يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالًا كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِهٖ وَالۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيۡكُمۡ رَقِيۡبًا – سورۃ نمبر 4 النساء – آیت نمبر 1
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالًا كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِهٖ وَالۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيۡكُمۡ رَقِيۡبًا
ترجمہ:
اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک شخص (آدم) سے پیدا کیا ‘ اور اسی سے اس کی بیوی (حواء) پیدا کی اور ان دونوں سے بہ کثرت مردوں اور عورتوں کو پھیلادیا اور اللہ سے ڈرو جس کے سبب سے تم ایک دوسرے سوال کرتے ہو ‘ اور رشتہ سے قطع تعلق کرنے ڈرو ‘ بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔
تفسیر:
خالق کی عظمت اور مخلوق پر شفقت :
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے بیویوں ‘ بچوں ‘ یتیموں اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنے ‘ ان پر شفقت کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ یتیموں کے مال کی حفاظت اور وراثت کا حکم دیا ہے۔ طہارت حاصل کرنے ‘ نماز پڑھنے اور مشرکین سے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور ان تمام احکام پر عمل صرف خوف خدا سے ہوسکتا ہے اس لیے اس سورت کے اول ہی میں فرما دیا : اے لوگو اپنے رب سے ڈرو ‘ اس کے بعد فرمایا جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا ‘ اس سورت کے اول ہی میں فرما دیا : اے لوگو، اپنے رب سے ڈرو ‘ اس کے بعد فرمایا جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا ‘ اس میں یہ تنبیہ ہے کہ تم کو عدم سے وجود میں لانے والا ‘ اور تمہارا خالق اور مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور تم اس کے مملوک ہو اور مملوک پر حق ہے کہ وہ اپنے مالک کی اطاعت کرے اس وجہ سے تم بھی اللہ کے احکام کی اطاعت کرو ‘ نیز تمام احکام کا دارو مدار دو چیزوں پر ہے خالق کی عظمت اور مخلوق پر شفقت سو پہلے اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا پھر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان سے قطع تعلق کرنے سے منع فرمایا۔
اسلام میں رنگ ونسل کا امتیاز نہیں ہے۔
اس آیت میں رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنے اور قطع تعلق کرنے سے منع کیا ہے اور اس کی یہ علت بیان فرمائی کہ تم سب لوگ ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کئے گئے ہو کیونکہ انسان سرخ ‘ سفید اور سیاہ رنگ میں مختلف ہیں۔ قد اور قامت میں مختلف ہیں۔ خوب صورت اور بدصورت ہونے اور نسل اور نسب میں مختلف ہیں اس کے باوجود سب انسانوں کی بنیادی شکل و صورت اور وضع قطع ایک ہے اور یہ اس کی دلیل ہے کہ سب ایک ہی شخص سے پیدا کیے گئے ہیں اور سب اس کی اولاد ہیں اس لیے رنگ اور نسل میں اختلاف کے باوجود ان سب کو ایک دوسرے پر رحم کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے کام آنا چاہیے :
امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوسعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارا رب واحد ہے اور باپ واحد ہے اور کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر تقوی کے سوا کسی اور وجہ سے فضیلت حاصل نہیں ہے۔ (المعجم الاوسط ‘ رقم الحدیث : ٧٦٤٦ ج ٥ ص ٢٨٩)
امام احمد بن عمرو بزار متوفی ٢٩٢ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوسعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارا رب واحد ہے اور باپ واحد ہے اور تمہارا دین واحد ہے اور تمہارا باپ آدم ہے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ (کشف الاستار عن زوائد البزار ‘ رقم الحدیث : ٢٠٤٤‘ ج ٢ ص ٤٣٥)
حافظ الہیثمی نے لکھا ہے کہ امام بزار کی سند صحیح ہے (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٨٤)
اس حدیث کو امام احمد متوفی ٢٤١ ھ نے حضرت ابو نضرہ سے روایت کیا ہے۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٤١١)
امام بیہقی متوقی ٤٥٨ ھ نے اس حدیث کو حضرت جابر (رض) سے روایت کیا ہے۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٥١٣٠‘ ج ٤ ص ٢٨٦‘ رقم الحدیث ٥١٣٧‘ ج ص ٢٨٩)
امام ابو یعلی احمد بن علی موصلی متوفی ٣٠٧ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان کے دو غلام تھے ایک حبشی تھا اور دوسرا نبطی۔ وہ آپس میں لڑپڑے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے ایک نے کہا اے حبشی دوسرے نے کہا اے نبطی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایسا نہ کہو تم دونوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ہو۔ (مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٤١٣١‘ ج ٤ ص ١٦٤‘ المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٥٧٣‘ ج ١ ص ٣٤٥ ‘۔ ٣٤٤)
حافظ الہثمی نے لکھا ہے اس حدیث کی سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے لیکن اس کی حدیث حسن ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٨٦)
بعض لوگ کہتے ہیں کی سادات کا نکاح غیر سادات میں جائز نہیں ہے ‘ ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ نظریہ صحیح نہیں ہے۔
رشتہ داروں سے تعلق توڑنے پر وعید اور تعلق جوڑنے پر بشارت :
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت جبیر بن مطعم (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح البخاری۔ رقم الحدیث ٥٩٨٤ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٥٦‘ جامع ترمذی رقم الحدیث : ١٩٠٩)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رحم ‘ رحمن کے آثار میں سے ایک اثر ہے اللہ تعالیٰ نے (رحم سے) فرمایا جو تجھ سے وصل کرے گا میں اس سے واصل کروں گا اور جو تجھ کو قطع کرے گا میں کو قطع کروں گا۔ (صحیح البخاری۔ رقم الحدیث ٥٩٨٨ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٥٤‘ جامع ترمذی رقم الحدیث : ١٩٠٧)
امام احمد بن عمرو بزار متوفی ٢٩٢ ھ روایت کرتے ہیں :
جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر بڑھائی جائے اس کے رزق میں وسعت کی جائے اور اس سے بری موت کو دور کیا جائے وہ اللہ سے ڈرے اور صلہ رحم کرے (رشتہ داروں سے تعلق جوڑے) (کشف الاستار عن زوائد البزار ‘ رقم الحدیث ١٨٧٩، ج ٢ ص ٣٧٤‘ المعجم الاوسط ‘ رقم الحدیث ٥٦٢٢ ج ٦ ص ٢٩١)
امام بزار کی سند صحیح ہے ماسوا عاصم بن ضمرہ کے اور وہ بھی ثقہ ہے مجمع الزوائد ج ٨ ص ١٥٢)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص میں تین خصلتیں ہوں اللہ تعالیٰ اس سے آسان حساب لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کردے گا۔ صحابہ نے کہا اے اللہ کے نبی ! آپ پر ہمارے ماں باپ فدا ہوں وہ کون سی تین خصلتیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو تم کو محروم کرے اس کو دو ‘ جو تم سے قطع تعلق کرے اسے تعلق جوڑو ‘ جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو جب تم یہ کرو گے تو اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ (کشف الاستار عن زوائدالبزار ‘ رقم الحدیث ١٩٠٦‘ المعجم الاوسط ‘ رقم الحدیث ٩١٣ ج ١ ص ٤٩٧)
اس کی سند میں سلیمان ابن داؤد یمامی متروک ہے، (مجمع الزوائد ج ٨ ص ١٥٤ )
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء – آیت نمبر 1