امام ابو حنیفہ کے تعلق سے مشروب سکر پر مبنی ایک فتویٰ پر اعتراض کا تحقیقی جواب!
ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

فیسبکی محڈثین میں ایک بچہ بنام گیلانی جس نے زبیر زئی اور امن پوری کی تمام تحاریر کو بزریعہ اپلیشکین حفظ کیا ہوا ہے اور انکی اندھی تقلید میں وہ سب کچھ لکھتا رہتا ہے جسکا پتہ خوداس بیچارے کو بھی نہیں ہوتا اور حال یہ ہے کہ ہم نےاکثر اسکو اسکے اسٹیکروں پر مطلع کیا لیکن کبھی بھی یہ متعصب سیلفی نے اپنی غلطی قبول نہیں کی ہے

خیر اب آتے ہیں اسکے پیش کردہ اس سٹیکر پر جو کہ اس نے اپنے کسی محڈث کے تحریف شدہ ترجمہ سے نقل کیا ہے
جیسا کہ امام خطیب نے اپنی سند سے ابی عوانہ سے روایت کیا ہے :
أبو عوانة، قال: سمعت أبا حنيفة، وسئل عن الأشربة، قال: فما سئل عن شيء منها إلا قال: حلال، حتى سئل عن السكر، أو السكر، شك أبو جعفر، فقال: حلال، قال: قلت: يا هؤلاء، إنها زلة عالم فلا تأخذوا عنه

امام ابو عوانہ کہتے ہیں : میں نے امام ابو حنیفہ کو سنا ان سےوال ہو مشروب کے بارے (جبکہ اس اجھل نے اسکا ترجمہ شراب کیا ہوا تھا ) اور ان سے مشروب کی جس بھی قسم کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا حلال ہے ، یہاں تک کہ ان سے سوال ہو نشہ آور (مشروب) کا یا (شاید) نشہ آور کے بارے سوال ہوا ابو جعفر کو شک ہوا (کہ نشہ آور کے بارے) تو امام ابو حنیفہ نے کہا حلال ہے
تو ابو عوانہ نے کہا میں کہتا ہوں اے لوگوں یہ ایک عالم کی خطاء ہے اس سے یہ فتویٰ اخذ مت کرو
[تاریخ بغداد ]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب :

اصحاب الحدیث اوراصحاب الفقہ کے ایک مشہور اختلاف اس مسلہ میں تھا کہ اہل کوفہ کے فقہاء کے ہاں نبیذ جائز تھی جب تک اسکی مقدار نشہ آور ثابت نہ ہو پینے والے کےلیے اور اصحاب الحدیث اس نبیذ جس کا نشہ غالب نہ ہو یعنی قلیل مقدار ہو اسکو مطلق نشہ آور سکر سے میں شمار کرتے تھے ۔ جیسا کہ یہاں امام ابو عوانہ نے نبیذ کو سکر شربہ کہہ دیا

جیسا کہ امام احمد امام وکیع پر نبیذ پینے پر ان پر نشہ آور مشروب پینے کا الزام لگاتے تھے :
وقد سئل أحمد بن حنبل: إذا اختلف وكيع وعبد الرحمن بن مهدي بقول من تأخذ؟ فقال: عبد الرحمن يوافق أكثر وخاصة سفيان كان معنيا بحديث سفيان وعبد الرحمن يسلم عليه السلف ويجتنب شرب المسكر.

امام احمد ابن حنبل سے سوال ہوا کہ اگر وکیع اور عبد الرحمن ابن مہدی کے درمیان کسی مسئلہ میں اختلاف ہو تو ان میں سے کس کے قول کو لیں؟
احمد نے کہا اکثر موارد میں عبد الرحمن کی بات صحیح ہے اور خاص طور پر سفیان سے نقل کرنے میں، کیونکہ عبد الرحمن، سفیان کی حدیث پر زیادہ توجہ دیتا تھا، سلف( صحابہ و تابعین ) کا احترام کرتا تھا نیز نشہ آور چیزوں کو بھی نہیں پیتا تھا.
[المعرفة والتاريخ ج 1 ص413]

اب اسکی بنیادی وجہ اصحاب الحدیث کا نبی اکرمﷺ سے مروی مروایات میں اجتہاد کی قلت اور انکے اقوال کی معرفت سے محروم ہونا تھا کیونکہ انکے پاس ایک روایت آجاتی وہ اسکو ظاہر پر محمول کر کے بقیہ روایات و اثار کو پھینک دیتے اور شاذ و معلول کی گیم کھلیتے ہیں جبکہ ہر مسلہ میں یہ گیم نہیں چل سکتی جب ایک طرف احادیث مرفوع ، پھر اثار صحابہ ہوں ۔ کیونکہ مرفوع روایات پر تو اصحاب الحدیث ہاتھ صاف کر سکتے تھے آسانی سے کہ جی یہ شاذ ہے ، یہ منکر ہے لیکن جوجیداصحاب رسولﷺ سے ان روایات کے تحت اثار ثابت تھے انکا جواب ان اصحاب الحدیث بیچاروں کے پاس نہیں تھا سوائے اس بہانے کے ” ان اصحاب رسولﷺ کا عمل احادیث مرفوع کے خلاف ہے”
یہی وہ پھکی ہے جو آج کل کےسلفی لیے پھرتے ہیں یعنی ان لوگوں نے احادیث مرفوع کو اپنے غلط فہم سے سمجھ لیا اور اصحاب رسولﷺ کے فہم کو پھینک دیا یہی کام سلفیہ کا ہے ۔۔۔۔۔۔

اب ہم اسکی تفصیل محدث و فقیہ امام طحاوی علیہ رحمہ سے پیش کرتے ہیں جنہوں نے اصحاب الحدیث کی فقہ سے محرومی کو بڑے احسن انداز میں اپنی کتاب شرح معانی الاثار میں بیان کیا تھا یہ باب بہت طویل ہے ہم احناف کا موقف بہت مختصر دلائل سے بطور مثالیں بیان کرینگے جسکو مطالعہ کا شوق ہو تو وہ تفصیلی طور پر اس باب کو پڑھ سکتا ہے ۔

امام طحاوی ” كتاب الأشربة” مشروبات کی کتاب میں باب قائم کرتے ہیں :

باب الخمر المحرمة: ما هي؟
حرام شراب کونسی ہے ؟

پھر ان میں وہ روایات مرفوعہ لاتے ہیں جن میں یہ موجود ہے کہ کون کون سی اشیاء سے شراب بنتی ہے

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الخمر من هاتين الشجرتين , النخلة , والعنبة»
نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ شراب دو درختوں سے بنتی ہے کھجور اور انگور کے ۔
[شرح معانی الاثار ، مسلم ]

مذکورہ روایت کی تائید میں متعدد مروایات کے بعد امام ابو جعفرالطحاوی علیہ رحمہ فرماتے ہیں:
قال أبو جعفر: فذهب قوم إلى أن الخمر من التمر والعنب جميعا , واحتجوا في ذلك بهذا الحديث. وخالفهم في ذلك آخرون فقالوا الخمر المحرمة في كتاب الله تعالى , هي الخمر التي من عصير العنب إذا نش العصير وألقى بالزبد , هكذا كان أبو حنيفة رحمه الله يقول. وقال أبو يوسف رحمه الله: إذا نش , وإن لم يلق بالزبد , فقد صار خمرا. وليس الحديث الذي رويناه عن أبي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم في أول هذا الباب , بخلاف ذلك عندنا , لأنه يحتمل أن يكون أراد بقوله الخمر من هاتين الشجرتين إحداهما

ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ شراب کھجور اور انگور دونوں سے ہوتی ہے انہوں نے اس روایت کو دلیل بنایا۔ وہ شراب جس کو کتاب اللہ میں حرام کہا گیا ے وہ انگور کا نچوڑ ہے جبکہ اسے جوش آئے اوروہجھاگ پھینکے ۔ امام ابو حنیفہؓ کا یہی قول ہے ۔ قول امام ابو یوسف یہ ہے جب وہ جوش کرے اگرچہ وہ جھاگ پیدا نہ کرے وہ شراب بن جائے گی ۔ شروع باب میں مذکورہ روایت حضرت ابو ھریرہ روالی روایت اس (موقف) کے مخالف نہیں ہے ۔
[شرح معانی الاثار ]

پھر امام طحاوی علیہ رحمہ ان اشیاء کا بیان کرتےہیں کہ جن جن سے شراب بنتی ہے
سمعت عمر رضي الله عنه على منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ” أما بعد أيها الناس , إنه نزل تحريم الخمر , وهي يومئذ من خمسة: التمر , والعنب , والعسل , والحنطة , والشعير , والخمر: ما خامر العقل
امام شعبی نے حضرت ابن عر سے اور اوہ کہتے ہیں میں نےحضرت عمر بن خطابؓ سےسنا وہ منبر رسولﷺ پر یہ فرما ر ہے تھے : اما بعد! اے لوگو شراب کی حرمت اتری ان دنوں شراب پانچ چیزوں سے بنتی تھی ، کھجور، انگور ، شہد ،گند اور جو اور خمر وہ ہے جو عقل کو ڈھانپ لے
[شرح معانی الاثار ، بخاری، و مسلم ، ابی داود ]

یہاں تک یہ ثابت ہو گیا کہ کن کن اشیاء سے شراب بنتی ہے۔
اسکے بعدامام طحاوی اصحاب الحدیث کے دلائل نقل کرتے ہیں جن انکا موقف ہے کہ نبیذ حرام ہے اور اسکی کثیر و قلیل تعداد بھی پینا حرام ہے ان میں سے ہم چند ایک روایات نقل کرتے ہیں :

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل مسكر حرام»
حضرت عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے

عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل مسكر خمر وكل مسكر حرام»
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ہر (مشروب ) نشہ آور خمر یعنی شراب ہے اور ہر نشہ آور حرام ہے
[شرح معانی الاثار ، بخاری، مسلم]

عبد الله بن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما أسكر كثيره , فقليله حرام»
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے : نبی اکرمﷺ نے فرمایا جس (مشروب) کیزیادہ مقدار نشہ لائے اسکا قلیل بھی حرام ہے
[شرح معانی الاثار، سنن نسائی و مسند احمد]

عن جابر بن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما أسكر كثيره , فقليله حرام»
حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں رسول اکرمﷺ نے فرمایا جس کی زیادہ مقدار نشہ لائے اسکی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے
[شرح معانی الاثار، سنن ترمذی ، مسند احمد ]
اسکے بعد امام طحاوی مختلف اسناد سے مذکورہ روایت مختلف اصحاب رسولﷺ سے روایت کرتے ہیں اور ان روایات کی بنیاد پر اصحاب الحدیث نبیذ کو خمر میں شمار کرتے تھے جیسا کہ امام ابو عوانہ نے حضرت ابو حنیفہؓ کے حوالے سے مشروب جنکو انہوں نے حلال قرار دیا جو کہ نبیذ تھی لیکن امام ابو عوانہ نے اپنے فہم کے مطابق اس پر سکر کا اطلاق کر کے امام ابو حنیفہؓ پر اعتراض کیا ۔

پھر امام طحاوی علیہ رحمہ اصحاب الحدیث اور اہل فقہ کا اختلاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قال أبو جعفر: فذهب قوم إلى أن حرموا قليل النبيذ وكثيره , واحتجوا في ذلك بهذه الآثار. وخالفهم في ذلك آخرون , فأباحوا من ذلك ما لا يسكر , وحرموا الكثير الذي يسكر. وكان من الحجة لهم في ذلك أن هذه الآثار التي ذكرنا , قد رويت عن جماعة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم. ولكن تأويلها يحتمل أن يكون كما ذهب إليه من حرم قليل النبيذ وكثيره , ويحتمل أن يكون على المدار الذي يسكر منه شاربه خاصة. فلما احتملت هذه الآثار كل واحد من هذين التأويلين , نظرنا فيما سواهما , ليعلم به أي المعنيين أريد بما ذكرنا فيها. فوجدنا عمر بن الخطاب , وهو أحد النفر الذين روينا عنهم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال كل: «مسكر حرام» . قد روي عنه في إباحة القليل من النبيذ الشديد
امام طحاوی فرماتے ہیں :
ایک جماعت س طرف گئی ہے کہ نبیذ کی تھوڑی اور زیادہ مقدار دونوں حرام ہے ، انہوں نے ان اثار کو دلیل بنایا (جو اوپر بیان کیے جاچکے ہیں ، دوسروں نے کہا نبیذ کی وہ مقدار جو نشہ نہ یدا کرے وہ باح ہے اور وہ زیادہ مقدار جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ اثار جن کا تزکرہ ہواصحابہ کرامﷺ کیایک جماعت ن روایت کیے ہیں ، اور انکی تاویل عین ممکن ہے (نہ کہ انکو رد کرکے پھینک دیا جائے) کہ اس طرح بھی ہو جس طرف فریق اول گیا نبذ کی قلیل و کثیر مقدار حرام ہے ،مگر اس میں دوسرا احتمال ہے کہ اس سے وہ مقدار مراد ہو جس سے پینے والے کو نشہ آجائے جب ان روایات میں دونوں احتمال ہیں
تو اب ہم اور روایات کو دیکھتے ہیں تاکہ مراد معلوم ہو سکے چناچہ ہم نے حضرت عمرؓ جنہوں نےجناب رسولﷺ سے”کل مسکر حرام” والی روایت نقل کی ہے انہی سے سخت قسم کی نبیذ کی قلیل مقدار کا مباح ہونا ثابت ہوتا ہے روایت یہ ہے ۔

حدثنا فهد قال: ثنا عمر بن حفص قال: ثنا أبي , قال: ثنا الأعمش قال: حدثني إبراهيم , عن همام بن الحارث , عن عمر أنه كان في سفر , فأتي بنبيذ , فشرب منه فقطب , ثم قال: «إن نبيذ الطائف له غرام» ، فذكر شدة لا أحفظها , ثم دعا بماء فصب عليه , ثم شرب “
امام حمام بن حارث کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ ایک سفر میں تھے آپکے پاس نبیذ لائی گئ ، پس آپ نے اسکو پیا آپ نے اس سے برتن برا آپ نے فرمایا بیشک طائف کی نبیذ اس میں تیزی ہے ۔ پھر آپ نے اس کی سختی کا ذکر کیا جو مجھے یاد نہیں پھر آپ نے اس مین پانی منگوا کر ڈالا پھر اسکو پیا
[شرح معانی الاثار ، برقم: 6459، وسندہ صحیح]

حدثنا ابن أبي داود، قال: ثنا أبو صالح، قال: حدثني الليث، قال: ثنا عقيل، عن ابن شهاب، أنه قال: أخبرني معاذ بن عبد الرحمن بن عثمان الليثي، أن أباه عبد الرحمن بن عثمان، قال: صحبت عمر بن الخطاب رضي الله عنه إلى مكة فأهدى له ركب من ثقيف سطيحتين من نبيذ , والسطيحة فوق الإداوة , ودون المزادة. قال عبد الرحمن: فشرب عمر إحداهما , ولم يشرب الأخرى حتى اشتد ما فيه , فذهب عمر فشرب منه , فوجده قد اشتد فقال: «اكسروه بالماء»
حدثنا فهد، قال: ثنا أبو اليمان، قال: ثنا شعيب، عن الزهري، فذكر بإسناده مثله

امام معاذ بن عبد الرحمٰن اپنے والد صحابی رسولﷺ عبد الرحمٰن سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں :
میں حضرت عمرؓ کے اتھ مکہ تک گیا آپ کو ثقیف کے ایک قافلے نے نبیذ کی دو مشکیں دیں سطیح اداوہ سے بڑی ار مزادہ سے چھوٹی مشک کو کہا جاتا ہے ۔ عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نےاس میں ایک استعمال فرمائی دوسری کو سخت ہونے تک استعمال نہیں کیا۔ آپ اسکو پہنے لگےتو اس کو سخت پایا آپ نے فرمایا اس میں پانی ڈال کر اسکی تیزی کو توڑ دو
[شرح معانی الاثار وسند ہ جید صحیح]

پھر امام طحاوی ایک روایت ابن عمر ؓ سے بھی اپنے والد کی تائید میں لاتے ہیں

اسکے بعد فرماتے ہیں :
فلما ثبت بما ذكرنا عن عمر , إباحة قليل النبيذ الشديد , وقد سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كل مسكر حرام كان ما فعله في هذا دليلا أن ما حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم بقوله ذلك عنده , من النبيذ الشديد , هو السكر منه لا غير فإما أن يكون سمع ذلك من النبي صلى الله عليه وسلم قولا , أو رآه رأيا. فإن ما يكون منه في ذلك يكون رآه رأيا , فرأيه في ذلك عندنا حجة، ولا سيما إذ كان فعله المذكور في الآثار التي رويناها عنه بحضرة أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم ينكره عليه منهم منكر , فدل ذلك على متابعتهم إياه عليه. وهذا عبد الله بن عمر , وهو أحد النفر الذين رووا عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم كل مسكر حرام. وقد روي عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم

ان روایات سے جو ہم نے حضرت عمر بن خطابؓ سے نقل کی ہیں تھوڑے سخت نبیذ کی اباح ثابت ہوئی ہے حالانکہ انہوں نے بھی نبی اکرمﷺ سے ”کل مسکر حرام” کا اراد سن رکھا تھا ٓپ کا یہ فعل اس بات کی دلل ہے کہ آپ نے شدید یا سخت نبیذ میں سےجس چیز کو حرام قرار دیا ہے وہ نشہ ہے نہ کہ کچھ اور۔ آپ نے یہ بات یاتو آپﷺ سے سنی ہوگی۔ یا آپ کا اجتہاد ہے اگر آپکا یہ اجتہاد ہےتو وہ بھی ہمارے نزدیک دلیل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ خاص طور پر جبکہ آپ نےیہ فعل صحابہ کرام کے سامنےکیا اور کسی ایک نے بھی انکار نہیں کیا تو اس سے ان کا آپ کا متابعت کرنا ثابت ہوا یہ عبداللہبن معر ہیں جو کہ ”کل مسکر حرام” کی روایت کو نق کرنے والے ہیں انہوں نے بھی جناب نبی اکرمﷺ سے نقل کیاہے ۔

پھر ابن عمر ؓ سے دو طریق سے ایسی روایت لاتے ہیں جس میں ابن عمر سے روایت کرنے والا ایک راوی مجہول ہے جبکہ اسکا متابع ہے اس پر ناقدین نے یہ جرح کی ہے کہ یہ حضر ت ابن عمر ؓ کے خلاف نبیذ کے باب میں روایت کرتا ہے جو کہ منکر ہے

جبکہ احناف کے نزدیک اسکی روایت منکر نہیں بلکہ اسکی روایت تطبیق کے تحت قبول کرتے ہیں جیسا کہ امام طحاوی نے اوپر بیان کیا ہے اور یہ حضرت ابن عمر سے روایت کرنے میں نفرد نہیں بلکہ اسکا متابع موجود ہے تو اسکی روایت مذکورہ باب میں منکر نہیں بنتی ۔

اسکے بعد امام طحاوی علیہ رحمہ ان دو صحابہ کرامﷺ کے بعد تیسرے صحابی حضرت ابو مسعود بدری ؓ سے روایت لاتے ہیں :

أخبرنا فهد قال: ثنا محمد بن سعيد , قال: ثنا يحيى بن اليمان , عن سفيان , عن منصور , عن خالد بن سعد , عن أبي مسعود قال: عطش النبي صلى الله عليه وسلم حول الكعبة , فاستسقى , فأتي بنبيذ من نبيذ السقاية , فشمه فقطب فصب عليه من ماء زمزم , ثم شرب. فقال رجل: أحرام هو؟ فقال: «لا» وقد روي في ذلك عن أبي موسى الأشعري , عن النبي صلى الله عليه وسلم
حضرت خالد بن سعد حضرت ابو مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں : کہ رسول اکرمﷺ کو کعبہ کے گرد (مطاف میں ) پیاس لگی آپﷺ نے پانی طلب کیا تو آپﷺ کے پاس مشکیزے کا نبیذ لایا گیا تو آپﷺ نے اس سے ترش روئی اختیار فرمائی پھر اس میں زم زم کا پانی ڈالا گیا تو آپﷺ نے اسکو نوش فرمایا۔ ایک آدمی نے پوچھا کیا وہ حرام ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں ۔
[شرح معانی الاثار ،برقم: 6471 وسندہ حسن]

اس روایت پر اعتراض کیا ہے اصحاب الحدیث نے کہ یہ لین ہے ۔
قال أحمد: ليس بحُجّة. (یہ اعلیٰ اعتقان کی نفی ہے صدوق درجہ پر بولاجاتا ہے)
وقال ابن المَدِينيّ: هو صَدُوق، فُلِج فتغيّر حِفظه
وقال النسائي يَحْيى بن اليمان ليس بالقوي. (انکے نزدیک ایسا راوی صدوق ہوتا ہے)
ابن عدی کا بھی یہی کہنا ہے

لیکن امام یحییٰ بن معین نے انکی خاص تعدیل کی ہے سفیان ثوری سے روایت کرنے میں
حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ علي، حَدَّثَنا عثمان قلت ليحيى بْن مَعِين فيحيى بن يمان في الثَّوْريّ قال أرجو أن يكون صدوقا قلت فكيف هو في حديثه قال ليس بالقوي.
امام عثمان دارمی کہتے ہیں میں نے امام یحییٰ بن معین سے یحییٰ بن یمان کے بارے سفیان ثوری سے روایت کرنے کے بارے پوچھا تو انہوں نے کہا میرے نزدیک یہ صدوق (درجہ کے ) ہیں ۔ میں نے پوچھا یہ (عمومی ) حدیث میں کیسے ہیں تو انہوں نے کہا قوی نہیں ہیں
[الکامل ابن عدی]

یعنی جب یہ امام سفیان سے روایت کرینگے تو صدو ق درجہ کے ہیں اور جب عمومی ورایت کرینگے تو قوی نہیں اتنے ۔

تو اس روایت کو بھی اصحاب الحدیث نے منکر گردانتے تھے جبکہ ان کا اس روایت پر اعتراض باطل ہے ۔

پھر چوتھے صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے ایک اثر لاتے ہیں :

حدثنا محمد بن خزيمة، قال: ثنا حجاج، قال: ثنا حماد، قال: أنا حماد، عن إبراهيم، عن علقمة بن قيس، أنه أكل مع عبد الله بن مسعود خبزا ولحما , قال: «فأتينا بنبيذ شديد نبذته سيرين في جرة خضراء , فشربوا منه»

حضرت علقمہ بن قیس کہتے ہیں : کہ میں نے حضرت عبدللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ روٹی اور گوشت کھایا ، پھر ہمارے پاس سخت نبیذ لایا گیا، جسکو محمد بن سیرین نے سبز گھڑے میں تیار کیا تھا پس انہوں نے اس میں سے نوش فرمایا
[شرح معانی الاثار ، برقم: 6476، وسندہ صحیح]

پھر مزید حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی تشریح بھی اس حدیث کے حوالے سے کرتے ہیں :

حدثني ابن أبي داود , قال: ثنا نعيم وغيره , قال: أنا حجاج , عن حماد , عن إبراهيم , عن علقمة , قال: سألت ابن مسعود عن قول رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسكر , قال: «الشربة له الأخيرة» فهذا عبد الله بن مسعود قد روي عنه في إباحة قليل النبيذ الشديد من فعله , وقوله ما ذكرنا , ومن تفسير قول رسول الله صلى الله عليه وسلم كل مسكر حرام على ما وصفنا. وقد روي عن عبد الله بن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم ما يدل على هذا أيضا

حضرت علقمہ کہتے ہیں : میں نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے جناب رسولﷺ کے قول کے متعلق دریافت کیا جو کہ مسکر کے متعلق ہے تو فرمایا آخری گھونٹ حرام ہے (یعنی جب وہ نش آور ہو جائے) یہ حضرت ابن مسعودؓ ہیں جن کے فعل سے قلیل سخت نبیذ کی اباحت ثابت ہو رہی ہے اور انکا جو قول ہم نے ذکر کیا ہے”کل مسکر حرام” کی جو تفسیر ذذکر کی وہ ہمارے سابقہ بیان کے مطابق ہے ۔

پھر امام طحاوی علیہ رحمہ فرماتے ہیں :
حدثنا علي بن معبد، قال ثنا أبو أحمد الزبيري، قال: ثنا سفيان، عن علي بن بذيمة، قال حدثني قيس بن حبتر، قال: سألت ابن عباس عن الجر الأبيض، والأحمر،. فقال: إن أول من سأل النبي صلى الله عليه وسلم وفد عبد القيس , فقالوا: إنا نصيب من النخل , فقال: «لا تشربوا في الدباء , ولا في المزفت , ولا في النقير , ولا في الجر»
حدثنا محمد بن خزيمة، قال: ثنا عبد الله بن رجاء، قال: ثنا إسرائيل، عن علي بن بذيمة، عن قيس بن حبتر، عن ابن عباس، أنه سئل عن الجر، فذكر مثل ذلك

حضرت قیس بن حبتر فرماتے ہیں : میں نے حضرت ابن عباسؓ سے زبر و سرخ گھڑے کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا اس کے متعلق سب سے پہلے وقد عبد القیس نے دریافت کیاتھا ۔ تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا کدو برتن تارکول ملا ہوا برتن اور لکڑی کا کھلا ہوا برتن میں مت پیو بلکہ مشکیزوں میں نبیذ پیو انہوں نے عرض کی یا رسولﷺ اگرچہ مشکیزے میں سخت ہو جائے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا اس میں پانی ڈال لو ۔ آپﷺ نے تیسری یا چوتھی بارفرمایا پھر سکو گردو۔
اسرائیل ن بھی علی بن بذیمہ سے قیس بن حبتر کے طریق سے ابن عباس سے ایسے بیان کیا ہے
[شرح معانی الاثار ، برقم: 6487 وسندہ صحیح]

پھر امام طحاوی علیہ رحمہ فرماتے ہیں :
حدثنا محمد بن خزيمة، قال: ثنا عبد الله بن رجاء، قال: ثنا إسرائيل، عن علي بن بذيمة، عن قيس بن حبتر، عن ابن عباس، أنه سئل عن الجر، فذكر مثل ذلك ففي هذا الحديث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أباح لهم أن يشربوا من نبيذ الأسقية , وإن اشتد. فإن قال قائل: فإن في أمره إياهم بإهراقه يعد ذلك دليلا على نسخ ما تقدم من الإباحة؟ . قيل لهم: وكيف يكون ذلك كذلك؟ وقد روي عن ابن عباس من كلامه بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم: حرمت الخمر لعينها والسكر من كل شراب. وقد ذكرنا ذلك بإسناده فيما تقدم من هذا الكتاب , وهو الذي روى عنه صلى الله عليه وسلم ما ذكرت. فدل ذلك أن التحريم في الأشربة كان على الخمر بعينها , قليلها وكثيرها , والسكر من غيرها. وكيف يجوز على ابن عباس , مع علمه وفضله , أن يكون قد روى عن النبي صلى الله عليه وسلم ما يوجب تحريم النبيذ الشديد , ثم يقول: حرمت الخمر لعينها , والسكر من كل شراب؟ فيعلم الناس أن قليل الشراب من غير الخمر وإن كان كثيره يسكر , حلال؟ هذا غير جائز عليه عندنا. ولكن معنى ما أراد بإهراق النبيذ في حديث قيس أنه لم يأمنهم عليه أن يسرعوا في شربه , فيسكروا , والسكر محرم عليهم , فأمرهم بإهراقه لذلك. وقد روي في مثل هذا أيضا

یہ روایت بتلا رہی ہے کہ جناب رسولﷺ نے نبذ کی مشکوں میں ان کو اجازت دی خواہ وہ گاڑھا ہو جائے ۔ اگر کوئی معترض کہے کہ تیسری یا چوتھی مرتبہ آپ کا گرادینے کاحکم ابحت کے منسوخ ہونے کی دلیل ہے ۔ تو اسکا جواب میں کہا جائے گا یہ بات کس طرح کہی جا سکتی ہے ؟ حالانکہ ابن عباسؓ سے جناب رسولﷺ کے کلام کے بعد یہ الفاظ ہیں شراب یعنہ حرام ہے اور ہر مشروب سے نشہ والی مقدار حرام ہے ۔ یہ روایت ہم پہل ذکر کر چکے یں تو اس بات پر دلالت مل گئی کہ اشربہ کے سلسلہ میں ذاتی طور پر حرمت شراب سے متعلق ہے خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ اور س کے علاوہ مشروبات میں نشہ آور مقدار حرام ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ ابن عباسؓ اپنے علم و فضل کے باوجود جناب نبی اکرمﷺ سے ہ روایت کریں کہ نبیذ شدید حرام ہے ۔ پھر خود ہی فرمائیں کہ اصؒ حرام تو شراب ہے اور باقی تمام مشروبات نشہ دیں تو حرام ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ خمر کے علاوہ مشروبات اگرچہ زیادہ مقدار کی صورت میں نشہ دیں لیکن جب تھوڑی مقدار میں ہوں تو حلال ہیں ہمارے لیے ان کے متعلق ایسا کہنا جائز نہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں روایت قیس میں بہانے کا تذکرہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺ کو خطرہ محسوس ہوا کہ وہ شراب پینے کے لیے جلدی کریں اور پھر بے ۃوش ہو جائیں اور نشہ والی مقدار تو حرام ہے فلہذا آپﷺ نے ان کو گرا دینے کا حکم فرمایا ۔

اسکی مثال یہ روایت ہے :
ما حدثنا محمد بن خزيمة , قال: ثنا عثمان بن الهيثم بن الجهم المؤذن , قال: ثنا عوف بن أبي جميلة , قال: حدثني أبو القموص زيد بن علي , عن أحد الوفد الذين وفدوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في وفد عبد القيس , أو يكون قيس بن النعمان , فإني قد نسيت اسمه , أنهم سألوه عن الأشربة، فقال: «لا تشربوا في الدباء , ولا في النقير , واشربوا في السقاء الحلال الموكأ عليها , فإن اشتد منه , فاكسروه بالماء , فإن أعياكم , فأهريقوه»
ابو قموص زید بن علی نے اس وفد کے افراد میں سے ایک سے جو جناب رسولﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے یا وہ قیس بن نعمان ہیں مجھے ان کا نام بھول گیا ان لوگوں نے جناب رسولﷺ سے شرابوں کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کدو کے برتن کھرچی ہوئی لکڑی کے برتن میں مت پیو حلال مشکیزوں سے پیو۔ جن کا منہ بند کیا ہوا ہو ۔ اگر وہ نبیذ تیز ہو جائے تو پانی کے ساتھ اسے ختم کر لو اور اگر وہ سختی تمہیں تھکا دے تو اسے گرادو (وہ پینے کے قابل نہیں )
[شرح معانی الاثار ، برقم: 6480 ، وسندہ صحیح]

اسکے علاوہ اور بھی متعدد صحابہ کرامﷺ سے امام طحاوی علیہ رحمہ نے بیان کیے اور یہ ثابت کیا کہ اصحاب الحدیث بس مرفوع اخبار کی بنیاد پر ان اخبار کو ظاہر پر محمول کر دیتے ہین اور جبکہ ہم ان اخبار کو صحابہ کرامﷺ کے فہم کے تحت قبول کرتےہیں تاکہ اثار صحابہؓ کو رد کرنے کی نوبت نہ آئے بلکہ تطبیق دی جائے تاکہ تمام روایات کو قبول کیا جائے۔۔۔
نہ کہ یہ کہہ کر کپڑے جھاڑ دیے جائیں کہ جی یہ اثار مرفوع روایات کے خلاف ہیں یہ موقف متقدمین اصحاب الحدیث اور پھر امام شافعی نے شروع کیا اور بعد والے اصحاب الحدیث نے انکی پیروی کی ہے ۔

امام ابن معین کےنزدیک نبیذ کےجائز و نا جائز پر دونوں طرف سے موقف صحیح احادیث پر مبنی ہے لیکن وہ نبیذ کا ترک پسند کرتے۔
امام ابن الجنیدی امام یحییٰ بن معین سے بیان کرتے ہیں :
وسمعت رجلاً يقول ليحيى بن معين: سئل ابن داود الخريبي: شرب النبيذ خيرٌ أو تركه؟، فقال: (شربه) .
امام ابن جنید کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو یحییٰ بن معین سے یہ کہتے سنا کہ ابن داور الخرییی سے پوچھا گیا کہ نبید کو پینا چاہیے یا ترک کرنا چاہیے
تو انہوں نے کہا پینا چاہیے
پھر ابن جنیدی بیان کرتے ہیں :
سمعت يحيى بن معين يقول: «ترك النبيذ خير من شربه، ومن رخص فيه فيما أسكر كثيره، شريك وسفيان وحسن بن حي ووكيع وابن نمير وهؤلاء، وهم مع ذلك ينهون عن الخليطين،
میں نے امام ابن معین سے سنا کہ نبید کو ترک کرنا پینے سے زیادہ بہتر ہے لیکن اسکو پینے کی رخصت کثیر لوگوں نے دی ہے
جیسا کہ
امام شریک
امام سفیان الثوری
امام حسن بن یحییٰ
امام وکیع بن الجرح
امام عبداللہ بن نمیر
اور انہوں نے دو قسم (کہ مشروب کے بارے منع کیا)
پھر امام جنیدی کہتے ہیں :
وسمعت يحيى بن معين يقول: «تحريم النبيذ صحيح، وأقف عنده لا أحرمه، قد شربه قوم صالحون بأحاديث صحاح، وحرمه قوم آخرون بأحاديث صحاح
میں نے امام ابن معین سے سنا وہ کہتے ہیں کہ نبید کی ممانعت صحیح ہے میں انکے ساتھ ہوں جو اس سے روکتے ہیں لیکن اسکو پینا صالح لوگوں سے ثابت ہے صحیح احادیث کے جواز پر ، اور اسکی ممانعت بھی بعد والے لوگوں نے صحیح احادیث کی بنیاد پر کی ہے
[سوالات ابن الجنیدی ، برقم : (93) (94) (287)]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خلاصہ تحقیق:

امام ابو عوانہ نے امام ابو حنیفہ کی طرف سکر کے الفاظ سے جس مشروب کا اطلاق کیا وہ نبیذ ہے جسکو اہل کوفہ اور اصحاب رسولﷺ نے مباح قرار دیا ۔
اور اہل کوفہ نے یہ موقف اپنایا کہ نبی اکرمﷺ نے جو فرمایا کہ تمام نشہ آور چیزیں زیادہ اور قلیل مقدار میں حرام ہیں یہ روایت نشہ کے اعتبار سے ہے ۔
کہ ایسا مشروب جس میں نشہ تھوڑے یا زیادہ مقدار میں ہونے سے چڑھ جائے وہ حرام ہے ۔۔۔۔۔
اور جسکو نبیذ پینے سے اسکو نشہ نہ آئے تو اسکے لیے اس مقدار تک وہ مباح و جائز ہے ۔ الا کہ جب اس سے ایک بھی زائد گھٹی سے نشہ آنے لگے تو وہ مقدار حرام ہو جائے گی ۔ یہی اصحاب رسولﷺ مجتہد صحابہ کرامؓ اور اہل کوفہ کے مجتہدین محدثین کا موقف تھا
جس میں بڑے بڑے جید علماء کرام شامل تھے ۔

تحقیق: دعا گو اسد الطحاوی