*درس 029: (كِتَابُ الطَّهَارَةِ) (فَصْلٌ سُنَنُ الْوُضُوءِ)*

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فَإِنَّ فِعْلَ ذَلِكَ يُعْتَدُّ بِهِ عِنْدَنَا، فَيَكُونُ مُقِيمًا سُنَّةً، وَمُرْتَكِبًا كَرَاهَةً

جو کوئی ان چیزوں سے استنجاء کرے (جس کی تفصیل پچھلے درس میں ہے) تو ہمارے نزدیک اسے استنجاء شمار کرلیا جائے گا۔ تو ایسا شخص بیک وقت سنت پر عمل کرنے والا اور مکروہ کا ارتکاب کرنے والا قرار پائے گا۔

وَيَجُوزُ أَنْ يَكُونَ لِفِعْلٍ وَاحِدٍ جِهَتَانِ مُخْتَلِفَتَانِ، فَيَكُونُ بِجِهَةِ كَذَا، وَبِجِهَةِ كَذَا

اور یہ ممکن ہے کہ ایک ہی کام کے دو مختلف پہلو ہوں، ایک پہلو سے کچھ حکم ہو ایک سے کچھ حکم ہو۔

وَعِنْدَ الشَّافِعِيِّ لَا يُعْتَدُّ بِهِ، حَتَّى لَا تَجُوزَ صَلَاتُهُ إذَا لَمْ يَسْتَنْجِ بِالْأَحْجَارِ بَعْدَ ذَلِكَ.

اور امام شافعی کے نزدیک استنجاء شمار نہیں کیا جائے گا، حتی کہ اسکی نماز جائز نہیں ہوگی جب تک وہ دیگر چیزوں کے استعمال کے بعد پتھر سے استنجاء نہ کرلے۔

وَجْهُ قَوْلِهِ: إنَّ النَّصَّ وَرَدَ بِالْأَحْجَارِ فَيُرَاعَى عَيْنُ الْمَنْصُوصِ عَلَيْهِ؛، وَلِأَنَّ الرَّوْثَ نَجَسٌ فِي نَفْسِهِ، وَالنَّجَسُ كَيْفَ يُزِيلُ النَّجَاسَةَ؟

انکی دلیل یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں باقاعدہ پتھر کا ذکر ہے لہذا استنجاء میں پتھر کا ہی لحاظ رکھا جائے گا۔

اور اسلئے بھی کہ لید ازخود ناپاک ہے، اور ناپاک چیز سے ناپاکی کیسے دور ہوسکتی ہے۔

(وَلَنَا) أَنَّ النَّصَّ مَعْلُولٌ بِمَعْنَى الطَّهَارَةِ وَقَدْ حَصَلَتْ بِهَذِهِ الْأَشْيَاءِ كَمَا تَحْصُلُ بِالْأَحْجَارِ

اور ہم احناف کی دلیل یہ ہے کہ احادیث میں آنے والا حکم طہارت کے مفہوم کو بیان کرتا ہے، تو جس طرح پتھر سے طہارت حاصل ہوتی ہے اسی طرح دیگر چیزوں سے بھی حاصل ہوجائے گی۔

إلَّا أَنَّهُ كُرِهَ بِالرَّوْثِ لِمَا فِيهِ مِنْ اسْتِعْمَالِ النَّجَسِ، وَإِفْسَادِ عَلَفِ دَوَابِّ الْجِنِّ

ہاں لید سے استنجاء مکروہ (تحریمی) قرار دیا گیا ہے اسلئے کہ یہ ناپاک چیز کا استعمال کرنا ہے اور جنات کے جانوروں کا چارہ خراب کرنا ہے۔

وَكُرِهَ بِالْعَظْمِ لِمَا فِيهِ مِنْ إفْسَادِ زَادِهِمْ عَلَى مَا نَطَقَ بِهِ الْحَدِيثُ

اور ہڈی سے بھی استنجاء مکرہ ہے اسلئے کہ اس سے جنات کی خوراک کو خراب کرنا لازم آتا ہے، جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا۔

فَكَانَ النَّهْيُ عَنْ الِاسْتِنْجَاءِ بِهِ لِمَعْنًى فِي غَيْرِهِ لَا فِي عَيْنِهِ

تو مذکورہ چیزوں سے استنجاء کی ممانعت ایسے مفہوم کی وجہ سے ہے جو بذات خود ان میں نہیں پایا جاتا بلکہ کسی اور شی میں پایا جاتا ہے۔

فَلَا يُمْنَعُ الِاعْتِدَادُ بِهِ

لہذا ان چیزوں سے کیا گیا استنجاء، استنجاء شمار ہوگا۔

وَقَوْلُهُ:”الرَّوْثُ نَجَسٌ فِي نَفْسِهِ” مُسَلَّمٌ، لَكِنَّهُ يَابِسٌ لَا يَنْفَصِلُ مِنْهُ شَيْءٌ إلَى الْبَدَنِ فَيَحْصُلُ بِاسْتِعْمَالِهِ نَوْعُ طَهَارَةٍ بِتَقْلِيلِ النَّجَاسَةِ.

اور امام شافعی کا قول: “لید ازخود ایک ناپاک چیز ہے” بالکل درست ہے، لیکن اس کے خشک ہونے کی وجہ سے اس کے اجزاء بدن پر نہیں لگتے، لہذا اس کے استعمال سےنجاست کی مقدار کم ہوکر ایک نوعیت سے طہارت ہو ہی جاتی ہے۔

وَيُكْرَهُ الِاسْتِنْجَاءُ بِخِرْقَةِ الدِّيبَاجِ وَمَطْعُومِ الْآدَمِيِّ مِنْ الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ لِمَا فِيهِ مِنْ إفْسَادِ الْمَالِ مِنْ غَيْرِ ضَرُورَةٍ، وَكَذَا بِعَلَفِ الْبَهَائِمِ، وَهُوَ الْحَشِيشُ؛ لِأَنَّهُ تَنْجِيسٌ لِلطَّاهِرِ مِنْ غَيْرِ ضَرُورَةٍ.

دیباج (ریشمی) کپڑے اور انسانی خوراک یعنی گندم ، جو وغیرہ سے بھی استنجاء مکروہ ہے، اسلئے کہ اس سے بلا ضرورت مال کا ضائع کرنا لازم آتا ہے، اسی طرح جانوروں کے چارے یعنی گھاس وغیرہ سے بھی استنجاء مکروہ ہے، اسلئے کہ اس سے پاک چیز کو بلاضرورت ناپاک کرنا لازم آتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*وضاحت:*

ہم درس نمبر 28 میں مکمل وضاحت کرچکے ہیں کہ

*ہر وہ چیز جس سے نجاست کو پونچھا جاسکتا ہو، اس سے استنجاء ہوجائے گا۔۔ چاہے اس کا استعمال جائز ہو یا ناجائز*

علامہ کاسانی انہیں چیزوں کابیان کرتے ہوئے ایک نکتہ ذکر کرتے ہیں کہ۔۔

ایسا ممکن ہے کہ ایک ہی کام کے دو مختلف پہلو ہوں۔۔

کسی پہلو سے فرض پورا ہوتا ہو اور ساتھ ہی حرام کا ارتکاب بھی ہوتا ہے، استنجاء میں اسکی مثالیں بیان ہورہی ہیں کہ بہت سی چیزوں سے استنجاء کرنا ناجائز ہے مگر چونکہ “نجاست کا زائل” ہونا پایا جارہا ہے اسلئے بہرحال طہارت حاصل ہوجائے گی۔۔۔

فقہ میں اسکی کئی مثالیں موجود ہیں، مثلا

* کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرلیا اور وہاں نماز کے لئے صفیں بچھادیں۔۔ لوگوں کا وہاں نماز ادا کرنا ناجائز ہےلیکن نماز ادا ہوجائے گی۔

* عورت بغیر محرم کے حج یا عمرہ پر چلے گئی۔۔ گناہ گار ضرور ہوئی مگر حج یا عمرہ ادا ہوجائے گا۔

امام شافعی نے *حدیث کے ظاہر الفاظ* کو بنیاد بناکر کہا کہ چونکہ احادیث میں پتھر کا ذکر آیا ہے لہذا پتھر کا استعمال ضروری ہے اسکے بغیر استنجاء نہیں ہوگا۔

جبکہ ہم احناف کا موقف ہے کہ حدیث میں بیان ہونے والا حکم پتھر کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ مراد طہارت حاصل کرنا ہے چونکہ پتھر کااستعمال رائج تھا اسلئے پتھر کا ذکر آیا۔۔۔اور اہلِ علم یہ بات جانتے ہیں کہ حدیث کا مفہوم اگرچہ الگ ہو لیکن جہاں تک ممکن ہو *حدیث کے ظاہری الفاظ* کا لحاظ رکھنا مناسب ہوتا ہے، لہذا کپڑا یا مٹی وغیرہ کے مقابلے پتھر سے استنجاء کرنا افضل ہے۔

باقی جو مسائل ذکر ہوئے اس سے متعلق اصولی بحث ہم درس نمبر 28 میں کرچکے ہیں، مذکورہ عبارات میں انہیں چیزوں کا بیان ہے۔

*ابو محمد عارفین القادری*