یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)

اے ایمان والو (ف۱۸۵)راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو (ف۱۸۶) اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے (ف۱۸۷)

(ف185)

شانِ نُزول : جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ”رَاعِنَا یارسول اللہ ” اس کے یہ معنی تھے کہ یارسول اللہ ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے یہود کی لغت میں یہ کلمہ سوء ِادب کے معنی رکھتا تھا انہوں نے اس نیت سے کہنا شروع کیا حضرت سعد بن معاذ یہود کی اصطلاح سے واقف تھے آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا اے دشمنان خدا تم پر اللہ کی لعنت اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا اس کی گردن ماردوں گا یہود نے کہا ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں اس پر آپ رنجیدہ ہو کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ”رَاعِنَا” کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ”اُنْظُرْناَ” کہنے کا حکم ہوا مسئلہ: اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں کلمات ادب عرض کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترک ادب کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ۔

(ف186)

اور ہمہ تن گوش ہوجاؤ تاکہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضور توجہ فرمائیں کیونکہ دربار نبوت کا یہی ادب ہے، مسئلہ دربار انبیاء میں آدمی کو ادب کے اعلیٰ مراتب کا لحاظ لازم ہے۔

(ف187)

مسئلہ : ” لِلْکٰفِرِیْنَ” میں اشارہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے ۔

مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ لَا الْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(۱۰۵)

وہ جو کافر ہیں کتابی یا مشرک (ف۱۸۸) وہ نہیں چاہتے کہ تم پر کوئی بھلائی اترے تمہارے رب کے پاس سے (ف۱۸۹) اور اللہ اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے جسے چاہے اور اللہ بڑے فضل والاہے

(ف188)

شان نُزول : یہود کی ایک جماعت مسلمانوں سے دوستی و خیرخواہی کا اظہار کرتی تھی ان کی تکذیب میں یہ آیت نازل ہوئی مسلمانوں کو بتایا گیا کہ کفار خیر خواہی کے دعوے میں جھوٹے ہیں۔(جمل)

(ف189)

یعنی کفار اہل کتاب اور مشرکین دونوں مسلمانوں سے بغض رکھتے ہیں اور اس رنج میں ہیں کہ ان کے نبی محمد مصطفٰےصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت و وحی عطا ہوئی اور مسلمانوں کو یہ نعمت عظمیٰ ملی(خازن وغیرہ)

مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَاؕ-اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۱۰۶)

جب کوئی آیت ہم منسوخ فرمائیں یا بھلا دیں (ف۱۹۰) تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آئیں گے کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے

(ف190)

شان نُزول : قرآنِ کریم نے شرائع سابقہ و کتب قدیمہ کو منسوخ فرمایا تو کفار کو بہت توحش ہوا اور انہوں نے اس پر طعن کیے اس پر یہ آیہء کریمہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ منسوخ بھی اللہ کی طرف سے ہے اور ناسخ بھی دونوں عین حکمت ہیں اور ناسخ کبھی منسوخ سے زیادہ سہل وانفع ہوتا ہے’ قدرت الہی پر یقین رکھنے والے کو اس میں جائے تردد نہیں کائنات میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دن سے رات کو گرما سے سرما کو جوانی سے بچپن کو بیماری سے تندرستی کو بہار سے خزاں کو منسوخ فرماتا ہے۔ یہ تمام نسخ و تبدیل اس کی قدرت کے دلائل ہیں تو ایک آیت اور ایک حکم کے منسوخ ہونے میں کیا تعجب نسخ درحقیقت حکم سابق کی مدت کا بیا ن ہو تا ہے کہ وہ حکم اس مدت کے لئے تھا اور عین حکمت تھا کفار کی نافہمی کہ نسخ پر اعتراض کرتے ہیں اور اہل کتاب کا اعتراض ان کے معتقدات کے لحاظ سے بھی غلط ہے انہیں حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت کے احکام کی منسوخیت تسلیم کرنا پڑے گی یہ ماننا ہی پڑے گا کہ شنبہ کے روز دنیوی کام ان سے پہلے حرام نہ تھے ان پر حرام ہوئے یہ بھی اقرار ناگزیر ہوگا کہ توریت میں حضرت نوح علیہ ا لسلام کی امت کے لئے تمام چوپائے حلال ہونا بیان کیا گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بہت سے حرام کردیئے گئے ان امور کے ہوتے ہوئے نسخ کا انکار کس طرح ممکن ہے مسئلہ: جس طرح آیت دوسری آیت سے منسوخ ہوتی ہے اسی طرح حدیث متواتر سے بھی ہوتی ہے مسئلہ :نسخ کبھی صرف تلاوت کا ہوتا ہے کبھی صرف حکم کا ،کبھی تلاوت و حکم دونوں کا بیہقی نے ابو امامہ سے روایت کی کہ ایک انصاری صحابی شب کو تہجد کے لئے اٹھے اور سورہ فاتحہ کے بعد جو سورت ہمیشہ پڑھا کرتے تھے اس کو پڑھنا چاہا لیکن وہ بالکل یاد نہ آئی اور سوائے بسم اللہ کے کچھ نہ پڑھ سکے ‘ صبح کو دوسرے ا صحاب سے اس کا ذکر کیا ان حضرات نے فرمایا ہمارا بھی یہی حال ہے وہ سورت ہمیں بھی یاد تھی اور اب ہمارے حافظہ میں بھی نہ رہی سب نے سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واقعہ عرض کیا حضور اکرم نے فرمایا آج شب وہ سورت اٹھالی گئی اس کے حکم و تلاوت دونوں منسوخ ہوئے جن کاغذوں پر وہ لکھی گئی تھی ان پر نقش تک باقی نہ رہے۔

اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(۱۰۷)

کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار

اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْــٴَـلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُىٕلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُؕ-وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ(۱۰۸)

کیا یہ چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے ویسا سوال کرو جوپہلے موسیٰ سے ہو ا تھا (ف۱۹۱) اور جو ایمان کے بدلے کفر لے (ف۱۹۲) وہ ٹھیک راستہ(سے) بہک گیا

(ف191)

شان نزول یہود نے کہا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس آپ ایسی کتاب لائیے جو آسمان سے ایک با رگی نازل ہو ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔

(ف192)

یعنی جو آیتیں نازل ہوچکی ہیں ان کے قبول کرنے میں بے جا بحث کرے اور دوسری آیتیں طلب کرے

مسئلہ اس سے معلوم ہوا کہ جس سوال میں مفسدہ ہو وہ بزرگوں کے سامنے پیش کر ناجائز نہیں اور سب سے بڑا مفسدہ یہ کہ اس سے نافرمانی ظاہر ہوتی ہو۔

وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا ۚۖ-حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّۚ-فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۱۰۹)

بہت کتابیوں نے چاہا (ف۱۹۳) کاش تمہیں ایمان کے بعد کفر کی طرف پھیردیں اپنے دلوں کی جلن سے (ف۱۹۴) بعد اس کے کہ حق ان پر خوب ظاہر ہوچکا ہے تو تم چھوڑو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے بےشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے

(ف193)

شان نزول جنگ احد کے بعد یہود کی جماعت نے حضرت حذیفہ بن یمان اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہماسے کہا کہ اگر تم حق پر ہوتے تو تمہیں شکست نہ ہوتی ‘ تم ہمارے دین کی طرف واپس آجاؤ’ حضرت عمار نے فرمایا تمہارے نزدیک عہد شکنی کیسی ہے انہوں نے کہا نہایت بری آپ نے فرمایا میں نے عہد کیا ہے کہ زندگی کے آخر لمحہ تک سید عالم محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ پھروں گا اور کفر نہ اختیار کروں گا ،اور حضرت حذیفہ نے فرمایا میں راضی ہوا اللہ کے رب ہونے اور محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے ‘ اسلام کے دین ہونے قرآن کے ایمان ہونے کعبہ کے قبلہ ہونے’ مومنین کے بھائی ہونے سے پھر یہ دونوں صاحب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو واقعہ کی خبر دی حضور نے فرمایا تم نے بہتر کیا اور فلاح پائی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

(ف194)

اسلام کی حقانیت جاننے کے بعد یہود کا مسلمانوں کے کفر و ارتداد کی تمنا کرنااور یہ چاہنا کہ وہ ایمان سے محروم ہوجائیں حسداً تھا حسد بڑا ہی عیب ہے،( مسئلہ)حدیث شریف میں ہے سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسد سے بچو وہ نیکیوں کو اس طرح کھا تا ہے جیسے آگ خشک لکڑ ی کو۔ (مسئلہ)حسد حرام ہے

مسئلہ: اگر کوئی شخص اپنے مال و دولت یا اثر ووجاہت سے گمراہی و بے دینی پھیلاتا ہو تو اس کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے اس کے زوال نعمت کی تمنا حسد میں داخل نہیں اور حرام بھی نہیں۔

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ-وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۱۱۰)

اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو (ف۱۹۵) اور اپنی جانوں کے لیے جو بھلائی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے یہاں پاؤ گے بےشک اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے

(ف195)

مومنین کو یہود سے در گزر کا حکم دینے کے بعد انہیں اپنے اصلاح نفس کی طرف متوجہ فرماتا ہے۔

وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰىؕ-تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْؕ-قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۱۱۱)

اور اہلِ کتاب بولے ہرگز جنت میں نہ جائے گا مگر وہ جو یہودی یا نصرانی ہو (ف۱۹۶) یہ ان کی خیال بندیاں ہیں تم فرماؤ لاؤ اپنی دلیل(ف۱۹۷) اگر سچے ہو

(ف196)

یعنی یہود کہتے ہیں کہ جنت میں صرف یہودی داخل ہوں گے اور نصرانی کہتے ہیں کہ فقط نصرانی اور یہ مسلمانوں کو دین سے منحرف کرنے کے لئے کہتے ہیں جیسے نسخ وغیرہ کے لچر شبہات انہوں نے اس امید پر پیش کئے تھے کہ مسلمانوں کو اپنے دین میں کچھ تردد ہوجائے اسی طرح ان کو جنت سے مایوس کرکے اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرتے ہیں’ چنانچہ آخر پارہ میں ان کا یہ مقولہ مذکور ہے۔” وَقَالُوْا کُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْنَصٰرٰی تَھْتَدُوْا ” اللہ تعالیٰ ان کے اس خیال باطل کا ردّ فرماتا ہے۔

(ف197)

مسئلہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نفی کے مدعی کو بھی دلیل لانا ضرور ہے بغیر اس کے دعوٰی باطل و نامسموع ہوگا۔

بَلٰىۗ-مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ۪-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۠(۱۱۲)

ہاں کیوں نہیں جس نے اپنا منہ جھکایا اللہ کے لیے اور وہ نیکو کار ہے (ف۱۹۸) تو اس کانیگ (بدلہ) اس کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو اور نہ کچھ غم (ف۱۹۹)

(ف198)

خواہ وہ کسی زمانہ کسی نسل کسی قوم کا ہو۔

(ف199)

اس میں اشارہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کا یہ دعویٰ کہ جنت کے فقط وہی مالک ہیں بالکل غلط ہے کیونکہ دخول جنت مرتب ہے ،عقیدئہ صحیحہ وعمل صالح پر اور یہ انہیں میسّر نہیں۔