شاہد رضا اظہری

اگرکسی تاجر کا مال اُس کو اللہ کی یاد سے غافل کردے تو وہ تاجر فاسق ہوگا اور اُس کامال فسق وفجور کا سبب بنے گا

 

اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی گذارنے کے لیے بہت سارے اسباب پیدافرمائے ہیں ان ہی اسباب میں سے ایک سبب تجارت بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے تجارت میں بھی اپنا فضل تلاش کرنے کا حکم فرمایا ہے یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام ، صحابہ،تابعین اورتبع تابعین نے تجارت کا پیشہ اختیارکیا اور طلب معاش کے لیے تجارت اور صنعت و حرفت میں مشغول رہے۔ اب ہرمسلمان کے لیے لازم ہے کہ جب وہ اسباب زندگی کی تلاش کرے تو اُن اسباب و ذرائع کو دیکھے اور غور و فکر کرے کہ واقعی ان کا پیشہ انبیائے کرام اور صحابہ عظام رضی اللہ عنہم کے بتائے ہوئے دستور اوراصول کے مطابق ہے یا نہیں، اگر وہ تجارت اسلامی قانون کے دائرے میں ہوتو اُس کو اختیار کیا جائے گا اور اگر شریعت اسلامیہ کے دستور کے مخالف ہو تو اُسے چھوڑ دیا جائے گا، کیوںکہ اُن نفوس قدسیہ نے تجارت کر کے بتایا کہ تجارت کیسے کی جاتی ہے اور اُن کے مقاصد کیا ہوتے ہیں ؟

اگربغوردیکھیں تو اُن کے مقاصد کچھ اس طرح ہیں کہ سامان تجارت کے ذریعے اللہ کے بندوں سے ملنا اورا خلاق حسنہ کا مظاہر ہ کرنا،امن و سلامتی کا پیغام پہنچانا ، اسلام کی دعوت دینا ، غربا، مساکین اور فقرا کی پرورش کرنا ۔صحابۂ کرام جومال میدان جنگ میں حاصل کرتے تھے اس کو کمزور و ناتواں پر خرچ کردیتے تھے۔ وہ تجارت مال و دولت جمع کرنے کے لیے نہیں،بلکہ پوری دنیا میں اسلام کی روشنی پھیلانے کے لیے کیا کرتے تھے۔کسی بھی ذی علم سے مشرق وسطیٰ کی تاریخ چھپی نہیں ہوگی کہ جب صحابۂ کرام وہاں داخل ہوئے تو تاجر کی شکل میں داخل ہوئے تھے ،لیکن تجارت کے ساتھ ساتھ وہ اسلام کی دعوت بھی پیش کرتےرہے۔ تجارت کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کاخاص فضل و کرم ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کارشاد ہے:

فَانْتَشِرُو ا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ  (جمعہ۱۰)

ترجمہ: زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو ۔

 حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

كَانَ ذُو المَجَازِ، وَعُكَاظٌ مَتْجَرَ النَّاسِ فِي الجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا جَاءَ الإِسْلاَمُ كَأَنَّهُمْ كَرِهُوا ذٰلِكَ، حَتّٰى نَزَلَتْ: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ۔ (صحیح بخاری،باب التجارۃوالبیع فی اسواق الجاہلیۃ)

ترجمہ:زمانہ جاہلیت میں عکاظ اور ذوالمجاز مشہور بازارِ تجارت تھے۔جب اسلام کا دور آیا تو لوگوں نے اُن بازاروں میں خریدو فروخت کو گناہ تصور کیا۔

اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ

لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوا فَضَلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ۔ البقرہ 198

(اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں ہے۔)

امام مہلب مکی فرماتے ہیں کہ شریف آدمی بازار میں خرید و فروخت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس تجارت اور خرید و فروخت کی وجہ سے اپنے آپ کو اس ذلت سے محفوظ رکھےگا کہ کوئی شخص اس کے اوپر اپنامال و متاع خرچ کرے ۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بندہ اپنے لیے محنت و مشقت کرے،عطیات اور صدقات کے سہارے زندگی گذارنے کے بجائے جد و جہد کرکے اپنی روزی کمائے، تاکہ اس کی کمائی پر اللہ تعالیٰ کا انعام و فضل ہو، اور وہ ایک پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی گذارے ۔

جب انسان بذات خود مسلسل کوشش کرتا ہے تو کسی کے سامنے دست سوال پھیلانے کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی، جہاں تک ہوتا ہے وہ کسی کے سامنے ہاتھ دراز کرنے سے بچتا ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ دنیا سے اپنا حصہ لو ،اپنی کمائی میں سے آخرت کے لیے خرچ کرو، اوردنیا کو بالکل ترک نہ کرو ،ورنہ تمہارے بال بچے دوسروں کے کندھوں پر بوجھ بن جائیں گے ۔

 حضرت داؤد علیہ السلام لوہے کی زرہ بناتے تھے اور اسی سے زندگی کی ضروریات پوری کرتے تھے ۔اس تعلق سے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

إنَّ دَاؤُدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَ لَا یَأکُلُ إلَّا مِنْ عَمَلِ یَدِہٖ ۔(عمدۃ القاری )

ترجمہ:حضرت داؤد علیہ السلام صرف اپنی کمائی سے کھاتے تھے ۔

امام احمد بن حنبل کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سی کمائی پاکیزہ و افضل ہے ؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور ہر جائز چیز کی خرید و فروخت کرنا ۔ ( مسند احمد، ج:۴،ص: ۱۴۱ )

امام ترمذی نقل فرماتے ہیں کہ سچے تاجر قیامت کے دن صدیقین اور شہدا کے ساتھ اٹھائے جائیں گے ۔

مگرکتنے افسوس کی بات ہے کہ جب کوئی عالم محنت کرکے اپنارزق حاصل کرتا ہے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اُسے معاشرے میں حقیر نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ فلاں عالم دین ہو کر کاروبار اور تجارت میں لگا ہوا ہے ۔کاش!ہم اپنے اسلاف کی تاریخ اورکارنامے سے واقف ہوتے تو اس طرح کی کوئی مضحکہ خیز بات نہیں کرتے ۔

حضرت امام طبرانی قدس سرہٗ لکھتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کی جھرمٹ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک اُن کی نظر ایک ایسے تندرست نوجوان پر پڑی جو روزی حاصل کرنے کے لیے محنت کر رہا تھا ۔

 بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کہ افسوس صد افسوس! یہ اس کام میں مشغول ہے، کاش! اس کی طاقت وجوانی راہِ خدا میں صرف ہوتی ۔یہ سن کرحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا مت کہو ، اگر یہ شخص دست سوال دراز کرنے سے بچنے کے لیے اور لوگوں سے بے نیاز ہونے کے لیے محنت کر رہا ہے تو وہ راہ خدا میں ہے اور اگر یہ شخص اپنے ناتواں و کمزور والدین اور بچوں کے لیے محنت ومشقت کر رہاہے تو وہ راہ خدامیں ہے ۔ ہاں! اگر مال کی کثرت، دوسروں پر مفاخرت اور فوقیت کے لیے یہ محنت کر رہا ہے تو وہ راہِ خدا میں نہیں ہے ،بلکہ شیطان کی راہ پر چل رہا ہے ۔ (معجم کبیر )

ایک مرتبہ حضرت زید بن مسلمہ رضی اللہ عنہما اپنی زمین پر شجر کاری کررہے تھے ، اُدھر سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا گذر ہوا تواُنھوں نے فرمایا کہ اے زید! اپنے دین کی حفاظت اور لوگوں سے بے نیاز ہونے کے لیے بہترین کام وہ ہے جس میں تم مشغول ہو ۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 تم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ پرلکڑیوں کا گٹھر باندھ کر لائے تو یہ بات اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی شخص سے سوال کرے ،اوروہ شخص اس کو دے یا منع کردے ۔ (صحیح بخاری )

 اس سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے کہ انسان خود محنت کرے ،لیکن آج ہمارے معاشرے میں لوگ محنت سے بھاگتے ہیں اور مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں،جب کہ حلال رزق کی تلاش و جستجو میں ہمیشہ لگے رہنا چاہیےجیساکہ پرندےصبح کو خالی پیٹ جاتے ہیں اورشام کو پیٹ بھر کے واپس ہوتے ہیں ۔

(تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا)(سنن ترمذی،باب فی التوکل علی اللہ )

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے پرندے بھی رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں ۔خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی حلال روزی کی تلاش میں مختلف ملکوں کا سفر کرتے تھے ،یہاں تک کہ اپنے باغوں اور جنگلوں میں لکڑیاں کاٹنے کا کام بھی انجام دیاکرتے تھے ۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ اگرکسی تاجر کا مال اُس کو اللہ کی یاد سے غافل کردے تو وہ تاجر فاسق ہوگا اور اُس کامال فسق وفجور کا سبب بنے گا ۔

حضرت سفیان بن سعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہے:

حُبُّ الدُّنْیَا اَصْلُ کُلِّ خَطِیْئَۃ۔ (شعب الایمان،باب الزہدوقصرالامل)

ترجمہ: دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔

 حجۃ الاسلام امام غزالی قدس اللہ سرہٗ فرماتے ہیں کہ لوگوں کی تین قسمیں ہے:

۱۔وہ لوگ جو معاش کی مشغولیت میں آخرت کو بھول جاتے ہیں تووہ ہلاکت کے راستے پر گامزن ہیں ۔

۲۔ وہ لوگ جو آخرت کی مشغولیت کے سبب معاش سے بے نیاز ہو جاتے ہیں یہ ان مغلوب الحال لوگوں کا درجہ ہے جو قربِ الٰہی کی انتہائی منزلوں پر فائز ہوتے ہیں ۔

۳۔وہ لوگ جو آخرت کے لیے معاش میں مشغول ہوتے ہیں تو وہ اعتدال کی راہ پر ہیں ،لیکن اعتدال کا یہ درجہ اس وقت تک میسر نہیں ہوسکتا جب تک وہ معاش حاصل کرنے کے لیے شریعت کے بتائے ہوئے اصول پر نہ چلیں ۔

اس تعلق سے ایک بات ذہن میں گردش کر رہی ہے جسے مرشد العلماء مخدوم الصلحاء داعی اسلام حضرت ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی نے ایک موقعہ پرفرمایا :

یہاں جو تجارت کی جاتی ہے وہ اسلام کی نشرواشاعت کے لیے کی جاتی ہے ،اپنی ضروریات کسی اور چیز سے بھی پوری کرسکتے ہیں ، فرمایا:’’عبث یہ کڑی درمیانی نہیں ہے ‘‘بلکہ تمام بندوں تک اسلام پہنچانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔