مسلہ ڈاڑھی منڈے امام یا حافظ کے پیچھے نماز پڑھنا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

داڑھی منڈے امام یا حافظ قرآن کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے ،یا واجب الاعادہ ہے، یا ہوتی ہی نہیں اس مسئلہ کے بارے میں محدثین کرام، فقہاءِ عظام اور علماءِ امت رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ارشادات قارئین کے پیش خدمت ہیں۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے پیارے محبوب حضور نبی کریم کے طفیل شریعت محمدیہ کی مکمل طور پر پیروی کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

کتاب الآثار باب صفتہ الشعر من الوجہ’’محمد قال اخبرنا ابو حنیفۃ عن الہیثم عن ابن عمرانہ کان یقبض علی اللحیۃ ثم یقص ما تحت القبضۃ قال محمد وبہ ناخذ و ھو قول ابی حنیفۃ‘‘

ترجمہ: امام محمد، امام اعظم امام ابو حنیفہ صسے، وہ جناب ہیثم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر مٹھی سے زائد حصہ کاٹ دیا کرتے تھے۔ امام محمدفرماتے ہیں ہمارا عمل اسی حکم پر ہے اور حضرت امام ابو حنیفہص کا بھی یہی ارشاد ہے۔

(صفحہ۱۵۱ مطبوعہ انوارِ محمدی پریس لکھنؤ (بھارت) از امام محمد )

اس عبارت سے واضح ہو گیا کہ احناف کے نزدیک قبضہ (مُٹھی) برابر داڑھی رکھنے پر فتویٰ ہے لہٰذا یہ حکم لازمی ہے۔ درمختار کتاب الصوم باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ صفحہ۱۰۱مطبوعہ کلکتہ میں ہے۔’’و اما الاخذ منھا وہمی دون ذالک کما یفعلہ بعض المغاربۃ و مخنثۃ الرجال فلم یبحہ احد و اخذ کلھا فعل الیھود الھنود و مجوس الاعاجم‘‘

ترجمہ: اور قبضہ سے کم داڑھی کے کترنے کو کسی ایک نے بھی جائز نہیں لکھا جیسے بعض مغربی اور ہیجڑے کرتے ہیں اور ساری داڑھی کا مونڈنا تو یہودیوں، ہندوؤں اور عجمی مجوسیوں کا کام ہے۔

طحطاوی میں ہے: ’’ والتشبہ بھم حرام‘‘ یعنی ا ور ان یہودیوں، ہندوؤں اور عجمی مجوسیوں وغیرہ کے ساتھ مشابہت اختیار کرنی مسلمانوں کیلئے حرام ہے۔

حضرت شیخ الہند محدث کبیر مولانا بالفضل اولیٰنا جناب شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحضمۃ اللہ علیہ’’اشعہ اللمعات شرح مشکوٰۃ شریف‘‘ میں فرماتے ہیں:’’حلق کردن لحیہ حرام است و گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است‘‘

ترجمہ: داڑھی کا مونڈ ناحرام ہے اور داڑھی کا بقدر قبضہ (مُٹھی بھر) رکھنا واجب ہے۔

حضرت محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات کے مطابق ’’ایک قبضہ کے برابرداڑھی رکھنا‘‘ واجب ہے بلکہ بعض علماءِ کرام کے نزدیک تو فرض ہے جیسا کہ مولانا مولوی شمس الدین ساکن درویش ہری پور ہزار ہ ’’داڑھی کی اسلامی حیثیت ‘‘ صفحہ ۶۴؂ پر تحریر فرماتے ہیں :’’کہ کم از کم ایک قبضہ داڑھی رکھنی فرض ہے۔ انبیاء کا اسلام دین، ملت اور سنت قدیمہ اور فطرتِ صحیحہ ہے جس کا حکم خود اﷲ تعالیٰ نے دیا ہے اور از آدم تا ایں دم تمام رسولوں، نبیوں، صحابیوں، تابعیوں، ولیوں، بزرگوں، عالموں اور نیک لوگوں نے از اعلیٰ تا ادنیٰ ایک قبضہ داڑھی رکھی اور اسی کو فرض واجب جانا اور اس کے منڈانے کترانے کو باجماع و اتفاق حرام و معصیت و گناہ سمجھا‘‘۔

لہٰذا اس قسم کے واجب ضروری کو ترک کرنا فاسق معلن بننا ہے۔ فقہاءِ کرام رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ گناہِ صغیرہ پر ہمیشگی کرنا فاسق ہونے کا ثبوت ہے۔ صاحب ’’بحرالرائق‘‘ فرماتے ہیں: ’’ان الادمان علی الصغیرۃ مفسق‘‘یعنی یقینا گناہِ صغیرہ پر مداومت کرنا آدمی کو فاسق بنا دیتا ہے۔ طحطاوی فی بیان الاحق بالا مۃ ۱۸۱ مطبوعہ مصر میں فاسق کی تعریف لکھتے ہیں:’’وشرعا خروج عن طاعۃ اﷲ بارتکاب کبیرۃ‘‘(دعا گو حافظ دانش علی هارونی )

ترجمہ: شریعت میں فاسق وہ ہے جو گناہِ کبیرہ کے ارتکاب کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے ۔

اور قہستانی سے صاحب طحطاوی نقل کرتے ہیں:’’ای او اصرار علٰی صغیرۃ‘‘

ترجمہ:فسق یاگناہِ صغیرہ پر اصرار کرنا ہے۔

چونکہ داڑھی منڈانا گناہِ کبیرہ ہے اسلئے ایسا شخص جو ارتکابِ کبیرہ کرتا ہے اور اس پرطرہ یہ کہ اصرار بھی کرتا ہے تو یہ فاسق معلن ہے اور فاسق معلن کو امام کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ نیز بقول قہستانی تو صغیرہ پر اصرار ہی اس کے فاسق ہونے کیلئے کافی ہے چہ جائیکہ ترکِ واجب کرنا اور پھر حرام پر اصرار کرنا۔

علامہ شامی’’تنقیح الحامدیہ‘‘ صفحہ ۳۵۱ جلد اول مطبوعہ مصر میں ایک سوال کے جواب میں کہ ’’داڑھی منڈے شخص کی شہادت قبول کی جائے یا نہ ‘‘ فرماتے ہیں ’’جب کوئی عورت سر کے بال منڈائے یا کتروائے تو وہ گناہ گار اور لعنتی ہو گئی اگر چہ یہ سر منڈانا یا کٹوانا خاوند کی اجازت یا حکم سے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ مخلوق کی اطاعت خدا کی نافرمانی کرنے میں جائز نہیں۔’’ولذ ایحرم للرجل قطع لحیۃ‘‘ اور اسی لئے مرد کو بھی داڑھی کٹانا حرام ہے۔

’’تنقیح الحامدیہ‘‘ میں ہے۔’’فحیث ادمن علٰی فعل ہذا المحرم یفسق‘‘

ترجمہ: پس جبکہ ایسے صریح حرام پر جو آدمی ہمیشگی کرے وہ فاسق ہو جاتا ہے۔

لہٰذا فقہائے کرام رحمہم اﷲ علیہم اجمعین کے ارشاد کے مطابق داڑھی منڈانے والا اور پھر اس پر مداومت کرنے والا فاسق معلن ہے یعنی اعلانیہ فاسق ہے اور ایسے امام یا حافظ قران کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے ،ایسا شخص امام نہیں بن سکتا بلکہ ایسا شخص قابل توہین ہے چہ جائیکہ اس کی تعظیم کی جائے اور اس کو عبادتِ الٰہی میں یہ عزت کا مقام دیا جائے۔

شامی شریف جلد اول بحث امامتہ میں ہے:’’اما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بانہ لایھتم لامردینہ و بان فی تقدیمہ للامامۃ تعظیمہ و قد وجب علیہم اہانتہ شرعا ولا یخفی انہ اذا کان اعلم من غیرہ لا تزول العلۃ‘‘

ترجمہ: فاسق کی امامت مکروہ ہونے کی علت ایک تو یہ ہے کہ وہ اپنے دینی امور میں لاپرواہی کرتا ہے اہتمام نہیں کرتا ہے۔ دوسرے اسے امام بنانے میں اسکی تعظیم ہے حالانکہ وہ فاسق ہونے کی وجہ سے مستحقِ توہین ہے اگر چہ وہ فاسق دوسرے مقتدیوں سے زیادہ صاحب علم ہی کیوں نہ ہو اسلئے کہ علت کراہت توزائل نہیں ہوئی۔ صرف یہی نہیں کہ فاسق عالم کی امامت ناجائز ہے بلکہ اسکو امام بنانے والے گنہگار ہوں گے۔ کبیری شرح منیہ بحث امامت میں ہے۔’’لو قدموا فاسقا یا ثمون بناء علٰی ان کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریمہ‘‘

ترجمہ:اگر مقتدیوں نے فاسق عالم کو امام بنایا تو وہ گناہ گار ہوں گے۔ اسلئے کہ فاسق کو امام بنانا مکروہِ تحریمہ ہے۔

ایک بات یہاں پر بہت ہی ضروری یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اگر فاسق عالم امام کے پیچھے کسی مجبوری سے نماز پڑھنی ہی پڑ جائے تو اس نماز کو اپنے وقت میں ہی دوبارہ پڑھے اسلئے کہ وہ مکروہ تحریمہ تھی۔ صاحب ’’در مختار ‘‘بحث قضاء فوائت میں فرماتے ہیں:’’کل صلٰوۃ ادیت مح کراہۃ التحریم تعاد‘‘

ترجمہ: جو نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کی جائے اس کا دوبارہ پڑھنا لازمی ہے۔

غایۃ الاوطار ترجمہ درمختار جلد اول صفحہ ۳۳۳ مطبوعہ نولکشور لکھنؤ (بھارت) از مولوی خرم علی صاحب، میں کافی بحث کے بعد تحریر ہے:’’جو نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کی جائے اس کا اعادہ لازم ہے۔ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ اعادہ خواہ وقت کے اندر ہو یا بعد دونوں صورتوں میں واجب ہے اور یہی قول راحج ہے‘‘۔

مستخلص الحقائق شرح کنزالدقائق جلداول صفحہ ۲۰۱ مطبوعہ نولکشور لکھنؤ (بھارت) حاشیہ ۴کراہت امامت کے ضمن میں تحریر ہے:’’وکرہ آہ الکراہۃ فی الفاسق تحریمۃ‘‘ترجمہ: فاسق کو امام کرنا کراہت ِتحریم ہے۔

یعنی اگر فاسق امام کے پیچھے نماز ادا کی گئی تو وہ نماز مکروہِ تحریمہ ہے اور مکروہِ تحریمہ نماز واجب الاعادہ ہے۔ فتاویٰ در مختار صفحہ۷۴ مطبوعہ کلکتہ میں ہے۔’’وفاسق الاعمٰی و نحوہ الاعمش نھر الا ان یکون ای غیر الفاسق اعلم القوم فھواولٰی‘‘

ترجمہ: فاسق ،اندھا اور اس شخص کی جو دن اور رات میں کم سوجھتا ہے امامت مکروہ ہے مگر مندرجہ افراد میں سے جو بھی قوم میں زیادہ صاحب علم ہو امامت کیلئے بہتر ہے سوائے فاسق کے اگر وہ قوم میں صاحب علم ہی کیوں نہ ہو۔

’’غایۃ الاوطار‘‘ ترجمہ درالمختار صفحہ ۲۶۱ مطبوعہ نو لکشور لکھنو (بھارت) میں مولوی خرم علی صاحب تحریر کرتے ہیں:’’فاسق کا استثناء اسلئے کیا کہ باوجود عالم ہونے کے بھی اس کی امامت خالی کراہت سے نہیں کیونکہ امامت میں اس کی تعظیم ہے حالانکہ شرعاً مقتدیوں پر اس کی اہانت واجب ہے۔ مفتی ابوالسعود نے کہا کہ اس تعلیل کا مفاد یہ ہے کہ امامت فاسق کی مکروہِ تحریمی ہے‘‘۔

محدثّین اور فقہاء رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی عبارتوں سے یہ مسئلہ واضح ہو گیا کہ جو شخص مقدار شرع سے کم داڑھی رکھتا ہے یا ہمیشہ ترشواتا ہے، وہ فاسق معلن ہے، ایسے شخص کو امام بنانا مقتدیوں کے گنہگار ہونے کا سبب ہے اور نماز کے مکروہ تحریمہ ہونے کا باعث جو کہ واجب الاعادہ ہے۔

فتاویٰ رضویہ جلد سوم صفحہ ۲۱۹-۲۲۰ پر اعلیٰحضرت امام اہلسنّت مجدد ماتہ حاضرہ مولانا الشاہ محمد احمد رِضا خان فاضل بریلوی ایک استفتاء کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:’’مسئلہ:جو شخص داڑھی اپنی مقدار شرع سے کم رکھتا ہے اور ہمیشہ تر شواتا ہے اس کا امام کرنا نماز میں شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟

الجواب:وہ فاسق معلن ہے اور اسے امام کرنا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنی مکروہِ تحریمی۔ غنیہ میں ہے لو قدموا فاسقا یا ثمون الخ‘‘

اور اسی فتاویٰ کے صفحہ ۲۵۵⁄۲۵۴ پر تحریر فرماتے ہیں جبکہ آپ سے پوچھا گیا:

’’قاری مکہ معظمہ کا قرأت سیکھا ہو اور وہاں چند سال رہ کر معلمی کیا ہو لیکن داڑھی تر شواتا ہے ،آیا اسکے پیچھے نماز پنج گانہ اور جمعہ جائز ہے یا نہ –بینوا توجروا ۔

الجواب: داڑھی تر شوانے والے کو امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیر نی واجب۔ مکہ معظمہ میں رہ کر قرأت سیکھنا فاسق کو غیر فاسق نہ کردے گا، واﷲ تعالٰی اعلم‘‘ ۔

نیز اسی فتاویٰ کے صفحہ ۲۷۰ پر ایک استفتاء کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :

’’داڑھی منڈانا فسق ہے اور فسق سے متلبس ہو کر بلا توبہ نماز پڑھنا باعث کراہت نماز ہے جیسے ریشمی کپڑے پہن کر یا صرف پائجامہ پہن کر۔ اور داڑھی منڈانے والا فاسق معلن ہے۔ نماز ہو جانا بایں معنی ہے کہ فرض ساقط ہو جائے گا ورنہ گنہگار ہوگا، اسے امام بنانا گناہ اور اسکے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ۔ باقی اگر وہ صف اول میں آئے تو اسے ہٹانے کا حکم نہیں— واﷲ تعالٰی اعلم‘‘(دعا گو حافظ دانش علی هارونی)

مفتی اعظم اہل سنت جناب ابوالبرکات سید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ صدر مدرس دارالعلوم حزب الاحناف لاہور سے مندرجہ ذیل استفتاء کیا گیا جس کا جواب آنجناب مدظلہ نے تحریر فرمایا:

استفتاء : ’’کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ ایک مسجد کا متقی غیر حافظ امام موجود ہے۔ رمضان شریف میں تراویح میں قرآن پاک سننے کیلئے ایک حافظ مہیا کیا گیا جس کی داڑھی کتری ہوئی ہے ،ایسے حافظ کے پیچھے تراویح پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

’’الجواب:بلاشبہ داڑھی کترے حافظ فاسق فاجر ہیں۔ ان کے پیچھے نماز خواہ فرض ہو یا سنت تراویح مکروہِ تحریمی ہے۔ اگربامرمجبوری ان کے پیچھے پڑھ لی یا پڑھنے کے بعد حال کھلا تو نماز پھیرلے، اگر چہ وقت جاتا رہا ہو اور مدت گزر چکی ہو۔ کذافی الشامی داڑھی کترے آدمی سید، قاری، حافظ، عالم فاضل ہونے سے مستحق امامت نہیں ہو سکتے۔ اگر کسی مسجد میں داڑھی کترا ہے تو وہ مسجد چھوڑ کر دوسری مسجد میں چلا جائے— انتہی مختصراً‘‘۔

اسی استفتاء کا جواب مفتی اعظم مولانا مولوی مظہر اﷲ صاحب نوراﷲ مرقدہ خطیب و امام جامع مسجدفتح پوری دہلی (بھارت) تحریر فرماتے ہیں:’’ بیشک یہ شخص اس فعل کی وجہ سے فاسق ہو گیا ہے اور حسب فتویٰ کبیری و شامی ایسے شخص کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے اگر توبہ نہ کرے‘‘ ۔

اسی استفتاء پر علماء دیوبند کے اکابرین میں سے مفتی ہند مولانا مولوی کفایت اﷲ صاحب دہلوی صدر مدرس مدرسہ امینیہ دہلی (بھارت) جواب تحریر کرتے ہیں : ’’نماز تراویح میں کل قرآن شریف سنانا سنت ہے اور ایک قبضہ سے کتر کرداڑھی کا کم کرنا حرام ہے جس کی وجہ سے وہ داڑھی کترا حافظ فاسق ہو گیا۔ پس اس کی امامت مکروہِ تحریمی ہے۔ ایسی صورت میں تراویح متقی امام مسجد کے پیچھے الم ترکیف سے پڑھ لے، فاسق کے پیچھے نہ پڑھے‘‘۔اسی استفتاء پر مولانا محمد عبدالحفیظ صاحب مدرس مدرسہ نعمانیہ دہلی (بھارت) جواب تحریر فرماتے ہیں:

’’بیشک یہ شخص جب تک توبہ نہ کرے فاسق ہے اور اس کے پیچھے تراویح مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے‘‘۔اسی استفتاء پرعلماء دیوبند کے اکابر علماء میں سے مشہور مفسر قرآن مولانا مولوی احمد علی صاحب لاہوری تحریر کرتے ہیں:’’اہل محلہ کے ذمہ لازم ہے کہ داڑھی کترے حافظ کو فوراً الگ کر دیں اور متشرع حافظ قرآن امام کے پیچھے تراویح پڑھیں‘‘۔(یہ سب فتاویٰ ’’داڑھی کی اسلامی حیثیت ‘‘ صفحہ ۸۰ — ۸۱ سے لئے گئے ہیں۔ یہ مولوی شمس الدین صاحب ہزاروی کی تالیف ہے)۔(دعا گو حافظ دانش علی هارونی)