من سن في الإسلام سنة حسنة
کا صحیح مفہوم اور غیر مقلدین کے شبہات کا جواب !
ازقلم : اسد الطحاوی

صحیحین کی ایک مشہور روایت ہے جسکو مختلف محدثین نے اپنی کتب میں درج کیا ہے جسکا مذکورہ متن درج ذیل ہے
:
فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” من سن في الإسلام سنة حسنة فعمل بها، بعده كتب له مثل اجر من عمل بها، ولا ينقص من اجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة فعمل بها، بعده كتب عليه مثل وزر من عمل بها، ولا ينقص من اوزارهم شيء
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس نے اسلام میں کسی اچھے کام کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس پر عمل ہوتا رہا، اس کے لیے (ہر) عمل کرنے والے (کے اجر) جتنا اجر لکھا جاتا رہے گا۔ اور ان کے گناہوں میں کسی چیز کی کمی نہ ہو گی۔”
[صحیح مسلم]
اور
نیز ابن ماجہ کے الفلاظ ہیں:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” من سن سنة حسنة فعمل بها، كان له اجرها ومثل اجر من عمل بها لا ينقص من اجورهم شيئا، ومن سن سنة سيئة فعمل بها، كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده لا ينقص من اوزارهم شيئا”.
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اور اس پر لوگوں نے عمل کیا تو اسے اس کے (عمل) کا اجر و ثواب ملے گا، اور اس پر جو لوگ عمل کریں ان کے اجر کے برابر بھی اسے اجر ملتا رہے گا، اس سے ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی، اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر اور لوگوں نے عمل کیا تو اس کے اوپر اس کا گناہ ہو گا، اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسی پر ہو گا، اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی“
[سنن ابن ماجہ حدیث صحیح]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس روایت میں واضح طور پر نبی اکرمﷺ نے ایک اصول بیان کیا ہے کہ اسلام میں نئےطریقہ کار رائج کرنے یا ایجاد کرنے میں کوئی قید نہیں۔ البتہ وہ نئے طریقہ قرآن و حدیث کے موافق ہونگے تو اسکا اجر بطور صدقہ نیا طریقہ ایجاد کرنے والے کو بھی ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کو بھی ۔
نیز
جو برا طریقہ اختیار کریگاتو اکا گناہ سب سے پہلے ایجاد کرنے والے کو اور پھر اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا!!!

یہ حدیث نبی اکرمﷺ کے اس فرمان ”کل بدعتہ ضلالہ” کی تخصیص کرتی ہے کہ اس فرمان رسولﷺ میں انہوں نے تمام شرعی بدعات کا تذکرہ کیا ہے ۔ نہ کہ لغوی بدعات کا ۔ جسکا ذکر آخر میں کرینگے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روایت پر غیر مقلدین ایک ہلکا قسم کا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ یہ فرمان نبی اکرم ﷺ نے اس موقع پر فرمایا تھا کہ کچھ لوگ صدقہ خیرات دینے میں دیر کر رہے تھے ایک صحابی رسولﷺ کے لیے تو جب پہلے جس صحابی ؓ نے یہ فعل شروع کیا مجلس میں تو تب نبی اکرمﷺ نے یہ بات فرمائی تو اس سے ثابت ہو ا کہ نبی اکرمﷺ نے ثابت شدہ نیک اعمال کی شروعات کرنے کے حوالے سے یہ بات کی ہے نہ کہ نئے امور ایجاد کرنے سے ،
جیسا کہ انکا دعویٰ ہے :
یہ حدیث یہاں مختصر ہے، پوری حدیث صحیح مسلم کتاب الزکاۃ میں ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ «من سن في الإسلام» کے معنی یہ نہیں کہ دین میں نئی نئی بدعتیں نکالی جائیں، اور ان کا نام بدعت حسنہ رکھ دیا جائے، شریعت میں کوئی بدعت سنت حسنہ نہیں ہوتی، حدیث کا معنی یہ ہے کہ جو چیز اصول اسلام سے ثابت ہو، اور کسی وجہ سے اس کی طرف لوگوں کی توجہ نہ ہو، اور کوئی شخص اس کو جاری کرے تو جو لوگ اس کو دیکھ کر اس سنت پر عمل کریں گے ان کے ثواب میں کمی کیے بغیر ان کے برابر اس کو ثواب ملے گا، کیونکہ حدیث میں مذکور ہے کہ ایک شخص ایک تھیلا بھر کر امداد میں سامان لایا، جن کو دیکھ کر دوسرے لوگوں کو بھی رغبت ہوئی، اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ امداد لے کر آئے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔

جیسا کہ مکمل روایت یوں ہے :
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے عون بن ابی جحیفہ سے حدیث بیان کی، ا نھوں نے منذر بن جریر سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی، انھوں نے کہا ؛ ہم دن کے ابتدا ئی حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا جر تھے کہ آپ کے پا س کچھ لو گ ننگے پاؤں ننگے بدن سوراخ کر کے دن کی دھا ری دار چادریں یا غبائیں گلے میں ڈا لے اور تلواریں لٹکا ئے ہو ئے آئے ان میں سے اکثر بلکہ سب کے سب مضر قبیلے سے تھے ان کی فاقہ زدگی کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ نور غمزدہ ہو گیا آپ اندر تشریف لے گئے پھر با ہر نکلے تو بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انھوں نے اذان دی اور اقامت کہی آپ نے نماز ادا کی، پھر خطبہ دیا اور فرما یا: “اے لو گو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جا ن سے پیدا کیا۔۔۔آیت کے آخر تک “بے شک اللہ تم پر نگرا ن ہے اور وہ آیت جو سورہ حشر میں ہے اللہ سے ڈرو اور ہر جا ن دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے (پھر فرمایا) آدمی پر لازم ہے کہ وہ اپنے دینا ر سےاپنے درہم سے اپنے کپڑے سے اپنی گندم کے ایک صاع سے اپنی کھجور کے ایک صاع سے۔ حتیٰ کہ آپ نے فرمایا:۔۔۔چا ہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے صدقہ کرے (جریرنے) کہا: تو انصار میں سے ایک آدمی ایک تھیلی لا یا اس کی ہتھیلی اس (کو اٹھا نے) سے عاجز آنے لگی تھی بلکہ عا جز آگئی تھی کہا: پھر لو گ ایک دوسرے کے پیچھے آنے لگے یہاں تک کہ میں نے کھا نے اور کپڑوں کے دو ڈھیر دیکھے حتیٰ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا وہ اس طرح دمک رہا تھا جیسے اس پر سونا چڑاھا ہوا ہو۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جس نے اسلا م میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا تو اس کے لیے اس کا (اپنا بھی) اجر ہےے اور ان کے جیسا اجر بھی جنھوں نے اس کے بعد اس (طریقے) پر عمل کیا اس کے بغیر کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو اور جس نے اسلا م میں کسی برے طریقے کی ابتدا کی اس کا بو جھ اسی پر ہے اور ان کا بو جھ بھی جنھوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا اس کے بغیر کہ ان کے بو جھ میں کوئی کمی ہو۔
[صحیح مسلم]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی بقول غیر مقلدین کے کوئی ایسی نبی کریمﷺ کی سنت جو فوت ہو گئی ہو تو اسکو پہلی بار زندہ کرنے والا یہ کام کریگا تو اس باب کے تعلق سے یہ حدیث ہے!

یہ قیاس بالکل جہالت پر مبنی ہے!
کیونکہ یہ ایک خاص موقع تھا جس پر نبی اکرمﷺ نے ایک اصول بیا ن کیا لیکن اس اصول کو فقط اس وقت کے خاص موقع پر بیان کرنے کی وجہ سے مخصوص نہیں کر یا جائے گا۔

بلکہ یہ نبی اکرمﷺ نے تا قیامت تک آنے والے نئے امور اور انکی پہچان کے لیے امت مسلمہ کو اصول سکھلایا!
اور کیا یہ قیاس جائز ہے؟ کہ نبی اکرمﷺ کے دور میں ہی صحابہ کرامؓ نے نبی اکرمﷺ کی سنتوں کو بھلانا اور فوت کرنا شروع کر دیا تھا جو نبی کریم اپنی سنت کو دوبارہ زندہ کرنے کے حوالے سے فقط یہ بات کہتے ؟
نیز نبی اکریمﷺ کی وہ سنتیں جو فوت ہو چکی تھیں تو فوت ہونے سے پہلے بھی تو اس سنت کی ابتداع کرنے والے نبی کریمﷺ ہی تھے تو پھر انکو دیکھ کر جس صحابی نے سب سے پہلے وہ سنت ادا کی ہوگی۔ تو اصل شرعات کرنے والا تو وہ شخص ہوا۔ تو پھر اس سنت کو فوت ہوجانے کے بعد جو دوبار سنت کو زندہ کرنے والا شخص ہوگا بقول غیر مقلدین کے وہ شخص تو اس نئے امر کی شرعات کرنے والا اصل آدمی تو نہ ہو تو یہ قیاس بالکل فاسدہے!

اسکی دلیل بھی ہم نبی اکرمﷺ کے فرمان مبارک سے ہی پیش کرینگے!
جیسا کہ فرمان رسولﷺ ہے کہ ” من سن في الإسلام سنة حسنة” کہ جس نے اسلام میں کوئی نیا اچھا عمل کی شرعات کی یا ایجاد کیا
یہ من سن سے مراد وہ مطلق کام جو بغیر کسی سابق مثال کے ہو جسکو پہلی بار کرنے والا حقیقی ہو!

جیسا کہ صحیح مسلم میں باب ہے :
. باب بَيَانِ إِثْمِ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ:
. باب: جس نے پہلے خون کی بنا ڈالی اس کے گناہ کا بیان۔

فرمان رسولﷺ ہے:
قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم ‏‏‏‏لا تقتل نفس ظلما إلا كان على ابن آدم الاول كفل من دمها لانه ”كان اول من سن القتل”.‏‏‏‏
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی ذی روح (انسان) کو ظلم سے قتل نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے خون (گناہ) کا ایک حصہ آدم کے پہلے بیٹے پر پڑتا ہے کیونکہ وہی ”سب سے پہلا شخص تھا جس نے قتل کا طریقہ نکالا”
[صحیح مسلم ]

اس فرمان رسولﷺ سے بلکل واضح ہو گیا کہ انکے فرمان ” من سن” سے وہ عمل جو پہلی بار حقیقی طور پر کرنے والا ہو یا ایجاد کردہ ہو ۔ چاہے اچھا یا برا ہو!

اسی حدیث کے تعلق سے مفسر قرآن میں قرطبی علیہ رحمہ فرماتے ہیں:
قُلْتُ: وَهُوَ مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خُطْبَتِهِ: (وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ) يُرِيدُ مَا لَمْ يُوَافِقْ كِتَابًا أَوْ سُنَّةً، أَوْ عَمَلَ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَقَدْ بَيَّنَ هَذَا بِقَوْلِهِ: (مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً كَانَ لَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شي وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شي (. وَهَذَا إِشَارَةٌ إِلَى مَا ابْتُدِعَ مِنْ قَبِيحٍ وَحَسَنٍ،

امام قرطبی فرماتے ہیں میں کہتا ہوں :
حضور اکرمﷺ کے ا س قول کا معنی انکے خطبہ مبارک سے بھی ثابت ہے ، جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا ”نئے برے امور محدثات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے ”
اس سے مراد وہ کام ہے جو کتاب و سنت اور اعمال صحابہؓ کے موافق نہ ہو اور یہ بات آپﷺ کے دوسرے فرمان سے بالکل وضح ہو جاتی ہے ۔ کہ آپ ﷺ نے فرمایا
” جس نے اسلام میں کسی اچھی چیز کی ابتداء کی اسکو اپنا اجر بھی ملے گا اور انکے اجر میں زرہ برابر بھی کمی نہ ہوگی۔ اور اسکے بعد والے لوگوں کو بھی اجر ملے گا جو اس کام کو جاری رکھینگے۔ اور جس نے اسلام میں کسی بری چیز کی ابتداء کی تو اسکا گناہ اسے ملے گا اور جو لوگ اس چیز کو جاری رکھینگے انکو بھی ملے گا اور اسکے گناہ میں کوئی کمی نہ ہوگی۔
اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے جس نے کسی اچھے یا برے کام کی ابتداء کی ۔
[تفسير القرطبي ج۲، ص ۸۷]

اور یہی موقف امام ملا علی قاری نے فرمایا ہے :
البدع الاعتقادية والقولية والفعلية أي: كل بدعة سيئة ضلالة لقوله عليه الصلاة والسلام: ” من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها “. وجمع أبو بكر وعمر القرآن، وكتبه زيد في المصحف، وجدد في عهد عثمان رضي الله عنهم. قال النووي: البدعة كل شيء عمل على غير مثال سبق، وفي الشرع إحداث ما لم يكن في عهد رسول الله – صلى الله عليه وسلم – وقوله: ” كل بدعة ضلالة ” عام مخصوص

بدعت یہ اعتقادی، قولی اور فعلی ہوتی ہے ۔ جیسا کہ تمام بری بدعات گمراہی ہیں ۔ نبی اکرمﷺ کا یہ فرمان ہے ۔ ” جس نے اسلام میں کوئی اچھا کام ایجاد کیا تو اسکو اسکا اجر ملے گا اور جو عمل کرینگے اسکو بھی اجر ملےگا”
اور حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ نے قرآن کو جمع فرمایا، اور حضرت زید نے اسکو مصحف میں محفوظ فرمایا، اور حضرت عثمانؓ کے دور میں اسکی تجدید کی گئی ۔
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ص ۲۲۳]

تو ائمہ ا س مذکورہ روایت من سن فی اسلام کو دلیل بنایا ہے ا ن نئے امور کی جو اسلام میں نئے پہلی بار ایجاد کیے گئے اسلام کی بہتری کے لیے اور انہی امور کو جمہور ائمہ بدعت حسنہ کہتے ہیں جیسا کہ یہ صحابہ کرام کا طریقہ تھا!
نیز کوئی یہ کہے کہ نبی اکرمﷺ نے کل بدعت ضلالہ کہہ کر ہر قسم کی بدعت کی اقسام کی نفی کر دی ۔ تو ایسے بندے کا یہ قول خود نبی اکرمﷺ کی دوسری احادیث اور فہم صحابہؓ کے بالکل برعکس ہے!
جیسا کہ حضرت عمر بن خطابؓ و حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے تراویخ کے نئے ایجاد کردہ طریقہ کو ”بدعت حسنہ” کہنا اور ابن عمرؓ کا نماز چاشت کو احتمام سمجھ کر یا اسکو نبی اکرمﷺ سے غیر ثابت مانتے ہوئے بعد کے صحابہ کا ایجاد کردہ عمل سمجھ کر اسکو ”بدعت حسنہ” کہنا ثابت ہے!

تو اسکا جواب غیر مقلدین یہ دیتے ہیں کہ یہ لغوی بدعت ہے! یعنی ان افعال کی اصل نبی اکریم ﷺ سے ثابت ہے لیکن طریقہ نیا تھا

تو ہم کہتے ہیں یہی تو ہمارا موقف ہے کہ کل بدعتہ ضلالہ تمام شرعی بدعات ہیں جو ہوتی ہی دین اسلام کے خلاف ہیں ۔ اور لغوی بدعات وہ ہوتی ہیں جنکی دین میں کسی نہ کسی شکل میں دلیل ہوتی ہے۔ یا یہ دین اسلام کے منافی نہیں ہوتی ہیں۔
تو لغوی طور پر بدعت طریقہ کار کو کہا جاتا ہے ۔ لیکن فی نفسی عمل بدعت نہیں ہوتا بلکہ وہ طریقہ کار اور نیا انداز ہوتا ہے جو شروع کیا جاتا ہے!

جیسا کہ امام ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں:
أَنَّ الْبِدْعَةَ الْمَذْمُومَةَ مَا لَيْسَ لَهَا أَصْلٌ مِنَ الشَّرِيعَةِ يُرْجَعُ إِلَيْهِ، وَهِيَ الْبِدْعَةُ فِي إِطْلَاقِ الشَّرْعِ، وَأَمَّا الْبِدْعَةُ الْمَحْمُودَةُ فَمَا وَافَقَ السُّنَّةَ، يَعْنِي: مَا كَانَ لَهَا أَصْلٌ مِنَ السُّنَّةِ يُرْجَعُ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا هِيَ بِدْعَةٌ لُغَةً لَا شَرْعًا، لِمُوَافَقَتِهَا السُّنَّةَ.
وہ بدعات جو مذمومہ ہیں جنکی کوئی اصل نہیں ہے شریعت میں اور یہ مرجع نہ ہو اور شریعت میں اسکا اطلاق بدعت پر ہوتا ہے
اور جو بدعت محمود یعنی اچھی ہے وہ سنت کے موافق ہوتی ہے جسکی دین مین کوئی اصل ہوتی ہے اسکو بدعت لغوی طور پر کہا جاتا ہے کیونکہ یہ وسنت کے موافق ہوتی ہے
[جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم ابن رجب ، جلد۲ ص ۱۳۱]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیز اس روایت کی تائید ایک دوسری روایت بھی کرتی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے :
عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد “.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی ایسی نئی بات شروع کی جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے
[صحیح مسلم ]

اس روایت میں بھی نبی اکرمﷺ کے اس فرمان سے بالکل واضح اصول ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دین میں نئے امور کی مطلق نفی نہیں فرمائی بلکہ یہ قید لگائی ”ما لیس منہ” یعنی ایسے نئے امور جو اس (دین اسلام) میں سے نہیں تو رد ہیں۔ یعنی جنکی اصل دین اسلام میں نہیں تو ان نئے امور کو نکالنا مردود ہے ۔
یعنی دوسرے الفاظوں میں فرمان رسولﷺ کو یوں سمجھا جا سکتا ہے :
جس نے دین اسلام میں ایسا نیا امر پیدا کیا جو اس میں تھا تو وہ مردود نہ ہوگا۔ یعنی جسکی اصل قرآن و حدیث میں ہوگی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحقیق: اسد الطحاوی