😠 *نیوز چینلز : نفرتوں کے نئے سوداگر* 😠

غلام مصطفےٰ نعیمی

مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

gmnaimi@gmail.com

کسی بھی جمہوری ملک کی کامیابی کے لئے پارلیمنٹ(parliament ) عدلیہ(Judiciary) مقننہ(Administration) کے ساتھ ساتھ میڈیا (Journalism) کا غیر جانب دار اور عوام کے تئیں انصاف پسند ہونا لازمی ہے. ان چاروں میں میڈیا کی ذمہ داری اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہی وہ پلیٹ فارم ہے جو پہلے تین فورمز کے مقابلے عوام کے زیادہ قریب ہے. اس لئے اگر پارلیمنٹ عدلیہ یا مقننہ کے ذریعے کوئی عوام مخالف قانون سازی یا فیصلہ ہوتا ہے تو میڈیا ہی عوامی رائے کو پیش کرکے اہل اقتدار کو رجوع پر مجبور کرتا ہے.وطن عزیز میں میڈیا نے کئی اہم معاملات میں بڑا اہم رول نبھایا ہے. لیکن پچھلے کچھ سالوں سے میڈیا کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے.

حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب لوگ نیوز چینلز کو “کامیڈی شو” کہنے لگے ہیں اور بچے “Doremon cartoon” کی جگہ مخصوص پارٹی ترجمانوں کو دیکھنا پسند کرنے لگے ہیں !!!!

میڈیا میں آئی اس گراوٹ کا اثر ان کے پروگرامز میں صاف جھلکتا ہے. جہاں ادب وتہذیب کا شائبہ تک نظر نہیں آتا. پروگرام کے نام ہی ان کے علمی دیوالیہ پن کا کھلا ثبوت دیتے ہیں. ایک نظر نیوز چینلز کے اہم پروگرام کے ناموں پر ڈالیں تاکہ ان کی پست ذہنیت کا اندازہ ہوسکے:

🔹دنگل

🔹تال ٹھوک کے

🔹ہم تو پوچھیں گے

🔹آر یا پار

🔹ڈنکے کی چوٹ پر

🔹ہلّا بول

ان ناموں کو خوب دیکھیے اور سوچیے کہ ان ناموں سے کیا کسی مثبت سنجیدہ ٹاپک کا احساس ہوتا ہے یا گلی میں لڑنے والے آوارہ لڑکوں کے جھنڈ کی بونگیاں لگتی ہیں؟

صحافت اور ادب کا بڑا گہرا رشتہ ہوتا ہے. جارج برنارڈ شا نے کہا تھا:

“All great literature is Journalism”

بہترین ادب ہی اصل صحافت ہے.

لیکن آج چند میڈیا اینکرز کی وجہ سے صحافت کا معیار اتنا گر گیا ہے کہ اس کی زبان بھی لکھنؤ کے بھٹیاروں سے زیادہ خراب ہوگئی ہے.

*گرتے معیار کی وجوہات*

گذشتہ سالوں میں میڈیا کے گرتے معیار کی اہم وجوہات یہ ہیں:

📣 کچھ چینل مالکان کا مخصوص سیاسی پارٹی سے وابستہ ہونا.

📣 مالی منفعت کے لئے حکومت کی ہاں میں ہاں ملانا.

📣 دو فرقوں کے مابین نفرت پھیلانے والے موضوعات پر مشتمل اسٹوری چلانا.

📣 شدت پسند تنظیموں کے ایجنڈے کے مطابق پروگرام بنانا.

📣 اینکرز کا اپنا ذاتی نظریہ عوام پر تھوپنا.

📣 غیر تحقیق شدہ اور جھوٹی خبریں چلانا.

📣 مذہبی منافرت بڑھانے والا مواد پیش کرنا.

📣 سماج کو در پیش مسائل مثلاً تعلیم, روزگار, صحت جیسے مسائل سے روگردانی کرنا.

📣 فلمی ایکٹر،کرکٹرز وغیرہ کے بے مقصد کاموں پر گھنٹوں بریفنگ دینا.

انہیں حالات کو دیکھ کر پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جسٹس چندر مولِی پرساد نے کہا تھا:

“صحافت کا سب سے بڑا چیلنج اعتماد ہے جسے ہمیں بنائے رکھنا ہوگا. آج میڈیا ہاؤسز بڑھ رہے ہیں اور صحافت کا معیار دن بدن گرتا جارہا ہے. یہ بہت ہی نازک صورت حال ہے.”

کانسٹیبل کی نوکری کے لئے ایم بی اے(MBA) پاس نوجوانوں کا اپلائی کرنا میڈیا کے لئے کوئی اہم خبر نہیں ہوتی لیکن یہی میڈیا امیتابھ کی پوتی کے فراک اور شاہ رخ کے بیٹے کی جیکٹ پر بریکنگ نیوز چلاتا ہے. میڈیا کے دیوالیہ پن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا !!!!!!

*گالی سے لیکر گھونسے تک*

کچھ سال پہلے تک کون سوچ سکتا تھا کہ نیوز چینل پر ریڈ لائٹ ایریوں اور شرابی ٹھیکوں کی طرح گندی گالیاں بھی سننے کو ملیں گی؟؟

مگر ٹی آر پی خوری کی وجہ سے”خالص میڈ ان انڈیا” گالیاں بھی ڈبیٹ کا اہم حصہ ہوگئی ہیں.خاص بات یہ ہے کہ اس “ثقافتی” کام میں ایک مخصوص پارٹی کے “مہذب” ترجمانوں نے ریڈ لائٹ ایریا کے گالی بازوں کو بھی مات دے دی ہے. اب جس ڈبیٹ میں دس پانچ گالیاں نہ بکی جائیں تو ڈبیٹ کا احساس ہی نہیں ہوتا.بریں وجہ گالیاں بکنے میں دلیر اور فراخ دل افراد کو ہر چینل والے ضرور بلاتے ہیں.

گالی بازی عام ہونے کے بعد کچھ راشٹروادی چینلوں نے *”لات گھونسے اور تھپڑبازی”* کا سلسلہ بھی شروع کرا دیا. جس کی وجہ سے اب گالیوں کے ساتھ لات گھونسوں سے ضیافت کا اہتمام ہونے لگا ہے. ترقی کا یہی سلسلہ جاری رہا تو جلد ہی بندوق اور پستول سے بھی خاطرداری شروع ہوجائے گی.

*میڈیا کی موجودہ روش*

صحافت کسی بھی معاملے کو بعد تحقیق قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کا نام ہے۔لیکن آج کل خبریں پہنچائی نہیں بلکہ بنائی جاتی ہیں. ترسیل خبر کی جگہ خبروں کی تجارت کی جارہی ہے اسی وجہ سے توڑ مروڑ کر،مرچ مسالہ لگا کر خبریں پلانٹ کی جاتی ہیں. کچھ مخصوص افراد،کمیونٹی اور خاص مذاہب کو ٹارگیٹ کرکے بغیر کسی تحقیق کے جھوٹی خبریں نشر کی جاتی ہیں.

💠 مخصوص کمیونٹی کی معمولی باتوں پر ڈبیٹ کرائی جاتی ہے.

💠 حکومتی ناکامیوں پر سوال پوچھنے کی بجائے ان کی سیاسی پالیسی کی حمایت کی جاتی ہے.

💠 کسی بھی فیصلے پر تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا.

💠 مسلم،دلِت اور دیگر اقلیتی تنظیموں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے.

💠 مسلم اور دلِت علاقوں، نوجوانوں کو بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے.

اس لئے جملہ انصاف پسند شہریوں کو چاہیے کہ وہ شرپسندوں کا ایجنڈا چلانے والے میڈیا چینلز کا بائکاٹ کریں تاکہ ملک میں امن وامان کا ماحول قائم ہو اور وطن عزیز کی سالمیت وبقا سلامت رہے.

غلام مصطفیٰ نعیمی

جنرل سیکریٹری تحریک فروغ اسلام دہلی

مؤرخہ 24 جمادی الثانی 1440ھ

2 مارچ 2019 بروز ہفتہ