تعلیم کا اصل مقصد

فخرعالم

 

علم ایک ایسی دولت ہے، جس کو حاصل کر لینے کے بعد انسان خود کو دوسرے ( ناخواندہ) انسان سے قد آور اور برتر محسوس کرتا ہے اور ایک جاہل ،تعلیم یافتہ کے سامنے بونا نظر آتا ہے۔ بشرطیکہ تعلیم یافتہ انسان کے اندر انسان کی صفت انسانیت موجود ہو۔
مگر افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ جس قوم و ملت کی بنیاد اقرا پر رکھی گئی، علم حاصل کرنا جس قوم کے لیے فرض قرار دیا گیااور جس کو یہ ہدایت دی گئی :
’’علم حاصل کرو ماں کی گود سے لے کر قبر تک۔‘‘
آج وہی قوم سماجی، اخلاقی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے تنزلی کے آخری درجے تک جا پہنچی ہے۔ وہ قوم جس کے علم و دانش کے بیش بہا خزانے سے مغرب مالا مال ہو گیا، آج وہی قوم علم و ہنر کے میدان میں آخری صف میں کھڑی ہے اور یہ کہتی نظر آرہی ہے کہ: ’’پدرم سلطان بود۔‘‘
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ’’بے علمی مفلسی کی ماں ہے، جس قوم میں علم و ہنر نہیں رہتا وہاں مفلسی آتی ہے اور جب مفلسی آتی ہے تو ہزاروں جرموں کے سرزد ہونے کا باعث ہوتی ہے۔‘‘
انسان کے پاس علم کی دولت ہے ، اگر وہ چاہے تو ستاروں پر بھی کمندیں ڈال سکتا ہے ۔خود کو آسمان کے تاروں سے بھی زیادہ اونچا اٹھا سکتا ہے اور سورج کی مانند روشن رہ کر پوری دنیا سے جہالت کے اندھیرے کو علم کی روشنی میں تبدیل کر سکتاہے کیونکہ علم ایک ایسی روشنی ہے جس کے آگے سورج، چاند اور ستارے سبھی ماند اور دھندلے نظر آتے ہیں۔
کسی بھی قوم کو ترقی کے نقطۂ عروج تک پہنچنے کے لیے، علم و ہنر، فنون لطیفہ، نظام تجارت اور انفرادیت کے زینے سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ بہر حال! بات علم کی چل رہی تھی، اس لیے گفتگو بھی اسی موضوع پر ہونی چاہیے۔ ایک وہ بھی زمانہ تھا کہ تعلیم یافتہ لوگوں کو دن کے اجالے میں چراغ لے کر ڈھونڈنا پڑتا تھا لیکن آج وقت بدل گیا ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ آزادی کے بعد ہندوستانی معاشرے میں ایک سے بڑھ کر ایک انقلاب رونما ہوچکا ہے۔اس کا نتیجہ آنکھوں کے سامنے ہے کہ آج پرجوش دریا کے ریلے کی مانند ایک جم غفیر کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے ۔اس عام رجحان کے باوجود تعلیم کا معیار گرتاہی جارہا ہے۔ آج ہم تعلیم کو تعلیم نہ سمجھ کر اسے ایک تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور وقت گزاری کامحض ایک سامان بھی۔ آج ہم تعلیم کے اصلی مقصداور اس کی روحانیت کو بھول چکے ہیں اوراس تعلیم کومحض کتابوںتک محدود کرکے رکھ دیا ہے اوریہ سمجھ لیا ہے کہ اس کا مقصد ڈگریاں حاصل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
لیکن اس سے بھی زیادہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جیسے جیسے تعلیم کو فروغ ملتا جا رہا ہے ویسے ویسے یہ معاشرہ بدعنوانی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تعلیم کی حقیقتوں سے فرار کا نتیجہ ہے کہ انسانیت مٹتی چلی گئی اور حیوانیت بڑھتی چلی جا رہی ہے اور آج خود انسان ہی انسانیت کا دشمن ہو گیاہے۔ پہلے شرحِ خواندگی کم تھی، لوگ کم پڑھے لکھے ہوتے تھے تو کثرت میں وحدت پیدا کرلیتے تھے۔ لیکن آج خواندگی کی شرح بھی بڑھ گئی ہے اور ہم تعلیم کے نقطۂ عروج پر بھی پہنچ گئے ہیں پھر بھی وحدت میں کثرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس بات کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں تعلیم کا مخالف ہوں بلکہ میں اکبر الٰہ آبادی کے لفظوں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ:؎

کون کہتا ہے کہ تو علم نہ پڑھ عقل نہ سیکھ
کون کہتا ہے نہ کر حسرت لندن پیدا
بس یہ کہتا ہوں کہ ملت کے معانی کو نہ بھول
راہ قومی کا تو خود ہی نہ ہو رہزن پیدا

کیونکہ تعلیم کا مقصد انسان کے اندر بے حیائی اور بے غیرتی پیدا کرنا نہیں ہے، بلکہ تعلیم کا مقصد ہے انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرنا، ذہن و شعور میں ایک مثبت تبدیلی لانا، قومی کردار کی روح پھونکنا، انسانی اقدار کے دریچے کھولنا، تعصب اور تنگ نظری کو ختم کر کے اخلاقی قدروں کو برقرار رکھتے ہوئے انسان کو تہذیب و تمدن کے بلند و بالا مقام تک پہنچانا ہے۔
در حقیقت تعلیم انسان کو علم کی ان بلندیوں تک پہنچاتی ہے جہاں سے تخلیق علم و دانش کی منزل کی شروعات ہوتی ہے اور وہ ایسا عالم بناتی ہے جو خود کو علم کے لیے وقف کر دے اور علم کے انوار کو تمام کائنات میں اس طرح بکھیر دے کہ ہر خاص و عام اس سے مستفیض ہو سکیں۔ مجموعی طور پر تعلیم انسان کو مہذب بنا کر ترقی کے نقطۂ عروج تک پہنچاتی ہے۔
لیکن کیا ہماری یہ تعلیم واقعی ہمیں مہذب بنا رہی ہے؟ آج خود کو مہذب ،ماڈرن اور تعلیم یافتہ کہنے والا یہ انسان جو قدیم ترین انسان کو غیر مہذب اورجنگلی کہتا ہے، کیا اس نے خود اپنے گریبان میں جھانک کر کبھی یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ واقعی غیر مہذب ہے کون؟ یا پھر ایک مہذب اور غیر مہذب میں فرق کتنا ہے؟ چوں کہ پرانے زمانے میں انسان، کپڑا بُن کر تیار کرنے کا اہل نہیں تھا، جس کے سبب اسے ننگا رہنا پڑتا تھا۔ یہ اس کی بے بسی تھی۔ وہ بے بس اور مجبور ضرور تھا لیکن بے غیرت نہیں تھا۔چنانچہ جب اس کے ضمیر نے اسے ننگا رہنے کی اجازت نہیں دی تو اس نے اپنے جسم کو ڈھکنے کے لیے پیڑوں کے پتوں اور چھالوں کا استعمال کرنے سے پیچھے نہیں ہٹا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ اس نے اپنی سخت محنت اور مسلسل کاوشوں کے زور پر اپنے جسم کو ڈھکنے کے لیے کپڑا تیار کرنے میں عظیم کامیابی حاصل کر لی۔
اب جبکہ ہم ایک مہذب انسان کہلاتے ہیں۔ ہمارے اندر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی ہے کہ ہم کیا ہیں اور ہمارا نصب العین کیا ہے؟ پھر بھی اگر ہمارے اعمال سے انسانی معاشرے کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس پر ہمیں غورکرنا ہوگا۔
دوسری جانب تعلیم کی بات ہوتے ہی عورتوںکی تعلیم وتربیت کا مسئلہ سامنے آتا ہے ۔اس تعلق سے آئے دن کہیں نہ کہیں مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔ریڈیوسے لے کر اخبارات تک اور سیمینارسے لے کر ڈسکشن میز تک۔کہ آخر ہندوستانی (خصوصاََ دیہاتی )عورتیںمردوںکے مقابلے میں اتنی کم پڑھی لکھی کیوں ہے؟تعلیم نسواں کو عام کرنے کے لیے کون سے طریقے اپنائے جائیں تاکہ ان کی زندگی کا معیار بلند ہوسکے۔
کچھ روز پہلے کی بات ہے کہ میں بیٹھاہوا ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھ رہا تھاجس کا موضوع تھا ’’شاکشرتا ابھیان‘‘ یعنی:خواندگی کی مہم۔ اس پروگرام میں ایک محترمہ نے اپنے خیالات کا اظہارکچھ یوں کیاکہ:
’’پردہ پرَتھا،ایک کوُپرتھا اور اس کا انت شکشاسے ہوگا۔جب ہماری بیٹیاں پڑھی لکھی ہوں گی تو اس کا ورودھ کریں گی۔‘‘
مطلب پردے کی رسم ایک بری رسم ہے اور اس کا خاتمہ تعلیم سے ہوگا۔پڑھ لکھ کر عورتیں اس کی مخالفت کریں گی۔
ایک ہندوستانی خاتون کے منھ سے یہ بات سن کر عجیب ناگواری کا احساس ہوا کہ تعلیم تو سماج ومعاشرے سے مناقشت ومخالفت کے خاتمے کا سبب ہے۔ یہ کیسی تعلیم حاصل کریں گی کہ وہ خوداپنی عزت وعفت کے نگہبان پردے کونیلام کردیں گی اور جھٹ زبان پر اکبرالہ آبادی کا یہ شعر جاری ہوگیا کہ:؎

حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی
اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ خانہ تھی

کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ایک عورت نماچراغ اور پردے نمافانوس کو اپنی حفاظت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، جبکہ یہ ایک بجھے ہوئے چراغ کی علامت ہے اور ایک بجھاہوا چراغ نہ تو خود کو روشن رکھ سکتا ہے اور نہ ہی کسی بھی قوم کی فلاح وبہبودکا باعث بن سکتاہے۔
بہر حال ! کچھ بھی ہو۔ ہمیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ عورت نام ہے اس عظیم ہستی کا جو ایک ہی وقت میں ماں بھی ہوتی ہے اور بیٹی بھی۔ بہن بھی ہوتی ہے اور بیوی بھی ۔ ایسی حالت میں وہ تعلیم جو اس عظیم ترین ہستی کو بے پردہ کردے، اس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ اسے تعلیم یافتہ بنانے کے بجائے اسے تعلیم سے دور ہی رکھا جائے، کیوں کہ کسی بھی چیز کا وجود اسی وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک کہ اس کی صفت اس کے اندر موجود ہو۔ ورنہ اس کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔
عورت کا اصل حسن اور زیور اس کی نسوانیت ہے جو عورت اس حسن وزیورسے محروم ہوجائے،وہ کیسے حسین وجمیل رہ سکتی ہے۔ایک ایسی تعلیم جو عورت کو سماجی برائیوں سے دور نہ رکھ سکے اور اسے بازاروبننے کی دعوت دے،بھلا وہ کیسے نفع بخش ہوسکتی ہے؟ اس لیے ہماری طرز تعلیم اس طرح کی ہونی چاہیے کہ جس سے عورت اپنے وجود کو ہمیشہ برقرار رکھ سکے۔ کیوں کہ تعلیم کا مقصد یہی ہے کہ وہ انسان اور معاشرے کی تحسین و تزئین میں معاون ہونہ کہ اس کے اندر فساد و بگاڑ کا سبب بنے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ جدیدیت اچھی چیز نہیں ہے۔ وہ ایک اچھی چیزہے لیکن مغربیت اچھی چیزنہیں۔ ہمیں جدید ترین بننے کی کوشش تو کرنی ہی چاہیے لیکن مغربیت ترین نہیں،کیوں کہ مغرب کی طرف جانے سے سورج بہت جلد غروب ہو جاتا ہے۔
اس لیے مغرب کی تقلید سے اجتناب بہت ضروری ہے ورنہ ہماری صدیوں پرانی ہندوستانی تہذیب، جس پر ہمیں فخر ہے ،اسے یہ مغربی طرز تعلیم کسی اژدہے کے مانند نگل جائے گی اور تب ہم شاید علامہ اقبال کی طرح چھتیس انچ چوڑا سینہ کرکے یہ کہنے کے قابل نہیں رہیں گے کہ:

 یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا