مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ ثَوَابَ الدُّنۡيَا فَعِنۡدَ اللّٰهِ ثَوَابُ الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيۡعًاۢ بَصِيۡرًا ۞ – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 134
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ ثَوَابَ الدُّنۡيَا فَعِنۡدَ اللّٰهِ ثَوَابُ الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيۡعًاۢ بَصِيۡرًا ۞
ترجمہ:
جو شخص دنیا کا ثواب چاہے تو اللہ کے پاس دنیا اور آخرت کا ثواب ہے ‘ اور اللہ سننے والا ‘ دیکھنے والا ہے ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جو شخص دنیا کا ثواب چاہے تو اللہ کے پاس دنیا اور آخرت کا ثواب ہے ‘ اور اللہ سننے والا ‘ دیکھنے والا ہے۔ (النساء : ١٣٤) rnْصرف دنیاوی اجر طلب کرنے کی مذمت اور دنیا اور آخرت میں اجر طلب کرنے کی مدح :
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جو شخص اپنے اعمال اور جہاد سے دنیاوی مال اور عزوجاہ کے حصول کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ کے پاس دنیا اور آخرت دونوں کا اجروثواب ہے ‘ مثلا جو مجاہد اپنے جہاد سے مال غنیمت کے حصول کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کیا ہوا کہ وہ فقط خسیس اور گھٹیا چیز کا ارادہ کررہا ہے ‘ اس پر لازم ہے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں کی خیر اور اجر وثواب کا ارادہ کرے ‘ اسی طرح جو موذن ‘ امام ‘ خطیب ‘ واعظ ‘ مفتی ‘ محدث اور فقیہ اپنی دینی ‘ تبلیغی اور تدریسی خدمات سے صرف دنیاوی وظائف اور نذرانوں کا ارادہ کرتے ہیں وہ عارضی اور فانی اجر کے طالب ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اپنی خدمات میں اجر اخروی کی نیت رکھیں اور دنیاوی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بقدر حاجت اور فراغت وظائف کو حاصل کریں ‘ اور ہمارے دور میں جو امراء اور حکمرانوں کا طبقہ ہے اور اسکولوں اور کالجوں میں ماسٹروں اور پروفیسروں کا جو شعبہ ہے اور جو لوگ جو عوام کو انتظامی اور تعلیمی خدمات مہیا کرتے ہیں ان کے ہاں تو ان خدمات کے مقابلہ میں اجر آخرت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ پھر حیرت یہ ہے کہ یہ لوگ علماء پر طعن کرتے ہیں کہ یہ لوگوں کے چندوں سے اپنا پیٹ پالتے ہیں جب کہ امراء ‘ حکام اور پروفیسروں کو جو تنخواہیں ملتی ہیں وہ عوام سے ٹیکس وصول کرکے دی جاتی ہیں اور ہمارے زمانہ میں (اکتوبر ١٩٩٦ ء) ایک متوسط امام مسجد کی تنخواہ دو ہزار سے تین ہزار تک ہوتی ہے اور دینی تک ہوتی ہے اور دینی مدرس کی تنخواہ دو ہزار سے چار ہزار تک ہوتی ہے اور اس مہنگائی کے دور میں جب کہ دودھ بیس روپے لیٹر ‘ آٹا آٹھ روپے کلو ‘ اور گوشت ١٢٥ روپے کلو ہے اس آمدنی سے بمشکل ضروریات زندگی پوری ہوتی ہیں ‘ اس کے مقابلہ میں ایک متوسط پروفیسر کی تنخواہ ١٠ ہزار روپے ہوتی ہے ‘ انتظامی افسروں ‘ حکمرانوں ‘ وزراء اور گورنروں کی تنخواہیں ‘ انکے الاؤنسز اور دیگر مراعات کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہے ‘ جب یہ لوگ غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں تو اپنے ساتھ چالیس ‘ پچاس افراد کو لے جاتے ہیں اور ان کی شاہ خرچیاں لاکھوں سے متجاوز ہو کر کروڑوں تک پہنچتی ہیں اور ان کے یہ تمام اخراجات عوام سے وصول کیے ہوئے جبری ٹیکسوں سے پورے ہوتے ہیں ‘ جب کہ علماء کی جو خدمات کی جاتی ہیں وہ ظلم اور جبر سے نہیں بلکہ خوشی اور اختیار کے ساتھ دیئے ہوئے چندوں اور نذرانوں سے ہوتی ہیں ‘ پھر بھی ان لوگوں کی زبانیں علماء کو یہ طعنہ دینے سے نہیں تھکتیں کہ یہ چندوں سے پلنے والے لوگ ہیں ‘ جب کہ علماء اپنی خدمات پر اجر اخروی کے طالب ہوتے ہیں اور دنیا سے صرف بقدر ضرورت لیتے ہیں اور یہ امراء ‘ حکام ‘ وزراء اور گورنر ملکی اور ملی خدمات کا جو معاوضہ لیتے ہیں اس میں ان کے ہاں آخرت کا کوئی تصور نہیں ہے ان کے پیش نظر صرف دنیا ‘ اس کی زیب وزینت اور عیاشیاں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اور آیات میں بھی اس طرز عمل کی مذمت کی ہے اور ان کی مدح فرمائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں کے طالب ہیں :
(آیت) ” فمن الناس من یقول ربنا اتنا فی الدنیا ومالہ فی الاخرۃ من خالق، ومنھم من یقول ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “۔ (البقرہ : ٢٠٠)
ترجمہ : پھر لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو دعا کرتے ہیں اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں دے اور انکے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ‘ اور بعض وہ ہیں جو دعا کرتے ہیں اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں (بھی) اچھائی عطا فرما اور آخرت میں بھی اچھائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔
(آیت) ” من کان یرید حرث الاخرۃ نزدلہ فی حرثہ ومن کان یرید حرث الدنیا نؤتہ منھا ومالہ فی الاخرۃ من نصیب “۔ (الشوری : ٢٠)
ترجمہ : جو شخص آخرت کی کھیتی کا ارادہ کرے ہم اس کو اس میں سے دیں گے ‘ اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
(آیت) ” من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ فیھا مانشآء لمن نرید ثم جعلنا لہ جھنم یصلھا مذموما مدحورا، ومن اراد الاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مومن فاولئک کان سعیھم مشکورا، کلا نمد ھؤلآء وھولآء من عطآء ربک وما کان عطآء ربک محظورا، انظر کیف فضلنا بعضھم علی بعض وللاخرۃ اکبر درجات واکبر تفضیلا، (الاسراء : ٢١۔ ١٨)
ترجمہ : جو لوگ صرف دنیا کے خواہش مند ہیں ہم ان میں سے جس کو جتنا چاہیں اسی دنیا میں دے دیتے ہیں ‘ پھر ہم نے اس کے لیے دوزخ بنادی ہے وہ اس میں ذلت سے اور دھتکارا ہوا داخل ہوگا، اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لیے عمل کرے بہ شرطی کہ وہ مومن ہو تو اس کا عمل مقبول ہوگا، ہم سب کی مدد فرماتے ہیں ان کی بھی اور ان کی بھی، اور آپ کے رب کی عطا (کسی سے) رد کی ہوئی نہیں ہے، دیکھیے ہم نے کس طرح ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور یقینا آخرت کا درجہ بہت بڑا ہے اور اس کی بہت بڑی فضیلت ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 134