میدان جنگ اور اخلاقِ حسنہ

صاحبزادہ امداد حسین صاحب

میدان جنگ غیض و غضب‘ فساد و تخریب‘ قتل و غارتگری کے جذبات کی سب سے بڑی آماجگاہ ہوتا ہے۔ چنانچہ تاریخ کی ابتداء سے لے کر آج تک اگر دنیا کی غیر اسلامی جنگوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ میدان جنگ میں دو متحارب گروہ کسی بھی اخلاقی ضابطے کی پابند نہیں ہوتے اور ہر ایک فریق کا مدعا ہوتاہے کہ دوسرے فریق کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیا جائے خواہ اس کے لئے کیسی ہی بربریت کا مظاہرہ کیوں نہ کرنا پڑے۔

چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے 4 سو سال بعد قسطنطنین اعظم نے جب بنام مذہب یہودیوں پر لشکر کشی کی تو ان کا اس طرح قتل عام کیا کہ تاریخ آج بھی اس کے تصور سے لرزہ براندام ہے۔ بابل کا بادشاہ بخت نصر جب بیت المقدس میں فاتحانہ داخل ہوا تو اس نے ایک بھی انسان اور جانور کو زندہ نہیں چھوڑا اور جب اس کے غیض و غضب کی آگ انسانوں اور حیوانوں کے خون سے بھی نہ بجھ سکی تو اس نے دیار قدس کے تمام آثار کو مٹانا شروع کردیا اور ایک مدت تک اپنی جنگی جنون کی تسکین کے لئے وہاں کے کھیتوں اور درختوں کو جلاتا رہا۔

روم اور ایران کی جنگیں جو صدیوں کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں‘ قیصر و کسریٰ کے جنگی جنون کی بھیانک ترین مثالیں ہیں۔ بارہا کسریٰ نے قیصر پر غلبہ حاصل کیا تو ایران کی تباہی و بربادی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور یونہی جب جب کسریٰ نے قیصر پر فتح پائی تو عورتوں‘ بوڑھوں اور بچوں کا قتل عام کیا۔

چنگیز اور ہلاکو کی فوجوں نے جب بعض اسلامی شہروں کو تخت و تاراج کیا تو گھروں میں محصور مسلمانوں نے اپنے ننھے ننھے بچوں کو اس امید پر التجائے رحم کرنے کے لئے بھیجا کہ بے قصور اور معصوم بچوں پر دست ظلم نہ اٹھ سکے گا۔ آخر چنگیزیوں کے گھروں میں بھی تو بچے ہوں گے مگر ظالم فوجی افسروں نے اپنے مسلح فوجیوں کو حکم دیا کہ ان بچوں کو گھوڑوں کے سموں سے روند دیا جائے۔

یہ تو بخت نصر قسطنطین اعظم‘ قیصر و کسریٰ اور چنگیز و ہلاکو کے دور کی مثالیں تھیں لیکن آج کا دور تو ان ادوار گزشتہ سے بھی زیادہ بھیانک نقشہ جنگ پیش کررہا ہے۔ پہلے تو جنگ میدان جنگ میں ہوتی تھی اور دو متحارب فوجیں آمنے سامنے ہوکر نبرد آزما ہوا کرتی تھیں۔ مگر آج کے نقشہ جنگ کو ترتیب دینے والے لوگ سب سے پہلے آبادیوں‘ فیکٹریوں‘ صنعتی اور تعلیمی اداروں ار دیگر اقتصادی اور فلاحی مراکز کو اپنی نگاہ میں رکھتے ہیں تاکہ مقابل قوم کی اقتصادی اعتبار سے کمر ٹوٹ جائے اور وہ بہت دنوں تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔ آج کے انسان نے تخریبی توانائیوں کو بے جان ہتھیاروں کے حوالہ کرکے پوری دنیا کو موت کے دروازہ پر پہنچا دیا ہے اور کسی وقت بھی انسان کی جنگی وحشت کی نمود دنیا کے اوپر ہزاروں ہیروشیما اور ناگا ساکی جنم دے سکتی ہے۔

چنانچہ آج کے دور کی ایک اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ دنیا کے سامنے اسلامی جہاد کی ان اعلیٰ ترین اخلاقی قدروں کو پیش کیا جائے جن کوپیش نظر رکھنے کے بعد حالت جنگ میں بھی انسان جذبات سے مغلوب نہ ہوں بلکہ ان کے سامنے اس کا وہ عظیم نصب العین ہو‘ جس کے لئے انہوں نے جنگ کی ناگزیر راہ اختیار کی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ دنیا کی جنگجو طاقتوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ جنگوں سے فساد فی الارض کے بجائے اصلاح فی الارض اور ظلم کے بجائے ظالم سے مظلوم کے حقوق دلانے کا کام لیں۔

اسلام میدان جنگ میں جانے سے پہلے مجاہدین کا یہ مزاج بنادیتا ہے کہ ان سے ظلم سرزد ہی نہ ہوسکے۔ خواہ وہ کتنے ہی غصہ کی حالت میں کیوں نہ ہوں۔ وہ انہیں اس بات کی ہدایت کرتا ہے کہ حالت غیض و غضب میں بھی انسانی حقوق کو ملحوظ رکھیں۔ اسلام ان کے ذہن میں یہ بٹھا دیتا ہے کہ رحم و کرم عفو و درگزر ہی انسان کوخدا کے قریب کرسکتے ہیں اور ظلم خدا کی رحمت سے دور کردیتا ہے اور چونکہ ایک مومن میدان جنگ میں بھی رضائے الٰہی تلاش کرنے کے لئے نکلتا ہے۔اس لئے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا جس میں اﷲ کی ناراضگی کا خطرہ ہو۔

احادیث مبارکہ میں رسول اﷲﷺ نے باربار رحم اور محبت کی تاکید فرمائی ہے۔

من لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا فلیس منا  (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح )

ترجمہ: جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے

ارحموا من فی الارض رحمکم من فی السمآء(البخاري في الأدب المفرد ، وأبو داود ، والترمذي)

ترجمہ: زمین والوں پر رحم کرو‘ آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔

ان اﷲ رفیق یحب الرفق (رياض الصالحين)

ترجمہ: اﷲ نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

چونکہ اسلام کی اساس ہی رحم و محبت پر رکھی گئی ہے۔ اس لئے اسلام جنگ کی اس وقت اجازت دیتا ہے جبکہ دنیا کی اصلاح اور مظلوم کی دادرسی کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہ رہ جائے‘ چنانچہ قرآن عظیم مقصد جہاد کی وضاحت ان الفاظ میں فرماتا ہے۔

ولولا دفع اﷲ الناس بعضم ببعض لفسدت الارض ولٰکن اﷲذوفضل علی العالمین (البقرہ 251)

ترجمہ: اگر اﷲ بعض کی ظلم کو بعض سے دفع نہ فرماتا تو زمین پر فساد برپا ہوجاتا لیکن اﷲ تمام عالم پر بہت زیادہ فضل فرمانے والا ہے۔

میدان جنگ میں باطل قوتوں کی سرکوبی اور ظلم کا استیصال مظلوم دنیا کیلئے فضل الٰہی ہے اور یہ فضل اس وقت تک فضل رہے گا جب تک کہ مظلوم ظالم سے اپنے حقوق زندگی حاصل کرنے کے بعد انہیں راہوں پر نہ چلنے لگے جن پر چل کر ظالم قوت سے اپنی پاداش کوپہنچی ہے۔

اسلام کی اعلیٰ ترین ہدایات سے ہٹ کر جب بھی جنگ ہوگی‘ ہوسکتا ہے کہ ابتداء اس کا نصب العین مظلوم کی دادرسی ہی رہی ہو لیکن جب فتح حاصل ہوجاتی ہے تو وہ بھی وہی کردار پیش کرتی ہے جو اسکے سامنے ظالم قوم پیش کرتی رہی ہے۔ اس طرح سے ظلم وجبر کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہوجاتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اسکے برعکس اسلام نے سختی سے حکم دیا ہے کہ حالت جنگ میں عدل وانصاف کو برقرار رکھا جائے چنانچہ قرآن عظیم ارشاد فرماتا ہے

لاتعتدوا ان اﷲ لایحب المعتدین(البقرہ 190)

ترجمہ: حد سے نہ گزرو بے شک اﷲ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔

لایجرمنکم شنان قوم علیٰ ان لا تعدلوا اعدلوا ہوا اقرب لتقویٰ ( المائدہ 8)

ترجمہ: کسی قوم سے انتقاماً جذبات تم کو عدل سے باز نہ رکھیں انصاف کرو‘ اس لئے کہ انصاف تقویٰ سے قریب ہے۔

جنگ کے سلسلے میں اسلام نے جو اخلاقی پابندیاں بصورت قانون عائد فرمائی ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔

1۔ اعلان جنگ کے بغیر دشمن پر حملہ نہ کیا جائے۔

2۔ شکست خوردہ دشمن کا تعاقب نہ کیا جائے۔

3۔ ہتھیار ڈالنے والوں پر تلوار نہ اٹھائی جائے۔

4۔ بچوں‘ بوڑھوں‘ عورتوں‘ عبادت گزاروں‘ خانقاہ نشینوں‘ راہبوں اور تارک الدنیا افراد سے تعرض نہ کیاجائے۔

5۔ قیدیوں کے ساتھ نرمی اور محبت کا برتائو کیا جائے۔

6۔ زخمیوں کو ہر طرح کی طبی امداد بہم پہنچائی جائے۔

7۔ زخمی اور بیمار قیدیوں سے کام نہ لیا جائے۔

8۔ سرسبز درختوں کو نہ کاٹا جائے‘ عمارتوں کو نہ ڈھایا جائے۔

9۔ افادہ عام کے وسائل کو غارت نہ کیاجائے۔

اسلام مجاہدین کو حکم دیتا ہے کہ جیسے ہی فساد فی الارض پر قابو پالیا جائے اور مخالف قوتیں سلامتی کے لئے جھک جائیں تو پھر قتال اور جہاد کو باقی رکھنا جائز نہیں ہے چنانچہ قرآن عظیم کا ارشاد عالیٰ ہے

وان حنحو للسلم فاجنح لھاد توکل علی اﷲ (الانفاک 61)

اسلام مجاہدین کے اندر یہ داعیہ پیدا کرتا ہے کہ وہ میدان جنگ میں ہر کام خالصتا لوجہ اﷲ کریں اور جملہ عبادات کی طرح جہاد کو بھی ہر طرح کی غیر اسلامی جذبات کی آمیزش سے پاک رکھیں۔  جنگ میں بھی ان کا دل خشیت الٰہی سے ایک لمحہ کے لئے خالی نہ ہو اور جنگ افراد انسانی کے خلاف نہ کریں‘ بلکہ اس باطل ماحول کے خلاف کریں اور اس باطل نظام کو مٹائیں جس کو لوگوں نے قبول کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میدان جنگ میں بھی مجاہدین کے صبروتحمل کی ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ اسلام کے سپاہی کی تلوار بلند ہے اور قریب ہے کہ مدمقابل کا لاشہ زمین پر تڑپنے لگا کہ اچانک اس نے تلوار جھکالی۔ اسی لمحہ مجاہد فی سبیل اﷲ نے بھی تلوار نیام میں کرلی۔ جذبات پر کنٹرول کی یہ اعلیٰ ترین مثال ہے۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ ایک کافر سے برسر پیکار ہیں۔ متعدد خطرناک واروں کو اپنی ڈھال پر روکنے کے بعد اسے کمرسے اٹھا کر زمین پر ڈال دیتے ہیں اور سینے پر بیٹھ کرسوچتے ہیں کہ اس کا سر تن سے جدا کردیں کہ وہ شدت غیض و غضب میں شیر خدا کے چہرہ منور پرتھوک دیتا ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس سے الگ ہوجاتے ہیں۔ وہ اٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے لیکن تلوار اٹھا کر حملہ کرنے کے بجائے وہ پوچھتا ہے کہ آپ نے مجھے مغلوب کرکے چھوڑ دیا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے تلوار اﷲ کے لئے اٹھائی تھی اور میں نے تمہیں اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے مغلوب کیا تھا لیکن جب تم نے میرے ساتھ گستاخی کی تو مجھے غصہ آگیا میں فورا تمہیں چھوڑ کر الگ ہوگیا۔ اس لئے کہ اس حالت میں اگر میں تمہیں قتل کرتا تو رضائے الٰہی کی تعمیل میں اپنے جذبہ غضب کی تسکین کی خواہش بھی شامل ہوجاتی۔ ایسی حالت میں میرا یہ کام خالصتا لوجہ اﷲ نہ ہوتا۔

فوجی معاہدے ہر دور میں ہوتے رہتے ہیں لیکن ہمیشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ دو حلیف طاقتیں اس میں حق و باطل کا امتیاز کئے بغیر ایک دوسرے کا ساتھ دیتی ہیں۔ ایک ملک خواہ کتنا ہی جارح کیوں نہ ہو‘ کوئی دوسرا ملک اگر اس کاحلیف ہے تو اس کے ظلم اور جارحیت میں بھی اس کا ساتھ دے گا۔ اس کے برعکس اسلام صرف مظلوم کا ساتھ دینے کی اجازت دیتا ہے‘ ظالم کا نہیں۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا۔

انصر اخاک ظالما کان اومظلوما (بخاری )

اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم ہو یا مظلوم

صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اﷲﷺ  ظالم کی مدد کس طرح کی جائے۔ ارشاد فرمایا کہ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کو ظلم سے باز رکھا جائے۔

مندرجہ بالا تصریحات سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ اسلام دفاع‘ اصلاح اور استیصال ظلم کے لئے جنگ کی اجازت دیتا ہے مگر حالت جنگ میں بھی کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنے اندر پوشیدہ بیہمانہ طاقتوں کو جنگ کی غضبناکیوں میں استعمال کرے بلکہ جنگ کے لئے بھی اخلاقی ضابطے متعین فرمادیئے ہیں تاکہ جوش و غضب میں انسان انسانی قدروں کو پامال نہ کرے۔ اے کاش آج کی مہذب دنیا اسلام کے ان بلند ترین اصولوں کو پیش نظر رکھتی۔