خواتین کی تعلیم کے اثرات

آفتاب رشک مصباحی

 

علم ایک نور ہے،علم ایک قیمتی موتی ہے، ایک روشن چراغ ہے، ایک سمندر ہے، ایک کھلتا گلاب ہے اور علم ایک گم شدہ حکمت ہے جس سے فکر کو روشنی ملتی ہے۔جو گلے کا ہار بنتا ہے ، تاریکی دور کرتا ہے، جس سے قسم قسم کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں، جس کی خوشبو سے ماحول اور معاشرہ خوشبو دار بن جاتا ہے۔جس پر مومن کا فطری حق ہے۔ اس لیے اس کی تلاش مومن کی فطری ذمہ داری ہے۔

علم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہمارے آخری پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام پر نازل ہونے والی پہلی وحی سے کیا جا سکتا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے نام سے پڑھنے کو کہا گیاہے اور تعلیم کی اہمیت اور اس کی افادیت مسلم ہے جس کے بغیر ہم خدا کو نہیں پہچان سکتے۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے تعلیم کاجو سلسلہ روز اول سے شروع ہوا وہ آج بھی بدستور جاری ہے ۔

حالانکہ مسلمان بھی علم کی جانب کافی حد تک توجہ دے رہے ہیں لیکن مسلم بچیوں اور خواتین میں تعلیم وتربیت کی صورت حال اب بھی بہتر نہیں۔ عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس طور پر کیا جا سکتا ہے کہ ماں کی گود کو بچوں کے حق میں ابتدائی مکتب کا درجہ حاصل ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عورتوں کی تعلیم میں یقینا ملک و ملت اورسماج و معاشرے کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔

خواتین اگر تعلیم یافتہ ہوں گی تو خود بھی اچھے ماحول میں زندگی بسر کریں گی اوراپنے بچوں کو بھی ابتدا سے ہی دینی باتیں یعنی کلمہ، درود، سلام، بڑوں کا ادب اور ان کی تعظیم کے آداب سکھائیں گی۔ یوں بچوں کی تربیت دینی ماحول میں ہوگی۔ نئی نسلوں میں تعلیم عام ہو گی اورعلمی ماحول پروان چڑھے گا۔

عورتوں کی تعلیم وتربیت کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ عورتوں کے مسائل کو ایک عورت کی نظر سے دیکھے گی اور ان مسائل کے حل کی کوشش بھی کرے گی جو خواتین کی نفسیات کے مطابق اور ہم مزاج ہوگا۔ساتھ ہی تعلیم یافتہ خاتون عورتوں کے ان مسائل کا حل بآسانی تلاش سکے گی جس میں عام طور سے مرد کے لیے رکاوٹیں ہو سکتی ہیں۔

ایک تعلیم یافتہ عورت کے ذریعے سے معاشرے میں جو اصلاح کا کام ہو سکتا ہے وہ غیر معمولی ہے ۔ اگر ہم اس کے تمام پہلوؤں پر غور کریں اور جائزہ لیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اگر اس عورت کا شوہر اخلاقی ، دینی اور تعلیمی کمزوریوں میں مبتلا ہے تو ایک تعلیم یافتہ عورت بحسن و خوبی اس کی اصلاح کرسکتی ہے،وہ بھی ایک خوشگوار ماحول میں جو شوہر کی زندگی میں ایک صالح انقلاب پیدا کرے گا۔ اسی طرح وہ عورت اپنے بچوں کی، خواتین رشتہ داروں کی، سہیلیوں کی اور خاندان کی تربیت و اصلاح کے فرائض انجام دے سکتی ہے اور ہر ایک کے نتائج و ثمرات جداگانہ ہوں گے۔ جس سے گھر ،خاندان اور پڑوس کا ماحول، علمی اور دینی ہو جائے گااور یہی چیزیں خاندان اور معاشرے کو خوبصورت اور قابل قدر بنانے کی بنیادیں ہیں ۔ جب بنیاد مضبوط اور مستحکم ہوگی توایسے میں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشرہ نمونہ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

تعلیم یافتہ خاتون اپنے ضروری مشغولیات سے فراغت کے بعد بقیہ اوقات کو یونہی دنیا داری اور مافوق الفطرت قصے ، کہانیوں اور دوسروں کی برائی کرنے میں گذارنے کے بجائے اللہ اور رسول کی باتیں کریں گی۔صحابیات کی حالات زندگی اور ان کے روشن و تابناک کارنامے سنائے گی جس کا اثر خود ان کی زندگی پر بھی ہوگا۔پھر دوسروں کی ذات میں کیڑے نکالنے کی بجائے ذاتی خرابیوں کی جانب توجہ کریں گی اور خود کو ان تمام برائیوں سے پاک و صاف کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی جو کار ثواب بھی ہوگا اور دعوت وتبلیغ کا عمل بھی۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا غرض کہ ہر عمل و حرکت میں اسلامی افکار اور دینی نظریات کی چمک دمک صاف دکھائی دے گی۔

نیز پڑھی لکھی خواتین اپنے معاشرے اور سماج کی بزرگ اور عمر رسیدہ خواتین میں تعلیمی بیدار ی کا جو کھم بھرا کام بڑے ہی آسانی سے انجام دے سکتی ہیں۔ جہاں ایک دوسرے سے پردے وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ نماز روزہ، حج اور زکوۃ کے مسائل سمجھانے کے لیے ہفتہ وارانہ نشستیں بھی کر سکتی ہیں جن کے ذریعے خواتین میں اللہ اور رسول کی عبادت اور محبت کا جذبہ پیدا ہوگا اور معاشرے میں اچھی زندگی گذارنے کا سلیقہ اور ہنربھی آئے گا۔

سماج میں تعلیم نسواں کے جو مسائل ہیں یا جن مشکلات کا سامنا بچیوں کے والدین کو آئے دن کرنا پڑتا ہے۔عورتوں کی تعلیم کے فروغ کے ذریعے ان مشکلات تک بآسانی پہنچا جا سکتا ہے اور ان مسائل کو بحسن و خوبی حل کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے بہتر سے بہتر طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔

مذکورہ بالا خطوط پر اگر طبقہ خواتین میں تعلیم کا آغاز ہو اور اس پر ہمیشگی برتی گئی تو پھر اپنے گھراور پاس پڑوس کے بچوں اور بچیوں میں علمی انقلاب برپا ہو جائے گا، ایک دینی ماحول اور اسلامی فضا بنے گی، صالح معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا جس کا فائدہ براہ راست ملک، ریاست، ضلع ، گاؤں اور محلے کو حاصل ہوگا اور بعد وفات خود خاتون کو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ جہالت کی تاریکی دور ہو گی اورچاروںطرف علم کی روشنی پھیلے گی۔ خدا کی معرفت اور اس کا خوف پیدا ہوگا ۔احکام خداوندی کی بجا آوری کا جذبہ پیدا ہوگا، معاشرے کی زبان پر فلمی گانوں کے بجائے حمد و نعت کے نغمے ہوں گے اور اس طرح سے دھیرے دھیرے سماج میں پھیلی ہوئی برائی ، بے حیائی اور بدعملی کا خاتمہ بآسانی ہو جائے گا۔