دھرنے ، تقریریں اپنی جگہ ؛ لیکن دین و مسلک کے لیے ایسے افراد بھی ہونے چاہییں جو حکومت سے مذاکرات کے ذریعےاپنی بات منوا سکیں ۔

دیکھیے! آسیہ کوپھانسی کی سزا دی گئی ، کئی سال تک وہ برقرار رہی ؛ لیکن عیسائیوں نے دھرنا نہیں دیا ، محض تقریریں نہیں کیں ، بلکہ استقامت سے مذاکرات کرتے رہے ؛ اور آخرِ کار سزا معاف کروانے میں کامیاب ہوگئے ۔

میں نے ایک عیسائی کی تقریر سنی ، وہ کَہ رہا تھا:

جس طرح ہم نے کوشش کرکے آسیہ بی بی کو رہا کروالیا ، اسی طرح 295 A,B,C میں ترمیم کے لیے بھی کوشاں ہیں ؛ اورامید رکھتے ہیں کہ بہت جلد کامیابی حاصل کرلیں گے ۔

موثر و مسلسل مذاکرات میں بہت طاقت ہے ، لیکن ہم اس سلسلے میں بہت پیچھے ہیں ۔

ہم حکمرانوں کو گالیاں دے لیتے ہیں ، ان پر تنقید کرلیتے ہیں ، لیکن مذاکرات کے ذریعے اپنی بات نہیں منواسکتے !

اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم اپنی بات منوانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، بلکہ وجہ یہ ہے کہ ہمارا اس طرف ذہن ہی نہیں ۔

ہم بہت جلد اُکتا جاتے ہیں ، مخالفت پر اُتر آتے ہیں ، نہ سوچ بچار کرتے ہیں اور نہ دور اندیشی سے کام لیتے ہیں ۔

ہم اس سے بھی ہاتھ نہیں ملاتے جو برسراقتدار ہو ، جب کہ ہمارا مخالف اُسے بھی اپنا گرویدہ بنالیتا ہے جس کے سالوں بعد اقتدار میں آنے کی امید ہو ؛ پھر برسر اقتدار آتے ہی اسے بہ خوبی استعمال کرتاہے ۔

دین و مسلک کی بقا کے لیے ہمیں اس وقت ” تھنک ٹینک “ کی بہت سخت ضرورت ہے!

لقمان شاہد

11/12/18 ء