أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِـيُـطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ ‌ؕ وَلَوۡ اَنَّهُمۡ اِذْ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ جَآءُوۡكَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰهَ وَاسۡتَغۡفَرَ لَـهُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِيۡمًا‏ ۞

ترجمہ:

اور ہم نے ہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے اور جب یہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو یہ آپ کے پاس آجاتے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور رسول بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو یہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، بےحد رحم فرمانیوالا پاتے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اور ہم نے ہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے اور جب یہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو یہ آپ کے پاس آجاتے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور رسول بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو یہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، بےحد رحم فرمانیوالا پاتے۔ (النساء : ٦٤) 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کو سرزنش کی ہے جو دعوی یہ کرتے تھے کہ وہ رسول اللہ پر نازل والی کتاب پر ایمان لائے ہیں اپنے مقدمہ کا فیصلہ یہودی عالم کے پاس لے جاتے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے کیلیے جب انہیں بلایا جاتا تو وہ منہ موڑ کر کترا کر نکل جاتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس نے ہر رسول کو اس لیے بھیجا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ‘ مجاہد نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اسی کو نصیب ہوتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ازل میں یہ نعمت مقدر کردی ہے۔ 

پھر فرمایا جب ان منافقوں نے کعب بن اشرف کے پاس اپنا مقدمہ پیش کرکے اپنی جانوں پر ظلم کر ہی لیا تھا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ آپ کے پاس آکر معذرت کرتے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی چاہتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو وہ ضرور اللہ کو بہت بخشنے والا اور مہربان پاتے۔ 

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روضہ پر حاضر ہو کر شفاعت طلب کرنے کا جواز : 

حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عاصیوں اور گنہ گاروں کو یہ ہدایت دی ہے کہ جب ان سے خطا اور گناہ ہوجائے تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور آپ کے پاس آکر استغفار کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ درخواست کریں کہ آپ بھی ان کے لیے اللہ سے درخواست کریں اور جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بہت مہربان پائیں گے ‘ مفسرین کی ایک جماعت نے ذکر کیا ہے ان میں الشیخ ابو منصور الصباغ بھی ہیں ‘ انہوں نے اپنی کتاب الشامل میں عبتی کی یہ مشہور حکایت لکھی ہے کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی نے آکر کہا السلام علیک یا رسول اللہ ! میں نے اللہ عزوجل کا یہ ارشاد سنا ہے۔ (آیت) ” ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاؤک “۔ الآیہ، اور میں آپ کے پاس آگیا ہوں اور اپنے گناہ پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اپنے رب کی بارگاہ میں آپ سے شفاعت طلب کرنے والا ہوں ‘ پھر اس نے دو شعر پڑھے : 

اے وہ جو زمین کے مدفونین میں سب سے بہتر ہیں جن کی خوشبو سے زمین اور ٹیلے خوشبودار ہوگئے۔ 

میری جان اس قبر پر فدا ہو جس میں آپ ساکن ہیں اس میں عفو ہے اس میں سخاوت ہے اور لطف و کرم ہے۔ 

پھر وہ اعرابی چلا گیا ‘ عبتی بیان کرتے ہیں کہ مجھ پر نیند غالب آگئی میں نے خواب میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی اور آپ نے فرمایا اے عتبی ! اس اعرابی کے پاس جا کر اس کو خوشخبری دو کہ اللہ نے اس کی مغفرت کردی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٣٢٩۔ ٣٢٨‘ الجامع لاحکام القرآن ج ٥ ص ٢٦٥‘ البحرالمحیط ج ٣ ص ٦٩٤‘ مدارک التنزیل علی ہامش الخازن ج ١ ص ٣٩٩) 

مفتی محمد شفیع متوفی ١٣٩٦ ھ لکھتے ہیں : 

یہ آیت اگرچہ خاص واقعہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے ‘ لیکن اس کے الفاظ سے ایک عام ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور آپ اس کے لیے دعاء مغفرت کردیں اس کی مغفرت ضرور ہوجائے گی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیاوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے ‘ اس کے بعد مفتی صاحب نے بھی عتبی کی مذکور الصدر حکایت بیان کی ہے۔ (معارف القرآن ج ٢ ص ٤٦٠ ‘۔ ٤٥٩ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی) 

معروف دیوبندی عالم شیخ محمد سرفراز گکھڑوی لکھتے ہیں : 

عتبی کی حکایت اس میں مشہور ہے اور تمام مذاہب کے مصنفین نے مناسک کی کتابوں میں اور مورخین نے اس کا ذکر کیا ہے اور سب نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے اسی طرح دیگر متعدد علماء کرام نے قدیما وحدیثا اس کو نقل کیا ہے اور حضرت تھانوی لکھتے ہیں کہ مواہب میں بہ سند امام ابو منصور صباغ اور ابن النجار اور ابن عساکر اور ابن الجوزی رحہم اللہ تعالیٰ نے محمد بن حرب ہلالی سے روایت کیا ہے کہ میں قبر مبارک کی زیارت کر کے سامنے بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور زیارت کرکے عرض کیا کہ یا خیر الرسل ‘ اللہ تعالیٰ آپ پر ایک سچی کتاب نازل فرمائی جس میں ارشاد ہے 

(آیت) ” ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاؤک فاستغفروا اللہ واستغفرلھم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما “۔ اور میں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتا ہوا اور اپنے رب کے حضور میں آپ کے وسیلہ سے شفاعت چاہتا ہوا آیا ہوں پھر دو شعر پڑھے۔ اور اس محمد بن حرب کی وفات ٢٢٨ ھ میں ہوئی ہے ‘ غرض زمانہ خیرالقرون کا تھا اور کسی سے اس وقت نکیر منقول نہیں ‘ پس حجت ہوگیا (نشر الطیب ص ٢٥٤) اور حضرت مولانا نانوتوی یہ آیت کریمہ لکھ کر فرماتے ہیں : ” کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں آپ کے ہم عصر ہوں یا بعد کے امتی ہوں ‘ اور تخصیص ہو تو کیونکر ہو آپ کا وجود تربیت تمام امت کے لیے یکساں رحمت ہے کہ پچھلے امتیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ قبر میں زندہ ہوں ( آب حیات ص ٤٠) اور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی یہ سابق واقعہ ذکر کرکے آخر میں لکھتے ہیں : پس ثابت ہوا کہ اس آیت کریمہ کا حکم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بھی باقی ہے۔ (اعلاء السنن ج ١٠ ص ٣٣٠) 

ان اکابر کے بیان سے معلوم ہوا کہ قبر پر حاضر ہو کر شفاعت مغفرت کی درخواست کرنا قرآن کریم کی آیت کے عموم سے ثابت ہے ‘ بلکہ امام سبکی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس معنی میں صریح ہے (شفاء السقام ص ١٢٨) 

اور خیرالقرون میں یہ کاروائی ہوئی مگر کسی نے انکار نہیں کیا جو اس کے صحیح ہونے کی واضح دلیل ہے (تسکین الصدور ص ٣٦٦۔ ٣٦٥‘ ملخصا ‘ مطبوعہ ادارہ نصرت العلوم گوجرانوالہ) 

گنبد خضراء کی زیارت کے لیے سفر کا جواز :

قرآن مجید کی اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر انور کے لیے سفر کرنا مستحسن اور مستحب ہے ‘ شیخ ابن تیمیہ نے اس سفر کو سفر معصیت اور سفر حرام کہا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس سفر میں قصر کرنا جائز نہیں ہے ان کا استدلال اس حدیث سے ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین مسجدوں کے علاوہ اور کسی مسجد کی طرف کجاوے نہ کسے جائیں (سفر نہ کیا جائے) مسجد حرام ‘ مسجد الرسول ‘ اور مسجد اقصی۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ١١٨٩‘ صحیح مسلم الحج : ٥١١ ‘(١٣٩٧) ٣٣٢٤‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٢٠٣٣‘ سنن الترمذی ‘ رقم الحدیث : ٣٢٥‘ سنن نسائی ‘ رقم الحدیث : ٧٠٠‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ١٤٠٩‘ مسند الحمیدی ‘ رقم الحدیث : ٩٤٣‘ مسند احمد ج ٢ ص ٢٣٤‘ ٢٣٨‘ ٢٧٢‘ السنن الکبری اللنسائی ‘ رقم الحدیث : جامع الاصول ج ٩‘ رقم الحدیث : ٦٨٩٤) 

حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ نے اس حدیث کے جواب میں فرمایا ہے : اس حدیث میں ان تین مساجد کے علاوہ مطلقا سفر سے منع نہیں فرمایا بلکہ ان تین مسجدوں کے علاوہ اور کسی مسجد کے لیے سفر کرنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ مستثنی منہ مستثنی کی جنس سے ہوتا ہے۔ (فتح الباری ج ٣ ص ٦٥‘ مطبوعہ لاہور) 

اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے ‘ امام احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے کسی سواری کا کجاوہ نہ کسا جائے سوائے مسجد حرام ‘ مسجد اقصی اور میری اس مسجد کے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٦٤‘ طبع قدیم دارالفکر ‘ مسند احمد ج ١ رقم الحدیث : ١١٥٥٢‘ طبع دارالحدیث قاہرہ ‘ ١٤١٦ ھ) 

شیخ عبدالرحمان مبارک پوری متوفی ١٣٥٢ ھ نے اس حدیث پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ حدیث شہر بن حوشب سے مروی ہے اور وہ کثیر الادھام ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے التقریب میں لکھا ہے۔ (تحفۃ الاحوذی ج ١ ص ٢٧١‘ طبع ملتان) 

میں کہتا ہوں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے التقریب میں لکھا ہے کہ شہر بن حوشب ‘ بہت صادق ہے اور یہ بہت ارسال کرتا ہے اور اس کے بہت وہم ہیں۔ (تقریب التہذیب ج ١ ص ٤٢٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت) 

اور حافظ ابن حجر عسقلانی شہر بن حوشب کے متعلق تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں : 

امام احمد نے اس کے متعلق کہا اس کی حدیث کتنی حسین ہے اور اس کی توثیق کی ‘ اور کہا کہ عبدالحمید بن بھرام کی وہ احادیث صحت کے قریب ہیں جو شہر بن حوشب سے مروی ہیں ‘ دارمی نے کہا احمد شہر بن حوشب کی تعریف کرتے تھے امام ترمذی نے کہا امام بخاری نے فرمایا شہر حسن الحدیث ہے اور اس کا امر قوی ہے ‘ ابن معین نے کہا یہ ثقہ ہے ‘ ان کے علاوہ اور بہت ناقدین فن نے شہر کی توثیق کی ہے (تہذیب التہذیب ج ٤ ص ٣٣٧‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت) 

حافظ جمال الدین مزنی متوفی ٧٤٢ ھ ‘ اور علامہ شمس الدین ذہبی متوفی ٧٤٨ ھ نے بھی شہر بن حوشب کی تعدیل میں یہ اور بہت ائمہ کے اقوال نقل کیے ہیں۔ (تہذیب الکمال ج ٨ ص ٤٠٩‘ میزان الاعتدال ج ٣ ص ٣٩٠‘ طبع بیروت) 

علاوہ ازیں حافظ ابن حجر عسقلانی نے خصوصیت سے اس حدیث کے متعلق لکھا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے ‘ (فتح الباری ج ٣ ص ٦٦) اور شیخ احمد شاکر متوفی ١٣٧٣ ھ نے بھی اس حدیث کے متعلق لکھا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے ‘ کیونکہ امام احمد اور امام ابن معین نے شہر بن حوشب کی توثیق کی ہے۔ (مسند احمد ج ١٠‘ ص ٢٠١‘ طبع قاہرہ) 

اس حدیث کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر اس حدیث میں مستثنی منہ مسجد کو نہ مانا جائے ‘ بلکہ عام مانا جائے اور یہ معنی کیا جائے کہ ان تین مساجد کے سوا کسی جگہ کا بھی سفر کا قصد نہ کیا جائے تو پھر نیک لوگوں کی زیارت ‘ رشتہ داروں سے ملنے ‘ دوستوں سے ملنے ‘ علوم مروجہ کو حاصل کرنے ‘ تلاش معاش ‘ حصول ملازمت ‘ سیر و تفریح ‘ سیاحت اور سفارت کے لیے سفر کرنا بھی ناجائز ‘ حرام اور سفر معصیت ہوگا۔ 

شیخ مبارک پوری نے اس جواب پر یہ اعتراض کیا ہے رہا تجارت یا طلب علم یا کسی اور غرض صحیح کے لیے سفر کرنا تو ان کا جواز دوسرے دلائل سے ثابت ہے (اس لیے یہ ممانعت عموم پر محمول ہے) (تحفۃ الاحوذی ج ١ ص ٢٧١‘ مطبوعہ نشرالسنہ ملتان) 

میں کہتا ہوں کہ ہم نے جو سفر کی انواع ذکر کی ہیں وہ سب غرض صحیح پر مبنی ہیں اور ان کے جواز پر کون سے دلائل ہیں جو صحاح ستہ کی اس حدیث کی ممانعت کے عموم کے مقابلہ میں راجح ہوں ؟ خصوصا نیک لوگوں ‘ رشتہ داروں ‘ دوستوں کی زیارت اور ان سے ملاقات کے لیے سفر کرنے ‘ اسی طرح سائنسی علوم کے حصول ‘ تلاش معاش ‘ حصول ملازمت اور سیرو تفریح کے لئے سفر کرنے کے جواز پر اور بھی بہت دلائل ہیں اور ممانعت کی اس حدیث کی ممانعت پر راجح یا اس کے لیے ناسخ ہوں ! نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے سفر کرنیکے جواز پر اور بھی بہت دلائل ہیں اور مانعت کی اس حدیث کی ہم نے ان مذکور توجیہات کے علاوہ اور بھی کئی توجیہات ذکر کی ہیں اس کے لیے شرح صحیح مسلم ج ٣ ص ٧٦٤۔ ٧٦٣ ملاحظہ فرمائیں ‘ شیخ ابن تیمیہ نے جو اس سفر کو حرام کہا ہے ‘ حافظ ابن حجر نے فرمایا یہ ان کا انتہائی مکروہ قول ہے۔ 

اور ملا علی بن سلطان محمد القاری المتوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں۔ 

ابن تیمیہ حنبلی نے اس مسئلہ میں بہت تفریط کی ہے ‘ کیونکہ اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کے لیے سفر کو حرام کہا ہے ‘ اور بعض علماء نے اس مسئلہ میں افراط کیا ہے اور اس سفر کے منکر کو کافر کہا ہے اور یہ دوسرا قول صحت اور صواب کے زیادہ قریب ہے کیونکہ جس چیز کی اباحت پر اتفاق ہو اس کا انکار کفر ہے تو جس چیز کے استحباب پر علماء پر کا اتفاق ہو اس کو حرام قرار دینا بہ طریق اولی کفر ہوگا۔ (شرح الشفاء علی ھامش نسیم الریاض ج ٣ ص ٥١٤‘ مطبوعہ بیروت)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 64