بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ
اے پروردگار ! ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مددچاہتے ہیں۔
 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (اے پروردگار ! ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔ (الفاتحہ : ٤)
عبادت کا لغوی معنی :
علامہ جوہری (رح) لکھتے ہیں :
عبودیت کی اصل خضوع اور ذلت ہے ‘ عبادت کا معنی ہے : اطاعت کرنا اور تعبد کا معنی ہے : تنسک (فرمانبرداری کرنا) (الصحاح ج ٢ ص ٥٠٣‘ مطبوعہ دارا العلم ‘ بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ)
علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں :
لغت میں عبادت کا معنی ہے خضوع (تواضع اور عاجزی) کے ساتھ اطاعت کرنا۔ (لسان العرب ج ٣ ص ١٧٣ مطبوعہ نشر ادب الحوذۃ ‘ قم ‘ ایران )
علامہ سید زبیدی لکھتے ہیں :
عبادت کا معنی ہے طاعت ‘ بعض ائمہ نے کہا کہ عبودیت کی اصل ذلت اور خشوع ہے ‘ دوسرے ائمہ نے کہا : عبودیت کا معنی ہے : رب کے فعل پر راضی ہونا ‘ اور عبادت کا معنی ہے : ایسا فعل کرنا جس سے رب راضی ہو ‘ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ آخرت میں عبادت ساقط ہوجائے گی عبودت ساقط نہیں ہوگی ‘ کیونکہ عبودت یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے حقیقت میں متصرف ہونے کا عقیدہ نہ رکھے ‘ ہمارے شیخ نے کہا : یہ صوفیہ کی اصطلاح ہے ‘ اس میں لغت کا دخل نہیں ہے ‘ ازہری نے کہا : غلام جو اپنے مولی کی خدمت کرتا ہے اس کو عبادت نہیں کہتے اور مسلمان جو اپنے رب کی اطاعت کرتا ہے اس کو عبادت کہتے ہیں اللہ عزوجل نے فرمایا : (آیت) ” اعبدوا ربکم “ اس کا معنی ہے اپنے رب کی اطاعت کرو ‘ اور ” ایاک نعبد “ کا معنی ہے : ہم خضوع اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں۔ ابن الاثیر نے کہا : عبادت کا لغت میں معنی ہے : عاجزی کے ساتھ اطاعت کرنا۔ (تاج العروس شرح القاموس ج ٢ ص ٤١٠‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ‘ ١٣٠٦ ھ)
عبادت کا اصطلاحی معنی :
علامہ میر سید شریف (رح) لکھتے ہیں :
نفس کی خواہش کے خلاف ‘ اپنے رب کی تعظیم کے لیے مکلف کا کوئی کام کرنا عبادت ہے۔ عہد کو پورا کرنا ‘ اللہ کی حدود کی حفاظت کرنا ‘ جو مل جائے اس پر راضی رہنا اور جو نہ ملے اس پر صبر کرنا ‘ عبودیت ہے۔ (کتاب التعریفات ص ٦٣‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ٦، ١٣ ھ)
قرآن مجید میں عبادت کا لفظ توحید اور اطاعت کے لیے استعمال ہوا ہے :
(آیت) ” واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا (النساء : ٣٦) اللہ کو واحد مانو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔
(آیت) ” الم اعھد الیکم یبنی ادم ان لا تعبدوا الشیطن “۔ (یس : ٦٠) اے اولاد آدم ! کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی اطاعت نہ کرنا۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ عبادت کا اصطلاحی معنی ہے : اعتقاد الوہیت کے ساتھ کسی کی تعظیم اور اطاعت کرنا اور (آیت) ” یایھا الناس اعبدوا ربکم “ کا معنی ہے : اے لوگو ! اپنے رب کو الہ مان کر اس کی تعظیم اور اطاعت کرو ‘ اور (آیت) ” ایاک نعبد “ کا معنی ہے : ہم اعتقاد الوہیت کے ساتھ تیری تعظیم اور اطاعت کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں عبد کے اطلاقات :
قرآن مجید میں پانچ قسم کے لوگوں پر عبد کا اطلاق کیا گیا ہے :
(١) غلام اور مملوک پر عبد کا اطلاق کیا گیا ہے :
(آیت) ” العبد بالعبد، (البقرہ : ١٧٨) غلام کے بدلہ میں غلام (کوقتل کیا جائے)
(آیت) ” ضرب اللہ مثلا عبدا مملوکا لایقدر علی شیء “ (النحل : ٧٥) اللہ مثال بیان فرماتا ہے ایک مملوک (غلام) کی جس کو کسی چیز پر قدرت نہیں ہے۔
(٢) جو اللہ کی تسخیر سے عبد ہیں :
ان کل من فی السموت والارض الا اتی الرحمن عبدا (مریم : ٩٣) آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہیں وہ اللہ کی بارگارہ میں بطور عبد حاضر ہوں گے۔
(٣) جو اپنے اختیار سے اللہ کے عبد ہیں اور عبدیت میں کامل ہیں :
(آیت) ” ذریۃ من حملنا مع نوح ‘ انہ کان عبدا شکورا “۔ (بنی اسرائیل : ٣) ان لوگوں کی اولادجن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر) سوار کیا تھا ‘ بیشک وہ (نوح) عبد شاکر تھے۔
(آیت) ” سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا، (بنی اسرائیل : ١) سبحان ہے وہ جو اپنے (مقدس) عبد کو رات کے ایک قلیل حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا۔
(٤) جو اپنے اختیار سے اللہ کے عبد ہیں اور عبدیت میں ناقص ہیں : rnّ (آیت) ” ان تعذبھم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم (المائدہ : ١١٨) اگر تو انہیں عذاب دے تو بیشک وہ تیرے بندے ہیں ‘ اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی بہت غالب ہے۔ بڑی حکمت والا ہے
(آیت) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسہم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ “۔ (الزمر : ٥٣) کہیے : اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔
(٥) جو اپنے اختیار سے غیر اللہ کے عبد ہیں :
(آیت) ” ویوم یحشرھم وما یعبدون من دون اللہ فیقول ءانتم اضللتم عبادی ھؤلآء ام ھم ضلوا السبیل (الفرقان : ١٧) اور جس دن اللہ انہیں جمع کرے گا اور جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے ‘ پھر اللہ ان (معبودوں) سے فرمائے گا : کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا وہ خود ہی گمراہ ہوگئے تھے ؟
(آیت) ” یحسرۃ علی العباد مایاتیھم من رسول الا کانوابہ یستھزء ون (یس : ٣١) ہائے افسوس ان بندون پر ان کے پاس جو رسول بھی آیا یہ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو مملوک اور غلام ہیں ‘ جو تسخیرا عبد ہیں ‘ جو اپنے اختیار سے اللہ کے عبد ہیں اور عبد کامل ہیں اور جو اپنے اختیار سے اللہ کے عبد ہیں اور عبد ناقص ہیں اور جو اپنے اختیار سے غیر اللہ کے عبد ہیں ان سب پر قرآن مجید میں عبد کا اطلاق کیا گیا ہے۔
اپنے غلام کو ” میرا عبد “ کہنے کی کراہت اور عبدالنبی وغیرہ نام رکھنے کی تحقیق :
غلام کے لیے اپنے مالک کو میرا رب کہنا مکروہ تنزیہی ہے ‘ اسی طرح مالک کا غلام کو میرا عبد کہنا مکروہ تنزیہی ہے۔
امام بخاری روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں کوئی شخص یہ نہ کہے کہ اپنے رب کو کھلاؤ ‘ اپنے رب کو پلاؤ ‘ بلکہ میرا سید اور میرا مولا کہے ‘ اور تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے : میرا عبد اور میری بندی ‘ اسے یہ کہنا چاہیے : میرا نوکر ‘ میری نوکرانی اور میرا غلام۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٣٤٧۔ ٣٤٦‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)
امام احمد بن حنبل (رح) روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اپنے مملوک کے لیے میرا عبد نہ کہے، لیکن میرا خادم کہے ‘ اور نہ مملوک اپنے مالک کو میرا رب کہے لیکن میرا سید کہے۔ (مسند احمد ج ٢ ص ٤٤٤‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)
علامہ ابن اثیر جزری (رح) لکھتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں ہے : کوئی شخص اپنے مملوک کو میرا عبد نہ کہے بلکہ میرا نوکر یا خادم کہے ‘ یہ ممانعت اس لیے کی گئی ہے تاکہ مالک سے تکبر اور بڑائی کی نفی کی جائے اور مالک کی طرف غلام کی عبودیت کی نسبت کی نفی کی جائے کیونکہ اس کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور وہی تمام بندوں کا رب ہے۔ (نہایہ ج ٣ ص ١٧٠ مطبویہ موسستہ مطبوعاتی ‘ ایران ‘ ١٣٦٤ ھ)
علامہ بدرالدین عینی حنفی (رح) لکھتے ہیں :
کسی شخص کا اپنے مملوک کو میرا عبد کہنا مکروہ تنزیہی ہے حرام نہیں ہے ‘ کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس کا مملوک اللہ کا عبد ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے ‘ اب اگر اس کا مالک بھی اس کو اپنا عبد کہے تو یہ شرک اور مشابہت کو واجب کرتا ہے ‘ لہذا اس سے احتراز کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس کو میرا نوکر اور میرا خادم کہے ‘ اور یہ حرام اس لیے نہیں ہے کہ قرآن مجید میں مالک کی طرف عبد کی اضافت کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(آیت) ” وانکحوالایامی منکم والصلحین من عبادکم وامآئکم (النور : ٣٢) اور تم اپنے بےنکاح (آزاد) مردوں اور عورتوں کا اپنے نیک عباد (غلاموں) اور باندیوں سے نکاح کردو۔
علامہ ابن بطال نے کہا کہ اس آیت کی رو سے کسی شخص کا اپنے غلام کو میرا عبد کہنا جائز ہے اور احادیث میں ممانعت تغلیظ کے لیے ہے تحریم کے لیے نہیں، اور یہ مکروہ اس لیے ہے کہ یہ لفظ مشترک ہے کیونکہ اس کا غلام بہرحال اللہ کا عبد ہے ‘ اب اگر وہ اسے میرا عبد کہے گا تو اس سے اس غلام کا مشترک ہونا لازم آگیا۔ (عمدۃ القاری ج ١٣ ص ١١٠‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ)
بعض لوگوں کا نام عبدالنبی اور عب الرسول رکھا جاتا ہے۔
شیخ اشرف علی تھانوی (رح) نے کفر اور شرک کی باتوں کا بیان اس عنوان کے تحت لکھا ہے :
علی بخش ‘ حسین بخش ‘ عبد النبی ‘ وغیرہ نام رکھنا۔ (بہشتی زیور ج ١ ص ٣٥ مطبوعہ ناشران قرآن لمیٹڈ لاہور)
ظاہر ہے کہ یہ دین میں غلو اور زیادتی ہے ‘ عبد النبی اور عبدالرسول نام رکھنا ‘ سورة نور کی اس آیت کے تحت جائز ہے اور احادیث میں جو ممانعت وارد ہے اس کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہے۔ ہمارے نزدیک مختار یہی ہے کہ عبد النبی ‘ عبدالرسول اور عبدالمصطفی ‘ نام رکھنا ‘ ہرچند کہ جائز ہے لیکن چونکہ احادیث میں اس کی ممانعت ہے ‘ اس لیے مکروہ تنزیہی ہے ‘ اس لیے افضل اور اولی یہی ہے کہ ان کے بجائے غلام رسول اور غلام مصطفیٰ نام رکھے جائیں۔
علامہ شامی (رح) لکھتے ہیں :
فقہاء نے عبد فلاں نام رکھنے سے منع کیا ہے ‘ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عب النبی نام رکھنا ممنوع ہے ‘ علامہ مناوی نے علامہ دمیری (شافعی) سے نقل کیا ہے کہ ایک قول جواز کا ہے جب کہ اس نسبت سے مشرف ہونا مقصود ہو ‘ اور اکثر فقہاء نے اس خدشہ سے منع کیا ہے کہ کوئی حقیقت عبودیت کا اعتقاد کرے ‘ جیسے عبدالدار نام رکھنا جائز نہیں ہے۔ (رد المختار ج ٥ ص ٣٦٩ مطبوعہ مطبعہ عثمانیہ استنبول ‘ ١٣٢٧ ھ)
عبادت کا اللہ تعالیٰ میں منحصر ہونا :
(اے پروردگار ! ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اس آیت میں عبادت کا اللہ تعالیٰ کا اللہ تعالیٰ میں حصر کردیا ہے ‘ بعض علماء نے اس پر بھی بحث کی ہے کہ اس حصر کی وجہ کیا ہے ‘ اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ اللہ کے سوا اور کوئی الہ (مستحق عبادت) نہیں ہے ‘ اس لیے ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں اور کسی کی عبادت نہیں کرتے ‘ اور اس کی یہ توجیہ بھی کی گئی ہے کہ عبادت نہایت تعظیم کو کہتے ہیں اور نہایت تعظیم اسی کی کی جائے گی جس نے بیشمار نعمتیں دی ہوں اور چونکہ تمام نعمتیں اسی کی دی ہوئی ہیں ‘ اس لیے عبادت بھی اسی کی کی جاتی ہے ‘ دیکھئے اللہ ہم کو عدم سے وجود میں لایا ‘ جہل سے نکال کر علم عطا فرمایا ‘ پھر تمام زمین ‘ آسمان ‘ سیارگان ‘ جمادات ‘ نباتات اور حیوانات کو ہمارے نفع کے لیے مسخر کردیا !
(آیت) ” وقد خلقتک من قبل ولم تک شیئا (مریم : ٩) اور بیشک میں نے تم کو اس سے پہلے پیدا کیا ‘ حالانکہ تم کچھ بھی نہ تھے ؛
(آیت) ” واللہ اخرجکم من بطون امھتکم لا تعلمون شیئا وجعل لکم السمع والابصار والافئدۃ لعلکم تشکرون (النحل : ٧٨) اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے پیدا کیا ‘ حالانکہ تمہیں کسی چیز کا علم نہ تھا اور تمہارے کان ‘ آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر بجالاؤ
(آیت) ” وسخرلکم مافی السموت وما فی الارض جمیعا منہ (الجاثیہ : ١٣) اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمینوں میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے نفع کے لیے مسخر کردیا۔ اس سے بڑا اور کیا انعام ہوگا ! تو اس کے سوا اور کون عبادت کا مستحق ہوگا۔
” ایاک نعبد “ میں حرف خطاب کو مقدم کرنے کے اسرار اور نکات :
اس آیت میں یوں نہیں فرمایا : ” نعبدک “ ہم تیری عبادت کرتے ہیں ‘ بلکہ فرمایا ہے : (آیت) ” ایاک نعبد “ تیری ہی عبادت کرتے ہیں ہم ‘ اللہ تعالیٰ کا ذکر پہلے ہے اور ہماری عبادت کرنے کا ذکر بعد میں ہے ‘ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہے ‘ اور ہم اور ہماری عبادات بعد میں ہیں۔ بعض علماء نے کہا ہے : جس شخص کی نظر نعمت کے وقت نعمت کی بجائے منعم پر ہو ‘ تو مصیبت کے وقت اس کی نظر مصیبت کی بجائے مصیبت میں مبتلا کرنے والے پر ہوتی ہے ‘ پھر مصیبت ‘ مصیبت نہیں رہتی اور نعمت آنے کے بعد اگر وہ نعمت زائل ہوجائے تو اس کو ملال نہیں ہوتا ‘ اور جس کی نظر نعمت پر ہوتی ہے تو حصول نعمت کے وقت بھی وہ پریشان رہتا ہے کہ کہیں وہ نعمت زائل نہ ہوجائے اور مصیبت کے وقت بھی وہ رنج اور افسوس میں مبتلا رہتا ہے ‘ اور جس کی نظر ہرحال میں اللہ پر ہو وہ ہمیشہ خوش رہتا ہے ‘ لہذا ان کے مقام کا کیا کہنا جن کی توجہ ہرحال میں صفات کی بجائے ذات کی طرف رہتی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” واذکروا نعمتی “ میری نعمت کو یاد کرو اور حضرت سیدنا محمد کی امت سے فرمایا : (آیت) ” فاذکرونی اذکرکم “ تم مجھے (میری ذات کو) یاد کرو ‘ میں تمہیں یاد کروں گا ‘ ان کی رسائی صفت تک تھی ہماری رسائی ذات تک کردی ہے اور جب اس تصور سے انسان کہے گا : تیری ہی عبادت کرتے ہیں ہم ‘ اور اس کی ذات کا اس لیے مقدم ذکر کرے گا کہ وہ ہرحال میں پہلے اس کو دیکھتا ہے بعد میں اور کو دیکھتا ہے تو پھر (آیت) ” ایاک نعبد “ پڑھنے کا کچھ اور لطف ہوگا !
نیز اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ کام عبادت یہ ہے کہ تم اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اس سے بالمشافہ خطاب کررہے ہو، اور اس میں یہ حکمت بھی ہے کہ عبادت میں صعوبت اور مشقت تو بہت ہے لیکن جب عابد کی نظر معبود کے جمال پر ہو اور وہ محونظارہ ذات ہو تو پھر کسی مشقت اور صعوبت کا پتا نہیں چلتا جس طرح مصر کی عورتوں کی نظر جب حسن یوسف پر پڑی تو انہوں نے پھل کی جگہ انگلیاں کاٹ ڈالیں اور ان کو کچھ درد نہیں ہوا ‘ یہی وجہ ہے کہ ایک صحابی کو نماز کے دوران تیر لگتے رہے ‘ خون بہتا رہا اور وہ اسی انہماک سے نماز پڑھتے رہے۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٢٩) مسجد کی چھت سے سانپ گرپڑا بھگدڑ مچ گئی اور امام ابوحنفیہ (رح) اسی محویت سے نماز پڑھتے رہے۔ (تفسیر کبیر ج ١ ص ١٢٩) امام بخاری (رح) کو نماز میں تتیہ نے سترہ ڈنک مارے اور ان کو کچھ پتا نہیں چلا۔ (فتح الباری ج ١٤ ص ٤٨١۔ ٤٨٠) عروہ بن زبیر کے کسی عضو میں زخم ہوگیا ‘ اس عضو کا کاٹنا ضروری تھا ‘ جب انہوں نے نماز شروع کی تو لوگوں نے وہ عضو کاٹ دیا اور ان کو ذرا احساس نہیں ہوا۔ (تفسیر کبیر ج ١ ص ١٢٩)
(آیت) ” میں جمع کا صیغہ لانے کے اسرار اور نکات :
اس آیت میں فرمایا ہے : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں ‘ یہاں پر لفظ جمع لایا گیا ہے ‘ کیونکہ اگر بندہ یوں کہتا کہ میں تیری عبادت کرتا ہوں تو اس سے تکبر اور عجب کا وہم ہوتا اور جب کہا : ہم (سب) تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو اس کا حاصل یہ ہے کہ میں تیرے عبادت گزار بندوں میں سے ایک عبادت گزار بندہ ہوں اور اس میں تواضع اور انکسار ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ بندہ اپنی عبادت کو اس لائق نہیں سمجھتا کہ اس کا اللہ تعالیٰ کے سامنے ذکر کرے ‘ اس میں بہت سے نقائص اور تقصیرات ہیں ‘ اس لیے وہ اپنی عبادت کو تمام عبادت گزاروں کی عبادت میں درج کرکے ذکر کرتا ہے کہ ان عبادت گزاروں میں صالحین اور مقبولین بھی ہیں ‘ جن کی عبادتوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا ‘ اور یہ اس کے کرم سے بعید ہے کہ وہ بعض کی عبادتیں قبول کرے اور بعض کو مسترد کر دے۔
علامہ محی الدین درویش لکھتے ہیں :
ایک شرعی مسئلہ یہ ہے کہ جو آدمی مختلف جنس کی چیزوں کو بیع واحد کے ساتھ فروخت کرے ‘ پھر خریدار بعض چیزوں کے کسی عیب پر مطلع ہو تو اس کو تمام چیزیں واپس کرنے کا اختیار ہے ‘ یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ بعض چیزوں کو رکھ لے اور بعض کو واپس کردے ‘ کیونکہ تمام چیزیں بیع واحد کے ساتھ فروخت کی گئی ہیں ‘ وہ ان میں تفریق نہیں کرسکتا (مثلا کوئی شخص سیبوں کا ایک کریٹ خریدے اور کوئی ایک سیب داغدار ہو تو وہ صرف اس سیب کو واپس نہیں کرسکتا یا سب کو واپس کرے گا یا سب کو رکھے گا) علی ھذا القیاس جب عبادت گزارنے اپنی عبادت کو ناقص اور معیوب جانا تو اس نے اپنی عبادت کو الگ نہیں پیش کیا بلکہ تمام عابدوں کی عبادت میں درج کردیا “ اس امید سے کہ تمام عبادات مسترد نہیں ہوں گی ‘ کیونکہ ان میں بعض مقبولین کی عبادتات بھی ہیں اور جب باقی مقربین کی عبادات مقبول ہوں گی تو اس کی عبادت بھی مقبول ہوجائے گی اور یہی اس کے کرم عظیم کے مناسب اور فضل عمیم کے لائق ہے۔ (اعراب القرآن الکریم وبیانہ ج ١ ص ١٨‘ دار ابن کثیر بیروت الطبعۃ الثالثہ ١٤١٢ ھ)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گھر میں نماز پڑھنے پر ایک نماز کا اجر ہے اور قبائل کی مسجد (محلہ کی مسجد) میں نماز پڑھنے پر پچیس نمازوں کا اجر ہے (بعض روایات کے مطابق ستائیس نمازوں کا اجر ہے) اور جامع مسجد میں نماز پڑھنے پر پانچ سو نمازوں کا اجر ہے ‘ اور مسجد اقصی میں پچاس ہزار نمازوں کا اجر ہے ‘ اور میری مسجد (مسجدنبوی) میں نماز پڑھنے کا (بھی) پچاس ہزار نمازوں کا اجر ہے ‘ اور مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا اجر ایک لاکھ نمازوں کا اجر ہے۔ (مشکوۃ ص ٧٢‘ مطبوعہ اصح المطابع ‘ دہلی)
اجر میں اس اضافہ کی وجہ ایک تو ان مساجد کی عظمت اور خصوصییت ہے ‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ محلہ کی مسجد کی نسبت جامع مسجد میں زیادہ نمازی ہوتے ہیں ‘ اور جہاں زیادہ نمازی ہوں گے وہاں اللہ کے نیک بندے بھی زیادہ ہوں گے ‘ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب اور نیک بندوں کو زیادہ اجر عطا فرمائے گا اور ان کے واسطے سے سب نمازیوں کو زیادہ اجر وثواب عطا فرما دے گا ‘ علی ھذا القیاس جیسے جیسے نمازیوں کی تعداد بڑھتی جائے گی اجر وثواب بڑھتا جائے گا ‘ اس لیے بندہ اپنی عبادت کا علیحدہ ذکر نہیں کرتا بلکہ تمام عابدوں کی عبادت میں اپنی عبادت ضم کر کے ذکر کرتا ہے تاکہ اسے بھی وہ برکتیں مل جائیں جو مقربین بارگاہ نازل کے طفیل سب عابدوں کو ملیں گی۔
غبوبت سے خطاب کی طرف التفات کے اسرار اور نکات :
بلاغت کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ کلام کے پیرائے کو مثلا صیغہ غائب سے صیغہ خطاب کی طرف منتقل کیا جائے ‘ اس کو اصطلاح میں التفات کہتے ہیں ‘ کیونکہ مسلسل ایک طرز سے سننے والا اکتا جاتا ہے اور جب کلام کا پیرایہ تبدیل کیا جاتا ہے تو سننے والے کا ذہن حاضر اور بیدار رہتا ہے اور اس کا شوق برقرار رہتا ہے اور تجسس بڑھتا رہتا ہے۔
سورة فاتحہ کے شروع کی آیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا صیغہ غائب کے ساتھ ذکر کیا گیا اور اس کی حمد وثناء کی گئی ‘ پھر (آیت) ” ایاک نعبد ‘ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں “ میں اس سے بالمشافہ خطاب کیا گیا ‘ اس میں صنعت التفات کے علاو حسب ذیل اسرار ہیں :
(١) جب بندہ نے اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت ‘ رحمت اور اس کے مالک ہونے کا ذکر کیا تو اس کو حریم ناز میں داخل ہونے کی اجازت ملی اور اس سے کہا گیا کہ اب تو کہنا ہے بالمشافہ کہو تو بندہ نے کہا (آیت) ” ایاک نعبد وایاک نستعین “۔
(٢) دعا اور سوال میں اصل یہ ہے کہ بالمشافہ خطاب کر کے سوال کیا جائے جیسے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” قل رب زدنی علما “۔ (طہ : ١١٤) ” آپ کہئے کہ اے رب ! میرے علم کو زیادہ کر ‘ سو اسی نہج پر یہاں بہ صورت خطاب دعا کی گئی ہے۔
(٣) (آیت) ” الحمد “ سے (آیت) ” مالک یوم الدین “ تک اللہ کی حمد وثناء ہے ‘ اور تعریف میں اصل یہ ہے کہ غیاب میں کی جائے اور (آیت) ” ایاک نعبد “ میں عبادت کا ذکر ہے اور عبادت میں اصل یہ ہے کہ حضور میں اور بالمشافہ ہو ‘ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان تعبد اللہ کا نک تراہ “۔ تم اس طرح عبادت کرو گویا کہ اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ (امام ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری متوفی ٢٦١ ھ، صحیح مسلم ج ١ ص ‘ ٢٧ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)
استعانت کے معنی :
استعانت کا لفظ عون سے ماخوذ ہے ‘ علامہ زبیدی عون کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
کسی کام پر مدد کرنے والے کو عون کہتے ہیں ‘ عرب کہتے ہیں : جب قحط آتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے اعوان بھی آتے ہیں ‘ یعنی ٹڈیاں ‘ مکھیاں اور بیماریاں ‘ لیث نے کہا : ہر وہ چیز جو تمہاری مدد کرے وہ تمہاری عون ہے ‘ جیسے روزہ عبادت کے لیے عون ہے ‘ اس کی جمع عوان ہے ‘ اور عرب کہتے ہیں : ” استعنتہ فاعاننی “ میں نے اس سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد کی۔ (تاج العروس ج ٩ ص ٢٨٥‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ‘ ١٣٠٦ ھ)
(آیت) ” ایاک نستعین “ کی تفسیر :
علامہ ابو جعفر محمد بن جریر طبری (رح) لکھتے ہیں :
(آیت) ” ایاک نستعین “ کا معنی یہ ہے : اے ہمارے ! ہم اپنی عبادات ‘ اپنی طاعات اور اپنے تمام معاملات میں صرف تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ‘ تیرے سوا اور کوئی مددگار نہیں ہے ‘ کفار اپنے معاملات میں اپنے باطل معبودوں سے مددطلب کرتے ہیں اور ہم اخلاص کے ساتھ تیری عبادت کرتے ہیں اور اپنے تمام امور میں تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : ہم اپنی اطاعت اور تمام امور میں تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔ (جامع البیان ج ١ ص ٥٣‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)
عبادت کو استعانت پر مقدم کرنے کی وجوہ :
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عبادت بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتی ‘ پھر بہ ظاہر یہ چاہیے تھا کہ پہلے (آیت) ” ایاک نستعین “ ہوتا پھر (آیت) ” ایاک نعبد “ ہوتا ‘ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ واؤ ترتیب کا تقاضا نہیں کرتی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
(آیت) ” یمریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الرکعین (آل عمران : ٤٣) اے مریم ! اپنے رب کی عبادت کر ‘ سجدہ کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔
اس آیت میں پہلے سجدہ اور پھر رکوع کا ذکر ہے حالانکہ ترتیب کے اعتبار سے پہلے رکوع اور پھر سجدہ ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ وسیلہ مقصود پر مقدم ہوتا ہے ‘ بندہ کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب تم نے دعا اور سوال کرنا ہو تو اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو ‘ تاکہ تمہاری دعا قبول ہو ‘ اس لیے مدد طلب کرنے سے پہلے عبادت کرنے کا ذکر کیا گیا ‘ تیسرا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے (آیت) ” الحمد للہ رب العلمین ‘ اور ” مالک یوم الدین “ فرمایا تھا تو اسی وزن پر (آیت) ” ایاک نعبد وایاک نستعین “ فرمایا اگر (آیت) ” ایاک نستعین وایاک نعبد “ ہوتا تو ان آیات کے آخری الفاظ کا اختتام ایک فصل اور ایک وزن پر نہ ہوتا۔
اولیاء اللہ سے استعانت کی تحقیق :
علامہ سید محمود آلوسی لکھتے ہیں :
استعانت میں عموم مراد ہے ‘ ہر چیز میں ہم صرف تجھ سے ہی استعانت کرتے ہیں کیونکہ حدیث صحیح میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابن عباس (رض) سے فرمایا :
اذا استعنت فاستعن باللہ ‘۔ (جامع ترمذی ص ٣٦١) جب تم مدد طلب کرو تو اللہ سے۔
اسی حدیث کی وجہ سے حضرت ابن عباس (رض) نے استعانت میں عموم کا قول اختیار کیا ہے ‘ سو جس شخص نے اپنے اہم معاملات بلکہ دوسرے غیر اہم معاملات میں بھی غیر اللہ سے مدد چاہی ہو تو اس نے ایک عبث عمل کیا ‘ اللہ تعالیٰ سے کیوں نہیں مدد طلب کی جاتی حالانکہ وہ غنی کبیر ہے اور دوسروں سے کیسے مدد طلب کی جائے گی جب کہ سب اس کے محتاج ہیں ‘ اور محتاج کا محتاج سے مدد طلب کرنا ناپختہ رائے ہے اور عقل کی کج روی ‘ اور میں نے کتنے لوگوں کو دیکھا جنہوں نے غیر اللہ سے عزت اور دولت طلب کی اور وہ ذلیل اور فقیر ہوئے ‘ سو اللہ کے سوا اور کوئی لائق نہیں کہ اس سے مدد طلب کی جائے۔ (روح المعانی ج ١ ص ٩١‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)
علامہ مراغی (رح) لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کریں اور نہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی ایسی تعظیم کریں جیسی معبود کی تعظیم کی جاتی ہے اور اللہ کے سوا کسی سے مدد نہ طلب کریں اور کسی کام کو پورا کرنے کے لیے جو طاقت درکار ہوتی ہے وہ کسی اور سے نہ مانگیں ماسوا ان اسباب کے جن کا کسب کرنا اور جن کو حاصل کرنا ہمارے لیے عام اسباب میں مشروع اور میسر ہے۔
اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ نے اپنی حکمت سے اسباب کو مسببات کے ساتھ مربوط کیا ہے ‘ اسی طرح ارتفاع موانع پر بھی ان کو موقوف کیا ہے اور ان اسباب کے حصول کے لیے انسان کو علم اور معرفت سے نوازا ہے اور موانع اور رکاوٹوں کے دور کرنے پر انسان کو قدرت عطاکی ہے اور اسی اعتبار سے ہم کو حکم دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی مدد کریں اور تعاون کریں :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(آیت) ” وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان “ (المائدہ : ٢) اور تم نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
(آیت) ” قال مامکنی فیہ ربی خیر فاعینونی بقوۃ اجعل بینکم وبینہم ردما (الکہف : ٩٥) ذوالقرنین نے کہا : میرے رب نے جس پر مجھے قدرت دی ہے وہ (تمہارے مال سے) بہتر ہے تو تم (محنت کے کام میں) طاقت سے میری مدد کرو میں تمہارے اور ان کے درمیان نہایت مضبوط دیوار بنا دوں گا۔
اسی اعتبار سے ہم بیماروں کی شفا کے لیے اطباء سے دوائیں طلب کرتے ہیں اور دشمنوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ہتھیاروں اور سپاہیوں سے مدد طلب کرتے ہیں اور اپنی فصلوں کی فراوانی کے لیے حشرات الارض اور مضر کیڑوں مکوڑوں کو دور کرتے ہیں اور ان کو ہلاک کرتے ہیں، اور ان اسباب کے بغیر اگر ہم بیماروں کے لیے شفاء اور دشمن پر غلبہ چاہتے ہوں تو اس کے لیے صرف اللہ تعالیٰ سے استعانت کی جائے گی اور زمین و آسمان کی تمام حاجات کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے دست سوال دراز کیا جائے گا اور نبی کی حیات طیبہ میں ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے، آپ نے مختلف غزوات میں کفار کے خلاف غلبہ اور فتح کے لیے صرف اللہ کے آگے ہاتھ پھیلائے ہیں، اسی سے فتح اور نصرت کی دعائیں کی ہیں اور اسی سے بیماری میں حصول شفا کے لیے دعا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا اور فرمایا ہے کہ میں تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ تم سے قریب ہوں۔
سو جو شخص اپنی حاجات پوری کرانے کے لیے کسی بیمار کی شفا کے لیے ‘ دشمن پر غلبہ کے لیے یا اولاد کی طلب کیلیے اولیاء اللہ کے مزارات پر جا کر ان سے مدد مانگتا ہے وہ شخص سیدھے راستہ سے گمراہ ہوگیا ‘ اس نے اللہ کی شریعت سے اعراض کیا اور اس نے زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں کا سا کام کیا۔ (تفسیر المراغی ج ١ ص ٣٤۔ ٣٣‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)
ہمارے نزدیک علامہ مراغی کا یہ فتوی علی الاطلاق صحیح نہیں ہے ‘ زمانہ جاہلیت میں کفار بتوں کو مستحق عبادت قرار دیتے تھے اور اسی عقیدہ کے ساتھ ان سے استعانت کرتے تھے ‘ لیکن جو مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مستحق عبادت قرار نہ دیتا ہو، اور نہ اولیا اللہ کو متصرف بالذات سمجھتا ہو ‘ نہ ان کو تصرف میں مستقل سمجھتا ہو، بلکہ یہ سمجھتا ہو کہ اولیاء اللہ ‘ اللہ کی دی ہوئی قدرت اور اس کے اذن سے اس کائنات میں تصرف کرتے ہیں اور اسی عقیدہ کے ساتھ ان سے استعانت کرے تو اس مسلمان کا یہ فعل شرک ہے نہ زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں کا سا کام ہے ‘ تاہم ہمارے نزدیک شریعت کا اصل تقاضا یہی ہے کہ ان تمام امور میں صرف اللہ تعالیٰ سے استعانت کرنی چاہیے ‘ اولیاء اللہ بھی اللہ کے محتاج ہیں اور ہم بھی اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں ‘ تو سلامت روی اسی میں ہے کہ ہر حاجت اللہ سے طلب کی جائے اور ہر ضرورت میں اس کے آگے دست سوال دراز کیا جائے۔
ہم نے ان پڑھ عوام اور جہلاء کو اولیاء اللہ کے مزارات پر بارہا سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ‘ جو منع کرنیکے باوجود باز نہیں آتے ‘ اسی طرح ان کو مزارات پر صاحب مزار کی نذر اور منت مانتے ہوئے دیکھا ہے حالانکہ سجدہ عبادت ہو یا سجدہ تعظیم اللہ کے غیر کے لیے جائز نہیں ہے اور نذر بھی عبادت ہے اور غیر اللہ کی نذر ماننا جائز نہیں۔
(آیت) ” ھو الذی یسیرکم فی البر والبحر حتی اذا کنتم فی الفلک وجرین بھم بریح طیبۃ وفرحوا بھاجآء تھا ریح عاصف وجآء ھم الموج من کل مکان وظنوا انھم احیط بھم دعوا اللہ مخلصین لہ الدین لئن انجیتنا من ھذہ لنکونن من الشکرین فلما انجہم اذا ھم یبغون فی الارض بغیر الحق : (یونس : ٢٣۔ ٢٢) وہی ہے جو تم کو خشک زمین اور سمندر میں چلاتا ہے، حتی کہ جب تم کو کشتیاں موافق ہوا کے ساتھ لے کر چلتی ہیں اور وہ اس پر خوش ہوتے ہیں، تو (اچانک) کشتیوں پر تندو تیز آندھیاں آئیں اور سمندر کی موجوں نے ان کو ہر طرف سے گھیر لیا اور (مسافروں نے) سمجھ لیا کہ وہ طوفان میں گھر گئے ‘ تب سب نے اپنے دین کو خالص اللہ کے لیے کر کے دعائیں مانگیں کہ اگر تو نے ہمیں اس (طوفان سے بچا لیا تو ہم ضرور تیرے شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے پھر جب اللہ نے ان کو بچا لیا تو وہ ناگہاں زمین میں ناحق زیادتی کرنے لگے۔
جب انسان مصائب کے گرداب اور پریشانیوں کے طوفان میں گھر جائے تو کٹر سے کٹر مشرک بھی صرف اللہ ہی کی طرف رجوع کرتا ہے ‘ سو مسلم اور موحد اس بات کے زیادہ لائق اور مستحق ہے کہ وہ اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں میں صرف اللہ تعالیٰ سے التجاء کرے، اسی سے مدد مانگے اور اس کے آگے ہاتھ پھیلائے۔
امام رازی سورة یونس آیت : ١٠ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
ان کافروں نے انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کی صورتوں کے بت بنالیے تھے اور ان کا یہ زعم تھا کہ جب وہ ان بتوں کی عبادت کریں گے تو وہ بت اللہ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے ‘ اور اس زمانہ میں اس کی نظیر یہ ہے کہ بہت لوگ اولیاء اللہ کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ جب وہ ان قبروں کی تعظیم کریں گے تو وہ اللہ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے۔ (تفسیر کبیر ج ٤ ص ٥٥٦‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)
قبر کو سجدہ کرنا ‘ قبر کا طواف کرنا اور حصول منفعت کے لیے صاحب قبر کی نذر ماننا قبر کے سامنے جھکنا ‘ یہ تمام امور ناجائز اور حرام ہیں۔
اولیاء اللہ سے استعانت کا صحیح طریقہ :
ہونا یہ چاہیے کہ اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت کی جائے کیونکہ زیارت قبور سنت ہے ‘ ان کے مزارات پر ایصال ثواب کیا جائے ‘ یہ بھی احادیث سے ثابت ہے ‘ ان کی مغفرت اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی جائے ‘ کیونکہ قرآن مجید میں وفات یافتہ مسلمانوں کے لیے دعا کرنے کی تعلیم ہے ‘ اور ان کے وسیلہ سے اپنی حاجات کی قبولیت کی دعا کی جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ بنت اسد کی مغفرت کے لیے اپنے اور انبیاء سابقین کے وسیلہ سے دعا فرمائی ہے اور زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اولیاء اللہ سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ ہماری حاجت روائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کردیں اور اس کی اصل نابینا کی حدیث ہے جس کو انشاء اللہ ہم عنقریب تفصیل سے بیان کریں گے ‘ اب ہم وسیلہ اور غیر اللہ سے استمداد کے موضوع پر تفصیل سے لکھ رہے ہیں۔ فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعانۃ یلیق۔
وسیلہ کا لغوی معنی :
علامہ ابن اثیر جزری (رح) لکھتے ہیں :
ھی فی الاصل مایتوصل بہ الی الشیء ویتقرب بہ : جس چیز سے کسی شے کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے۔ (علامہ محمد بن اثیر جزری (رح) متوفی ٦٠٦ ھ نہایہ ج ٥ ص ١٨٥‘ مطبوعہ مؤسسۃ مطبوعاتی ‘ ایران ‘ ١٣٦٤ ھ)
علامہ ابن منظور افریقی (رح) لکھتے ہیں :
الجوھری : الوسیلۃ ما یتقرب بہ الی الغیر ‘ امام لغت علامہ جوہری (رح) نے کہا ہے کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے۔ (سید جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور افریقی (رح) متوفی ٧١١ ھ ‘ لسان العرب ج ١١ ص ٧٢٥۔ ٧٢٤ مطبوعہ نشر ادب الحوذۃ ‘ قم ‘ ایران ١٤٠٥ ھ)
علامہ زبیدی نے ابن اثیر (رح) اور علامہ جوہری (رح) کے حوالوں سے وسیلہ کی تعریف میں مذکور الصدر عبارات نقل کی ہیں۔ (تاج العروس ج ٨ ص ١٥٤‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ‘ ١٣٠٦ ھ)
علامہ ابن منظور افریقی (رح) اور علامہ زبیدی (رح) نے علامہ جوہری (رح) کی جس عبارت کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے :
جس چیز سے غیرکا تقرب کیا جائے وہ وسیلہ ہے۔ (الصحاح ج ٥ ص ١٨٤١‘ مطبوعہ دارالعلم ‘ بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ)
ائمہ لغت کی ان تصریحات سے واضح ہوگیا کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے ‘ اللہ تعالیٰ کا تقرب اعمال صالحہ اور عبادات سے حاصل ہوتا ہے ‘ تاہم انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو عزت اور وجاہت حاصل ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت دعا کے لیے اس عزت اور وجاہت کو پیش کرنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی جائز ہے ‘ زندگی میں اور وفات کے بعد بھی۔
انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کی ذوات سے توسل کے متعلق فقہاء اسلام کی عبارات :
امام محمد بن جزری آداب دعا میں لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء (علیہم السلام) اور صالحین کا وسیلہ پیش کرے۔ (حصن حصین مع تحفۃ الذاکرین ص ٣٤‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البانی ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
ملاعلی قاری اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
مصنف نے کہا : دعا میں انبیاء اور صالحین کا وسیلہ پیش کرنا امور مستحبہ میں سے ہے کیونکہ ” صحیح بخاری “ کی کتاب الاستقاء میں ہے :
حضرت عمر (رض) نے فرمایا : پہلے ہم اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے تو (اے اللہ ! ) تو بارش نازل فرماتا تھا ‘ اب ہم اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم محترم کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں تو ہم پر بارش نازل فرما ‘ پھر ان پر بارش ہوجاتی ‘ اور جیسا کہ نابینا کی حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے دعا کا ذکر ہے جس کا کو امام حاکم نے اپنی ” مستدرک “ میں روایت کیا اور کیا یہ کہا کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے ‘ اور امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث صحیح ‘ غریب ہے اور ہم نے اس کو ” حصن “ میں ذکر کیا ہے اور حدیث ابوامامہ کی بناء پر جس کو ہم نے صبح کی دعاؤں میں ذکر کیا ہے ‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے ” معجم کبیر “ اور ” کتاب الدعاء “ میں ذکر کیا ہے۔ (الحرز الثمین ص ١٧٦‘ مطبوعہ مطبعہ امیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ)
امام جزری نے حضرت ابوامامہ کی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے :
اسئلک بنور وجھک الذی اشرقت لہ السموات والارض وبکل حق ھو لک وبحق السائلین علیک : (امام محمد بن جزری متوفی ٨٣٣ ھ ‘ حصن حصین مع تحفۃ الذاکرین ص ٦٨‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی واولادہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
ملاعلی قاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
سوال کرنے والوں کا اللہ پر اس لیے حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (اپنے کرم سے) ان کی دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے : گویا کہ بندے نے اللہ تعالیٰ سے بندوں پر اس کے حق کے وسیلہ سے ‘ اور سائلین کا اللہ پر جو حق ہے اس کے وسیلہ سے سوال کیا ‘ اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں ‘ اس کی حمد وثناء کریں ‘ اس کے احکام پر عمل کریں ‘ اور اس کی منع کی ہوئی چیزوں سے رکیں ‘ اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے یہ حق ہے کہ وہ اپنے وعدہ کے مطابق ان کو ثواب عطا کرے ‘ کیونکہ اس کے وعدہ کا پورا ہونا واجب ہے ‘ کہ اس کا وعدہ حق ہے اور اس کی خبر صادق ہے۔ (الحزر الثمین ص ١٧٦‘ مطبوعہ امیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ)
شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والا یہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے فلاں کے حق اور فلاں فرشتے اور انبیاء اور صالحین وغیرھم کے حق سے سوال کرتا ہوں یافلاں کی حرمت اور فلاں کی وجاہت کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں، اس دعا کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت ہو، اور یہ دعا صحیح ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت اور حرمت ہے ‘ جس کا یہ تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قدر افزائی کرے اور جب یہ شفاعت کریں تو ان کی شفاعت قبول کرے ‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ سبحانہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کون اس سے شفاعت کرسکتا ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ١ ص ٢١١‘ مطبوعہ بامر فہدبن عبدالعزیز)
غیر مقلد عالم قاضی شوکانی (رح) لکھتے ہیں :
یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ پر سائلین کے حق میں مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو مسترد نہ کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ وعدہ فرمایا ہے : مجھ سے دعا کرو ‘ میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔ (تحفۃ الذاکرین ٦٩‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی و اولا دہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
نیز قاضی شوکانی لکھتے ہیں :
میں کہتا ہوں کہ انبیاء (علیہم السلام) کے وسیلہ کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جس کو امام ترمذی (رح) نے روایت کر کے کہا : یہ حدیث حسن ‘ صحیح اور غریب ہے ‘ امام نسائی ‘ امام ابن ماجہ ‘ اور امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اور امام حاکم نے اس کو روایت کرکے کہا یہ حدیث امام بخاری (رح) اور امام مسلم (رح) کی شرط پر صحیح ہے ‘ حضرت عثمان بن حنیف (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری بصارت بحال کر دے ‘ آپ نے فرمایا : یا میں رہنے دوں ؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ پر نابینائی بہت دشوار ہے ‘ آپ نے فرمایا : جاؤ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر کہو : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ‘ اور محمد نبی رحمت کے وسیلہ سے میں تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ الحدیث۔ ” حصن حصین “ کے باب صلوۃ الحاجۃ میں اس حدیث کا ذکر آئے گا ‘ اور صالحین کے توسل کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جو صحیح (بخاری) میں ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم محترم حضرت عباس (رض) کے وسیلہ سے بارش کے لیے دعا کی اور حضرت عمر (رض) نے کہا : اے اللہ ! ہم تیرے نبی کے عم محترم کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں۔ (تحفہ الذاکرین ص ٣٧‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی واولادہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
حضرت آدم (علیہ السلام) کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے دعا کرنا :
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے دعا مانگی جس کو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا :
امام بیہقی (رح) اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب حضرت آدم (علیہ السلام) سے (اجتہادی) خطاء ہوگئی تو انہوں نے کہا : اے رب ! میں تجھ سے بہ حق (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے بخش دے ‘ اللہ عزوجل نے فرمایا : اے آدم ! تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیسے جانا حالانکہ میں نے ابھی ان کو پیدا نہیں کیا ؟ حضرت آدم (علیہ السلام) نے کہا : کیونکہ اے رب ! جب تو نے مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور تو نے مجھ میں اپنی پسندیدہ روح پھونکی تو میں سراٹھا کر دیکھا تو عرش کے پایوں پر ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ لکھا ہوا تھا ‘ سو میں نے جان لیا کہ تو نے جس کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر لکھا ہے وہ تجھ کو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہوگا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا : اے آدم تم نے سچ کہا وہ مجھے مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہیں اور کیونکہ تم نے انکے وسیلہ سے سوال کیا ہے اس لیے میں نے تم کو بخش دیا اور اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو میں تم کو پیدا نہ کرتا۔ (دلائل النبوۃ ص ٤٨٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت )
اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ایک ضعیف راوی ہے لیکن فضائل میں حدیث ضعیف معتبر ہوتی ہے۔ امام طبرانی (رح) نے بھی اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ حضرت عمر (رض) سے روایت کیا ہے (معجم صغیر ج ٢ ص ٨٣۔ ٨٢‘ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ ‘ مدینہ منورہ ‘ ١٣٨٨ ھ)
امام ابن جوزی (رح) نے بھی اس حدیث کو حضرت عمر (رض) سے روایت کیا ہے ‘ اور حضرت میسرہ (رض) سے بھی اس مضمون کی حدیث کو روایت کیا ہے۔ (الوفاء ص ٣٣‘ مطبویہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ فیصل آباد)
شیخ ابن تیمیہ نے بھی ان دونوں حدیثوں کو روایت کیا ہے ‘ لیکن انہوں نے لکھا ہے کہ ابونعیم حافظ نے اس حدیث کو ” دلائل النبوۃ “ میں روایت کیا ہے ‘ اس نسبت میں شیخ ابن تیمیہ (رح) کو خطا لاحق ہوئی ‘ یہ حدیث حافظ ابونعیم کی ” دلائل النبوۃ “ میں نہیں ہے بلکہ حافظ بیہقی (رح) کی ” دلائل النبوۃ “ میں ہے ‘ ان دونوں حدیثوں کے متعلق شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
یہ دونوں حدیثیں احادیث صحیحہ کی تفسیر کے درجہ میں ہیں۔ (مجموع الفتاوی ج ٢ س ٩٦‘ مطبوعہ دارالجیل ‘ ریاض ‘ ١٤١٨ ھ)
حضرت عمر (رض) کی اس روایت کو حافظ الہیثمی نے بھی ذکر کیا ہے ‘ وہ اس روایت کو درج کرنیکے بعد لکھتے ہیں : اس حدیث کو امام طبرانی (رح) نے ” معجم صغیر “ اور ” معجم اوسط “ میں روایت کیا ہے اور اس کے ایک راوی کو میں نہیں پہچانتا۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٥٣‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ ١٤٠٢ ھ)
شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ (توسل ص ١٠٦‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت)
امام حاکم نیشا پوری نے بھی اس حدیث کو حضرت عمر (رض) سے روایت کیا ہے اور اس کو صحیح الاسناد لکھا ہے۔ (المستدرک ج ٢ ص ٦١٥ دار الباز للنشر والتوزیع ‘ مکہ مکرمہ)
امام حاکم نیشا پوری نے ایک اور حدیث اس کے مقارب روایت کی ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف یہ وحی کی : اے عیسیٰ (علیہ السلام) ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ ‘ اور جو تمہاری امت میں سے ان کا زمانہ پائے اس کو بھی ان پر ‘ ایمان لانے کا حکم دو ‘ کیونکہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ ہوتے تو میں آدم (علیہ السلام) کو پیدا نہ کرتا اور اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ ہوتے تو جنت اور دوزخ کو پیدا نہ کرتا اور میں نے عرش کو پانی پر پیدا کا تو وہ ہلنے لگا ‘ پھر میں نے اس پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا تو وہ ساکن ہوگیا۔ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور امام بخاری (رح) اور امام مسلم (رح) نے اس کو روایت نہیں کیا۔ (المستدرک ج ٢ ص ٦١٥‘ مطبوعہ دارالباز للنشر والتوزیع ‘ مکہ مکرمہ)
علامہ ذہبی (رح) نے ان دونوں حدیثوں کے راویوں کی صحت سے اختلاف کیا ہے ‘ لیکن شیخ ابن تیمیہ کی تصحیح مقدم ہے۔
علامہ سیوطی (رح) نے امام حاکم ‘ امام بیہقی (رح) ‘ امام طبرانی (رح) امام ابونعیم (رح) اور امام ابن عساکر حوالے سے حضرت عمر (رض) کی روایت کو بیان کیا ہے۔ (خصائص کبری ج ١ ص ٦‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ فیصل آباد)
علامہ قسطلانی (رح) نے بھی حضرت عمر (رض) کی روایت کو امام حاکم (رح) کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ (المواہب اللدنیہ مع الزرقانی ج ١ ص ٤٤ مطبوعہ دار الفکر بیروت ‘ ١٣٩٣ ھ)
علامہ زرقانی (رح) نے اس کی شرح میں امام حاکم (رح) اور ابو الشیخ کے حوالے سے حضرت ابن عباس (رض) کی مذکور الصدر روایت بیان کی ہے اور لکھتے ہیں کہ امام حاکم (رح) اور ابوالشیخ کے حوالے سے حضرت ابن عباس (رض) کی مذکور الصدر روایت بیان کی ہے اور لکھتے ہیں کہ امام حاکم (رح) نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ سبکی (رح) نے ” شفاء القام “ میں اور علامہ بلقینی (رح) نے اپنے فتاوی میں اس تصحیح کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ اس قسم کی بات رائے سے نہیں کہی جاسکتی ‘ اس لیے یہ حدیث حکما مرفوع ہے ‘ علامہ ذہبی (رح) نے کہا : اس کی سند میں عمرو بن اوس ہے ‘ پتا نہیں وہ کون ہے ؟ اور امام دیلمی (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ میرے پاس حضرت جبرائیل آئے اور انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر آپ نہ ہوتے تو میں جنت کو پیدا کرتا نہ نار کو پیدا کرتا۔ (شرح المواہب اللدنیہ ج ١ ص ٤٤‘ مطبوعہ دار الفکر ‘ بیروت ‘ ١٣٩٣ ھ)
ملاعلی قاری نے بھی امام دیلمی (رح) کی اس روایت کو استشہاد کے طور پر پیش کیا ہے۔ (موضوعات کبیر ص ٥٩ مطبوعہ مطبع مجتبائی ‘ دہلی ‘ ١٣١٥ ھ)
حضرت مجدد الف ثانی (رح) نے حقیقت محمدی پر بحث کرتے ہوئے یہ دو حدیثیں لکھی ہیں :
اگر آپ کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا ‘ اگر آپ کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو میں اپنی ربوبیت کو ظاہر نہ کرتا۔ (مکتوبات دفتر سوم ‘ حصہ دوم ‘ مکتوب نمبر ١٢٢)
یہ حدیثیں ہرچند کہ ان الفاظ کے ساتھ کتب حدیث میں مذکور نہیں ہیں لیکن یہ معنی ثابت ہیں ‘ حدیث لولاک پر ” مقالات سعیدی “ میں ہمارا ایک تفصیلی مقالہ ہے۔
ان حادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ مقربین بارگاہ کے وسیلہ سے دعا کرنا ابتداء آفرینش سے مشروع اور معمول ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقام مدح میں اس دعا کا ذکر فرما کر اس کے جواز اور استحسان کو بیان فرمادیا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خود اپنے وسیلہ سے دعا فرمانا :
حافظ الہیثمی (رح) بیان کرتے ہیں :
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی (رض) کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم (رض) فوت ہوگئیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی لحد کھودنے سے فارغ ہوگئے تو آپ ان کی لحد میں لیٹ گئے اور یہ دعا کی : اللہ ہی جلاتا ہے اور وہی مارتا ہے ‘ اور وہی زندہ ہے جسے موت نہیں آئے گی ‘ اے اللہ ! اپنے نبی اور مجھ سے پہلے انبیاء (علیہ السلام) کے وسیلہ سے میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما ‘ ان کو حجت القا فرما ‘ اس کی قبر کو وسیع کر ‘ بلاشبہ تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے ‘ پھر آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور آپ نے ‘ حضرت عباس (رض) نے، اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان کو قبر میں اتارا ‘ اس حدیث کو امام طبرانی (رح) نے ” کبیر “ اور ” اوسط “ میں روایت کیا ہے ‘ اس میں روح بن صلاح نام کا ایک روای ہے ‘ امام حبان اور امام حاکم نے اس کی توثیق کی ہے اور اس میں ضعف ہے ‘ اور اس کے باقی روای حدیث صحیح کے روای ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ٩ ص ٢٥٧‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)
اس حدیث کو علامہ نورالدین سمہودی (رح) نے بھی ذکر کیا ہے۔ (وفاء الوفاء ج ٣ ص ٨٩٩۔ ٨٩٨‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)
شیخ ناصر الدین البانی (رح) نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ (توسل ص ١٠٢‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے دعا کرنا نہ صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کی بلکہ خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی سنت ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خود اپنے وسیلہ سے دعا کرنے کی ہدایت دینا :
انبیاء کرام (علیہم السلام) اور بزرگان دین کے وسیلہ سے دعا کرنے کی اصل یہ حدیث ہے :
حضرت عثمان بن حنیف (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ‘ اس نے عرض کیا : آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ میری آنکھیں ٹھیک کردے آپ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں اس کام کو موخر کر دوں اور یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا اور اگر تم چاہو تو (ابھی) دعا کر دوں ‘ اس نے کہا : آپ دعا کردیجیے آپ نے فرمایا : تم اچھی طرح وضو کرو دو رکعت نماز پڑھو ‘ اس کے بعد یہ دعا کرو :” اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور محمد نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کے وسیلہ سے اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ میری یہ حاجت پوری ہو ‘ اے اللہ ! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میرے لیے شفاعت کرنے والا بنا دے۔ (سنن ابن ماجہ ص ٩٩ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)
اس حدیث کو امام ترمذی (رح) نے بھی روایت کیا ہے۔ (جامع ترمذی ص ٥١٥‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)
اس حدیث کو امام احمد (رح) نے بھی روایت کیا ہے۔ (مسند احمد ج ٤ ص ١٣٨‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)
اس حدیث کو امام حاکم (رح) نے بھی روایت کیا ہے۔ (مستدرک ج ١ ص ٥١٩‘ مطبوعہ دارالباز للنشر والتوزیع ‘ مکہ مکرمہ)
اس حدیث کو امام ابن عساکر (رح) نے بھی روایت کیا ہے۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٣ ص ٣٠٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق)
امام ابن ماجہ (رح) ‘ امام ترمذی (رح) امام احمد (رح) اور امام حاکم (رح) نے اس حدیث کو عمارہ بن خزیمہ بن ثابت کی سند سے روایت کیا ہے اور امام بیہقی (رح) نے اس حدیث کو اس سند کے علاوہ ابوامامہ بن سہل بن حنیف کی سند سے بھی روایت کیا ہے اس روایت میں یہ اضافہ ہے :
قال عثمان : فو اللہ ماتفرقنا ولا طال الحدیث حتی دخل الرجال وکانہ لم یکن بہ ضرقط۔ (امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی (رح) متوفی ٤٥٨ ھ ‘ دلائل النبوۃ ج ٦ ص ١٦٧‘ مطبوعہ دار الکتاب العلمیہ بیروت) حضرت عثمان بن حنیف (رض) نے کہا : بہ خدا ! ابھی ہم اس مجلس سے اٹھے نہیں تھے اور نہ ابھی سلسلہ گفتگو دراز ہوا تھا کہ وہ (نابینا) شخص اس حال میں داخل ہوا کہ اس کی آنکھ میں کوئی تکلیف نہیں تھی۔
امام ابن السنی نے بھی اس حدیث کو ابو امامہ بن سہل بن حنیف کی سند سے روایت کیا ہے ‘ جس میں مذکورہ الصدر اضافہ ہے۔ (عمل الیوم واللیلہ ص ٢٠٢‘ مطبوعہ مجلس الدائرۃ المعارف ‘ دکن ‘ ١٣١٥ ھ)