جدید آلات سے شکار کرتے ہوئے أگر شکار مرجائے تو أسکا کیا حکم ہے؟ کیا أس شکار کو کھانا حلال ہے ؟

جواب أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی):

یہ شرط تو معروف ہے کہ شکار کرنے والا مسلمان ہو یا اہل کتاب ( یہودی و عیسائی) أور عاقل ہو یعنی تسمیہ کو سمجھ سکتا ہو أور پڑھ سکتا ہو أور حالت احرام میں نہ ہو شکار بری کے وقت،

ہم سب سے پہلے کچھ آیات و أحادیث بیان کرتے ہیں جن سے جدید آلات سے شکار کرنے کی جو شروط ہیں أنکو مستنبط کیا جاسکے:

قرآنی آیات:

اللہ رب العزت فرماتا ہے:

” أحل لكم صيد البحر وطعامه متاعا لكم وللسيارة وحرم عليكم صيد البر ما دمتم حرما “

( المائدة ، 96 )

ترجمہ:

تمہارے لیے أور مسافروں کے فائدے کے لیے سمندر کا شکار حلال کیا گیا ہے ، أور تم پر خشکی ( پہ رہنے والے جانوروں) کا شکار أس وقت تک حرام ہے جب تک تم إحرام کی حالت میں ہوں.

” يا أيها الذين آمنوا ليبلونكم الله بشيء من الصيد تناله أيديكم ورماحكم ..”

( المائده ، 94 )

ترجمہ:

أے إیمان والو! اللہ قدرے شکار سے جنکو تمہارے ہاتھ أور نیزوں نے کیا ہے آزمائے گا ۔۔.

” قل أحل لكم الطيبات وما علمتم من الجوارح مكلبين.. “

( المائدہ ، 4 )

ترجمہ:

( أے محبوب!) آپ فرمادیجیے کہ تمام پاک چیزیں أور جوارح میں سے کتے جنکو تم نے سکھایا ہے ( أنکا شکار حلال کیا ہے ).

أحادیث مبارکہ:

حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

إذا أرسلت كلبك وسميت فأمسك وقتل فكل ، وإن أكل فلا تأكل فإنما أمسك على نفسه ، وإذا خالط كلابا لم يذكر اسم الله عليها فأمسكن وقتلن فلا تأكل ، فإنك لا تدري أيها قتل ، وإن رميت الصيد فوجدته يوم أو يومين ليس به إلا أثر سهمك فكل ، وإن وقع في الماء فلا تأكل “

( متفق علیہ ؛ صحیح بخاری ، حدیث نمبر: 5484 ، صحیح مسلم بزیادۃ الألفاظ ، حدیث نمبر: 1929 ، لفظ البخاری ).

ترجمہ:

جب تونے کتے کو بھیجا ( چھوڑا شکار کے لیے) اس حال میں کہ تونے بسم اللہ پڑھی ،پس کتے نے ( شکار کو) پکڑا أور مار دیا پس تو أس سے کھا کیونکہ أس ( کتے) نے خود کو أس ( شکار کو کھانے سے) روکا ، أور أگر (إیک سے) زائد کتے مکس ہوگے ، أور ( أن کو چھوڑتے وقت) بسم اللہ نہیں پڑھی پس أنہوں نے ( شکار) کو پکڑا أور مار دیا تو تم أس سے مت کھا کیونکہ تو نہیں جانتا کہ أن میں سے کس نے مارا ہے ، أور أگر تونے تیر پھینکا أور أس ( شکار) کو تونے إیک دن یا دو دن بعد پایا أگر أس پہ تیرے تیر کے علاوہ کوئی أور نشان نہیں ہے تو أسے کھا ، أور أگر پانی میں گر گیا تو نہ کھا.

صحیح مسلم میں زیادہ الفاظ میں سےکچھ ألفاظ یہ ہیں:

” فأدركته حيا فاذبحه ” أور ” وإن رميت سهمك فاذكر اسم الله “

ترجمہ: أگر تونے ( وہ شکار) زندہ پایا تو ذبح کر ، أور أگر تونے تیر پھینکا تو بسم اللہ پڑھ.

جدید آلات سے شکار کرنے کی شرائط:

مذکورہ بالا قرآن مجید کی آیات طیبات أور أحادیث مبارکہ کی روشنی میں جدید آلات سے شکار کرنے کی درج ذیل شروط کا پایا جانا ضروری ہے:

پہلی شرط:

جدید آلات سے نکلنے والی شے کے نکلتے وقت بسم اللہ پڑھنا یعنی جب آپ بندوق کا گھوڑا دبائیں تو أس وقت آپکو بسم اللہ پڑھنی ہوگی ،

أگر نکلنے کے بعد پڑھی تو جائز نہیں ہوگا أگر مرگیا ، أگر زندہ ہے تو ذبح کرکے کھا سکتے ہیں.

دوسری شرط:

جرح کا ہونا یعنی جو جدید آلہ آپ استعمال کررہے ہیں وہ شکار کو زخمی کرے أگر زخمی نہیں ہوگا تو وہ مرگیا تو أسکا کھانا جائز نہیں ہوگا.

أور جن آلات میں زخمی کرنے کا وصف نہیں ہوتا أس سے شکار نہیں کرسکتے.

تیسری شرط:

أگر إیک سے زائد آلات سے إیک جانور یا مختلف جانوروں کا شکار کیا تو أگر آپ نے ہر آلے سے شکار کرتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھی تو کھانا جائز نہیں ہوگا.

إسی طرح أگر إیک آلے سے إیک سے زائد بار أس جانور کو نشانہ بنایا تو ہر دفعہ بسم اللہ پڑھنی ہوگی.

چوتھی شرط:

شکار أسی آلہ سے مرے أگر یقین یا احتمال ہو کہ وہ شکار آپکے آلے سے نہیں بلکہ کسی أور سے مرا ہے تو کھانا جائز نہیں ہوگا.

پانچویں شرط:

أگر شکار زندہ ہو تو أسکو ذبح کیے بغیر آپ نہیں کھا سکتے.

قرآن کیسے قیامت تک ہر آلے کا حکم بیان کرتا ہے:

سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 4 پہ غور کریں کہ قرآن مجید نے لفظ ” الجوارح” بیان کرکے قیامت تک کسی بھی آلہ سے شکار کرنے کا حکم بیان کردیا ( سبحان اللہ)۔

سؤال:

کیا صرف زخم کا ہونا کافی ہے یا خون بہنا بھی ضروری ہے؟

جواب:

إس میں اختلاف ہے لیکن راجح أور لفظ” جوارح” کے مطابق زخم ہونا ہی کافی ہے خون کا بہنا شرط نہیں.

اعتراض:

حدیث طویل میں ہے :

” ما أنهر الدم وذكر اسم الله……الخ”

(متفق علیہ ؛ صحيح بخاري ،حدیث نمبر: 5503 ، صحیح مسلم ، حدیث نمبر: 1968 )

ترجمہ: ہر وہ ( آلہ) جو خون بہائے اس حال میں کہ بسم اللہ پڑھی گئی ہو.

لہذا إس حدیث میں تو خون بہانے والے آلے کا ذکر ہے تو پھر صرف زخم کیوں؟

رد:

إس حدیث میں آلے کے وصف کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ خون بہانے والا ہو لیکن إس شرط کو نہیں کہ جس پہ وہ چل رہا ہے أسکا بھی خون بہے تو لہذا ہم نے پہلے ہی کہا ہے کہ آلہ وہ ہو جو زخم لگا سکے ، أور زخم وہی لگائے گا جو خون بہا سکتا ہو،

إسی لیے حدیث میں وصف آلہ کا ذکر ہے نہ کہ وصف شکار کا لہذا یہ اعتراض حجت نہیں کیونکہ ہم وصف شکار کی بات کررہے ہیں.

سؤال:

شکار کے وقت أگر عضو کٹ کر الگ ہوجائے تو کیا حکم ہے؟

جواب:

أگر عضو کٹ کر ألگ ہوجائے تو کٹا ہوا عضو نہ کھایا جائے، باقی شکار کھانے میں کوئی حرج نہیں

کیونکہ حدیث ضعیف میں ہے جسکی تحسین إمام ترمذی نے کی ہے أور اسکے توابع نصب الرایہ میں دیکھ سکتے ہیں یا بنایہ شرح ہدایہ کتاب الصید میں :

” ما قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة”

( سنن ترمذي ، حديث نمبر: 1480 ، أور فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے پھر فرماتے ہیں:

والعمل علی هذا عند أهل العلم/ إس حدیث پر أہل علم کے ہاں عمل ہے)

ترجمہ:

جو عضو زندہ جانور سے کٹ جائے وہ مردہ ہے ( نہیں کھایا جائے گا)۔

لہذا جس میں حرمت کا شبہہ آجائے أسکو چھوڑ دینا چاہیے.

آخر میں إیک قاعدہ بیان کرتا ہوں جو إمام مرغینانی نے بیان کیا جس سے جدید آلات سے شکار کرنے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے،

إمام مرغینانی پتھر سے شکار کرنے والے مسئلہ کے بعد إیک قاعدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

” و الأصل في هذه المسائل: أن الموت إذا كان مضافا إلى الجرح بيقين كان الصيد حلالا ، وإذا كان مضافا إلى الثقل بيقين كان حراما ، وإن وقع الشك لا يدري مات بالجرح أو بالثقل كان حراما احتياطا.

( الهداية مع البناية ، 12/451 )

ترجمہ: ان مسائل میں قاعدہ یہ ہے کہ أگر یقین کے ساتھ ( شکار کی) موت کی نسبت زخم کی طرف ہو تو وہ شکار حلال ہے ، أور أگر یقین کے ساتھ موت کی نسبت ثقل ( بغیر زخم کے صرف أس آلے کے وزن کی وجہ سے) ہو تو پھر شکار حرام ہے ، أور أگر شک ہو کہ زخم سے مرا ہے یا وزن سے تو پھر احتیاطا حرام ہے.

خلاصۂ کلام:

إن تمام شروط سے یہ واضح ہوتا ہے کہ أگر جدید آلہ شکار کو زخمی کرے أور وہ مرجائے أور آلہ سے نکلنے والی چیز کے نکلتے وقت بسم اللہ بھی پڑھی ہو ،اور باقی جو شروط أوپر بیان ہوئی ہیں وہ بھی ساری موجود ہوں تو جدید آلہ سے شکار کرتے وقت مرے ہوئے شکار کو بغیر ذبح کیے کھا سکتے ہیں.

واللہ أعلم.