*”تبیان الوضوء “رضوی فقہ و تحقیق کا مثالی رسالہ*

تحریر:۔ *خالد ایوب مصباحی شیرانی*

khalidinfo22@gmail.com

اعلی حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا:

فرائض غسلِ جنابت جو تین ہیں، ان میں “مضمضہ واستنشاق واسا لۃ الماء علی کل البدن” (کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا اور پورے بدن پر پانی بہانا)سے کیسا مضمضہ واستنشاق واسا لہ ماء مراد ہے؟

قارئین محسوس کر سکتے ہیں کہ سوال کوئی انوکھا یا نادر نہیں، اس لیے ظاہر ہے اس کا جواب بھی کوئی نادر نہیں ہونا چاہیے لیکن اعلی حضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ نے اس کے جواب میں حسب عادت جس طرح علمی، فقہی اور فکری دقت نظری کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔

خاص بات یہ ہے کہ اگر اس سوال کی مذہبی حیثیت نہ دیکھی جائے تو یہ سوال در اصل بدن انسانی سے متعلق ہے جس کے بارے میں کیا عالم اور کیا جاہل، لگ بھگ ہر فرد کو موٹی موٹی باتیں معلوم ہوتی ہیں، لیکن امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ نے اس عام سمجھے جانے والے مسئلے کو جو علمی اور فقہی دقت عطا کی ہے، وہ آپ ہی کے قلم کا امتیاز ہے۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دلائل اور تفصیلات سے صرف نظر کرتے ہوئے یہاں بہت موٹے انداز میں جواب کے اہم گوشوں کا ذکر کیا جائے اور آخر میں حضرت رضا کے علمی کمالات کے جوہر دیکھے جائیں، سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

“مضمضہ:سارے دہن کامع اس کے ہر گوشے، پر زے، کنج کے حلق کی حد تک دھلنا۔۔۔اور ہم نے دھلنا کہا ،دھونا نہ کہا، اس لیے کہ طہارت میں کچھ اپنا فعل، یا قصد شرط نہیں، پانی گزرنا چاہیے، جس طرح ہو”۔

اس کلی اصول کے بعد اس پر عمل کے عوامی اور عامی حالات کو ملحوظ رکھتےہوئے لکھتے ہیں:

“آج کل بہت بے علم اس مضمضہ کے معنی صرف کلی کے سمجھتے ہیں ،کچھ پانی منہ میں لے کر اُگل دیتے ہیں کہ زبان کی جڑ اور حلق کے کنارہ تک نہیں پہنچتا،یوں غسل نہیں اُترتا،نہ اس غسل سے نماز ہوسکے، نہ مسجد میں جاناجائزہوبلکہ فرض ہے کہ داڑھوں کے پیچھے، گالوں کی تہ میں، دانتوں کی جڑ میں، دانتوں کی کھڑکیوں میں، حلق کے کنارے تک، ہرپرزے پر پانی بہے، یہاں تک کہ اگر کوئی سخت چیز کہ پانی کے بہنے کو روکے گی، دانتوں کی جڑ، یا کھڑکیوں وغیرہ میں حائل ہو تو لازم ہے کہ اُسے جُداکرکے کُلّی کرے، ورنہ غسل نہ ہوگا،ہاں! اگر اُس کے جُدا کرنے میں حرج و ضرر و اذیت ہو، جس طرح پانوں کی کثرت سے جڑوں میں چونا جم کر متحجرہوجاتا ہے کہ جب تک زیادہ ہوکر آپ ہی جگہ نہ چھوڑ دے، چھڑانے کے قابل نہیں ہو تا، یاعورتوں کے دانتوں میں مسی کی ریخیں جم جاتی ہیں کہ ان کے چھیلنے میں دانتوں، یا مسوڑھوں کی مضرت کا اندیشہ ہے تو جب تک یہ حالت رہے گی، اس قدر کی معافی ہوگی فان الحرج مدفوع بالنص۔۔۔

مضمضہ کی یہ فقہی تفصیل کتنی جامع ہے؟ خاص طور پر ارباب فقہ و افتا ہی سمجھ سکتے ہیں۔ استنشاق کی تفصیل میں بھی اسی طرح علمی جوہر پاشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

استنشاق:ناک کے دونوں نتھنوں میں جہاں تک نرم جگہ ہے یعنی سخت ہڈی کے شروع تک دھلنا۔۔۔

اور یہ یوں ہی ہوسکے گا کہ پانی لے کر سونگھے اور اوپر کو چڑھائے کہ وہاں تک پہنچ جائے، لوگ اس کابالکل خیال نہیں کرتے اوپر ہی اوپر پانی ڈالتے ہیں کہ ناک کے سرے کو چھو کر گرجاتا ہے، بانسے میں جتنی جگہ نرم ہے، اس سب کو دھونا تو بڑی بات ہے ظاہر ہے کہ پانی کا بالطبع میل نیچے کوہے، اوپربے چڑھائے ،ہرگزنہ چڑھے گا،افسوس کہ عوام توعوام بعض پڑھے لکھے بھی اس بلامیں گرفتار ہیں۔کاش! استنشاق کے لغوی ہی معنی پر نظر کرتے تو اس آفت میں نہ پڑتے، استنشاق سانس کے ذریعہ سے کوئی چیز ناک کے اندر چڑھاناہے، نہ کہ ناک کے کنارہ کو چھو جانا۔ وضومیں تو خیر اس کے ترک کی عادت ڈالے سے سنت چھوڑنے ہی کاگناہ ہوگاکہ مضمضہ واستنشاق بمعنی مذکور دونوں وضو میں سنتِ مؤکدہ ہیں کمافی الدرالمختار۔اور سنت مؤکدہ کے ایک آدھ بار ترک سے اگرچہ گناہ نہ ہو، عتاب ہی کااستحقاق ہو مگربارہا ترک سے بلاشبہ گناہ گار ہوتا ہے کمافی ردالمحتار وغیرہ من الاسفار،تاہم وضو ہوجاتا ہے اور غسل تو ہرگز اُترے ہی گانہیں، جب تک سارامنہ حلق کی حدتک اور سارا نرم بانسہ سخت ہڈی کے کنارہ تک پورا نہ دھل جائے یہاں تک کہ علما فرماتے ہیں کہ اگر ناک کے اندر کثافت جمی ہے تو لازم کہ پہلے اسے صاف کرلے، ورنہ اس کے نیچے پانی نے عبور نہ کیا توغسل نہ ہوگا۔۔۔اس احتیاط سے بھی روزہ دار کو مفر نہیں،ہاں! اس سے اوپرتک اُسے نہ چاہیے کہ کہیں پانی دماغ کو نہ چڑھ جائے ،غیر روزہ دارکے لیے یہ بھی سنت ہے۔۔۔

سوال کے تیسرے پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

اسالۃ الماء علی ظاھر البدن سر کے بالو ں سے تلووں سے نیچے تک جسم کے ہر پرزے،رونگٹے کی بیرونی سطح پر پانی کا تقاطر کے ساتھ بہہ جانا، سوا اس موضع یا حالت کے جس میں حرج ہو ۔۔۔بدن کا ہر وہ حصہ دھونا فرض ہے جسے بغیر حرج کے دھونا ممکن ہے۔۔۔

یہاں دو قسم کی بے احتیاطیاں کرتے ہیں جن سے غسل نہیں ہوتا اور نمازیں اکارت جاتی ہیں:

اوّلاً:غَسل بالفتح کے معنی میں نافہمی کہ بعض جگہ تیل کی طرح چپڑ لیتے ہیں، یابھیگا ہاتھ پہنچ جانے پر قناعت کرتے ہیں حالاں کہ یہ مسح ہوا،غسل میں تقاطراور پانی کابہنا ضرور ہے، جب تک ایک ایک ذرّے پر پانی بہتا ہوا نہ گزرے گا ،غسل ہرگز نہ ہوگا۔۔۔

ثانیا: پانی ایسی بے احتیاطی سے بہاتے ہیں کہ بعض مواضع بالکل خشک رہ جاتے ہیں، یا اُن تک کچھ اثر پہنچتا ہے تو وہی بھیگے ہاتھ کی تری۔ اُن کے خیال میں شاید پانی میں ایسی کرامت ہے کہ ہر کنج وگوشہ میں آپ دوڑ جائے، کچھ احتیاط خاص کی حاجت نہیں حالاں کہ جسم ظاہر میں بہت موقع ایسے ہیں کہ وہاں ایک جسم کی سطح دوسرے جسم سے چھپ گئی ہے، یا پانی کی گزرگاہ سے جدا واقع ہے کہ بے لحاظ خاص پانی اس پر بہنا ہرگز مظنون نہیں اور حکم یہ ہے کہ اگر ذرّہ بھر جگہ یا کسی بال کی نوک بھی پانی بہنے سے رہ گئی تو غسل نہ ہوگا اور نہ صرف غسل بلکہ وضو میں بھی ایسی ہی بے احتیاطیاں کرتے ہیں، کہیں ایڑیوں پر پانی نہیں بہتا، کہیں کہنیوں پر، کہیں ماتھے کے بالائی حصے پر،کہیں کانوں کے پاس کنپٹیوں پر۔ ہم نے اس بارہ میں ایک مستقل تحریر لکھی ہے اُس میں ان تمام مواضع کی تفصیل ہے جن کا لحاظ و خیال وضو وغسل میں ضرور ہے مردوں اور عورتوں کی تفریق اور طریقہ احتیاط کی تحقیق کے ساتھ ایسی سلیس وروشن بیان سے مذکور ہے جسے بعونہ تعالی ہر جاہل بچہ، عورت سمجھ سکے،یہاں اجمالاً ان کا شمار کیے دیتے ہیں۔

اب تک جو باتیں بیان ہوئیں، ان میں علمیت بھی ہے، فکری گہرائی بھی، توجہ دینے اور احتیاط کرنے کی تلقین بھی ہے اور خشیت ربانی پیدا کرنے کا گر بھی لیکن اب بے احتیاطیوں کےجو پہلو شمار میں آ رہے ہیں، وہ نہایت توجہ طلب ہیں، لکھتے ہیں:

“ضروریات وضو مطلقاً یعنی مرد و عورت سب کے لیے:

(۱) پانی مانگ یعنی ماتھے کے سرے سے پڑنا،بہت لوگ لَپ یا چُلّو میں پانی لے کر ناک ،یا ابرو، یا نصف ماتھے پر ڈالتے ہیں، پانی تو بہہ کر نیچے آیا، وہ اپنا ہاتھ چڑھا کر اوپر لے گئے، اس میں سارا ماتھا نہ دُھلا ،بھیگا ہاتھ پھرا اور وضو نہ ہوا۔

(۲) پٹیاں جھکی ہوں تو انہیں ہٹا کر پانی ڈالے کہ جو حصہ پیشانی کا اُن کے نیچے ہے، دُھلنے سے نہ رہ جائے۔

(۳) بھووں کے بال چھدرے ہوں کہ نیچے کی کھال چمکتی ہو تو کھال پر پانی بہنا فرض ہے، صرف بالوں پر کافی نہیں۔

(۴) آنکھوں کے چاروں کوئے،آنکھیں زور سے بند کرے،یہاں کوئی سخت چیز جمی ہوئی ہو تو چھڑالے۔

(۵) پلک کا ہربال پورا ،بعض وقت کیچڑ وغیرہ سخت ہوکر جم جاتا ہے کہ اُس کے نیچے پانی نہیں بہتا، اُس کا چھڑانا ضرور ہے۔

(۶)کان کے پاس تک کنپٹی، ایسا نہ ہو کہ ماتھے کا پانی گال پر اتر آئے اور یہاں صرف بھیگا ہاتھ پھرے۔

(۷) ناک کا سوراخ، اگر کوئی گہنا ،یاتنکا ہوتو اسے پھرا پھرا کر، ورنہ یوں ہی دھار ڈالے، ہاں! اگر بالکل بند ہوگیا تو حاجت نہیں۔

(۸) آدمی جب خاموش بیٹھے تو دونوں لب مل کر کچھ حصہ چھپ جاتا،کچھ ظاہر رہتا ہے، یہ ظاہر رہنے والا حصہ بھی دُھلنا فرض ہے،اگر کُلّی نہ کی اور منہ دھونے میں لب سمیٹ کر بزور بند کرلیے تو اس پر پانی نہ بہے گا۔

(۹) ٹھوڑی کی ہڈی، اُس جگہ تک جہاں نیچے کے دانت جمے ہیں۔

(۱۰) ہاتھوں کی آٹھوں گھائیاں۔

(۱۱) انگلیوں کی کروٹیں کہ ملنے پر بند ہوجاتی ہیں۔

(۱۲) دسوں ناخنوں کے اندر جو جگہ خالی ہے، ہاں! مَیل کا ڈر نہیں۔

(۱۳) ناخنوں کے سرے سے کہنیوں کے اوپر تک ہاتھ کا ہر پہلو،چُلّومیں پانی لے کر کلائی پر اُلٹ لینا ہرگز کافی نہیں۔

(۱۴)کلائی کا ہربال جڑ سے نوک تک۔ایسا نہ ہو کہ کھڑے بالوں کی جڑ میں پانی گزر جائے، نوکیں رہ جائیں۔

(۱۵) آرسی، چھلّے اور کلائی کے ہر گہنے کے نیچے۔

(۱۶) عورتوں کو پھنسی چُوڑیوں کا شوق ہوتا ہے، اُنہیں ہٹا ہٹا کر پانی بہائیں۔

(۱۷) چوتھائی سرکا مسح فرض ہے، پوروں کے سرے گزار دینا، اکثر اس مقدار کو کافی نہیں ہوتا۔

(۱۸) پاؤوں کی آٹھوں گھائیاں۔

(۱۹) یہاں انگلیوں کی کروٹیں زیادہ قابلِ لحاظ ہیں کہ قدرتی ملی ہوئی ہیں۔

(۲۰) ناخنوں کے اندر کوئی سخت چیز نہ ہو۔

(۲۱) پاؤوں کے چھلّے اور جو گہنا گٹوں پر ،یا گٹوں سے نیچے ہو، اس کے نیچے سیلان شرط ہے۔

(۲۲) گٹّے۔

(۲۳) تلوے۔

(۲۴) ایڑیاں۔

(۲۵) کونچیں”۔

یہ پچیس مقامات وہ ہیں جن کی احتیاط مردوں اور عورتوں دونوں پر لازم ہے، اب یہاں سے پانچ مقامات وہ بیان ہو رہے ہیں جن کی احتیاط خاص مردوں پر لازم ہے، لکھتے ہیں:

“خاص بہ مرداں:

(۲۶) مونچھیں۔

(۲۷) صحیح مذہب میں ساری داڑھی دھونا فرض ہے یعنی جتنی چہرے کی حد میں ہے، نہ لٹکی ہوئی کہ ہاتھ سے گلے کی طرف کو دباؤ تو ٹھوڑی کے اُس حصّے سے نکل جائے، جس پر دانت جمے ہیں کہ اس کا صرف مسح سنّت اور دھونا مستحب ہے۔

(۲۸ ۔ ۲۹) داڑھی مونچھیں چھدری ہوں کہ نیچے کی کھال نظر آتی ہو تو کھال پر پانی بہنا۔

(۳۰) مونچھیں بڑھ کر لبوں کو چھپالیں تو انھیں ہٹا ہٹا کر لبوں کی کھال دھونا، اگرچہ مونچھیں کیسی ہی گھنی ہوں”۔

صرف چار فرض اعضائے وضو سے متعلق تیس احتیاطوں کا تذکرہ، یقیناً کسی عظیم ترین فقیہ ہی کی نظر کا کمال ہو سکتا ہے جبکہ عام طور پر علمی حالات یہ ہیں کہ بہت سے لوگ ان چاراعضا میں تیس اجزا کی مناسب تعبیر کرنے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔

وضو کی یہ تیس احتیاطیں گنانے کے بعد ان پر تفصیلی دلائل نقل کرتے ہیں اور درمیان میں اپنا تحقیقی اور احتیاطی موقف بھی رکھتے رہتے ہیں اور پھر غسل کی طرف بڑھتے ہوئے دوسراسلسلہ یوں قائم کرتے ہیں:

“ظاہر ہے کہ وضو میں جس جس عضو کا دھونا فرض ہے غسل میں بھی فرض ہے تو یہ سب اشیا یہاں بھی معتبر اور ان کے علاوہ یہ اور زائد۔

(۳۱) سر کے بال کہ گندھے ہوئے ہوں، ہر بال پر جڑ سے نوک تک پانی بہنا۔

(۳۲)کانوں میں بالی پتّے وغیرہ زیوروں کے سوراخ کا غسل میں وہی حکم ہے، جو ناک میں بلاق وغیرہ کے چھید کا غسل و وضو دونوں میں تھا۔

(۳۳) بھنووں کے نیچے کی کھال اگرچہ بال کیسے ہی گھنے ہوں۔

(۳۴)کان کا ہر پرزہ ،اس کے سوراخ کا منہ۔

(۳۵)کانوں کے پیچھے بال ہٹا کر پانی بہائے۔

(۳۶) استنشاق بمعنی مذکور۔

(۳۷) مضمضہ بطرز مسطور۔

(۳۸) داڑھوں کے پیچھے ،

(۳۹) دانتوں کی کھڑکھیوں میں جو سخت چیز ہو، پہلے جدا کرلیں۔

(۴۰) چونا ریخیں وغیرہ جو بے ایذا چھوٹ سکے، چھڑانا۔

(۴۱) ٹھوڑی اور گلے کاجوڑ کہ بے منہ اٹھائے نہ دُھلے گا۔

(۴۲) بغلیں بے ہاتھ اٹھائے نہ دُھلیں گی۔

(۴۳) بازو کا ہر پہلو،

(۴۴) پیٹھ کا ہردرہ۔

(۴۵) پیٹ وغیرہ کی بلٹیں اٹھا کر دھوئیں۔

(۴۶) ناف انگلی ڈال کر ،جبکہ بغیر اس کے پانی بہنے میں شک ہو۔

(۴۷) جسم کا کوئی رونگٹاکھڑا نہ رہ جائے۔

(۴۸) ران اور پیڑو کا جوڑ کھول کر دھوئیں۔

(۴۹) دونوں سرین ملنے کی جگہ، خصوصاً جب کھڑے ہوکر نہائیں۔

(۵۰) ران اور پنڈلی کا جوڑ جبکہ بیٹھ کر نہائیں۔

(۵۱) رانوں کی گولائی۔

(۵۲) پنڈلیوں کی کروٹیں”۔

یہاں تک کی احتیاطیں عام تھیں، اب خاص مردوں کی بیان ہوتی ہیں:

“خاص بہ مرداں:

(۵۳)گندھے ہوئے بال کھول کر جڑ سے نوک تک دھونا۔

(۵۴) مونچھوں کے نیچے کی کھال اگرچہ گھنی ہوں۔

(۵۵) داڑھی کا ہر بال جڑ سے نوک تک۔

(۵۶) ذکر وانثیین کے ملنے کی سطحیں کہ بے جدا کیے نہ دھلیں گی۔

(۵۷) انثیین کی سطح زیریں جوڑ تک۔

(۵۸) انثیین کے نیچے کی جگہ تک۔

(۵۹) جس کا ختنہ نہ ہوا ہو، بہت علما کے نزدیک اُس پر فرض ہے کہ کھال چڑھ سکتی ہو تو حشفہ کھول کر دھوئے۔

(۶۰) اس قول پر اس کھال کے اندر بھی پانی پہنچنا فرض ہوگا ،بے چڑھائے، اُس میں پانی ڈالے کہ چڑھنے کے بعد بند ہوجائے گی”۔

اب یہاں سے اسپیشل طور پر عورتوں کے غسل کی احتیاطیں بیان ہو رہی ہیں:

“خاص بہ زناں:

(۶۱) گندھی چوٹی میں ہر بال کی جڑ تر کرنی، چوٹی کھولنی ضرور نہیں، مگر جب ایسی سخت گندھی ہو کہ بے کھولے جڑیں تر نہ ہوں گی۔

(۶۲) ڈھلکی ہوئی پستان اٹھا کر دھونی۔

(۶۳) پستان وشکم کے جوڑ کی تحریر۔

(۶۴تا۶۷) فرج خارج کے چاروں لبوں کی جیبیں جڑتک۔

(۶۸) گوشت پارہ بالاکاہر پرت کہ کھولے سے کھل سکے گا۔

(۶۹) گوشت پارہ زیریں کی سطح زیریں۔

(۷۰) اس پارہ کے نیچے کی خالی جگہ، غرض فرج خارج کے ہر گوشے، پرزے، کنج کا خیال لازم ہے ۔ہاں! فرج داخل کے اندر انگلی ڈال کر دھونا واجب نہیں، بہتر ہے”۔

اب تک وضو اور غسل کی ستر احتیاطوں کا تذکرہ ہوا۔ اب ان احتیاطوں کے علمی اور فنی کمالات سے پہلے احتیاط کا مطلب بھی جان لیں، لکھتے ہیں:

“مواضع احتیاط میں پانی پہنچنے کاظن غالب کافی ہے یعنی دل کو اطمینان ہوکہ ضرور پہنچ گیا، مگر یہ اطمینان نہ بے پرواہوں کاکافی ہے، جو دیدہ ودانستہ بے احتیاطی کررہے ہیں، نہ وہمی وسوسہ زدہ کا اطمینان ضرور، جسے آنکھوں دیکھ کر بھی یقین آنا مشکل بلکہ متدین محتاط کااطمینان چاہیے” ۔( الدرالمختار،کتاب الطہارۃ)

چوں کہ ضمنا کچھ باتیں مواضع حرج کی بھی آئی تھیں اور اسی طرح اشارتاً کچھ ایسی تفصیلات بھی آئی تھیں جن میں بادی النظر کو کلام ہو سکتا ہے، اس لیے ان مواضع کی تفصیل اور ان اوہام کا ازالہ بھی ضروری ہے، اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی دقت نظر یہاں بھی ویسے ہی کام کر رہی ہے جیسے باب احتیاط میں بے نظیر تھی، لکھتے ہیں:

“بالجملہ! تمام ظاہر بدن، ہر ذرّہ، ہر رونگٹے پر، سر سے پاؤں تک پانی بہنا فرض ہے، ورنہ غسل نہ ہوگا، مگر مواضع حرج معاف ہیں

مثلاً:

(۱) آنکھوں کے ڈھیلے،

(۲) عورت کے گندھے ہوئے بال،

(۳) ناک کان کے زیوروں کے وہ سوراخ جو بند ہوگئے،

(۴) نامختون کاحشفہ جبکہ کھال چڑھانے میں تکلیف ہو،

(۵) اس حالت میں اس کھال کی اندرونی سطح جہاں تک پانی بے کھولے نہ پہنچے اور کھولنے میں مشقت ہو،

(۶) مکھی یامچھر کی بیٹ جو بدن پر ہو، اُس کے نیچے،

(۷) عورت کے ہاتھ پاؤں میں اگر کہیں مہندی کا جرم لگارہ گیا،

(۸) دانتوں کا جما ہوا چونا،

(۹) مسی کی ریخیں،

(۱۰) بدن کا میل،

(۱۱) ناخنوں میں بھری ہوئی یا بدن پر لگی ہوئی مٹّی،

(۱۲) جو بال خود گرہ کھا کر رہ گیا ہو، اگرچہ مرد کا،

(۱۳) پلک یا کوئے میں سرمہ کا جرم،

(۱۴) کاتب کے انگوٹھے پر روشنائی۔ ان دونوں کاذکر رسالہ الجود الحلو میں گزرا۔

(۱۵) رنگریز کے ناخن پر رنگ کا جرم،

(۱۶) نان بائی، یا پکانے والی عورت کے ناخن میں آٹا، علی خلاف فیہ۔

(۱۷) کھانے کے ریزے کہ دانت کی جڑ یا جوف میں رہ گئے کما مراٰنفا عن الخلاصۃ۔

(۱۸) اقول :ہلتا ہوا دانت،اگر تارسے جکڑاہے معافی ہونی چاہیےاگرچہ پانی تار کے نیچے نہ بہے کہ بار بار کھولنا ضرر دے گا نہ اس سے ہر وقت بندش ہوسکے گی،

(۱۹) یوں ہی اگر اُکھڑا ہُوادانت کسی مسالے مثلاً برادہ آہن ومقناطیس وغیرہ سے جمایاگیاہے، جمے ہوئے چُونے کی مثل اس کی بھی معافی چاہیے۔۔۔

(۲۰) پٹّی کہ زخم پر ہو اور کھولنے میں ضرر یا حرج ہے،

(۲۱) ہر وہ جگہ کہ کسی درد یا مرض کے سبب اُس پر پانی بہنے سے ضرر ہوگا”۔

حرج اور مضرت کی چلتے چلتے اکیس صورتیں بیان کرنے کے بعد اس کی بھی تشریح کر رہے ہیں کہ حرج کا مطلب کیا ہے، لکھتے ہیں:

“اقول: وباللہ التوفیق! حرج کی تین صورتیں ہیں:

ایک: یہ کہ وہاں پانی پہنچانے میں مضرت ہو جیسے آنکھ کے اندر،

دوم: مشقت ہو جیسے عورت کی گندھی ہوئی چوٹی،

سوم :بعد علم واطلاع کوئی ضرر ومشقت تو نہیں مگر اس کی نگہ داشت، اس کی دیکھ بھال میں دقت ہے جیسے مکھی، مچھر کی بیٹ یا الجھا ہوا، گرہ کھایا ہوا بال۔

قسم اول ودوم کی معافی توظاہر اور قسم سوم میں بعد اطلاع، ازالہ مانع ضرور ہے مثلاً جہاں مذکورہ صورتوں میں مہندی، سرمہ، آٹا،روشنائی ،رنگ، بیٹ وغیرہ سے کوئی چیز جمی ہوئی دیکھ پائی تو اب یہ نہ ہو کہ اُسے یوں ہی رہنے دے اور پانی اوپر سے بہادے بلکہ چھُڑالے کہ آخر ازالہ میں توکوئی حرج تھا ہی نہیں تعاہد میں تھابعداطلاع اس کی حاجت نہ رہی”۔

یہ ہے رسالہ “تبیان الوضوء” کا خلاصہ جس میں وضو و غسل کی احتیاطیں، فرائض کی تفصیلات، جزئیات کی فراہمی، اختلاف فقہا سے بچتے ہوئے چلنے کی محتاط روش، حق کی تلقین اور صحیح مذہب پر عمل کی یقین دہانی سب کچھ ہے اور ان تمام خوبیوں کے ساتھ درج ذیل امور بطور خاص نظر آتے ہیں:

(الف) ما فی الضمیر کی خوب صورت ادائیگی۔ حساس قاری اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان مواضع میں سے کئی جگہیں وہ ہیں جن کے بیان کے لیےمناسب تعبیریں نہیں مل پاتیں لیکن حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمہ نے نہ صرف یہ کہ اپنا ما الضمیر پورے کمال کے ساتھ ادا کیا ہے بلکہ اتنے خوب صورت انداز سے ادا کیا ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔

(ب) اظہار بیان کے لیے موزوں الفاظ اور ایسے موزوں کہ بارہا زندگی بھر ان سے سابقہ نہیں پڑتا یا ان تک نظر ہی نہیں جاتی۔ یہ اردو ادب پر بھی اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا ایک طرح سے احسان ہے جیسے یہ الفاظ و تعبیرات: پٹیاں جھکی ہوں، بھووں کے بال چھدرے ہوں، آنکھوں کے چاروں کوئے، ہاتھوں /پاؤں کی آٹھوں گھائیاں، انگلیوں کی کروٹیں، پیٹھ کا ہردرہ، پیٹ وغیرہ کی بلٹیں،، پیڑو کا جوڑ، رانوں کی گولائی، انثیین کی سطح زیریں، فرج خارج کے چاروں لبوں کی جیبیں، گوشت پارہ زیریں کی سطح زیریں اور کوئے میں سرمہ وغیرہ۔

(ج) الفاظ میں حیا کی مکمل پاس داری جیسے گوشت پارہ بالا یعنی نسوانی شرم گاہ۔

(د) علمی گیرائی۔اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی ہر تحریر کی طرح یہ تحریر بھی اپنے آپ میں بڑی علمی گہرائی اور گیرائی رکھتی ہے۔ محتاط الفاظ، مدلل گفتگو، حالات زمانہ پر پوری نظر، حوالہ جات کا التزام اور سب سے اہم پہلو یہ کہ فرق مراتب کرتے ہوئے عام زندگی سے متعلق مسائل میں بھی علمی رنگ۔

(ھ) دقت نظری۔اس پورے رسالے کی سب سے زیادہ اہمیت اس کی دقت نظری ہے ورنہ نہ جسم انسانی کے اعضا انوکھے ہیں اور نہ ان اعضا کے اجزا نرالے ہیں لیکن اس عموم کے باوجود یہ دقت نظری ہی ہے جس نے اس طرح گفتگو کی ہے جیسے یہ کوئی نئی دنیا اور نرالی تحقیق ہو۔

(و) شان فقاہت۔ اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو ان کی شان فقاہت ہے جو ان کی ہر تحریر میں دور سے محسوس کی جا سکتی ہے، زیر بحث مسئلے پر گفتگو کے دوران بھی آپ علیہ الرحمہ نے حسب مزاج فقہ و افتا کے ان تمام لازمی اصولوں کی مکمل پاس داری کی ہے، جن کا کسی بھی فقیہ کو التزام کرنا ہوتا ہے جیسے دقت نظری، فرق مراتب، مضبوط استدلال، محکم موقف اور اشباہ و نظائر میں امتیاز وغیرہ جیسے بھوں اور مونچھ کے مسئلے میں وضو اور غسل میں کیا جدا حکم ہے؟ اس کی ایسے انداز سے وضاحت کی کہ کوئی عظیم فقیہ ہی کر سکتا ہے۔ اس تفصیل کی روشنی میں مونچھ اور بھنووں کے احکام یوں نکلے: (1۔3) داڑھی مونچھیں چھدری ہوں کہ نیچے کی کھال نظر آتی ہو تو کھال پر پانی بہنا ضروری ہے لیکن اگریہ گھنی ہوں اور اس وجہ سے جلد تک پانی نہ پہنچ سکے تو فرضیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوگا جبکہ غسل میں بہر حال مونچھوں کے نیچے کی کھال کا دھونا ضروری ہوگا اگرچہ مونچھیں گھنی ہوں۔

(4۔6) اسی طرح بھووں کے بال چھدرے ہوں کہ نیچے کی کھال چمکتی ہو تو وضو میں کھال پر پانی بہنا فرض ہے اور اگر ایسے گھنے ہوں کہ پانی نہ پہنچ سکے تو حرج نہیں لیکن غسل میں بھنووں کے نیچے کی کھال کا دھلنا بہر حال ضروری ہوگا اگرچہ بال کیسے ہی گھنے ہوں۔

کچھ مواضع جو اول نظر میں باریکی کا تقاضا نہیں کرتے، آپ کی فقہی نظر نے نہ صرف ان کا انتخاب کیا بلکہ ان پر فقہی جزئیات کی روشنی میں ایسی باریک اور استدلالی گفتگو کی کہ قاری کے لیے تسلیم کے علاوہ کوئی چارہ نہ بچے جیسے: (1) آدمی جب خاموش بیٹھے تو دونوں لب مل کر کچھ حصہ چھپ جاتا،کچھ ظاہر رہتا ہے، یہ ظاہر رہنے والا حصہ بھی دُھلنا فرض ہے،اگر کُلّی نہ کی اور منہ دھونے میں لب سمیٹ کر بزور بند کرلیے تو اس پر پانی نہ بہے گا۔ (2) کان کا ہر پرزہ ،اس کے سوراخ کا منہ۔(3) چوتھائی سرکا مسح فرض ہے، پوروں کے سرے گزار دینا، اکثر اس مقدار کو کافی نہیں ہوتا۔

(ز)حوالہ جات کا ایسا التزام کہ باتوں کا تسلسل بھی نہ ٹوٹے اور اعتبار بھی قائم رہے۔اس کا مناب طریقہ آپ نے یہ اپنایا کہ سوال کے ہر گوشے کا جواب دینے کے بعد اس سے متعلق فقہی آثار و دلائل سے ایسے حسین پیرائے میں استدلال کیا کہ جہاں باتوں کا اعتبار قائم رہا، وہیں انداز بیان کے تسلسل میں ذرا فرق بھی نہیں آیا۔

(ح) سچ تو یہ ہے کہ اس نازک خیالی اور باریک نظری کے ساتھ نمبرنگ کا اہتمام بھی ایک کمال ہے ورنہ بہت ممکن ہے کہ: ڈھلکی ہوئی پستان اٹھا کر دھونی اور پستان و شکم کے جوڑ کی تحریر” میں فرق نہ معلوم ہو۔

(ط) مواضع احتیاط کا ذکر کرنے کے بعد مواضع عفو کی جو فہرست تیار کی ہے، اس میں بھی امتیازات و کمالات کے وہ تمام جوہر پائے جا رہے ہیں، جو درج بالا مواضع میں مذکور ہوئے۔ اسی طرح حرج کے اصولوں کے تعلق سے جو اصولی گفتگو ہوئی ہے، وہ بھی بجائے خود ایک فقہی مثال ہے۔

یعنی کہا جا سکتا ہے کہ اعلی حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ کو اللہ تعالی نے وہ نظر انتخاب عطا فرمائی تھی، جو عموم میں بھی خصوص پیدا کر لیتی تھی۔ آپ کا یہ رسالہ وہ ہے جس کی علمی پہنائیاں سمجھنے کے لیے نہ کسی علمی ادارے کی سند درکار ہے اور نہ ذہن ثاقب بلکہ ہر عامی بھی سلیقے کے ساتھ اس گفتگو کو سمجھ سکتا ہے اور انصاف کی نگاہ سے دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ آپ عبقری نگاہ کےمالک تھے۔ اس رسالےکے ذریعہ جہاں حضرت امام علیہ الرحمہ کی علمی شخصیت، فقہی بصیرت اور دقت نظری کا روشن ثبوت فراہم ہوتا ہے، وہیں دلائل کی تفصیل کے ساتھ یہ واضح میسیج بھی ملتا ہے کہ دیانت و تقوی اور زہد و ورع کی اصطلاحیں، اس وقت تک موہوم ہیں، جب تک ان پر علمی رنگت حاوی نہ ہو۔علما کی طرح عوام پر اوراپنوں کے ساتھ غیروں پر بھی یہ رسالہ حجت کا درجہ رکھتا ہے۔اللہ تعالی عمل کی توفیق بخشے۔