
وله شاهد عند أحمد 2 / 50 و92 من طريقين، عن عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان، حدثنا حسان بن عطية، عن أبي منيب الجرشي، عن ابن عمر. وهذا سند حسن، فيتقوى به.
اور اسکا شاہد مسند احمد میں موجود ہے جو ابن ثوبان سے نے حسان بن عطیہ کے طریق سے ابن عمرو سے مرفوعا بیان کیا ہے اور اسکی سند حسن ہے اور یہ اس سے تقویت حاصل کرتا ہے
[حاشیہ شعیب الارنووط علی سیر اعلام النبلاء ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باقی جسکی مرضی ہے جو جس بھی موقف کو مقدم کر کےاسکو حدیث کو ضعیف تسلیم کرے یا میرے موقف سے اتفاق کرے دونوں طرف حتمی دلائل نہیں بس قرائن ہیں اور ایسے مسلہ میں تشدیدنہیں ہونی چاہے۔ نہ ہی حدیث کی تضعیف کرنے والوں پر نہ ہی اسکی تحسین کرنے والوں پر

تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی