أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ ۞

ترجمہ:

سنو اللہ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سنو اللہ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گیجو ایمان لائے اور (ہمیشہ) متقی رہے ان کے لیے دنیا کی زندگی میں (بھی) بشارت ہے اور آخرت میں بھی، اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی یہی بہت بڑی کامیابی ہے (یونس : ٦٤، ٦٢) 

ولی ک لغوی معنی

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٦ ھ لکھتے ہیں : ولایت کا معنی قرب ہے خواہ یہ قرب جگہ کے اعتبار سے ہو یا نسبت کے اعتبار سے یا دین کے اعتبار سے یا دوستی کے اعتبار سے یا اعتقاد کے اعتبار سے یا نصرت کے اعتبار سے۔ ولایت کا معنی کسی چیز کا انتظام کرنا بھی ہے، اور ولی بہ معنی فاعل بھی ہے یعنی منتظم اور متصرف اور مفعول کے معنی میں بھی ہے یعنی جو کسی کے زیر انتظام اور زیر تصرف ہو، مومن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ کا ولی ہے (جیسا کہ اس آیت میں ہے، یعنی وہ اللہ کی ذات کی معرفت اور اسکے جمال اور جلال کے نور میں مستغرق رہنے کی وجہ سے اس کے قریب اور مقرب ہوچکے ہیں، اور وہ اپنے قلب اور قالب میں اپنی خواہش سے تصرف نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء سے تصرف کرتے ہیں یا ان کے ہدایت پر قائم رہنے کا اللہ تعالیٰ متولی ہے، اور یا وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کے لیے ہر وقت اپنے اعضاء میں متولی اور متصرف رہتے ہیں) اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ مومنین کا ولی ہے، قرآن مجید میں ہے : اللہ ولی الذین امنوا۔ (البقرۃ : ٢٥٧) (المفردات ج ٢ ص ٦٩٤، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ) امام ابن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اس آیت کے معنی میں لکھتے ہیں : سنو ! اللہ (کے دین) کے مدد گاروں کو آخرت میں اللہ کے عتاب کا خوف نہیں ہوگا، کیونکہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور اس نے ان کو اپنے عتاب سے محفوظ رکھا، اور نہ ان کو دنیا کے فوت ہوجانے کا کوئی غم ہوگا، اولیاء ولی کی جمع ہے اور ولی کا معنی ہے نصیر یعنی مدد کرنے والا۔ (جامع البیان جز ١١ ص ١٧٠، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ) 

ولی کا اصطلاحی معنی

علامہ مسعود بن عمر تفتازانی متوفی ٧٩٣ ھ لکھتے ہیں : ولی وہ مومن کامل ہے جو عارف باللہ ہوتا ہے دائمی عبادت کرتا ہے، ہر قسم کے گناہوں سے مجتنب رہتا ہے، لذات اور شہوات میں انہماک سے گریز کرتا ہے۔ (شرح المقاصد ج ٥ ص ٧٣۔ ٧٢، مطبوعہ منثورات الرضی ایران، ١٤٠٩ ھ) حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں : ولی سے مراد وہ شخص ہے جو عالم باللہ ہو اور اخلاص کے ساتھ دائمی عبادات کرتا ہو۔ (فتح الباری ج ١١ ص ٣٤٢، مطبوعہ لاہور، ١٤٠١ ھ، ایضًا عمدۃ القاری جز ٢٣ ص ٨٩، مطبوعہ مصر)

ملا علی بن سلطان محمد القاری المتوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں : ولی کا لفظ فعیل کے وزن پر بہ معنی مفعول ہے یعنی وہ شخص جس کے کاموں کی اللہ حفاظت کرتا ہو اور ایک لحظہ کے لیے بھی اسے اس کے نفس کے سپرد نہ کرتا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وھو یتولی الصالحین۔ (الاعراف : ١٩٦) اللہ نیک لوگوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے ولی کو مراد (مطلوب) اور مجذوب سالک کہتے ہیں اور یا یہ لفظ فاعل کے معنی میں مبالغہ کا صیغہ ہے اور اس کا معنی یہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت کی مسلسل حفاظت کرتا ہو اور اس کی زندگی میں کبھی گناہ شامل نہ ہو اس معنی کے اعتبار سے ولی مرید (طالب) اور سالک مجذوب ہے، اس میں اختلاف ہے کہ ان میں سے کون افضل ہے اور حقیقت میں ہر مراد مرید ہے اور ہر مرید مراد ہے اور ان میں فرق ابتداء اور انتہاء کے اعتبار سے ہے۔ (مرقاۃ ج ٥ ص ٥٤، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ١٣٩٠ ھ) علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے ولی کی تعریف میں حسب ذیل اقوال نقل کیے ہیں : (١) یہ وہ لوگ ہیں جو تقدیر پر راضی رہتے ہیں اور مصائب پر صبر کرتے ہیں اور نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں۔ (٢) یہ وہ لوگ ہیں جن کے کام ہمیشہ حق کی موافقت میں ہوتے ہیں۔ (٣) یہ وہ لوگ ہیں جو محض اللہ کے لیے لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ (النکت و العیون ج ٢ ص ٤٤١۔ ٤٤٠، مطبوعہ موسستہ الکتب الثقافیہ، بیروت) 

ولی کے مصداق اور ان کے فضائل کے متعلق احادیث اور آثار

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ اولیاء اللہ کون ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں کہ جب یہ دکھائی دیں تو اللہ یاد آجائے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٣٧٢٥، جز ١١ ص ١٧١، مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١٥ ھ) حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے بعض بندوں میں سے ایسے انسان ہیں جو نبی ہیں نہ شہید (لیکن) اللہ کے نزدیک ان کا مرتبہ دیکھ کر انبیاء اور شہداء بھی ان کی تحسین کریں گے۔ صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ ! ہمیں خبر دیں وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں سے محض اللہ کی وجہ سے محبت کرتے ہیں حالانکہ وہ لوگ ان کے رشتہ دار ہوتے ہیں نہ ان کو ان سے کوئی مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے اللہ کی قسم ان کے چہرے منور ہوں گے اور بیشک وہ نور پر فائز ہوں گے (بعض روایات میں ہے وہ نور کے منبر پر ہوں گے) اور جب لوگ خوف زدہ ہوں گے تو انہیں خوف نہیں ہوگا اور جب لوگ غم زدہ ہوں گے تو انہیں غم نہیں ہوگا پھر آپ نے اس آیت کو پڑھا : الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٥٢٨، حلیتہ الاولیاء، ج ١ ص ٣٦، طبع جدید، ج ١ ص ٥ طبع قدیم، شعب الایمان رقم الحدیث : ٨٩٩٨، الترغیب و الترہیب ج ٤ ص ٢١، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٣۔ ٥٠١٢، اتحاف السادۃ المنتقین ج ٦ ص ١٧٥، سنن الترمذی مختصر رقم الحدیث : ٢٣٩٠) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : جس شخص نے میرے ولی سے عداوت رکھی میں اس سے اعلان جنگ کردیتا ہوں، جس چیز سے بھی بندہ میرا تقرب حاصل کرتا ہے اس میں سب سے زیادہ محبوب مجھے وہ عبادت ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے اور میرا بندہ ہمیشہ نوفل سے میرا تقرب کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پیر ہوجاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اس کو ضرور بنا دیتا ہوں اور میں جس کام کو بھی کرنے والا ہوں کسی کام میں اتنا تردد (اتنی تاخیر) نہیں کرتا جتنا تردد (جتنی تاخیر) میں مومن کی روح قبض کرنے میں کرتا ہوں۔ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اسے رنجیدہ کرنے کو ناپسند کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٥٠٢، حلیتہ الاولایء ج ١ ص ١٥، طبع جدید، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٤٧، السنن الکبریٰ للبیہقی ج ٣ ص ٣٤٦، ج ١٠ ص ٢١٩، کتاب الاسماء والصفات للبیہقی ص ٤٩١، صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١٥، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٢٢٦٦، کنزالعمال رقم الحدیث : ٢١٣٢٧) حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ اور ہافظ محمود بن احمد عینی متوفی ٨٥٥ ھ نے لکھا ہے کہ عبدالواحد کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں اس کا دل ہوجاتا ہوں جس سے وہ سوچتا ہے اور میں اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ کلام کرتا ہے۔ (فتح الباری ج ١١ ص ٣٤٤، مطبوعہ لاہور، عمدۃ القاری جز ٢٢ ص ٩٠، مطبوعہ مصر) 

اللہ اپنے محبوب بندے کے کان اور آنکھیں ہوجاتا ہے اس کی توجیہ اللہ تعالیٰ بندہ کے کان اور آنکھیں ہوجاتا ہے اس کی کیا توجیہ ہے ؟ عام طور پر شارحین اور علماء نے یہ کہا ہے کہ بندہ اپنے کانوں سے وہی سنتا ہے جس کے سننے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور پانی آنکھوں سے وہی دیکھتا ہے جس کے دیکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو بندہ کا سننا، اللہ کا سننا اور بندہ کا دیکھنا ہوتا ہے، اس لیے فرمایا : میں اس کے کان ہوجاتا ہوں اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کا محبوب نہیں بنے گا جب تک کہ اس کا سننا، اس کا دیکھنا، اس کا تصرف کرنا اور اس کا چلنا اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نہ ہو اور جب اللہ اس کو اپنا محبوب بنا لے گا تو پھر اس کے کان ہوجاتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہے کا معنی یہ نہیں ہوسکتا۔ اس حدیث کی بہترین توجیہ امام رازی نے کی ہے وہ فرماتے ہیں : بندہ جب عبادت پر دوام کرتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں اور اس کے کان ہوجاتا ہوں پس جب اللہ کا نور جلال اس کے کان ہوجاتا ہے تو وہ قریب اور دور سے سن لیتا ہے اور جب اس کا نور جلال اس کی آنکھ ہوجاتا ہے تو وہ قریب اور بعید کو دیکھ لیتا ہے اور جب اس کا نور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہے تو وہ مشکل اور آسان چیزوں پر اور قریب اور بعید کی چیزوں کے تصرف پر قادر ہوجاتا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٧ ص ٤٣٦، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤١٥ ھ) خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کا ولی فراٌص پر دوام اور نوافل پر پابندی کرنے سے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہوجاتا ہے لیکن بندہ، بندہ ہی رہتا ہے خدا نہیں ہوجاتا جیسے آئینہ میں کسی چیز کا عکس ہو تو آئینہ و چیز نہیں بن جاتا اس کی صورت کا مظہر ہوجاتا ہے بلاتشبیھ تمثیل جب بندہ کامل کی اپنی صفات فنا ہوجاتی ہیں تو وہ اللہ کی صفات کا مظہر ہوجاتا ہے۔ شیخ انور شاہ کشمیری متوفی ١٣٥٢ ھ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فلما اتھانودی من شاطئی الوادالایمن فی البقعۃ المبارکۃ من الشجرۃ ان تموسی انی انا اللہ رب العلمین۔ (القصص : ٣٠) پھر جب موسیٰ آگ کے پاس آئے تو انہیں میدان کے داہنے کنارے سے برکت والے مقام میں ایک درخت سے ندا کی گئی کہ اے موسیٰ بیشک میں ہی اللہ ہوں تمام جہانوں کا پروردگار۔ دکھائی یہ دے رہا تھا کہ درخت کلام کر رہا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اس کلام کی اپنی طرف نسبت فرمائی کیونکہ اللہ جل مجدہ نے اس درخت میں تجلی فرمائی تھی اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لیے وہ درخت واسطہ بن گیا تھا تو جس میں تجلی کی گئی تھی اس نے تجلی کرنے والے کا حکم لے لیا اور ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ تجلی میں صرف صورت نظر آتی ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ضرورت کی وجہ سے آگ میں (یا درخت میں) تجلی فرمائی تھی اور جب تم نے تجلی کا معنی سمجھ لیا تو سنو جب درخت کیلیے یہ جائز ہے کہ اس میں یہ ندا کی جائے کہ بیشک میں اللہ ہوں تو جو نوافل کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے وہ اللہ کی سمع اور بصر کیوں نہیں ہوسکتا وہ ابن آدم جو صورت رحمن پر پیدا کیا گیا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درخت سے کم تو نہیں ہے (یعنی جب شجر موسیٰ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا مظہر ہوسکتا ہے تو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا ولی جو اللہ کا محبوب ہوجائے وہ اللہ کی صفت سمع اور بصر کا مظہر کیوں نہیں ہوسکتا) (فیض الباری ج ٤ ص ٤٢٩، مطبوعہ مجلس علمی ہند ١٣٥٧ ھ) 

اللہ تعالیٰ کے تردد کرنے کی توجیہ اس حدیث کے آخر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں جس کام کو بھی کرنے والا ہوں کسی کام میں اتنا تردد (اتنی تاخیر) نہیں کرتا جتنا تردد (جتنی تاخیر) میں مومن کی روح قبض کرنے میں کرتا ہوں۔ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اس کے رنجیدہ ہونے کو ناپسند کرتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کرتا جب تک کہ وہ اپنی موت پر راضی نہ ہوجائے۔ امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی صفت میں تردد جائز نہیں ہے اور نہ ہی بداء جائز ہے۔ (ابداء کا معنی یہ اللہ کوئی کام کرے پھر اس کو اس کام میں کسی خرابی کا علم ہو تو وہ اس کام کو تبدیل کر دے اس لیے ہم نے یہاں تردد کا معنی تاخیر کیا ہے) لہٰذا اس کی دو تاویلیں ہیں : (١) انسان اپنی زندگی میں کسی بیماری یا کسی آفت کی وجہ سے کئی مرتبہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے شفا کی اور اس مصیبت کو دور کرنے کی دعا کرتا ہے تو اللہ عزوجل اس کو اس بیماری سے شفا عطا فرماتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ہے اور اس کا یہ فعل اس طرح ہوتا ہے جیسے ایک آدمی کو تردد ہوتا ہے وہ پہلے ایک کام کرتا ہے پھر اسے اس کام میں کوئی خرابی نظر آتی ہے اس پر لازماً موت آتی ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے : دعا مصیبت کو ٹال دیتی ہے اس کا بھی یہی معنی ہے۔ ١ ؎

١ ؎ حصرت سلمان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تقدیر کو صرف دعا بدل دیتی ہے اور عمر صرف نیکی سے دعا ہوتی ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٣٩، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٦١٢٨) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عمر صرف خیر سے زیادہ ہوتی ہے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٣١٦) (٢) اس کی دوسری تاویل یہ ہے کہ میں جس کام کو کرنے والا ہوں میں اس کام کے متعلق اپنے رسولوں (فرشتوں) کو کسی صورت میں واپس نہیں کرتا جیسا کہ میں بندہ مومن کی روح قبض کرنے کے معاملہ میں اپنے رسولوں (فرشتوں) کو واپس کرلیتا ہوں جیسا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ملک الموت (علیہما السلام) کے واقعہ میں ہے اور حضرت موسیٰ نے تھپڑ مار کر ملک الموت کی آنکھ نکال دی تھی اور ملک الموت ایک بار واپس لوٹنے کے بعد دوبارہ ان کے پاس گیا تھا اور ان دونوں تاویلوں میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ پر لطف و کرم اور اس پر اس کی شفقت کا اظہار ہے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ملک الموت کے واقعہ کی تفصیل اس حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ملک الموت کو حضرت موسیٰ (علیہما السلام) کی طرف بھیجا گیا جب ان کے پاس ملک الموت آیا تو حضرت موسیٰ نے ان کے تھپڑ مارا۔ (مسلم کی روایت میں ہے : س ان کی آنکھ نکال دی) ملک الموت اپنے رب کے پاس لوٹ گئے اور کہا تو نے مجھے ایسے بندہ کی طرف بھیجا ہے جو مرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ لوٹا دی اور فرمایا : دوبارہ جائو اور ان سے کہو کہ اپنا ہاتھ بیل کی پشت پر رکھ دیں، آپ کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے ہر بال کے بدلہ میں آپ کی عمر میں ایک سال بڑھا دیا جائے گا۔ حضرت موسیٰ نے کہا : اے رب ! پھر کیا ہوگا ؟ فرمایا : پھر موت ہے۔ حضرت موسیٰ نے کہا : پھر اب ہی موت آجائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ ان کو ارض مقدسہ کے اتنے قریب کر دے جتنے قریب ایک پتھر پیھنکینے کا فاصلہ ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ نے کہا، رسول اللہ نے فرمایا : اگر میں اس جگہ ہوتا تو تم کو حضرت موسیٰ کی قبر دکھاتا جو کثیب احمر (سرخ ریت کے ٹیلہ) کے پاس راستہ کے ایک جانب ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٣٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٧٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٠٨٩، مسند احمد ج ٣ ص ٣١٥، کتاب الاسماء و الصفات ص ٤٩٣، ٤٩٢، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت) 

ولی کے فضائل کے متعلق مزید احادیث زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر بن الخطاب (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں گئے وہاں دیکھا کہ حضرت معاذ بن جبل (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک کے پاس بیٹھے ہوئے رو رہے تھے۔ انہوں نے کہا تم کس وجہ سے رو رہے ہو ؟ حضرت معاذ نے کہا میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تھوڑا سا ریا بھی شرک ہے اور بیشک جس شخص نے بھی میرے ولی سے عداوت رکھی اس نے اللہ سے اعلان جنگ کردیا بیشک ان نیک متقی بندوں سے محبت کرتا ہے جو چھپے رہتے ہیں اگر وہ غائب ہوں تو ان کو تلاش نہیں کیا جاتا اور اگر وہ حاضر ہوں تو ان کو بلایا نہیں جاتا، نہ پہچانا جاتا ہے ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں وہ ہر غبار آلود اندھیروں سے نکل آتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٨٩، المعجم الکبیر ج ٢٠ رقم الحدیث : ٣٢١، ص ١٥٤، حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ٣، طبع جدید، اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٢٦٤، ٢٦٣) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے میرے ولی کو ایذاء پہنچائی، اس سے میری جنگ حلال ہوگئی۔ (حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ٢، ص ٣٥، اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٤٧٧) حضرت عمرو بن الجمع (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میرے اولیاء میرے بندے اور میرے محبوب ہیں، یہ میری مخلوق میں سے وہ لوگ ہیں جو میرا ذکر کرتے ہیں اور میں ان کا ذکر کرتا ہوں۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٤٣٠، حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ٥) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ کتنے لوگ ہیں جن کے بال بکھرے ہوئے غبار آلود ہوتے ہیں وہ دو بوسیدہ چادریں پہنے ہوئے ہوتے ہیں ان کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ وہ اگر اللہ پر (کسی کام کے کرنے کی) قسم کھائی تو اللہ ان کی قسم سچی کردے گا ان میں سے براء بن مالک ہیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٥٤، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٩٨٧، مسند احمد ج ٣ ص ١٤٥، المستدرک ج ٣ ص ٣٩١، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٤٤٠١، حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ١٠، کنز العمال رقم الحدیث : ٢٩٢٥، الکامل لا بن عدی ج ٣ ص ٧٥، مطبوعہ ١٤١٨ ھ) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل کو بلا کر فرماتا ہے میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم اس سے محبت کرو، پس اس سے جبرئیل محبت کرتا ہے پھر وہ آسمان میں ندا کرتا ہے کہ اللہ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو، پس آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، پھر زمین میں اس کے لیے مقبولیت رکھ دی جاتی ہے اور جب وہ کسی بندے سے بغض کرتا ہے تو جبرئیل کو بلا کر فرماتا ہے میں فلاں سے بغض رکھتا ہوں تم اس سے بغض رکھو۔ پھر جبرئیل اس سے بغض رکھتے ہیں پھر زمین میں اس کے لیے بغض رکھ دیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٣٧، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٤٨٥، مسند احمد ج ٢ ص ٤١٣، مسند احمد رقم الحدیث : ٩٣٢٣، دارالحدیث قاہرہ، رقم الحدیث : ٧٦١٤، عالم الکتب بیروت، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٦١، کنز العمال رقم الحدیث : ٣٠٧٧٠، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٥٠٠٥) 

ابدال کے متعلق احادیث اور آثار اور ان کی فنی حیثیت شریح بن عبید بیان کرتے ہیں کہ عراق میں حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے سامنے اہل شام کا ذکر کیا گیا۔ لوگوں نے کہا اے امیر المومنین ! ن پر لعنت کیجیے، آپ نے کہا نہیں کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ابدال شام میں ہوں گے اور وہ چالیس مرد ہیں، جب بھی ان میں سے ایک شخص فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے شخص کو اس کا بدل بنا دیتا ہے، ان کی وجہ سے بارش ہوتی ہے ان کی وجہ سے دشمنوں کے خلاف مدد حاصل ہوتی ہے ان کی وجہ سے اہل شام سے عذاب دور کیا جاتا ہے۔ (مسند احمد ج ١ ص ١١٢، طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ٨٩٦، طبع دارالحدیث قاہرہ، اس کے حاشیہ میں شیخ احمد شاکر نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے، حافظ الہیثمی نے لکھا ہے کہ شریح بن عبید کے سوا اس حدیث کے تمام راوی صحیح ہیں اور شریح بھی ثقہ ہیں انہوں نے مقداد سے سماع کیا ہے، مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٦٢۔ حافظ سیوطی متوفی ٩١١ ھ نے لکھا ہے کہ حضرت علی کی حدیث میں بھی ابدال کا ذکر و ارد ہے اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے اور اس حدیث کی اور بھی متعدد سانید ہیں۔ اللالی المصنوعہ ج ٢ ص ٢٨٠، دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٧ ھ، علامہ علی بن محمد الکتانی المتوفی ٩٦٣ ھ نے لکھا ہے : حضرت علی کی حدیث کو امام احمد، امام طبرانی اور حاکم نے دس سے زیادہ سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور بعض سندیں صحیح کی شرط پر ہیں، تنزیہ الشریعہ المرفوعہ ج ٢ ص ٣٠٧، شیخ شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ نے بھی حافظ سیوطی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت علی کی حدیث حسن ہے الفوائد المجموعہ ص ٢٤٧، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٦ ھ، امام شمس الدین سخاوی متوفی ٩٠٢ ھ نے لکھا ہے : حضرت علی کی حدیث کے رجال حدیث صحیح کے راوی ہیں سوا شریح کے اور وہ ثقہ ہے امام الضیاء المقدسی نے کہا حضرت علی کی حدیث کو بغیر رفع کے روایت کیا ہے حضرت علی نے فرمایا : اہل شام کے جم غفیر کو لعنت نہ کرو کیونکہ اس میں ابدال ہیں کیونکہ اس میں ابدال ہیں کیونکہ اس میں ابدال ہیں، مصنف عبدالرزاق ج ١١ ص ٢٤٩، رقم الحدیث : ٢٠٤٥٥، اسی سند کے ساتھ امام بیہقی نے اس کو دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے اور ان کے علاوہ دیگر نے بھی روایت کیا ہے بلکہ حاکم نے مستدرک میں حضرت علی کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، اس حدیث کی تقویت اور ائمہ کے درمیان اس کے مشہور ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے امام شافعی نے ایک شخص کے متعلق فرمایا : ہم اس کو ابدال میں سے شمار کرتے ہیں اور امام بخایر نے ایک اور شخص کے متعلق فرمایا : اس کے ابدال میں سے ہونے کے متعلق کوئی شک نہیں کرتا ان کے علاوہ نقاد، حفاظ اور ائمہ نے متعدد لوگوں کے متعلق فرمایا کہ وہ ابدال میں سے ہیں، المقاصد الہسنہ ص ٣٣، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٠٧ ھ، حدیث کی تقویت کے متعلق یہ تقیر علامہ سخاوی کے حوالے سے علامہ کنانی نے بھی نقل کی ہے تنزیہ الشریعہ ج ٢ ص ٣٠٧، علامہ العجلونی متوفی ١١٦٢ ھ نے بھی حضرت علی کی اس حدیث کی صحت کے متعلق وہی تقریر کی ہے جو علامہ سخاوی نے لکھی ہے کشف الخفاء و مزیل الالباس ج ١ ص ٢٧، مطبوعہ مکتبہ الغزالی دمشق، علامہ زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ نے لکھا ہے کہ شریح بن عبید کے سوا اس حدیث کے تمام راوی صحیح ہیں اور شرح بھی ثقہ ہے اور لکھا ہے کہ امام طبرانی اور حاکم نے اس حدیث کو دس سے زیادہ سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٣٨٦، مطبوعہ مصر، ١٣١١ ھ شیخ احمد شاکر نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، علامہ حمزہ احمد الزین نے مسند احمد رقم : ١٥٦١١ مطبوعہ قاہرہ کے حاشیہ پر لکھا ہے یہ حدیث حسن ہے اور احمد شاکر کا اس کو ضعیف کہنا اس کے تعصب پر مبنی ہے۔ شریح بھی ثقہ ہیں انہوں نے مقداد سے سماع کیا ہے (مجمع الزوائد، ج ١٠، ص ٦٢، مسند احمد رقم : ١٥٦١١) کے حاشیہ پر حمزہ احمد الزین نے لکھا ہے کہ حافظ عراقی، الہیثمی اور زبیدی نے لکھا ہے کہ تمام احادیث ابدال حسن ہیں، احمد شاکر کا اس کو ضعیف کہنا تعصب کی بنا پر ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٣٨٦، حافظ الہیثمی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو امام طبرانی نے عمرو البزار از عنبسہ الخواص سے روایت کیا ہے اور ان دونوں کو میں پہچانتا ہوں اور اس کے بقیہ راوی صحیح ہیں، مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٦٣، یہ حدیث الجامع الصغیر رقم : ٣٠٣٣ میں بھی ہے اور لایزال (ہمیشہ) کی جگہ الابدال کا لفظ ہے۔ حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : زمین ہرگز چالیس ایسے آدمیوں سے خالی نہیں رہے گی جو خلیل الرحمن کی مثل ہیں، ان ہی کی وجہ سے تم پر بارش ہوتی ہے اور ان ہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے، جب ان میں سے ایک شخص فوت ہوجاتا ہے تو اللہ اس کی جگہ دوسرا بدل پیدا فرما دیتا ہے۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : مجمع الزوائد ١٠ ص ٦٣، اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٣٨٥، کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٤٦٠٣، حافظ الہیثمی نے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ مجمع ج ١٠ ص ٦٣، علامہ زبیدی نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٣٨٥) امام ابونعیم احمد بن عبداللہ الاصفہانی المتوفی ٤٣٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل کی مخلوق میں تین سو شخص ایسے ہیں جن کے دل حضرت آدم (علیہ السلام) کے موافق ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں چالیس ایسے شخص ہیں جن کے دل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے موافق ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سات ایسے شخص ہیں جن کے دل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل کے موافق ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں پانچ ایسے شخص ہیں جن کے دل حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے موافق ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں تین ایسے شخص ہیں جن کے دل حضرت میکائیل (علیہ السلام) کے موافق ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں ایک ایسا شخص ہے جس کا دل حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کے موافق ہے جب ایک شخص فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ تین میں سے اس کا بدل لے آتا ہے اور جب تن میں سے کوئی فوت ہوتا ہے تو اللہ تعاکلیٰ پانچ میں سے اس کا بدل لے آتا ہے اور جب پانچ میں سے کوئی فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سات میں سے اس کا بدل لے آتا ہے اور جب سات میں سے کوئی فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس میں سے اس کا بدل لے آتا ہے اور جب چالیس میں سے کوئی فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ تین سو میں سے اس کا بدل لے آتا ہے اور جب تین سو میں سے کوئی فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ عام لوگوں میں سے اس کا کوئی بدل لے آتا ہے، ان ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، بارش برساتا ہے اور فصل اگاتا ہے اور مصائب کو دور کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے پوچھا گیا ان کی وجہ سے کیسے زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو حضرت عبداللہ نے فرمایا : وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ امتوں میں کثرت ہو تو بہت لوگ پیدا ہوتے ہیں اور وہ ظالم اور جابر لوگوں کے خلاف دعا کرتے ہیں تو وہ ہلاک کردیئے جاتے ہیں، وہ بارش کی دعا کرتے ہیں تو بارش ہوتی ہے، وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں تو زمین فصل اگاتی ہے، وہ دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بلائوں اور مصائب کو ٹال دیتا ہے۔ (حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ١٦، ج ١ ص ٤٠، طبع جدید، دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ، کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٤٥٩١)

احادیث ابدال کا معناً متواتر ہونا : محدث ابن جوزی نے حضرت ابن مسعود کی اس حدیث کے متعلق کہا ہے کہ اس کی سند میں مجہول راوی ہیں۔ (الموضوعات ج ٣ ص ١٥١) حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ ابدال کی احادیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ ابدال کی حدیث صحیح ہے چہ جائیکہ اس سے کم ہو اور اگر تم چاہو تو یہ کہہ سکتے ہو کہ یہ حدیث متواتر ہے، میں نے حدیث ابدال کے متعلق مستقل ایک رسالہ لکھا ہے جس میں، میں نے اس حدیث کو تمام سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت عمر سے مروی ہے جس کو امام ابن عساکر نے دو سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور حضرت علی کی حدیث ہے جس کو امام احمد، امام طبرانی اور حاکم وغیرہم نے اس سے زیادہ سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے (ہم اس حدیث کو بیان کرچکے ہیں) اس حدیث کی بعض سندیں حدیث صحیح کی شرط پر ہیں، اور حضرت انس کی حدیث ہے جو چھ سندوں سے مروی ہے، ان میں سے امام طبرانی کی معجم اوسط میں ہے اور اس کو حافظ الہیثمی نے حسن قرار دیا ہے (اس حدیث کو بھی ہم ذکر کرچکے ہیں اور حضرت عبادہ بن الصامت کی حدیث ہے جس کو امام احمد نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے (اس حدیث کو بھی ہم بیان کرچکے ہیں) اور حضرت ابن عباس کی حدیث ہے جس کو امام احمد نے کتاب الزھد میں سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے اور حضرت ابن عمر کی حدیث ہے جس کو امام طبرانی نے معجم کبیر میں تین سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے (وہ حدیث یہ ہے : حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر صدی میں میری امت کے بہترین افراد پانچ سو ہوں گے اور ابدال چالیس ہوں گے، پانچ سو میں کمی ہوگی نہ چالیس میں، جب ان میں سے کوئی شخص فوت ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ پانچ سو میں سے بدل دے گا، اور اس کی جگہ چالیس میں سے داخل کر دے گا، صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! ہمیں ان کے اعمال پر رہنمائی فرمائیں۔ آپ نے فرمایا : جو ان پر ظلم کرے گا وہ اس کو معاف کردیں گے، اور بدی کا جواب نیکی سے دیں گے، اور اللہ نے ان کو جو کچھ دیا ہے اس سے وہ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کریں گے۔ (حلیتہ الاولیاء ج ١ ص ٣٩ رقم الحدیث : ١٥، اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٣٨٦) یہ حدیث حلیہ میں بھی ہے اور حضرت ابن مسعود کی حدیث یہ المعجم الکبیر میں دو سندوں کے ساتھ ہے اور حلیہ میں ہے (اس حدیث کو ہم بیان کرچکے ہیں) اور حضرت عوف بن مالک کی حدیث اس کو امام طبرانی نے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے (وہ حدیث یہ ہے : ابدال اہل شام میں ہیں ان ہی کی وجہ سے لوگوں کی مدد کی جاتی ہے اور ان ہی کی وجہ سے لوگوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٣٨٦) اور حضرت معاذ بن جبل کی حدیث اس کو ویلمی نے روایت کیا ہے (وہ حدیث یہ ہے : حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص میں تین خصلتیں ہوں وہ ان ابدال میں سے ہے جن کی وجہ سے دنیا قائم ہے، وہ تقدیر پر راضی رہتے ہیں، اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں پر صبر کرتے ہیں اور اللہ کی وجہ سے غضب ناک ہوتے ہیں۔ (الفرادوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٢٤٥٧، اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٣٨٧) اور حضرت ابوسعید خدری کی حدیث جس کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے : (وہ حدیث یہ ہے : میری امت کے ابدال جنت میں نماز اور روزے کی وجہ سے داخل نہیں ہوں گے بلکہ وہ جنت میں سخاوت، دلوں کی صفائی اور مسلمانوں کی خیرخواہی کرنے کی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے۔ اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٣٨٥) اور حضرت ابوہریرہ کی حدیث (زمین ایسے تیس آدمیوں سے ہرگز خالی نہیں ہوگی جو حضرت ابراہیم خلیل الرحمن کی مثل ہیں، ان ہی کی وجہ سے لوگ عافیت میں رہتے ہیں اور ان ہی کی وجہ سے ان کو رزق دیا جاتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے ان پر بارش ہوتی ہے، اس حدیث کی سند حسن ہے، اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٣٨٧) اور حضرت ام سلمہ کی حدیث جس کو امام احمد اور امام ابودائود نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے (وہ حدیث یہ ہے : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک خلیفہ کی موت کے وقت اختلاف ہوگا پھر ایک شخص (مہدی) اہل مدینہ سے نکل کر مکہ کی طرف بھاگتا ہوا جائے گا، پھر اہل مکہ اس کو زبردستی امام بنائیں گے اور رکن اور مقام کے دررمیان اس سے بیعت کریں گے، اس کی طرف شام سے ایک لشکر بھیجا جائے گا، اس لشکر کو مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام بیدا میں زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ جب لوگ یہ واقعہ دیکھ لیں گے تو اس شخص کے پاس شام کے ابدال آئیں گے اور اہل عرق کی جماعتیں آئیں گی اور وہ سب اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں گے۔ الحدیث، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٢٨٦) نیز ابدال کے متعلق حسن بصری، قتادہ، خالد بن معدان، ابن الزاہریہ، ابن شوذب اور عطا وغیرہم تابعین اور تبع تابعین سے حدوشمار سے باہر آثار مروی ہیں اور اس کی مثل لامحالہ تواتر معنوی کو پہنچتی ہے جس سے ابدال کا وجود بداہتاً ثابت ہوتا ہے۔ (التعقبات علی الموضوعات، ج ٤٧، مطبوعہ المطبع العلوی لکھنو ہند، ١٣٠٣ ھ)

احادیث ابدال کی مزید توثیق : علامہ محمد بن محمد حسینی زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں : حافظ ابن حجر نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ ابدال کے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض صحیح ہیں اور بعض صحیح نہیں ہیں (یعنی حسن یا ضعیف ہیں) اور رہا قطب تو اس کے متعلق بعض آثار وارد ہیں اور رہا غوث تو صوفیاء کے نزدیک غوث کا جو وصف مشہور ہے وہ ثابت نہیں ہے، حافظ ابن حجر کی عبارت ختم ہوئی، اس سے ظاہر ہوگیا کہ ابن تیمیہ کا یہ زعم باطل ہے کہ ابدال کے متعلق کوئی حدیث صحیح ہے نہ ضعیف، اور یہ احادیث اگر بالفرض سب ضعیف بھی ہوں، تب بھی اگر حدیث ضعیف متعدد طرق اور متعدد صحابہ سے مروی ہو تو حدیث قوی ہوجاتی ہے، حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں یہ حدیث ذکر کی ہے کہ زمین نے اپنے رب سے نبوت منقطع ہونے کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں عنقریب تمہاری پشت پر چالیس صدیق رکھوں گا جب بھی ان میں سے کوئی شخص فوت ہوگا تو اس کی جگہ ایک شخص بدل دیا جائے گا، اسی وجہ سے اس کا نام ابدال ہے پس وہ زمین کی میخ ہیں ان ہی کی وجہ سے زمین قائم ہے اور ان ہی کی وجہ سے بارش ہوتی ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٣٨٧، مطبوعہ مصر)

نجباء اور نقباء وغیرہ کی تعداد : علامہ شمس الدین محمد بن عبدالرحمن السخاوی المتوفی ٩٠٢ ھ لکھتے ہیں : تاریخ بغداد میں الکتانی سے روایت ہے کہ نقباء تین سو ہیں، نجباء ستر ہیں، ابدال چالیس ہیں، اخیار سات ہیں اور عمد چار ہیں اور غوث ایک ہے، اگر ان کی دعا قبول ہوجائے تو فبہا ورنہ غوث دعا کرتا ہے اور وہ اس وقت تک سوال کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کی دعا قبول ہوجاتی ہے۔ الاحیاء میں ہے کہ ہر روز غروب آفتاب سے پہلے ابدال میں سے ایک شخص بیت اللہ کا طواف کرتا ہے اور ہر رات اوتاد میں سے ایک بیت اللہ کا طواف کرتا ہے، میں نے ابدال سے متعلق احادیث کو ایک رسالہ میں جمع کیا ہے اور اس کا نام نظم اللآل فی الکلام علی الابدال رکھا ہے۔ (المقاصد الحسنہ ص ٣٤، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٠٧ ھ)

ولی کی صفات : قرآن مجید نے ولی کی تعریف میں فرمایا ہے : ” جو ایمان لائے، اور (ہمیشہ) متقی رہے “ ایمان سے یہاں مراد ہے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پاس سے جو کچھ لے کر آئے اس کی تصدیق کرنا، اس کا اقرار کرنا، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام پر عمل کرنا اور ہمیشہ متقی رہنے سے مراد ہے کہ وہ تمام صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے ہمیشہ مجتنب رہے اور مکروہ تنزیہی، خلاف سنت اور خلاف اولیٰ سے بچتا رہے، تمام فرائض اور واجبات پر دوام کرے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام سنتوں پر پابندی سے عمل کرے، تمام سنتوں اور آداب پر عامل ہو اور نفلی عبادات کو دوام اور استمرار کے ساتھ ادا کرے اور جب نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو تو اللہ تعالیٰ کی صفات جمنال اور جلال میں ڈوبا ہوا ہو، کبھی خوف سے لرزہ براندام ہو اور گردوپیس سے بیگانہ ہو اور کبھی شوق کی وارفتگی میں خود اپنا بھی ہوش نہ رہے، انہیں عام مسلمانوں کی ٩ بہ نسبت سب ًسے زیادہ اللہ عزوجل کی معرفت ہو اور ان کا دل نور معرفت سے اس طرہ مستغرق ہو کہ جب وہ دیکھیں تو اللہ کی قدرت کے دلائل دیکھیں، اور جب وہ سنیں تو اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق گفتگو کریں، ان کا عمل اللہ جل مجدہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں ہو اور ان کا ہدف اور نصب العین اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا ہو۔ وہ رات کے پچھلے پہر اٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ہوں، قیامت کی ہولناکیوں اور دوزخ کے عذاب کو سامنے تصور کر کے ان کے رونگٹے کھڑتے ہوجاتے ہیں اور آنسوئوں کے وضو سے خوف خدا میں ڈوب کر راتوں کو اٹھ کر نماز پڑھتے ہوں اور گڑگڑاتے ہوئے نالہ نیم شب میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوں، یہ مضمون قرآن مجید کی ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے :

والذین یبیتون لربہم سجدا وقیاما۔ والذین یقولون ربنا اصرف عنا عذاب جہنم ان عذابھا کان عراما۔ انھا ساء ن مستقراومقاما۔ (الفرقان : ٦٦۔ ٦٤) الذین یقولون ربنا اننا امنا واغفرلنا ذنوبنا وقنا عذاب النار۔ الصبرین والصدقین والقنتین والمنفقین والمستغفرین بالاسحار۔ (آل عمران : ١٧۔ ١٦) ان المتقین فی جنت وعیون۔ اخذین ما اتہم ربہم انہم کانوا قبل ذلک محسنین۔ کانوا قلیلا من اللیل ما یہجعون۔ وبالاسحارھم یستغفرون۔ (الذریات : ١٨۔ ١٥) اللہ نزل احسن الحدیث کتبا متشابھا مثانی تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربہم ثم تلین جلودھم وقلوبہم الی ذکر اللہ۔ (الزمر : ٢٣ )

اور جو لوگ اپنے رب کے سجدے اور قیام میں رات گزار دیتے ہیں اور جو یہ دعا کرتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دیے، بیشک اس کا عذاب چمٹنے والی مصیبت ہے بیشک وہ قیام اور سکونت کی بہت بری جگہ ہے۔ وہ متقی لوگ جو دعا کرتے ہیں اے ہمارے رب ! بیشک ہم ایمان لائے تو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا وہ صبر کرنے والے، سچ بولنے والے، اطاعت کرنے والے، (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے والے اور رات کے آخری حصوں میں بخشش طلب کرنے والے بیشک متقی لوگ جنتوں اور چشموں میں ہوں گے ! اپنے رب کی عطا فرمائی ہوئی نعمتیں لے رہے ہوں گے، بیشک وہ اس سے پہلے (دنیا میں) نیک عمل کرنے والے تھے وہ رات کو کم سوتے تھے اور رات کے آخری حصوں میں بخشش طلب کرتے تھے۔ اللہ نے بہترین کلام نازل کیا، جس کی سب باتیں آپس میں ایک جیسی ہیں بار بار دہرائی ہوئی جس سے ان لوگوں کے جسموں پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید کو سننے اور اس کے احکام پر عمل کرنے اور اس کی منع کردہ چیزوں سے باز رہنے میں ان کی یہ صفات ہیں : الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ اولئک الذین ھدہم اللہ۔ (الزمر : ١٨) واما من خاف مقام ربہ ونھہی النفس عن الہوی فان الجنۃ ھی الماوی (النزعت : ٤١۔ ٤٠) والذین یجتنبون کبئر الاثم والفواحش واذا ماغضبوا ھم یغفرون والذین استجابوا لربہم واقاموا الصلوۃ وامرھم شوری بینہم ومما رزقنہم ینفقون (الشوری : ٣٨۔ ٣٧) جو بات کو غور سے سنتے ہیں پھر اس کی عمدہ طریقہ سے پیروی کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی۔ اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس (امارہ) کو اس کی خواہش سے روکا تو بیشک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے۔ اور جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب وہ غضب ناک ہوتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں اور جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم پر لبیک کہی اور نماز قائم رکھی اور ان کے معاملات باہمی مشوروں سے ہوتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا ہے وہ اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں ہم نے ولی کی تعریف میں ذکر کیا ہے کہ ان کو بہت زیادہ خوف خدا ہوتا ہے اور وہ بہت زاہد اور متقی ہوتے ہیں، اب ہم خلفاء راشدین اور امام اعظم سے اس کی چند مثالیں پیش کر رہے ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا زہد وتقویٰ اور خوف خدا : حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا ایک غلام تھا جو آپ کے لیے کما کر لاتا تھا۔ ایک رات وہ آپ کے لیے طعام لے کر آیا، آپ نے اس میں سے کچھ کھالیا۔ غلام نے کہا کیا وجہ ہے کہ آپ ہر رات مجھ سے سوال کرتے تھے کہ یہ کہاں سے لائے ہو، آج آپ نے سوال نہیں کیا۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا : میں بھوک کی شدت کی وجہ سے ایسا نہ کرسکا تم یہ کہاں سے لائے ہو۔ اس نے کہا میں زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا اور میں نے منتر پڑھ کر ان کا علاج کیا تھا، انہوں نے مجھ سے معاوضہ دینے کا وعدہ کیا تھا، آج جب میرا وہاں سے گزر ہوا تو وہاں شادی تھی تو انہوں نے اس میں سے مجھے یہ طعام دیا۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا : افسوس ! تم نے مجھے ہلاک کردیا پھر حضرت ابوبکر اپنے حلق میں ہاتھ ڈال کر قے کرنے لگے اور چونکہ خالی پیٹ میں وہ لقمہ کھایا گیا تھا، وہ نکل نہیں رہا تھا، ان سے کہا گیا کہ بغیر پانی پئے یہ لقمہ نہیں نکلے گا، پھر پانی کا پیالہ منگایا گیا، حضرت ابوبکر پانی پیتے رہے اور اس لقمہ کو نکالنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان سے کہا گیا کہ اللہ آپ پر رحم کرے، آپ نے اس ایک لقمہ کی وجہ سے اتنی مشقت اٹھائی۔ حضرت ابوبکر نے کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جسم کا جو حصہ مال حرام سے بنا ہے وہ دوزخ کا زیادہ مستحق ہے، پس مجھے یہ خوف ہوا کہ میرے جسم کا کوئی حصہ اس لقمہ سے بن جائے گا۔ (صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١١١، مکتبہ نزار مصطفیٰ ریاض، حلیتہ الاولیاء ج ١ ص ٦٥، بیروت، ١٤١٨ ھ، اتحاف السادۃ المتقین ج ٥ ص ٢٢٦، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٦٢٩٦، کنزالعمال رقم الحدیث : ٩٢٥٩) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نئی قمیص پہنی، وہ مجھے بہت اچھی لگ رہی تھی اور میں اس کو دیکھ رہی تھی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : تم کیا دیکھ رہی ہو کہ اللہ تعالیٰ تم پر نظر رحمت نہیں فرما رہا ! پھر فرمایا : کیا تم کو معلوم نہیں کہ جب بندہ دنیا کی زیب وزینت پر خوش ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجاتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اس زینت کو چھوڑ دے۔ حضرت عائشہ نے کہا پھر میں نے اس قمیص کو اتار کر صدقہ کردیا، تب حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : ہوسکتا ہے کہ اب یہ صدقہ تمہارا کفارہ ہوجائے۔ (حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ٨٥، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

حضرت عمر بن الخطاب (رض) کی عبادت، زہد اور خوف خدا : حسن بن ابی الحسن بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے حضر تعمر (رض) کی ایک زوجہ سے (ان کی وفات کے بعد) شادی کی اور ان سے کہا : میں نے مال اور اولاد کی رغبت کی وجہ سے تم سے شادی نہیں کی، میں نے تم سے صرف اس وجہ سے شادی کی ہے کہ تم مجھے بتائو کہ حضرت عمر (رض) رات کو نماز کس طرح پڑھتے تھے۔ انہوں نے کہا حضرت عمر عشاء کی نماز پڑھتے، پھر ہم سے فرماتے کہ میرے سرہانے پانی کا ایک برتن بھر کر رکھ دو ، پھر رات کو بیدار ہوتے اور اس پانی سے وضو کرتے، پھر اللہ عزوجل کا ذکر کرتے رہتے حتیٰ کہ آپ کو اونگھ آجاتی پھر بیدار ہوتے حتیٰ کہ رات کی وہ ساعت آجاتی جس میں آپ قیام کرتے تھے۔ (کتب الزھد للامام احمد ص ١٤٨، منطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٤ ھ) عبداللہ بن عیسیٰ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) کے چہرے پر مسلسل رونے کی وجہ سے دو سیاہ لکیریں پڑگئی تھیں۔ (کتاب الزھد لاحمد ص ١٥٠، صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١٢٨) ابوعثمان بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا میں نے حضرت عمر کو دیکھا وہ رمی جمار (شیطان کو کنکریاں مارنا) کر رہے تھے اور انہوں نے جو چادر پہنی ہوئی تھی اس میں چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے۔ (کتاب الزھد لاحمد ص ١٥١) حسن بیان کرتے ہیں کہ جس وقت حضرت عمر خلیفہ تھے وہ لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اور ان کے تہبند میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ (امام ابن جوزی نے چودہ پیوند کی روایت ذکر کی ہے) (کتاب الزھد لاحمد ص ١٥٤، صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١٢٧) حسن بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : بخدا ! اگر میں چاہوں تو سب سے زیادہ ملائم لباس پہنوں اور سب سے لذیذ کھانا کھائوں اور سب سے اچھی زندگی گزاروں لیکن میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو ان کے کاموں پر ملامت کی اور فرمایا : اذھبتم طیبتکم فی حیاتکم الدنیا واستمتعتم بھا۔ تم اپنی عمدہ لذیذ چیزیں اپنی دنیوی زندگی میں لے چکے اور تم نے ان سے (خوب) فائدہ اٹھا لیا۔ (حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ١١٧، طبع جدید) حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے پیچھے نماز پڑھی تو تین صفوں تک ان کے رونے کی آواز پہنچتی تھی۔ (حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ١٣٤، طبع جدید) دائود بن علی کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب نے فرمایا : اگر فرات کے کنارے ایک بکری بھی ضائع ہوگئی تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ مجھ سے اس کے متعلق سوال کرے گا۔ (حلیتہ الاولاء رقم الحدیث : ١٤١، صفوۃ الصفوۃ ج ص ١٢٨) یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے فرمایا : اگر آسمان سے ایک منادی یہ ندا کرے کہ : اے لوگو ! تم سب کے سب جنت میں داخل ہو جائو، سوا ایک شخص کے، تو مجھے ڈر ہے کہ وہ ایک شخص میں ہوں گا اور اگر منادی یہ ندا کرے کہ : اے لوگو ! تم سب کے سب دوزخ میں داخل ہو جائو سوا ایک شخص کے تو مجھے امید ہے کہ وہ ایک شخص میں ہوں گا (حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ١٤٢) حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر تاحیات لگاتار روزے رکھتے رہے۔ سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر آدھی رات کے وقت نماز پڑھنے کو پسند کرتے تھے۔ (صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١٢٩) عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے کہا : اے عبداللہ بن عمر ! ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کے پاس جائو اور ان سے کہو کہ عمر بن الخطاب آپ کو سلام عرض کرتا ہے اور ان سے یہ سوال کرو کہ میں اپنے صاحبوں (سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر) کے ساتھ دفن کردیا جائوں ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا : میں اپنے لیے اس جگہ دفن ہونے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن آج میں عمر کو اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں جب حضرت ابن عمر واپس آئے تو حضرت عمر نے پوچھا کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا اے امیرالمومنین ! انہوں نے آپ کو اجازت دے دی۔ حضرت عمر نے کہا میرے نزدیک اس جگہ مدفون ہونے سے زیادہ اور کوئی اہم چیز نہیں تھی جب میں فوت ہو جائوں تو میرے جنازہ کو ام المومنین کے پاس لے جانا، ان کو سلام عرض کرنا پھر کہنا عمر بن الخطاب آپ سے اجازت طلب کرتا ہے، اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے دفن کردینا ورنہ مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا پھر فرمایا میرے نزدیک اس خلافت کا ان مسلمانوں سے زیادہ کوئی اور مستحق نہیں جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے وصال کے وقت راضی تھے، پس میرے بعد جس کو بھی خلیفہ بنادیا جائے تم سب اس کے احکام کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا، پھر حضرت عمر نے یہ نام لیے : حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) ۔ اس وقت انصار کا ایک نوجوان آیا اور کہا اے امیرالمومنین ! آپ کو اللہ کی طرف سے خوشخبری ہو، آپ کو معلوم ہے کہ آپ اسلام لانی میں مقدم ہیں، پھر آپ کو خلیفہ بنایا گیا تو آپ نے عدل کیا، پھر ان تمام (خوبیوں) کے بعد آپ کو شہادت ملی۔ آپ نے فرمایا : اے میرے بھتیجے ! کاش کہ یہ سب برابر سرابر ہوجائے، مجھے عذاب نہ ہو نہ ثواب ہو، الحدیث۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : ١٣٩٢) حضرت عبداللہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن الخطاب کو دیکھا، انہوں نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا : کاش ! میں یہ تنکا ہوتا، کاش میں پیدا نہ کیا جاتا، کاش میری ماں مجھے نہ جنتی، کاش میں کچھ بھی نہ ہوتا، کاش میں بھولا بسرا ہوتا۔ (صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١٢٨ )

حضرت عثمان (رض) کی عبادت، زہد اور خوف خدا : حسن بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) جن دنوں خلیفہ تھے وہ مسجد میں سوئے ہوئے تھے اور ان کی پشت پر کنکریوں کے نشان تھے اور یہ کہا جاتا تھا یہ امیرالمومنین ہیں، یہ امیرالمومنین ہیں۔ (کتاب الزھد لاحمد ص ١٥٨، حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ١٧٩، صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١٣٧) عبداللہ بن الرومی کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رات کو اٹھتے اور وضو کے لیے پانی لیتے۔ ان کی اہلیہ نے کہا آپ خادموں کو کیوں نہیں کہتے وہ آپ کے لیے پانی لے آئیں گے۔ حضرت عثمان نے فرمایا : نہیں ان کو نیند میں آرام کرنے دو ۔ (کتاب الزھد لاحمد ص ١٥٨) زہیمہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت عثمان (رض) دن کو روزہ رکھتے تھے اور رات کو قیام کرتے تھے اور رات کے اول حصہ میں صرف تھوڑی دیر سوتے تھے۔ (کتاب الزھد لاحمد ص ١٦١، صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١٣٦) شرجیل بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) لوگوں کو امیروں والا کھانا کھلاتے تھے اور جب گھر میں داخل ہوتے تو سرکہ اور زیتون کے تیل سے روٹی کھاتے تھے۔ (کتاب الزھد لاحمد، ص ١٦٠، صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١٣٧) حضرت عثمان کے آزادشدہ غلام ہانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ ان کی ڈاڑھی آنسوئوں سے بھیگ جاتی۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ جنت اور دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر اس قدر روتے ہیں تو انہوں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : قبر آخرت کی منازل میں سے سب سے پہلی منزل ہے جو اس منزل سے نجات پا گیا اس کے لیے اس کے بعد کی منازل زیادہ آسان ہیں اور اگر اس سے نجات نہیں ہوئی تو بعد کی منازل زیادہ دشوار ہیں۔ (کتاب الزھد لاحمد ص ١٦٠، حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ١٨٦) نافع بیان کرتے ہیں جس دن حضرت عثمان بن عفان (رض) شہید کیے گے اس دن صبح کو حضرت عثمان (رض) نے اپنے اصحاب سے وہ خواب بیان کیا جو اس رات انہوں نے دیکھا تھا۔ انہوں نے کہا میں نے گزشتہ رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی، آپ نے مجھ سے فرمایا : اے عثمان ! آج روزہ ہمارے پاس افطار کرنا، پھر حضرت عثمان نے اس دن روزہ رکھ لیا اور اس دن وہ شہید ہوگئے۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٣ ص ٥٥) کثیر بن الصلت الکندی بیان کرتے ہیں جس دن حضرت عثمان (رض) شہید ہوئے، اس دن وہ سو گئے اور وہ جمعہ کا دن تھا، جب وہ بیدار ہوئے تو انہوں نے کہا : اگر تم یہ نہ کہو کہ عثمان تمنائیں اور آرزوئیں کر رہے ہیں تو میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں، ان کے اصحاب نے کہا اللہ آپ کی حفاظت کرے ہم لوگوں کی طرح باتیں بنانے والے نہیں ہیں۔ حضرت عثمان نے کہا : میں نے خواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی، آپ نے فرمایا : تم اس جمعہ کو ہمارے پاس حاضر ہونے والے ہو۔ (الطبقات ج ٣ ص ٥٥) حضرت عثمان کی زوجہ بنت الفرافصہ نے بیان کیا کہ حضرت عثمان (رض) کو اونگھ آگئی، جب وہ بیدار ہوئے تو انہوں نے کہا : یہ لوگ مجھے شہید کردیں گے۔ میں نے کہا : ہرگز نہیں ! اے امیرالمومنین۔ حضرت عثمان نے کہا : میں نے خواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی زیارت کی ہے، انہوں نے فرمایا : آج رات ہمارے پاس روزہ افطار کرنا۔ (الطبقات ج ٣ ص ٥٥) زبیر بن عبداللہ اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں، جب حضرت عثمان (رض) پر چھریوں سے وار کیے گئے تو انہوں نے کہا بسم اللہ توکلت علی اللہ، خون ان کی ڈاڑھی پر بہہ رہا تھا، قرآن مجید ان کے سامنے رکھا تھا، وہ قرآن مجید پڑھ رہے تھے اور خون قرآن مجید پر بہہ رہا تھا حتیٰ کہ خون اس آیت پر ٹھہر گیا : فسیکفیکہم اللہ وھو السمیع العلیم (البقرہ : ١٣٧) (الطبقات الکبریٰ ج ٣ ص ٥٥۔ ٥٤، کتاب الزھد لاحمد ص ١٥٩۔ ١٥٨) ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان (رض) کو شہید کردیا گیا تو ان کی اہلیہ نے کہا : تم نے ان کو شہید کردیا، وہ ہر رات نماز میں قیام کرتے تھے اور ایک رکعت میں پورا قرآن ختم کردیتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٣ ص ٥٦، حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ١٦٥ )

حضرت علی (رض) کی عبادت، زہد اور خوف خدا : جمیع بن عمر التیمی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے پوچھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے زیادہ کون محبوب تھا ؟ انہوں نے فرمایا : (سیدتنا) فاطمہ (رضی اللہ عنہا) پوچھا گیا اور مردوں میں ؟ فرمایا : ان کے خاوند (حضرت علی (رض) بیشک جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے اور بہت زیادہ راتوں کو قیام کرنے والے تھے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٤٧، مسند ابویعلی رقم الحدیث : ٤٨٥٧، المستدرک ج ٣ ص ١٥٤) مجمع بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) بیت المال کا سارا مال تقسیم کرنے کا حکم دیتے پھر اس میں جھاڑو دے کر اس کو دھو ڈالتے پھر اس میں نماز پڑھتے اور یہ امید رکھتے کہ قیامت کے دن یہ بیت المال گواہی دے گا کہ انہوں نے بیت المال کے مال کو مسلمانوں سے روکا نہیں۔ (کتاب الزھد لاحمد ص ١٦٣، صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١٤٢) حبہ بن جو ین بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس فالودہ لایا گیا اور ان کے سامنے رکھا گیا تو حضرت علی نے فرمایا : تیری بہت اچھی خوشبو ہے اور بہت اچھا رنگ ہے اور بہت اچھا ذائقہ ہے لیکن مجھے یہ ناپسند ہے کہ مجھے تجھے کھانے کی عادت پڑجائے۔ (کتاب الزھد لاحمد ص ١٦٥) حسن بن علی (رض) نے حضرت علی کی شہادت کے بعد خطبہ دیا کہ تمہارے پاس سے ایک امین شخص چلا گیا، پہلوں میں اس جیسا کوئی امین تھا اور نہ بعد میں کوئی ان جیسا ہوگا، بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو جہاد کے لیے بھیجتے تھے اور ان کو جھنڈا عطا فرماتے اور وہ ہمیشہ فتح و کامرانی کے ساتھ لوٹتے تھے۔ انہوں نے اپنے ترکہ میں کوئی سونا چاندی نہیں چھوڑا سوا سات سو درہم کے جو انہوں نے مستحقین میں تقسیم کرنے کے لیے رکھے ہوئے تھے اور ان کے اہل کے لیے کوئی خادم نہیں تھا۔ (کتاب الزھد لاحمد ص ١٦٦) یزید بن محجن بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت علی (رض) کے ساتھ تھے، آپ نے اپنی تلوار منگا کر اس کو میان سے نکالا پھر فرمایا : اس تلوار کو کون خریدے گا، بخدا اگر میرے پاس لباس کو خریدنے کے لیے پیسے ہوتے تو میں اس کو نہ فروخت کرتا۔ (کتاب الزھد لاحمد ص ١٦٤، حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ٢٥٨، الریاض النضرۃ ج ٣ ص ٢٢٠) ہارون بن عنزہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت علی بن ابی طالب کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ ایک چادر میں کپکپا رہے تھے۔ میں نے کہا اے امیرالمومنین ! اللہ نے آپ کے لیے اور آپ کے اہل کے لیے بھی اس بیت المال میں حصہ رکھا ہے اور آپ نے اپنا یہ حال بنا رکھا ہے ! حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں تمہارے مال میں سے کچھ کم نہیں کرنا چاہتا، میرے پاس صرف میری یہ چادر ہے جو میں مدینہ سے لایا تھا۔ (صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١٤٣ )

حضرت علی (رض) کی فضیلت میں ایک روایت پر علامہ قرطبی کا تبصرہ : ابوجعفر احمد المشہور بالمحب الطبری المتوفی ٦٩٤ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویسیماواسیرا۔ (الدھر : ٨) اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور اسیر (قیدی) کو کھانا کھلاتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : حضرت علی (رض) نے جو کی کچھ مقدار کے عوض ایک رات صبح تک ایک باغ میں پانی دیا۔ صبح کو انہوں نے جو وصول کیا اور گھر جا کر ان میں سے تہائی جو کو پیسا تاکہ اس سے کھانا کھائیں، جب حریرہ پک گیا تو ایک مسکین نے آ کر سوال کیا، انہوں نے وہ کھانا اس کو کھلا دیا پھر دوسرے ہائی جو کا کھانا یار کیا تو ایک یتیم نے آ کر سوال کیا تو انہوں نے وہ کھانا اس کو کھلا دیا، پھر آخری تہائی حصہ کے جو سے کھانا تیار کیا تو ایک قیدی نے آ کر سوال کیا اور خود تمام اہل و عیال سمیت بھوکے رہے تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بعض روایات میں ہے یہ معاملہ تین دن تک ہوتا رہا اور حضرت علی اور ان کے اہل و عیال تین دن تک بھوکے رہے، علامہ قرطبی نے اسی طرح یہ روایت بیان کی ہے۔ ) (ریاض النضرۃ ج ٣ ص ٢٠٩۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت) حضرت علی (رض) کے فضائل میں اس روایت کو بالعموم بیان کیا جاتا ہے لیکن علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ نے اس روایت کو رد کردیا ہے، وہ لکھتے ہیں : حکیم ترمذی نے کہا ہے کہ کسی جاہل نے اس روایت کو گھڑ لیا ہے، حالانکہ یہ روایت احادیث متواترہ کے خلاف ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بہترین صدقہ وہ ہے جو انسان اپنی خوش حالی اور تونتری کے وقت دے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٢٦) نیز آپ نے فرمایا : پہلے اپنے نفس سے ابتدا کرو، (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٧١٦) اور آپ نے فرمایا : اپنے اہل و عیال کو کھلائو (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٢٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٣٤) اور اللہ تعالیٰ نے شوہروں پر ان کی بیویوں اور ان کے بچوں کو کھانا کھلانا فرض کردیا ہے۔ وعلی المولود لہ رزقہن وکسوتہن بالمعروف۔ (البقرہ : ٢٣٣) اور جس کا بچہ ہے اس پر ان (دودھ پلانے والی مائوں) کا کھانا اور کپڑا دستور کے بمطابق دینا فرض ہے۔ ) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی شخص کے گناہ کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اس کو ضائع کر دے جس کو وہ روزی دیتا ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٦٩٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٤٣، مسند احمد رقم الحدیث : ٦٥٠٥، دارالفکر، مسند احمد رقم الحدیث : ٦٤٩٥، دارالحدیث قاہرہ و عالم الکتب، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٨١٠، مسند حمیدی رقم الحدیث : ٥٩٩، المستدرک ج ١ ص ٤١٥، اس حدیث کی سند صحیح ہے، احمد شاکر) اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جس کی روزی اس پر لازم ہے وہ اس کی روزی ضائع کر دے۔ کیا کوئی عاقل یہ گمان کرسکتا ہے کہ حضرت علی (رض) اس حکم سے غافل تھے، حتیٰ کہ وہ اور ان کے اہل و عیال تین دن تک بھوکے رہے، اگر مان لیا جائے کہ انہوں نے اپنے نفس پر یہ ایثار کیا تھا تو تین دن تک اپنی اہلیہ کو بھوکا رکھنے کا کیا جواز تھا، اور اگر اہلیہ کا بھی ایثار مان لیا جائے تو تین دن تک پانچ اور چھ سال کے کمسن بچوں کو بھوکا رکھنے کا کیا جواز تھا اور اگر ایک دن کی روایت مان لی جائے تو جن کی روزی حضرت علی (رض) پر لازم تھی ان کو بھی ایک دن بھوکا رکھنا حضرت علی ایسے کامل متقی سے کب متصور ہوسکتا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٩ ص ١٢٠۔ ١١٩، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

بقیہ۔۔۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 62