وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْؕ-كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۶۰)

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے (ف۹۹) ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا (ف۱۰۰) اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو (ف۱۰۱)

(ف99)

جب بنی اسرائیل نے سفر میں پانی نہ پایا شدت پیاس کی شکایت کی تو حضرت موسٰی علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو آپ کے پاس ایک مربع پتھر تھا جب پانی کی ضرورت ہوتی آپ اس پر عصا مارتے اس سے بارہ چشمے جاری ہوجاتے اور سب سیراب ہوتے یہ بڑا معجزہ ہے لیکن سید انبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے انگشت مبارک سے چشمے جاری فرما کر جماعت کثیرہ کو سیراب فرمانا اس سے بہت اعظم واعلیٰ ہے کیونکہ عضو انسانی سے چشمے جاری ہونا پتھر کی نسبت زیادہ اعجب ہے۔ (خازن ومدارک)

(ف100)

یعنی آسمانی طعام من و سلوٰی کھاؤ اور اس پتھر کے چشموں کا پانی پیو جو تمہیں فضل الٰہی سے بے محنت میسر ہے۔

(ف101)

نعمتوں کے ذکر کے بعد بنی اسرائیل کی نالیاقتی دوں ہمتی اور نافرمانی کے چند واقعات بیان فرمائے جاتے ہیں۔

وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِ جْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَ قِثَّآىٕهَا وَ فُوْمِهَا وَ عَدَسِهَا وَ بَصَلِهَاؕ-قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ هُوَ اَدْنٰى بِالَّذِیْ هُوَ خَیْرٌؕ-اِهْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْؕ-وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُۗ-وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۠(۶۱)

اور جب تم نے کہا اے موسیٰ (ف۱۰۲) ہم سے تو ایک کھانے پر (ف۱۰۳) ہرگز صبر نہ ہوگا تو آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہمارے لیے نکالے کچھ ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز فرمایاکیا ادنیٰ چیزکو بہتر کے بدلے مانگتے ہو (ف۱۰۴) اچھا مصر (ف۱۰۵) یا کسی شہر میں اترو وہاں تمہیں ملے گا جو تم نے مانگا (ف۱۰۶) اور ان پر مقرر کردی گئی خواری اور ناداری (ف۱۰۷) اور خدا کے غضب میں لوٹے (ف۱۰۸) یہ بدلہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور انبیاء کو ناحق شہید کرتے (ف۱۰۹) یہ بدلہ تھا ان کی نافرمانیوں اور حد سے بڑھنے کا

(ف102)

بنی اسرائیل کی یہ ادا بھی نہایت بے ادبانہ تھی کہ پیغمبر اولوالعزم کو نام لے کر پکارا یا نبی اللہ یارسول اللہ یا اور کوئی تعظیم کا کلمہ نہ کہا( فتح العزیز) جب انبیاء کا خالی نام لینا بے ادبی ہے تو ان کو بشر اور ایلچی کہنا کس طرح گستاخی نہ ہوگا غرض انبیاء کے ذکر میں بے تعظیمی کا شائبہ بھی ٍناجائز ہے۔

(ف103)

( ایک کھانے ) سے ( ایک قسم کا کھانا) مراد ہے

(ف104)

جب وہ اس پر بھی نہ مانے تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے بارگاہِ الہی میں دعا کی ارشاد ہوا ”اِھۡبِطُوۡ ا”

(ف105)

مصر عربی میں شہر کو بھی کہتے ہیں کوئی شہر ہواور خاص شہر یعنی مصر موسٰی علیہ السلام کا نام بھی ہے یہاں دونوں میں سے ہر ایک مراد ہو سکتا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہاں خاص شہر مصر مراد نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے لئے یہ لفظ غیر منصرف ہو کر مستعمل ہوتا ہے اور اس پر تنوین نہیں آتی جیسا کہ دوسری آیت میں وارد ہے ۔ ” اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ” اور ”اُدْخُلُوْا مِصْرَ ” مگر یہ خیال صحیح نہیں کیونکہ سکون اوسط کی وجہ سے لفظ ہند کی طرح اس کو منصرف پڑھنا درست ہے نحو میں اس کی تصریح موجود ہے علاوہ بریں حسن وغیرہ کی قرأت میں مصر بلا تنوین آیا ہے اور بعض مصاحف حضرت عثمان اور مصحف اُبَیّ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں بھی ایسا ہی ہے اسی لئے حضرت مترجم قدس سرہ نے ترجمہ میں دونوں احتمالوں کو اخذ فرمایا ہے اور شہر معین کے احتمال کو مقدم کیا۔

(ف106)

یعنی ساگ ککڑی وغیرہ کو ان چیزوں کی طلب گناہ نہ تھی لیکن ” مَنۡ وسَلوٰی” جیسی نعمت بے محنت چھوڑ کر ان کی طرف مائل ہونا پست خیالی ہے ہمیشہ ان لوگوں کا میلان طبع پستی ہی کی طرف رہا اور حضرت موسیٰ و ہارون وغیرہ جلیل القدر بلند ہمت انبیاء (علیہم السلام) کے بعد بنی اسرائیل کی لئیمی و کم حوصلگی کا پورا ظہور ہوا اور تسلط جالوت و حادثہ بخت نصر کے بعد تو وہ بہت ہی ذلیل و خوار ہوگئے اس کا بیان ” ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ” میں ہے ۔

(ف107)

یہود کی ذلت تو یہ کہ دنیا میں کہیں نام کو ان کی سلطنت نہیں اور ناداری یہ کہ مال موجود ہوتے ہوئے بھی حرص سے محتاج ہی رہتے ہیں

(ف108)

انبیاء و صلحاء کی بدولت جو رتبے انہیں حاصل ہوئے تھے ان سے محروم ہوگئے اس غضب کا باعث صرف یہی نہیں کہ انہوں نے آسمانی غذاؤں کے بدلے ارضی پیداوار کی خواہش کی یا اُسی طرح کی اور خطائیں جو زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام میں صادر ہوئیں بلکہ عہد نبوت سے دور ہونے اور زمانہ دراز گزرنے سے ان کی استعدادِیں باطل ہوئیں اور نہایت قبیح افعال اور عظیم جرم ان سے سرزد ہوئے۔یہ ان کی اس ذلت و خواری کا باعث ہوئے ۔

(ف109)

جیسا کہ انہوں نے حضرت زکریا و یحیی و شعیا علیہم السلام کو شہید کیا اور یہ قتل ایسے ناحق تھے جن کی وجہ خود یہ قاتل بھی نہیں بتاسکتے۔