پاکیزہ سوچ

غزالی  شاداب

ایک مرتبہ حضرت ابو عثمان نیشاپوری اپنے استاذ حضرت ابوحفص نیشاپوری اورچند احباب کے ہمراہ ایک سفر پر تھے،ایک منزل پر قیام کے درمیان اُن کے استاذ ابو حفص نیشاپوری انھیں نصیحت کرنے لگے۔ اپنے استاذ کی پرخلوص اور حکمت آمیز باتیں سن کرانھیں بڑا سکون حاصل ہوا،اوران کے دل میں نیک کاموں کی رغبت بڑھ گئی۔ابھی حضرت ابوحفص وعظ فرما رہے تھے کہ سامنے کی پہاڑی سے ایک موٹی ہرنی اتر کرآپ کے سامنے کھڑی ہو گئی،ہرنی کو دیکھ کر آپ زاروقطاررونے لگے، یہاں تک کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ کچھ دیر بعدجب آپ پرسکون ہوئے تو حضرت ابوعثمان نیشا پوری نے بڑے ادب سے عرض کیا: حضور !آپ ہمیں بڑا پیارا درس دے رہے تھے جس سے ہمارے دلوں میں رقت اور سوز و گداز پیدا ہو رہا تھا، پھر اچانک اس ہرنی کو دیکھ کررونے کیوں لگے، آخر اس میں کیا حکمت ہے؟

حضرت ابوحفص نے ارشاد فرمایا: ہم سب حالت سفر میں ہیں اور سامان سفر بھی کم ہے۔ جب میں وعظ کہہ رہا تھا تواچانک میرے دل میں یہ خیال آیاکہ کاش! میرے پاس کوئی بکری ہوتی جسے ذبح کر کے میں تم لوگوں کی مہمان نوازی کرتا، ابھی میرے دل میں یہ خیال آیا ہی تھا کہ فوراً میرے سامنے یہ بکری آ گئی ، اب مجھے یہ خوف ستانے لگا ہے کہ کہیں مجھ سے میرا رب ناراض تو نہیں ہو گیا ہے جو میرے نیک اعمال کا بدلہ مجھے دنیا ہی میں دے رہا ہے ،کیونکہ اللہ جس سے ناراض ہوتا ہے اُ سے اس کے اچھے عمل کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیتا ہے۔ جس طرح فرعون جو اللہ کا دشمن تھا مگر اس نے اللہ سے دریائے نیل کے جاری ہونے کی دعا کی ،اللہ نے دنیا میں اس کی خواہش پوری کر دی اور دریائے نیل کو جاری کر دیا۔ آخرت میں ایسے لوگوں کا کچھ بھی حصہ نہیں،چنانچہ مجھے یہ خوف ہونے لگا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مجھے میرے نیک عمل کا بدلہ دنیا ہی میں دیا جا رہا ہواور آخرت میں میرے لیے کچھ باقی نہ رہے اور وہاں میں مفلس و کنگال رہ جاؤں ، بس اسی خیال نے مجھے رلا دیا۔(عیون الحکایات، اول،از عبدالرحمن ابن جوزی)

بچو! اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی سوچ وفکر کتنی پاکیزہ اور اچھی رہی ہے ۔ سامان دنیا اور دنیا اُن کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی، ان کے دل و دماغ میں ہمیشہ یادِ الٰہی رچی بسی رہی اور اس نعمت کے طلب گار رہے جو ہمیشہ کے لیے ہے یعنی آخرت کی نعمت۔اس لیے ہمیں دنیا کے بجائے آخرت سنوارنے کی زیادہ فکر ہونی چاہیے۔