حدیث نمبر :243

روایت ہے حضرت عکرمہ سے ۱؎ کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ لوگوں کو ہفتہ میں ایک دفعہ وعظ سناؤ اگر نہ مانو دو دفعہ اگر بہت ہی کرو تو تین بار اس قرآن سے لوگوں کو اکتا نہ دو۲؎ میں تمہیں ایسا ہرگز نہ پاؤں کہ تم کسی قوم پر پہنچو جو اپنی کسی بات میں مشغول ہوں تو وعظ شرع کرکے ان کی بات کاٹ دو کیونکہ تم انہیں اکتا دو گے بلکہ خاموش رہو جب وہ خود عرض کریں تو انہیں حدیث سناؤ کہ وہ شوق رکھتے ہوں۳؎ اورخیال رکھنا کہ دعا میں قافیہ دار عبارت سے بچنا میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو ایسا نہ کرتے ہوئے پایا۴؎ (بخاری)

شرح

۱؎ آپ کا نام عکرمہ کنیت ابو عبداﷲ،بربر کے رہنے والے ہیں،حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ غلام ہیں،مکہ مکرمہ کے فقیہ ترین تابعی ہیں،آپ کی وفات ۱۰۷ھ؁ میں ہوئی اسی۸۰ سال عمر پائی۔(اکمال)عکرمہ ابن ابوجہل اور ہیں جہاں عکرمہ مطلق آتا ہے وہاں آپ ہی مراد ہوتے ہیں۔

۲؎ یعنی روزانہ وعظ نہ سناؤ ہفتہ میں ایک یا دو یا تین بار سناؤ،پھر بھی اتنی دیر وعظ نہ کہو کہ لوگ سیر ہوجائیں بلکہ ان کا شوق باقی ہو کہ ختم کردو۔سبحان اﷲ! کیا نفیس ٹریننگ ہے ان حضرات کی مجلیس گویا نارمل اسکول بھی تھیں جن میں سیکھنا سکھانا سب بتایا جاتا تھا۔اس سے بلا ضرورت چار چار گھنٹے وعظ کہنے والے واعظین عبرت پکڑیں۔خیال رہے کہ یہ ارشاد وہاں ہے جہاں لوگ اکتاتے ہوں لیکن اگر شائق ہیں تو نہ روز وعظ کرنا برا نہ دیر تک،مدرسوں میں تعلیم القرآن کے درس روزانہ ہوتے ہیں۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فجر سے مغرب تک وعظ فرمایا،عالم کو چاہیئے کہ لوگوں کے شوق کا اندازہ رکھے۔

۳؎ یہ دوسری نصیحت ہے جس پر واعظ کو کار بند رہنا چاہیئے کہ جہاں لوگ کلام یا کام میں مشغول ہوں تو انکے کلام و کام بند نہ کردو۔وعظ شروع نہ کردو کہ اس صورت میں اگرچہ وہ کچھ نہ کہیں مگر دل میں تکلیف محسوس کریں گے،نیز اس میں علم اور عالم کی اہانت بھی ہے۔اس سے وہ واعظین عبرت پکڑیں جو تیز لاؤڈسپیکروں پر آدھی آدھی رات تک تقریریں کرکے مزدوروں،بیماروں کو پریشان کرتے ہیں،ساری بستی کو جگاتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ پھرعوام حکومت کو درخواستیں دیتے ہیں جس پر دفعہ۱۴۴ نافذ کی جاتی ہے۔کتنی بڑی ذلت اور علم کی توہین ہے اگر یہ واعظین اسی فرمان پرعمل کرتے تو یہ نوبت کیوں آتی۔حکام اور افسران خود ان سے علم سیکھنے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔

۴؎ یعنی دعاؤں میں بتکلف مقفیٰ عبارت مت استعمال کرو کیونکہ خشوع وخضوع نہ رہے گا دھیان اچھی عبادت بنانے پر رہے گا اس بارگاہ عالی پر عجزو نیاز دیکھاجاتا ہے نہ کہ زبان کی ادبیت۔خیال رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر دعائیں مقفے ہیں،مگر یہ تکلف سے نہیں بنائی گئیں بلکہ اس افصح الفصحا کی زبان مبارک سے بے تکلف اور بے بناوٹ ادا ہوئی ہیں،لہذا یہ حدیث اس کے خلاف نہیں یہاں تکلف کی ممانعت ہے۔شعر

اس کی پیاری فصاحت پہ بے حد درود اس کی دل کش بلاغت پہ لاکھوں سلام

بے بناوٹ ادا پر ہزاروں درود بے تکلف ملاحت پہ لاکھوں سلام

میٹھی میٹھی عبارت پہ شیریں درود اچھی اچھی اشارت پہ لاکھوں سلام