حدیث نمبر :252

روایت ہے حضرت عون سے ۱؎ فرماتے ہیں فرمایا حضرت عبداﷲ ابن مسعود نے کہ دو حریص سیر نہیں ہوتے علم والا اور دنیا والا مگر دونوں برابر نہیں ۲؎ علم والا تو اﷲ کی رضا مندی بڑھا لیتا ہے اور دنیا والا سرکشی میں بڑھ جاتا ہے ۳؎ پھرحضرت عبداﷲ نے یہ آیت تلاوت فرمائی خبردار ہو یقینًا انسان سرکشی کرتا ہے اس لیے کہ اپنے کو بے پرواہ جانتا ہے فرماتے ہیں اور دوسرے کے بارے میں فرمایا کہ اﷲ کے بندوں میں اﷲ سے علماء ہی ڈرتے ہیں ۴؎ (دارمی)

شرح

۱؎ آپ تابعی ہیں آپ نے حضرت ابن عباس،ابن مسعود،ابوہریرہ سے روایتیں لیں اور آپ سے امام زہری اور امام ابوحنیفہ نے روایتیں لیں۔

۲؎ مَنْھُوْمٌ نَہُمٌسے ہے بمعنی کھانے کی زیادہ رغبت،یعنی طالب علم اور طالب دنیا حریص دونوں ہیں مگر انجام میں فرق ہے۔

۳؎ صوفیاءکی اصطلاح میں دنیا وہ ہے جو رب سے غافل کرے۔منافقوں کی نماز دنیا تھی اور عثمان غنی کا مال عین دین،وہی یہاں مراد ہے۔لہذا حضرت سلیمان،عثمان غنی اور امام ابوحنیفہ جیسے مالداروں کو دنیادار نہیں کہاجاسکتا،ان کا مال رضائے رحمان کا ذریعہ ہے۔

۴؎ یعنی یہ میں محض اپنے رائے سے نہیں کہتا بلکہ رب تعالٰی نے دنیا دار کے ما ل کو زیادتی طغیان اور عالم کے علم کو زیادتی رحمت کا سبب بتایا۔