*درس 024: (كِتَابُ الطَّهَارَةِ) (فَصْلٌ سُنَنُ الْوُضُوءِ)*

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَأَمَّا سُنَنُ الْوُضُوءِ فَكَثِيرَةٌ بَعْضُهَا قَبْلَ الْوُضُوءِ، وَبَعْضُهَا فِي ابْتِدَائِهِ، وَبَعْضُهَا فِي أَثْنَائِهِ

وضو کی سنتیں کافی ساری ہیں، ان میں سے کچھ وضو سے پہلے کی سنتیں ہیں، کچھ وضو شروع کرتے وقت کی ہیں اور کچھ وضو کے بعد کی ہیں۔

(أَمَّا) الَّذِي هُوَ قَبْلَ الْوُضُوءِ (فَمِنْهَا) : الِاسْتِنْجَاءُ بِالْأَحْجَارِ، أَوْ مَا يَقُومُ مَقَامَهَا

وضو سے پہلے کی سنتیں:

پہلی سنت پتھر یا اس کے قائم مقام چیز سے استنجاء کرنا ہے۔

وَسَمَّى الْكَرْخِيُّ الِاسْتِنْجَاءَ اسْتِجْمَارًا إذْ هُوَ طَلَبُ الْجَمْرَةِ، وَهِيَ الْحَجَرُ الصَّغِيرُ

امام کرخی نے استنجاء کا نام *استجمار* تجویز کیا ہے جس کا معنی ہے *طلب الجمرۃ* یعنی چھوٹا پتھر طلب کرنا۔

وَالطَّحَاوِيُّ سَمَّاهُ اسْتِطَابَةً، وَهِيَ طَلَبُ الطِّيبِ، وَهُوَ الطَّهَارَةُ

امام طحاوی استنجاء کو *استطابہ* کہتے ہیں جس کا معنی ہے *طلب الطیب* یعنی طہارت حاصل کرنا۔

وَالِاسْتِنْجَاءُ هُوَ طَلَبُ طَهَارَةِ الْقُبُلِ، وَالدُّبُرِ مِنْ النَّجْوِ، وَهُوَ مَا يَخْرُجُ مِنْ الْبَطْنِ

أَوْ مَا يَعْلُو، وَيَرْتَفِعُ مِنْ النَّجْوَةِ، وَهِيَ الْمَكَانُ الْمُرْتَفِعُ.

انسان کے اگلے اور پچھلے مقام سے خارج ہونے والی گندگی (نجو) سے طہارت حاصل کرنے کو استنجاء کہتے ہیں،یا پھر اونچی اور بلند جگہ (نجوۃ) کو کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*وضاحت:*

علامہ کاسانی نے وضو کے فرائض بیان کرنے کے بعد وضو کی سنتوں کا بیان شروع کیا ہے۔

اسلئے کہ وضو میں واجبات نہیں ہیں، ورنہ فرائض کے بعد واجبات کا بیان ہوتا جیسا کہ کتاب الصلوۃ میں اسی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔

*استنجا کیا ہے۔۔؟؟*

دراصل یہ لفظ *نجو/نجوۃ* سے بنا ہے جس کا مطلب ہے اونچی اور بلند جگہ۔

پہلے زمانے میں لوگ قضائے حاجت کے لئے جاتے تو ایسی جگہ تلاش کرتے جو بلند ہو تاکہ اس کے پیچھے چھپ کر قضائے حاجت کرسکیں۔

اسلئے اس عمل کا نام *استنجاء* پڑا یعنی بلند جگہ حاصل کرنا۔۔۔

پھر کثرت استعمال سے *نجو* کنایۃ اس نجاست کو کہنے لگے جو انسان کے اندر سے اگلے یا پیچھے مقام سے خارج ہوتی ہے۔

اور استنجاء اس نجاست سے طہارت حاصل کرنے کو کہا جانے لگا۔

چونکہ یہ طہارت حاصل کرنے کا عمل ہے اسلئے امام طحاوی نے اسے استطابہ کے نام سے تعبیر کیا اور چونکہ اس عمل میں پتھر کے چھوٹے ٹکڑوں کے ذریعے بھی طہارت ہوتی ہے امام کرخی نے اسکا اعتبار کرتے ہوئے استجمار نام رکھا۔

طہارت کیسے حاصل ہو اس پر ہم تفصیلی کلام اگلے دروس میں کریں گے۔

امام کاسانی نے اسے وضو سے پہلے کی سنتوں میں شمار کیا۔۔

سنت دو طرح کی ہوتی ہیں:

*سنت موکدہ*

*سنت غیر موکدہ*

سنت موکدہ وہ جس کے کرنے کی تاکید ہے، ایک آدھ بار چھوڑنے سے گناہ نہیں ہوتا لیکن چھوڑنے کی عادت بنالینے سے گناہگار ہوگا۔

سنت غیر موکدہ وہ جس کی تاکید تو نہیں لیکن ترغیب ہوتی ہے، کرنے پر ثواب ملتا ہے اور چھوڑنے پر گناہ نہیں مگر شریعت چھوڑدینا ناپسند کرتی ہے۔

استنجاء سنت موکدہ ہے لیکن اس وقت جب نجاست درہم کی مقدار سے زیادہ نہ ہو۔

اور درہم کی مقدار سے زیادہ لگی ہو تو استنجاء واجب ہے۔

علامہ شامی نے استنجاء کی پانچ صورتیں بیان کی ہیں:

*پہلی: واجب* حیض، نفاس اور جنابت کا غسل کرتے وقت اگلے پچھلے مقام سے خارج ہونے والی نجاست سے طہارت حاصل کرنا واجب ہے۔

*دوسری: واجب* امام اعظم و امام ابویوسف (شیخین) کے نزدیک جب درہم سے زیادہ جگہ پر نجاست پھیلی ہو تو استنجاء واجب ہے۔

*تیسری: سنت* جب نجاست درہم سے زیادہ جگہ پر نہ پھیلی ہو تو استنجاء سنت (موکدہ) ہے۔

*چوتھی: مستحب* جب صرف پیشاب کیا ہو تو استنجاء مستحب ہے۔

*پانچویں: بدعت* ریح خارج ہونے کے بعد استنجاء بدعت ہے۔

قابل وضاحت بات کہ علامہ کاسانی نے استنجاء کو وضو سے پہلے کی سنتوں میں شمار فرمایا ہے۔

یقینا آپکے نزدیک اسکی توجیح ہوگی۔۔ مگر

فی الحقیقت استنجاء کا تعلق وضو کی سنتوں سے نہیں بلکہ نجاست کے مسائل سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نورالایضاح، البحر الرائق اور رد المحتار وغیرہ معتبر کتابوں میں اسے نجاستوں کے باب میں بیان کیا ہے۔

علامہ بابرتی نے العنایہ شرح الہدایہ نے اچھی وضاحت لکھی ہے جسے وہی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

کیا استنجاء پتھر سے کرنا سنت ہے یا مطلق استنجاء سنت ہے ؟

اسکی وضاحت اگلے درس میں ہوگی۔

نوٹ: ہمیں درس مرتب کرنے میں کثیر وقت لگ جاتا ہے جو کئی گھنٹوں پر مشتمل ہوتا، اسلئے کثیر مطالعے اور مواد کی سلیکشن میں کبھی ایک دو دن کی تاخیر ہوجاتی ہے جس پر معذرت خواہ ہیں۔

ساتھ ہی دروس کو مضبوط اور معتبر بنیادوں پر شئیر کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔

*ابو محمد عارفین القادری*