حدیث نمبر :248

روایت ہے عبداﷲ ابن عمرو سے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں دو مجلسوں پر گزرے ۱؎ تو فرمایا کہ یہ دونوں بھلائی پر ہیں مگر ایک مجلس دوسری سے بہتر ہے۲؎ لیکن یہ لوگ اﷲ سے دعا کررہے ہیں اس کی طرف راغب ہیں اگر چاہے انہیں دے چاہے نہ دے ۳؎ لیکن وہ لوگ فقہ و علم خود سیکھ رہے ہیں ناواقفوں کو سکھا رہے ہیں وہ ہی افضل ہیں ۴؎ میں معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں پھر آپ انہیں میں تشریف فرماہوئے ۵؎(دارمی)

شرح

۱؎ یعنی مسجد نبوی شریف میں صحابہ کی دو جماعتیں دو گوشوں میں تھیں،ایک گوشہ میں ایک جماعت نوافل و تلاوت وغیرہ عبادت کررہی تھی،دوسرے گوشہ میں دوسری جماعت علمی گفتگو اور سیکھےسبق کی تکرار کررہی تھی،حضور نے ان دونوں کو ملاحظہ فرمایا۔

۲؎ یعنی مجلس علم مجلس عبادت سے افضل ہے اسکی وجہ آگے آرہی ہے۔

۳؎ عابدوں کی محنت اپنی ذات کے لیئے ہے جس کی قبولیت اور ثواب یقینی نہیں کیونکہ یہ اﷲ کے کرم پر موقوف ہے اس نے ان چیزوں کا وعدہ نہیں فرمایا۔اس حدیث میں معتزلہ کا کھلا ہوا رد ہے کہ وہ عبادت کا ثواب واجب اور ضروری جانتے ہیں۔خیال رہے کہ آیت کریمہ”ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ”کے معنے یہ ہیں کہ تم مجھے پکارو میں جواب دوں گا یا تم مجھ سے دعا کرو ثواب دوں گا قبولیت دعا کا وعدہ نہیں،لہذا یہ حدیث اس آیت کے خلاف نہیں۔

۴؎ یعنی اپنے لیئے کچھ نہیں مانگتے دین پھیلا رہے ہیں انکی خدمت یقینی قابل قدر ہے۔خیال رہے کہ بے عمل عالم اس اندھے چراغ والے کی طرح ہے جو اپنے چراغ سے خود فائدہ نہ اٹھائے مگر لوگ فائدہ اٹھالیں لیکن غیر مقبول عبادت بالکل ہی بیکار جس سے کسی کو فائدہ نہیں،لہذا حدیث پر کوئی اعتراض نہیں بے عمل عالم ایسا ہی ہے جیسے بیمار طبیب اوروں کا علاج کردے۔

۵؎ سبحان اﷲ!مجلس علم کیسی بابرکت ہے اب بھی سرکار علماء ہی میں تشریف فرما رہتے ہیں انہیں مجلس علم میں ڈھونڈ ھو۔خیال رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ اول درجہ کے عابد بھی ہیں لیکن حضور کی عبادت عملی تعلیم ہے۔لہذا آپ نماز پڑھتے ہوئے بھی معلم ہیں اور حضور کی تشریف آوری کا اصل مقصد تعلیم ہے رب فرماتا ہے:”وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ”۔