أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ‌ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ  ۖۚ وَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُ‌ؕ قَدۡ بَيَّنَّا لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ

ترجمہ:

اے ایمان والو ! غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے انہیں وہی چیز پسند ہے جس سے تمہیں تکلیف پہنچے، ان کی باتوں سے دشمنی تو ظاہر ہوچکی ہے اور جو کچھ ان کے سینوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی زیادہ بڑا ہے اگر تم عقل سے کام لیتے ہو تو ہم نے تمہارے لیے نشانیوں کو بیان کردیا ہے

تفسیر:

کفار کو راز دار بنانے کی ممانعت اور اس کی حکمتیں : 

” بطانہ “ اس کپڑے کو کہتے ہیں جو انسان نے کپڑوں کے نیچے پہنا ہوتا ہے جو اس کے باطن سے ملا ہوتا ہے جیسے بنیان ‘ اور چونکہ انسان کا گہرا دوست بھی اس کے تمام باطنی اوصاف اور خصائل پر مطلع ہوتا ہے اس لیے اس کو بھی بطانہ کہتے ہیں :

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی فتنہ انگیزیوں ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی عداوت اور مسلمانوں سے ان کی مخالفت کو تفصیل سے بیان فرما دیا تھا ‘ لیکن اس کے باوجود مسلمان ان سے اپنی رضاعت کے رشتوں یا ان کو اپنا حلیف بنانے کی وجہ سے ان کے ساتھ دوستی رکھتے تھے ‘ اور ان کو اپنے راز کی باتیں بتا دیتے تھے ‘ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ وہ کفار کو اپنا راز دار نہ بنائیں ورنہ وہ ان کے رازوں پر مطلع ہو کر مسلمانوں کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے ‘ اس میں مفسریں کا اختلاف ہے کہ اس آیت میں جن کو راز دار بنانے سے منع فرمایا ہے اس کا مصداق کون ہیں ‘ بعض مفسرین نے کہا اس کے مصداق یہود ہیں ‘ بعض نے کہا اس کا مصداق منافقین ہیں اور بعض نے کہا اس کا مصداق تمام کفار ہیں۔

جن مفسرین نے کہا اس سے مراد یہود ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ مسلمان اپنے معالات میں یہودیوں سے مشورہ کرتے تھے ‘ اور ان کے رضاعی رشتوں اور حلیف ہونے کی وجہ سے یہ گمان کرتے تھے کہ ہرچند کہ یہودی دین میں ان کے مخالف ہیں لیکن دنیاوی معاملات اور معاشرتی امور میں ان کے ساتھ خیر خواہی کریں گے۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں :

سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا بعض مسلمان یہودیوں سے میل جول رکھتے تھے کیونکہ وہ ان کے پڑوسی تھے ‘ یا زمانہ جاہلیت میں وہ ان کے حلیف بن چکے تھے ‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور یہودیوں کو راز دار بنانے سے منع فرمایا اور ان کے فتنوں سے ڈرایا۔ (جامع البیان ج ٤ ص ٤٠‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

اور بعض مفسرین نے کہا اس آیت میں منافقین کے ساتھ رازداری کے تعلقات رکھنے سے منع فرمایا کیونکہ مسلمان منافقوں کی ظاہری باتوں سے دھوکا کھا جاتے تھے ‘ مسلمان ان کو ان کے دعوی ایمان میں صادق گمان کرتے تھے اور وہ مسلمانوں سے ان کے راز کی باتیں سنکر ان کے دشمنوں تک پہنچا دیتے تھے۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں :

مجاہد بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مدینہ کے منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے ان سے دوستی رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ قتادہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں منافقین کے ساتھ اخوت اور محبت رکھنے سے منع فرمایا ہے ‘ ربیع نے کہا اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے ساتھ ملنے جلنے سے منع فرمایا ہے۔ (جامع البیان ج ٤ ص ٤٠‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

بعض مفسرین نے کہا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مطلقا مشرکین کے ساتھ محبت رکھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :

(آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تتخذوا عدوی وعدوکم اولیآء تلقون الیھم بالمودۃ وقد کفروا بماجآء کم من الحق “۔ (الممتحنہ : ١)

ترجمہ : اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوستت نہ بناؤ تم انہیں دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ انہوں نے اس حق کے ساتھ کفر کیا ہے جو تمہارے پاس آچکا ہے۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مشرکین کی آگ سے روشنی حاصل نہ کرو اور نہ اپنی انگشتریوں میں کسی عربی کا نام نقش کراؤ۔ حسن بصری نے اس کی تفسیر میں کہا یعنی مشرکین سے اپنے امور میں مشورہ نہ لو اور اپنی انگشتریوں میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام نقش نہ کراؤ (جامع البیان ج ٤ ص ٤٠‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

ان آیات میں مسلمانوں کو کفار کے ساتھ دوستی اور محبت کے تعلق رکھنے سے منع فرمایا ہے وہ کفار کو تحفہ اور ہدایہ وغیرہ دیں اور ایک دوسرے کی دعوتیں کریں اور اپنے دینی اور دنیاوی معاملات میں ان سے مشورہ کریں ‘ کیونکہ کفار مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور ان کے معاملات بگاڑنے میں حتی المقدور کوشش کرتے ہیں ‘ اور ان کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو مصائب اور آلام پہنچیں اور ان کی دنیا اور آخرت تباہ ہوجائے ‘ وہ جب مسلمانوں سے باتیں کرتے ہیں اس وقت بھی ان کی باتوں سے دشمنی ظاہر ہوتی ہے اور ان کے چہرے کبیدہ خاطر ہوتے ہیں ‘ وہ مسلمانوں کی کتاب اور ان کے نبی کے مکذب ہیں اور ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو کینہ اور بغض بھرا ہوا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 118