وَمَنۡ اَحۡسَنُ دِيۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحۡسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا ؕ وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبۡرٰهِيۡمَ خَلِيۡلًا ۞ – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 125
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَنۡ اَحۡسَنُ دِيۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحۡسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا ؕ وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبۡرٰهِيۡمَ خَلِيۡلًا ۞
ترجمہ:
اور اس سے اچھا دین کس کا ہوگا جس نے اپنا منہ اللہ کے لیے جھکا دیا درآں حالیکہ وہ نیکی کرنے والا ہے اور اس نے ملت ابراہیم کی پیروی کی جو باطل کو چھوڑ کر حق کی طرف مائل تھے اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا مخلص دوست بنالیا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اور اس سے اچھا دین کس کا ہوگا جس نے اپنا منہ اللہ کے لیے جھکا دیا درآں حالیکہ وہ نیکی کرنے والا ہے اور اس نے ملت ابراہیم کی پیروی کی جو باطل کو چھوڑ کر حق کی طرف مائل تھے۔ (النساء : ١٢٥)
دین اسلام کے برحق اور واجب القبول ہونے پر دلائل :
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے واجب القبول اور برحق ہونے پر دو دلیلیں قائم فرمائی ہیں اول یہ ہے کہ دین اسلام ایمان باللہ اور اعمال صالحہ پر مشتمل ہے اور جب انسان کسی کو معبود مان لیتا ہے تو اس کے آگے سر جھکا دیتا ہے سو جس نے اپنے جسم کے اعضاء میں سے سب سے اشرف اور اعلی عضو کو اللہ کے سامنے جھکا دیا وہ اللہ پر ایمان لانے والا ہے ‘ اور اللہ پر ایمان اسی وقت صحیح ہوگا جب اس کے رسولوں ‘ اس کی کتابوں ‘ اس کے فرشتوں اور اس کی فرمائی ہوئی تمام باتوں کو مان لیاجائے اور اس کے ارشادات پر سرتسلیم خم کرلیا جائے ‘ اور اللہ کے آگے سرجھکانا اسی وقت صحیح ہوگیا جب غیر اللہ کے آگے سر نہ جھکایا جائے سو مشرک اور بت پرست جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور ان سے مدد چاہتے ہیں ‘ اسی طرح یہودی اور عیسائی ‘ حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں اور ان ہی کو اپنا حاجت روا مانتے ہیں۔ اللہ کے آگے سرجھکانے والے نہیں ہیں ‘ لہذا اللہ کے آگے اپنا منہ جھکانے والوں کے مفہوم میں صرف مسلمان داخل ہیں اور یہ لفظ اختصار کے ساتھ اسلام کے تمام عقائد پر مشتمل ہے ‘ پھر فرمایا درآں حالیکہ وہ نیکی کرنے والا ہے ‘ یہ لفظ اپنے اختصار کے ساتھ تمام نیک اعمال کو بجالانے اور تمام برے کاموں سے اجتناب کو محیط ہے ‘ تو یہ صرف دین اسلام ہی ہے جو تمام عقائد صحیحہ اور تمام اعمال صالحہ پر مشتمل ہے تو اس سے اچھا اور کون سا دین ہوگا سو اسی دین کو قبول کرنا واجب ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ مشرکین عرب اور یہود و نصاری سب کے نزدیک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بہت معزز اور مکرم تھے اور ان کے شخصیت سب کے نزدیک مسلم اور واجب القبول تھی ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت اور ان کی شریعت کے احکام صرف دین اسلام میں ہیں ‘ ختنہ کرنا ‘ ڈاڑھی بڑھانا ‘ مونچھیں کم کرنا ‘ زیر ناف بال مونڈنا ‘ ناک میں پانی ڈالنا ‘ غرارہ کرنا ‘ اور دیگرطہارت کے احکام یہ صرف دین اسلام میں ہیں ‘ دس ذوالحجہ کو قربانی کرنا ‘ حج میں احرام باندھنا ‘ صفا اور مردہ میں سعی کرنا ‘ منی میں جمرات پر شیطان کو کنکریاں مارنا ‘ کعبہ کا طواف کرنا یہ تمام امور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یادگار ہیں اور صرف دین اسلام میں بہ طور عبادت کے داخل ہیں تو پھر اسلام سے اچھا اور کون سا دین ہوگا ‘ لہذا اسی دین کو قبول کرنا سب پر واجب ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا مخلص دوست بنالیا۔ (النساء : ١٢٥)
خلیل کا معنی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خلیل اللہ ہونے کی وجوہات :
اس آیت کے پہلے جز میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کی پیروی کا حکم دیا تھا ‘ اور اس کے بعد اس کی وجہ بیان فرمائی ہے ‘ کہ ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے خلیل ہیں اس لیے ان کی ملت کی پیروی کا حکم دیا ہے۔
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
رحمۃ اللہ علیہ خلیل کا لفظ خلی سے بنا ہے ‘ خلی کا معنی ہے کسی چیز کو دو چیزوں میں درمیان رکھنا خلہ (بالکسر) کے معنی ہیں تلوار کی میان یا غلاف کیونکہ تلوار اس کے درمیان ہوتی ہے۔ خلہ (بالفتح) کا معنی اختلال اور پریشانی ہے اور اس کی تفسیر احتیاج کے ساتھ کی گئی ہے اور خلہ (بالضم) کے معنی ہیں محبت کیونکہ محبت نفس میں سرایت کر جاتی ہے اور اس کے وسط میں ہوتی ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خلیل فرمایا ہے کیونکہ وہ ہرحال میں صرف اللہ کے محتاج تھے یا اس لیے خلیل فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے شدید محبت کرتے تھے یا اللہ تعالیٰ آپ سے بہت محبت کرتا تھا ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اللہ تعالیٰ سے محبت کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہر کام اور ہر بات کرنا اور ہرحال میں اس سے راضی رہنا ‘ اور اللہ کی آپ سے محبت کا معنی ہے آپ پر اکرام اور احسان کرنا اور دنیا اور آخرت میں آپ کی ثناء جمیل کرنا (المفردات ص ١٥٦۔ ١٥٥‘ مطبوعہ المکتبہ المرتضویہ ایران)
انسان کا خلیل وہ ہوتا ہے جس کی محبت انسان کے قلب کے خلال (درمیان) میں سرایت کر جائے ‘ اور یہ انتہائی درجہ کی محبت ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمینوں کی ملکوت (نشانیوں) پر مطلع فرما دیا ‘ اور حضرت براہیم (علیہ السلام) نے ستاروں ‘ چاند اور سورج کی الوہیت کو ساقط الاعتبار قرار دیا اور بتوں کی عبادت کرنے کو مسترد کردیا اور بت پرستوں کے بڑے بت کے سوا تمام بت توڑ ڈالے اور فرمایا اس بڑے بت سے پوچھو کہ ان چھوٹے بتوں کو کس نے توڑا ہے ؟ اور قوم سے فرمایا کہ افسوس تم ان کی عبادت کرتے ہو جو اپنی حفاظت نہیں کرسکتے اور کسی بات کا جواب نہیں دے سکتے ‘ اور قوم نے اس کی پاداش میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا ‘ اور انہوں نے اللہ کے لیے خود کو آگ میں ڈلوانا قبول کیا ‘ اپنے بیٹے کو قربان کیا اور اپنے مال کو اللہ کی راہ میں بےدریغ خرچ کیا ‘ اس طرح ‘ اللہ کے لیے انہوں نے اپنی جان ‘ اپنے بیٹے اور اپنے مال کی قربانی دی ‘ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا خلیل بنالیا ‘ اور انکی اولاد میں ملک اور نبوت کو رکھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے اخلاق اور اوصاف سے کامل درجہ کے متخلق اور متصف تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا خلیل بنا لیا ‘ تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بہت زیادہ اطاعت گذار اور بہت متواضع تھے ‘ قرآن مجید میں ہے : (آیت) ” اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العالمین “ (البقرہ : ١٣١) ” جب ابراہیم سے انکے رب نے کہا اسلام لاؤ‘ (اطاعت کرو) تو انہوں نے اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کردیا “ لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا خلیل بنا لیا اور چوتھی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی فطرت بہت پاکیزہ تھی وہ جسمانی علائق اور ان کے تقاضوں سے مبرا تھے ‘ اور ان پر روحانیت کا غلبہ تھا ان کا ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے تھا اس لیے اللہ تعالیٰ کا نور جلال اور اس کا خاص فیضان ان کے تمام اعضاء اور قوی میں جذب ہوگیا تھا جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد کی نماز کے بعد یہ دعا کرتے تھے اے اللہ میرے دل میں نور کر دے میری آنکھوں میں نور کر دے ‘ اور میرے کانوں میں نور کردے ‘ اور میرے دائیں نور کر دے ‘ اور میرے بائیں نور کر دے اور میرے اوپر نور کر دے اور میرے نیچے نور کر دے اور میرے آگے نور کر دے اور میرے پیچھے نور کر دے اور مجھے سراپا نور کر دے۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٣١٦) اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تمام اعضاء اور قوی میں نور جذب ہوگیا تھا اور ان کی بشریت صیقل اور مجلی اور مصفی ہوگئی تھی ‘ سو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنا لیا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خلیل اللہ اور آپ کا حبیب اللہ ہونا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں اور حبیب کا مرتبہ خلیل سے زیادہ ہے ‘۔
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب بیٹھے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتظار کر رہے تھے ‘ آپ تشریف لائے ‘ ان کے قریب پہنچے وہ بیٹھے ہوئے انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کر رہے تھے ‘ ان میں سے بعض نے کہا کس قدر حیرت کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا ‘ دوسرے نے کہا اس سے بھی زیادہ حیرت اس پر ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنا کلیم بنایا ‘ ایک اور نے کہا عیسیٰ اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں ‘ اور دوسرے نے کہا آدم کو اللہ نے صفی بنایا ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس آئے ان کو سلام کیا اور فرمایا میں نے تمہارا کلام سنا اور تمہارے تعجب کرنے پر مطلع ہوا ‘ بیشک ابراہیم اللہ کے خلیل ہیں اور وہ اسی طرح ہیں ‘ اور موسیٰ اللہ کے نجی ہیں (جن سے اللہ نے سرگوشی میں بات کی) اور وہ اسی طرح ہیں اور عیسیٰ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں ‘ اور وہ اسی طرح ہیں اور آدم اللہ کے صفی ہیں اور وہ اسی طرح ہیں ‘ سنو ! میں اللہ کا حبیب ہوں اور فخر نہیں اور میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں گا اور فخر نہیں ہے ‘ اور میں سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا ‘ اللہ میرے لیے جنت کو کھولے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین داخل ہوں گے اور فخر نہیں اور فخر نہیں اور میں تمام اولین اور آخرین میں سب سے زیادہ عزت والا ہوں اور فخر نہیں۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ٣٦٣٦)
امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو خلیل بنایا اور موسیٰ کو نجی بنایا اور مجھے حبیب بنایا پھر اللہ نے فرمایا مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم میں اپنے حبیب کو اپنے خلیل اور اپنے خلیل اور اپنے نجی پر فضیلت دوں گا۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ١٤٩٤)
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام خلت کا فرق :
ان دونوں حدیثوں کی سند میں ایک راوی ضعیف ہے ترمذی کی سند میں زمعہ بن صالح جندی اور بیہقی کی سند میں مسلمہ بن علی کو بعض ائمہ نے ضعیف کہا ہے لیکن فضائل میں ان کی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
محققین کی رائے یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی خلیل ہونے کا مقام حاصل ہے۔ آپ کا مرتبہ اپنے جد کریم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مقام سے بہت بلند ہے ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کی نشانیاں دکھائیں اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آسمان و زمین کے علاوہ خود اپنی ذات کا بےحجاب دیدار کرایا ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کی صفات سے متصف تھے اور آپ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے مظہر تھے ‘ قرآن مجید آپ کا خلق تھا ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی مغفرت کی دعا کی : اور جس سے مجھے امید ہے کہ وہ قیامت کے دن میری (ظاہری) خطا معاف فرمائے گا (الشعراء : ٨٢) اور بغیر دعا اور طلب کے اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی بظاہر خطاؤں کی مغفرت کا اعلان کردیا۔ (الفتح : ٢) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی مجھے حشر کے دن شرمندہ نہ کرنا (الشعراء : ٨٧) اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ نے بغیر دعا اور طلب کے فرمایا : حشر کے دن اللہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والوں کو شرمندہ ہونے دے گا۔ (التحریم : ٨) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی میرے بعد آنے والوں میں میرا ذکر جمیل جاری رکھنا (الشعراء ٨٤) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے از خود فرمایا اور ہم نے آپ کے لیے آپ کا ذکر بلند کردیا (الانشراح : ٤) یہ سب خلیل ہونے کے آثار ہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حبیب ہیں اور حبیب ہونے آثار کا کون احاطہ کرسکتا ہے ‘ آپ تمام انبیاء اور رسل کے قائد ہیں۔ رحمۃ للعالمین ہیں آپ کی رضا اللہ کی رضا ہے ‘ آپ کا حکم ‘ اللہ کا حکم ہے۔ آپ کی اطاعت ‘ اللہ کی اطاعت ہے۔ حشر کے دن آپ کی عزت دیکھنے والی ہوگی جب تمام نبیوں اور رسولوں کو آپ کی حاجت ہوگی ‘ جب آپ مقام محمود پر فائز ہوں گے اور آپ اس وقت اللہ سے گنہگاروں کی شفاعت کریں گے جب بہ شمول نبیوں اور رسولوں کے کسی کو اللہ سے بات کرنے کا حوصلہ نہیں ہوگا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 125