یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)

اے ایمان والو (ف۳۲۴) تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے (ف۳۲۵)

(ف324)

اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے روزہ شرع میں اس کا نام ہے کہ مسلمان خواہ مرد ہو یا حیض یا نفاس سے خالی عورت صبح صادق سے غروب آفتاب تک بہ نیت عبادت خورد و نوش و مجامعت ترک کرے(عالمگیری وغیرہ) رمضان کے روزے ۱۰ شعبان ۲ ھ کو فرض کئے گئے(درمختار و خازن) اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزے عبادت قدیمہ ہیں۔زمانہ آدم علیہ السلام سےتمام شریعتوں میں فرض ہوتے چلے آئے اگرچہ ایام و احکام مختلف تھے مگر اصل روزے سب امتوں پر لازم رہے

(ف325)

اور تم گناہوں سے بچو کیونکہ یہ کسر نفس کا سبب اور متقین کا شعار ہے

اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍؕ-فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍؕ-فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗؕ-وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۸۴)

گنتی کے دن ہیں (ف۳۲۶) تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو (ف۳۲۷) تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھانا (ف۳۲۸) پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے (ف۳۲۹) تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو(ف۳۳۰)

(ف326)

یعنی صرف رمضان کا ایک مہینہ

(ف327)

سفر سے وہ مراد ہے جس کی مسافت تین دن سے کم نہ ہو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مریض و مسافر کو رخصت دی کہ اگر اس کو رمضان مبارک میں روزہ رکھنے سے مرض کی زیادتی یا ہلاک کا اندیشہ ہو یا سفر میں شدت و تکلیف کا تو وہ مرض و سفر کے ایام میں افطار کرے اور بجائے اس کے ایام منہیّہ کے سوا اور دنوں میں اس کی قضا کرے’ ایام منہیّہ پانچ دن ہیں جن میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ دونوں عیدین اور ذی الحجہ کی گیارھویں بارھویں تیرھویں تاریخیں

مسئلہ : مریض کو محض وہم پر روزے کا افطار جائز نہیں جب تک دلیل یا تجربہ یا غیر ظاہرا لفسق طبیب کی خبر سے اس کا غلبہ ظن حاصل نہ ہو کہ روزہ مرض کے طول یا زیادتی کا سبب ہوگا۔

مسئلہ : جو بالفعل بیمار نہ ہو لیکن مسلمان طبیب یہ کہے کہ وہ روزے رکھنے سے بیمار ہوجائے گا وہ بھی مریض کے حکم میں ہے

مسئلہ : حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کو اگر روزہ رکھنے سے اپنی یا بچے کی جان کا یا اس کے بیمار ہوجانے کا اندیشہ ہو تو اس کوبھی افطار جائز ہے’

مسئلہ :جس مسافر نے طلوع فجر سے قبل سفر شروع کیا اس کو تو روزے کا افطار جائز ہے لیکن جس نے بعد طلوع سفر کیا اس کو اس دن کا افطار جائز نہیں۔

(ف328)

مسئلہ: جس بوڑھے مرد یا عورت کو پیرانہ سالی کے ضعف سے روزہ رکھنے کی قدرت نہ رہے اور آئیندہ قوت حاصل ہونے کی امید بھی نہ ہو اس کو شیخ فانی کہتے ہیں اس کے لئے جائز ہے کہ افطار کرے اور ہر روزے کے بدلے نصف صاع یعنی ایک سو پچھتر روپیہ اور ایک اٹھنی بھر گیہوں یا گیہوں کا آٹا یا اس سے دو نے جو یا اس کی قیمت بطور فدیہ دے مسئلہ : اگر فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی قوت آگئی تو روزہ واجب ہوگا۔مسئلہ : اگر شیخ فانی نادار ہواور فدیہ دینے کی قدرت نہ رکھے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور اپنے عفوِ تقصیر کی دعا کرتا رہے۔

(ف329)

یعنی فدیہ کی مقدار سے زیادہ دے۔

(ف330)

اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ مسافر و مریض کو افطار کی اجازت ہے لیکن زیادہ بہتر و افضل روزہ رکھنا ہی ہے۔

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۸۵)

رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا (ف۳۳۱) لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو (ف۳۳۲) اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو

(ف331)

اس کے معنی میں مفسرین کے چند اقوال ہیں۔(۱) یہ کہ رمضان وہ ہے جس کی شان و شرافت میں قرآن پاک نازل ہوا۔(۲) یہ کہ قرآن کریم میں نزول کی ابتداء رمضان میں ہوئی۔(۳) یہ کہ قرآن کریم بتمامہ رمضان المبارک کی شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فوقتاً حسب اقتضائے حکمت جتنا جتنا منظور الٰہی ہوا جبریل امین لاتے رہے یہ نزول تیئیس سال کے عرصہ میں پورا ہوا۔

(ف332)

حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے تو چاند دیکھ کر روزے شروع کرو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اگر ۲۹ رمضان کو چاند کی رؤیت نہ ہو تو تیس دن کی گنتی پوری کرو ۔

وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌؕ-اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ-فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ(۱۸۶)

اور اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں (ف۳۳۳) دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے (ف۳۳۴) تو انہیں چاہیے میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں کہ کہیں راہ پائیں

(ف333)

اس میں طالبان حق کی طلب مولیٰ کا بیان ہے جنہوں نے عشق الہٰی پر اپنے حوائج کو قربان کردیا وہ اسی کے طلبگار ہیں انہیں قرب ووصال کے مژدہ سے شاد کام فرمایا شان نزول :ایک جماعت صحابہ نے جذبہ عشق الٰہی میں سید عالم صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہمارا رب کہاں ہے اس پر نوید قرب سے سرفراز کرکے بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ مکان سے پاک ہے جو چیز کسی سے مکانی قرب رکھتی ہے وہ اس کے دور والے سے ضرور بعد رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ سب بندوں سے قریب ہے مکانی کی یہ شان نہیں منازل قرب میں رسائی بندہ کو اپنی غفلت دور کرنے سے میسر آتی ہے۔ دوست نزدیک تراز من بمن ست ۔ ویں عجب ترکہ من ازوے دورم

(ف334)

دعا عرضِ حاجت ہے اور اجابت یہ ہے کہ پروردگار اپنے بندے کی دعا پر ” لَبَیْکَ عَبْدِیْ ” فرماتا ہے مراد عطا فرمانا دوسری چیز ہے وہ بھی کبھی اس کے کرم سے فی الفور ہوتی ہے کبھی بمقتضائے حکمت کسی تاخیر سے کبھی بندے کی حاجت دنیا میں روا فرمائی جاتی ہے کبھی آخرت میں کبھی بندے کا نفع دوسری چیز میں ہوتاہے وہ عطا کی جاتی ہے کبھی بندہ محبوب ہوتا ہے اس کی حاجت روائی میں اس لئے دیر کی جاتی ہے کہ وہ عرصہ تک دعا میں مشغول رہے۔ کبھی دعا کرنے والے میں صدق و اخلاص وغیرہ شرائط قبول نہیں ہوتے اسی لئے اللہ کے نیک اور مقبول بندوں سے دعا کرائی جاتی ہے’ مسئلہ : ناجائز امر کی دعا کرنا جائز نہیں دعا کے آداب میں سے ہے کہ حضور قلب کے ساتھ قبول کا یقین رکھتے ہوئے دعا کرے اور شکایت نہ کرے کہ میری دعا قبول نہ ہوئی ترمذی کی حدیث میں ہے کہ نماز کے بعد حمد و ثناء اور درود شریف پڑھے پھر دعا کرے۔

اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىٕكُمْؕ-هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ-عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْۚ-فَالْــٴٰـنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ۪-وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۪-ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِۚ-وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَۙ-فِی الْمَسٰجِدِؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَاؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ(۱۸۷)

روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لیے حلال ہوا (ف۳۳۵) وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا (ف۳۳۶) تو اب ان سے صحبت کرو (ف۳۳۷) اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھا ہو (۳۳۸) اور کھاؤ اور پیو (ف۳۳۹) یہاں تک کہ تمہارے لیے ظاہر ہوجائے سفیدی کا ڈورا سیاہی کے ڈورے سے پوپھٹ کر (ف۳۴۰) پھر رات آنے تک روزے پورے کرو (ف۳۴۱) اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو (ف۳۴۲) یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جاؤ اللہ یوں ہی بیان کرتا ہے لوگوں سے اپنی آیتیں کہ کہیں انہیں پرہیزگاری ملے

(ف335)

شان نزول: شرائع سابقہ میں افطار کے بعد کھانا پینا مجامعت کرنا نمازِ عشاء تک حلال تھا بعد نماز عشا ء یہ سب چیزیں شب میں بھی حرام ہوجاتی تھیں یہ حکم زمانہ اقدس تک باقی تھا بعض صحابہ سے رمضان کی راتوں میں بعدِعشاء مباشرت وقوع میں آئی ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے اس پروہ حضرات نادم ہوئے اور درگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم میں عرض حال کیا اللہ تعالیٰ نے معاف فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی اور بیان کردیا گیا کہ آئیندہ کے لئے رمضان کی راتوں میں مغرب سے صبح صادق تک مجامعت کرنا حلال کیا گیا

(ف336)

اس خیانت سے وہ مجامعت مراد ہے جو قبل اباحت رمضان کی راتوں میں مسلمانوں سے سرزد ہوئی تھی اس کی معافی کا بیان فرما کر ان کی تسکین فرمادی گئی۔

(ف337)

یہ امر اباحت کے لئے ہے کہ اب وہ ممانعت اٹھادی گئی اور لیالیِ رمضان میں مباشرت مباح کردی گئی۔

(ف338)

اس میں ہدایت ہے کہ مباشرت نسل و اولاد حاصل کرنے کی نیت سے ہونی چاہئے جس سے مسلمان بڑھیں اور دین قوی ہو مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ معنی یہ ہیں کہ مباشرت موافق حکم شرع ہو جس محل میں جس طریقہ سے مباح فرمائی اس سے تجاوز نہ ہو۔(تفسیر احمدی) ایک قول یہ بھی ہے کہ جو اللہ نے لکھا اس کو طلب کرنے کے معنی ہیں رمضان کی راتوں میں کثرتِ عبادت اور بیدار رہ کر شب قدر کی جستجو کرنا۔

(ف339)

یہ آیت صرمہ بن قیس کے حق میں نازل ہوئی آپ محنتی آدمی تھے ایک دن بحالت روزہ دن بھر اپنی زمین میں کام کرکے شام کو گھر آئے بیوی سے کھانا مانگا وہ پکانے میں مصروف ہوئیں یہ تھکے ہوئے تھے آنکھ لگ گئی جب کھانا تیار کرکے انہیں بیدار کیا انہوں نے کھانے سے انکار کردیاکیونکہ اس زمانہ میں سوجانے کے بعد روزہ دار پر کھانا پینا ممنوع ہوجاتا تھا اور اسی حالت میں دوسراروزہ رکھ لیا ضعف انتہا کو پہنچ گیا تھا دوپہر کو غشی آگئی ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور رمضان کی راتوں میں ان کے سبب سے کھانا پینا مباح فرمایا گیا جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی انابت و رجوع کے باعث قربت حلال ہوئی۔

(ف340)

رات کو سیاہ ڈورے سے اور صبح صادق کو سفید ڈورے سے تشبیہ دی گئی’ معنی یہ ہیں کہ تمہارے لئے کھانا پینا رمضان کی راتوں میں مغرب سے صبح صادق تک مباح فرمایا گیا(تفسیر احمدی) مسئلہ : صبح صادق تک اجازت دینے میں اشارہ ہے کہ جنابت روزے کے منافی نہیں جس شخص کو بحالت جنابت صبح ہوئی وہ غسل کرلے اس کا روزہ جائز ہے۔(تفسیر احمدی)

مسئلہ : اسی سے علماء نے یہ مسئلہ نکالا کہ رمضان کے روزے کی نیت دن میں جائز ہے۔

(ف341)

اس سے روزے کی آخر حد معلوم ہوتی ہے اور یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ بحالت روزہ خوردو نوش و مجامعت میں سے ہر ایک کے ارتکاب سے کفارہ لازم ہوجاتا ہے۔(مدارک) مسئلہ علماء نے اس آیت کو صومِ و صال یعنی تَہْ کے روزے کے ممنوع ہونے کی دلیل قرار دیا ہے۔

(ف342)

(۳۴۲) اس میں بیان ہے کہ رمضان کی راتوں میں روزہ دار کے لئے جماع حلال ہے جب کہ وہ معتکف نہ ہو مسئلہ:اعتکاف میں عورتوں سے قربت اور بوس و کنار حرام ہے

مسئلہ : مردوں کے اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے۔

مسئلہ : معتکف کو مسجد میں کھانا، پینا، سونا جائز ہے

مسئلہ: عورتوں کا اعتکاف ان کے گھروں میں جائز ہے ۔(مسئلہ) اعتکاف ہر ایسی مسجد میں جائز ہے جس میں جماعت قائم ہو

مسئلہ : اعتکاف میں روزہ شرط ہے۔

وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠(۱۸۸)

اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤاور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لیے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو (ف۳۴۳) جان بوجھ کر

(ف343)

اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کر یا چھین کر چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی یا چغل خوری سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ ناجائز فائدہ کے لئے کسی پر مقدمہ بنانا اور اس کو حکام تک لے جانا ناجائز و حرام ہے اسی طرح اپنے فائدہ کی غرض سے دوسرے کو ضرر پہنچانے کے لئے حکام پر اثر ڈالنا رشوتیں دینا حرام ہے جو حکام رس لوگ ہیں وہ اس آیت کے حکم کو پیش نظر رکھیں حدیث شریف میں مسلمانوں کے ضرر پہنچانے والے پر لعنت آئی ہے۔