فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِۙ-قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِیْكُمْ بِنَهَرٍۚ-فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۤ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِیَدِهٖۚ-فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْؕ-فَلَمَّا جَاوَزَهٗ هُوَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗۙ-قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖؕ-قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوا اللّٰهِۙ- كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۲۴۹)

پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر شہر سے جدا ہوا(ف۵۰۵) بولا بےشک اللہ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے تو جو اس کا پانی پئے وہ میرا نہیں اور جو نہ پیے وہ میرا ہے مگر وہ جو ایک چُلّو اپنے ہاتھ سے لے لے (ف۵۰۶) تو سب نے اس سے پیا مگر تھوڑوں نے (۵۰۷) پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ کے مسلمان نہر کے پار گئے بولے ہم میں آج طاقت نہیں جالوت اور اس کے لشکروں کی بولے وہ جنہیں اللہ سے ملنے کا یقین تھا کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے زیادہ گروہ پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صابروں کے ساتھ ہے (ف۵۰۸)

(ف505)

یعنی بیت المقدس سے دشمن کی طرف روانہ ہوا وہ وقت نہایت شدت کی گرمی کاتھا لشکریوں نے طالوت سے اس کی شکایت کی اور پانی کے طلبگار ہوئے۔

(ف506)

یہ امتحان مقرر فرمایا گیا تھا کہ شدت تشنگی کے وقت جو اطاعت حکم پر مستقل رہا وہ آئندہ بھی مستقل رہے گا اور سختیوں کامقابلہ کرسکے گا اور جو اس وقت اپنی خواہش سے مغلوب ہو اور نافرمانی کرے وہ آئندہ سختیوں کو کیا برداشت کرے گا۔

(ف507)

جن کی تعداد تین سو تیرہ تھی انہوں نے صبر کیا اور ایک چُلُّوان کے اور انکے جانوروں کےلئے کافی ہوگیا اور انکے قلب وایمان کو قوت ہوئی اور نہر سے سلامت گزر گئے اور جنہوں نے خوب پیا تھا ان کے ہونٹ سیاہ ہوگئے تشنگی اور بڑ ھ گئی اور ہمت ہار گئے۔

(ف508)

ان کی مدد فرماتا ہے اور اسی کی مدد کام آتی ہے۔

وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَؕ(۲۵۰)

پھر جب سامنے آئے جالوت اور اس کے لشکروں کے عرض کی اے رب ہمارے ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمارے پاؤں جمے رکھ اورکافر لوگوں پرہماری مدد کر

فَهَزَمُوْهُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ ﳜ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَهٗ مِمَّا یَشَآءُؕ-وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍۙ-لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(۲۵۱)

تو انہوں نے ان کو بھگادیا اللہ کے حکم سے اور قتل کیا داود نے جالوت کو (۵۰۹) اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت (ف۵۱۰) عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا (ف۵۱۱) اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے (ف۵۱۲) تو ضرور زمین تباہ ہوجائے مگر اللہ سارے جہان پر فضل کرنے والا ہے

(ف509)

حضرت داؤد علیہ السلام کے والد ایشا طالوت کے لشکر میں تھے اور انکے ساتھ انکے تمام فرزند بھی حضرت داؤد علیہ السلام ان سب میں چھوٹے تھے بیمار تھے رنگ زرد تھا بکریاں چراتے تھے جب جالوت نے بنی اسرائیل سے مقابلہ طلب کیا وہ اس کی قوت جسامت دیکھ کر گھبرائے کیونکہ وہ بڑا جابر قوی شہ زور عظیم الجثہ قد آور تھا طالوت نے اپنے لشکر میں اعلان کیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کرے میں اپنی بیٹی اس کے نکاح میں دوں گااور نصف ملک اس کو دوں گامگر کسی نے اس کاجواب نہ دیا تو طالوت نے اپنے نبی حضرت شمویل علیہ السلام سے عرض کیا کہ بارگاہ الہی میں دعا کریں آپ نے دعاکی تو بتایا گیا کہ حضرت داؤد علیہ السلام جالوت کو قتل کریں گے طالوت نے آپ سے عرض کیا کہ اگر آپ جالوت کو قتل کریں تو میں اپنی لڑکی آپ کے نکاح میں دوں اور نصف ملک پیش کروں آپ نے قبول فرمایا اور جالوت کی طرف روانہ ہوگئے صف قتال قائم ہوئی اور حضرت داؤد علیہ السلام دست مبارک میں فلاخن لے کر مقابل ہوئے جالوت کے دل میں آپ کو دیکھ کر دہشت پیدا ہوئی مگر اس نے باتیں بہت متکبرانہ کیں اور آپ کو اپنی قوت سے مرعوب کرناچاہا آپ نے فلاخن میں پتھر رکھ کر مارا وہ اس کی پیشانی توڑ کر پیچھے سے نکل گیا اور جالوت مر کر گر گیا حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کولاکر طالوت کے سامنے ڈال دیا تمام بنی اسرائیل خوش ہوئے اور طالوت نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حسب وعدہ نصف ملک دیااور اپنی بیٹی کا آپ کے ساتھ نکاح کردیا ایک مدت کے بعد طالوت نے وفات پائی تمام ملک پر حضرت داؤد علیہ السلام کی سلطنت ہوئی(جمل وغیرہ)

(ف510)

حکمت سے نبوت مراد ہے ۔

(ف511)

جیسے کہ زرہ بنانا اور جانوروں کا کلام سمجھنا ۔

(ف512)

یعنی اللہ تعا لٰی نیکو ں کے صدقہ میں دوسروں کی بلائیں بھی دفع فرماتا ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالٰی ایک صالح مسلمان کی برکت سے اس کے پڑوس کے سو گھر والوں کی بلا دفع فرماتاہے سبحان اللہ نیکوں کا قرب بھی فائدہ پہنچاتا ہے (خازن)

تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّؕ-وَ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۲۵۲)

یہ اللہ کی آیتیں ہیں کہ ہم اے محبوب تم پر ٹھیک ٹھیک پڑھتے ہیں اور تم بےشک رسولوں میں ہو

(ف513)

یہ حضرات جن کاذکر ما سبق میں اور خاص آیہ ‘ ‘ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ” میں فرمایا گیا ۔

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ لٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ كَفَرَؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا۫-وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ۠(۲۵۳)

یہ رسو ل ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا (ف۵۱۴) ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا (ف۵۱۵) اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا (ف۵۱۶)اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسٰی کو کھلی نشانیاں دیں (ف۵۱۷) اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی (ف۵۱۸) اور اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے آپس میں نہ لڑتے بعد اس کے کہ ان کے پاس کھلی نشانیاں آچکیں (ف۵۱۹) لیکن وہ تو مختلف ہوگئے ان میں کوئی ایمان پر رہا اور کوئی کافر ہوگیا (ف۵۲۰) اور اللہ چاہتا تو وہ نہ لڑتے مگر اللہ جو چاہے کرے (ف۵۲۱)

(ف514)

اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کے مراتب جداگانہ ہیں بعض حضرات سے بعض افضل ہیں اگرچہ نبوّت میں کوئی تفرقہ نہیں وصفِ نبوّت میں سب شریک یک د گر ہیں مگر خصائص و کمالات میں درجے متفاوت ہیں یہی آیت کامضمون ہےاور اسی پر تمام امت کااجماع ہے۔ (خازن و مدارک)

(ف515)

یعنی بے واسطہ جیسے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کو طور پر کلام سے مشرف فرمایا اور سید انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج میں (جمل)

(ف516)

وہ حضور پر نور سیّد انبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کہ آپ کو بدرجات کثیرہ تمام انبیاء علیہم السلام پر افضل کیا اس پر تمام امت کا اجماع ہے اور بکثرت احادیث سے ثابت ہے آیت میں حضور کی اس رفعت مرتبت کابیان فرمایا گیا اور نام مبارک کی تصریح نہ کی گئی اس سے بھی حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے علوِ شان کااظہار مقصود ہے کہ ذات والا کی یہ شان ہے کہ جب تمام انبیاء پر فضیلت کابیان کیا جائے تو سوائے ذاتِ اقدس کے یہ وصف کسی پر صادق ہی نہ آئے اور کوئی اشتباہ راہ نہ پاسکے حضور علیہ اللصلوٰ ۃ و السلام کے وہ خصائص وکمالات جن میں آپ تمام انبیاء پر فائق و افضل ہیں اور آپ کا کوئی شریک نہیں بے شمار ہیں کہ قرآن کریم میں یہ ارشاد ہوا، درجوں بلند کیا ان درجوں کی کوئی شمار قرآن کریم میں ذکر نہیں فرمائی تو اب کون حد لگاسکتا ہے ان بے شمار خصائص میں سے بعض کا اجمالی و مختصر بیان یہ ہے کہ آپ کی رسالت عامّہ ہے تمام کائنات آپ کی امت ہے اللہ تعالٰی نے فرمایا: ”وَمَآاَرْسَلْنَاکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلْنَّاسِ بَشِیْراً وَّنَذِیْراً ” دوسری آیت میں فرمایا” لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا ”مسلم شریف کی حدیث میں ارشاد ہوا ”اُرْسِلْتُ اِلیَ الْخَلَائِقِ کَآفَّۃً ”اور آپ پر نبوت ختم کی گئی قرآن پاک میں آپ کو خا تم النّبیّین فرمایا حدیث شریف میں ارشاد ہوا ”خُتِمَ بِےَ النَّبِیُّوْنَ” آیات بیّنات و معجزات باہرات میں آپ کو تمام انبیاء پر افضل فرمایا گیا، آپ کی امت کو تمام امتوں پر افضل کیا گیا، شفاعتِ کُبرٰی آپ کو مرحمت ہوئی ،قرب خاص معراج آپ کو ملا، علمی و عملی کمالات میں آپ کو سب سے اعلیٰ کیا اور اس کے علاوہ بے انتہا خصائص آپ کو عطا ہوئے۔(مدارک’ جمل ‘ خازن بیضاوی وغیرہ)

(ف517)

جیسے مردے کو زندہ کرنا ،بیماروں کو تندرست کرنا، مٹی سے پرند بنانا، غیب کی خبریں دینا وغیرہ۔

(ف518)

یعنی جبریل علیہ السلام سے جو ہمیشہ آ پ کے ساتھ رہتے تھے۔

(ف519)

یعنی انبیاء کے معجزات ۔

(ف520)

یعنی انبیاء سابقین کی امتیں بھی ایمان و کفر میں مختلف رہیں یہ نہ ہوا کہ تمام امت مطیع ہوجاتی۔

(ف521)

اس کے ملک میں اس کی مشیت کے خلاف کچھ نہیں ہوسکتا اور یہی خدا کی شان ہے۔