أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ يَزۡعُمُوۡنَ اَنَّهُمۡ اٰمَنُوۡا بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِكَ يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يَّتَحَاكَمُوۡۤا اِلَى الطَّاغُوۡتِ وَقَدۡ اُمِرُوۡۤا اَنۡ يَّكۡفُرُوۡا بِهٖ ؕ وَيُرِيۡدُ الشَّيۡـطٰنُ اَنۡ يُّضِلَّهُمۡ ضَلٰلًاۢ بَعِيۡدًا ۞

ترجمہ:

کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ وہ اس (کتاب) پر ایمان لائے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور ان (کتابوں) پر (ایمان لائے ہیں) جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنے مقدمے طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ انھیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ طاغوت کا انکار کریں اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ انھیں گمراہ کرکے بہت دور کی گمراہی میں ڈال دے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد : کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ وہ اس (کتاب) پر ایمان لائے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور ان (کتابوں) پر (ایمان لائے ہیں) جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنے مقدمے طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ انھیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ طاغوت کا انکار کریں۔ (النساء : ٦٠) 

حضور کا فیصلہ نہ ماننے والے منافق کو حضرت عمر (رض) کا قتل کردینا : 

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مکلفین کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور ان آیتوں میں یہ بتایا ہے کہ منافقین رسول اللہ کی اطاعت نہیں کرتے اور آپ کے فیصلہ پر راضی نہیں ہوتے اور اپنے مقدمات طاغوت کے پاس لے جاتے ہیں ‘ امام ابن جریر نے لکھا ہے کہ اس آیت میں طاغوت سے مراد کعب بن اشرف ہے ‘ یہ ایک یہودی عالم تھا۔ 

ایک منافق اور ایک یہودی کا جھگڑا ہوگیا ‘ یہودی نے کہا میرے اور تمہارے درمیان ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیصلہ کریں گے ‘ اور منافق نے کہا میرے اور تمہارے درمیان کعب بن اشرف فیصلہ کریں گے ‘ کیونکہ کعب بن اشرف بہت رشوت خور تھا اور اس مقدمہ میں یہودی حق پر تھا اور منافق باطل پر تھا ‘ اس وجہ سے یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ مقدمہ لے جانا چاہتا تھا ‘ اور منافق کعب بن اشرف کے پاس یہ مقدمہ لے جانا چاہتا تھا ‘ جب یہودی نے اپنی بات پر اصرار کیا تو وہ دونوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودی کے حق اور منافق کے خلاف فیصلہ کردیا ‘ منافق اس فیصلہ سے راضی نہیں ہوا اور کہا میرے اور تمہارے درمیان حضرت عمر (رض) فیصلہ کریں گے ‘ دونوں حضرت عمر کے پاس گئے یہودی نے بتادیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے حق میں اور اس منافق کے خلاف فیصلہ کرچکے ہیں لیکن یہ مانتا نہیں ہے ‘ حضرت عمر نے بتادیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے حق میں اور اس منافق کے خلاف فیصلہ کرچکے ہیں لیکن یہ مانتا نہیں ہے ‘ حضرت عمر (رض) نے منافق سے پوچھا کیا ایسا ہی ہے ‘ اس نے کہا ہاں ! حضرت عمر (رض) نے فرمایا ٹھیرو انتظار کرو میں ابھی آتا ہوں گھر گئے تلوار لے کر آئے اور اس منافق کا سرقلم کردیا ‘ پھر اس منافق کے گھر والوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت عمر (رض) کی شکایت کی ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) سے پوری تفصیل معلوم کی ‘ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نے آپ کے فیصلہ کو مسترد کردیا تھا اسی وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا عمر فاروق ہیں انہوں نے حق اور باطل کے درمیان فرق کردیا ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا تم فاروق ہو اس قول کی بناء پر طاغوت سے مراد کعب بن اشرف یہودی ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٣ ص ٢٤٩۔ ٢٤٨‘ الجامع الاحکام القرآن ج ٥ ص ٢٦٥۔ ٢٦٤‘ الدرالمنثور ج ٢ ص ١٧٩‘ روح المعانی ج ٥ ص ٦٧ )

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 60