أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنۡ كَانَ يَرۡجُوا اللّٰهَ وَالۡيَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيۡرًا ۞

ترجمہ:

بیشک رسول اللہ میں تمہارے لیے نہایت عمدہ نمونہ ہے ‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک رسول اللہ میں تمہارے لیے نہایت عمدہ نمونہ ہے ‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو (الاحزاب : ٢١ )

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں سختیوں اور مشقتوں پر صبر کرنے کا نمونہ 

اس آیت میں اسوہ کا لفظ ہے ‘ اسوہکا معنی ہے عمل کے لیے نمونہ ‘ انسان کسی دوسرے شخص کی اتباع اور پیروی میں جس طریقہ پر ہوتا ہے اس کو اسوہ اور نمونہ کہتے ہیں ‘ خواہ وہ طریقہ اچھا ہو یا برا ‘ اس لیے اس آیت میں اسوہ کو حسنہ کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ (المفردات ج ١ ص ٢٢‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ)

علامہ ابو عبداللہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ نے لکھا ہے اس آیت میں ان لوگوں پر عتاب کیا گیا ہے جو غزوہ خندق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ کر چلے گئے تھے ‘ یعنی تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نہایت عمدہ نمونہ ہے ‘ کہ آپ نے اللہ کے دین کی نصرت کے لیے اپنی جان کو خرچ کیا اور کفار اور مشرکین سے جہاد کرنے کے لیے میدان میں آئے اور بہ نفس نفیس خندق کھودی۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص ١٤٣ )

حضرت البراء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ خندق کے دن مٹی کھود کر منتقل کر رہے تھے حتی کہ آپ کا شکم مبارک غبار آلود ہوگیا اور آپ بلند آواز سے حضرت عبداللہ بن رواحہ کے یہ اشعار پڑھ رہے تھے :

اللھم لو لا انت ما اھتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا 

اے اللہ ! اگر تو ہدایت نہ دیتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ اور خیرات کرتے اور نہ ہم نماز پڑھتے 

فانزلن سکینۃ علینا وثبت الاقدام ان لاقینا 

سوتو ہم پر ضرور سکون اور امن نازل فرما اور اگر دشمن سے ہمارا مقابلہ ہو تو ہم کو ثابت قدم رکھ 

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٠٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٠٣‘ مسند احمد رقم الدیث : ١٨٧٠٧‘ عالم الکتب ‘ سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٤٥٩ )

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے لیے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں عمدہ نمونہ ہے اور نیک اور اچھی خصلتیں ہیں ‘ اور ایسی سنن صالحہ ہیں جو واجب الاتباع ہیں ‘ آپ جہاد میں ثابت قدم رہتے ہیں ‘ بھوک و پیاس کی سختیوں سے گھبراتے نہیں ‘ اللہ کی راہ میں جو زخم کھاتے ہیں ان پر صبر کرتے ہیں ‘ غزوہ احد میں آپ کے سر پر زخم آیا ‘ آپ کے سامنے کے دانت کا ایک حصہ شہید ہوگیا آپ کے عم مکرم سید نا حمزہ (رض) کو شہید کیا گیا ان کو مثلہ کیا گیا ‘ اللہ کی راہ میں آپ کو بہت ایذائیں دی گئیں ‘ آپ ثابت قدم رہے ‘ آپ نے کبھی گھبراہٹ اور بےچینی کا اظہار نہیں کیا ‘ سوائے مسلمانو ! تم آپ کے اسوہ اور نمونہ کی اتباع کرو۔

حضرت ابو طلحہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹوں سے باندھا ہوا ایک ایک پھتر دکھایا تو ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو پتھردکھائے۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٣٧١‘ شمائل ترمذی رقم الحدیث : ٣٧١‘ المسند الجامع رقم الحدیث : ٣٩٤٨ )

حضرت عائشہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کیا آپ کے اوپر جنگ احد کی دن سے بھی زیادہ سخت دن آیا ؟ آپ نے فرمایا : مجھے تمہاری قوم سے جن سختیوں کا سامنا ہوا سو ہوا ‘ اور سب سے زیادہ سخت دن وہ تھا جو یوم العقبہ کو پیش آیا (عقبہ کے معنی ہیں پہاڑ کی گھاٹی ‘ آپ مکہ کے پہاڑوں کی گھاٹیوں میں جا کر قریش مکہ کو تبلیغ فرماتے تھے) میں نے ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے سامنے اپنی رسالت کا پیغام پیش کیا ‘ اس نے میے پیغام کو قبول نہیں کیا ‘ میں انتہائی دل گرفتہ حالت میں واپس آیا جب میں قرن الثعالب میں پہنچا میں نے اچانک سر اوپر اٹھایاتو ایک بادل نے مجھ پر سایا کیا ہوا تھا میں نے دیکھا اس بادل میں حضرت جبریل تھے ‘ انہوں نے مجھے آواز دیکر کہا آپ نے اپنی قوم کو جو پیغام سنایا اور انہوں نے جو جواب دیا وہ اللہ تعالیٰ نے سن لیا ‘ اور آپ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے ‘ تاکہ آپ ان کافروں کے متعلق جو چاہیں حکم دیں ‘ پھر پہاڑوں کے فرشتہ نے مجھے آواز دے کر مجھے سلام کیا اور کہا اے محمد ! آپ جو چاہیں میں وہ کردیتا ہوں ‘ اگر آپ چاہیں تو میں مکہ کے دو پہاڑوں (ابوقبیس اور قیقعان) کو ان کے اوپر گرا کر ان کو پیش ڈالوں ! تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلکہ میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انکی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور ان کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٢٣١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٩٥‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٧٧٠٦)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں عبادات اور معاملات کا نمونہ 

ہم نے پہلے یہ ذکر کیا تھا کہ علامہ قرطبی نے یہ لکھا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جو غزوہ خندق میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ کر چلے گئے تھے یا جو آپ سے میدان جنگ سے چلے جانے کی اجازت طلب کررہے تھے ‘ اس کے بر خلاف علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ کی یہ تحقیق ہے کہ یہ آیت مخلص مومنین کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ (روح المعانی جز ٢١ ص ٢٥٣ )

سعید بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے ساتھ مکہ کے راستہ میں سفر کررہا تھا ‘ سعید کہتے ہیں کہ جب مجھے یہ خدشہ ہوا کہ اب صبح ہونے والی ہے تو میں نے کہا مجھے صبح کا خوف ہوا تو میں نے سواری سے اتر کروتر پڑھے ‘ حضرت عبداللہ بنعمر نے کہا کیا تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں اچھا نمونہ نہیں ہے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ! اللہ کی قسم ! حضرت ابن عمر نے کہا بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹ پر وتر کی نماز پڑھ لیتے تھے۔ (صیح البخاری رقم الحدیث : ٩٩٩‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٠٠‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٧٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٠ ٤٩ )

ائمہ ثلاثہ یہ کہتے ہیں کہ وتر کی نماز نفل ہے اور وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سواری پر وتر کی نماز پڑھی ہے ‘ اسکا جواب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وتر کی نماز کو واجب قرار دینے سے پہلے وتر کی نماز سواری پر پڑھی کیونکہ امام طحاوی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عمر سے ہی روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نفل سواری پر پڑھے اور وتر سواری سے اتر کر پڑھے ‘ اور حضرت ابن عمر نے اس حدیث کی کوئی توجیہ کرلی ہوگی۔ وتر کے وجوب کی دلیل یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو آدمی سو جانے کی وجہ سے یا بھول جانے کی وجہ سے وتر نہ پڑھ سکے وہ صبح کو وتر پڑھ لے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٦٦) اور قضا واجب کی ہوتی ہے نفل کی قضا نہیں ہوتی۔(عمدۃ القاری ج ٧ ص ٢١۔ ٠ ٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

حضرت ابن عمر (رض) سے یہ سوال کیا گیا کہ عمرہ کرنے والے ایک شخص نے بیت اللہ کا طواف کرلیا ‘ آیا وہ صفا اور مروہ کی سعی سے پہلے عمل تزویج کرسکتا ہے ؟ حضرت ابن عمر نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ آئے آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دور رکعت نماز پڑھی ‘ اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی ‘ پھر یہ آیت پڑھی :

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (الاحزاب : ٢١) بیشک تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں نہایت عمدہ نمونہ ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٦٤٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٣٤‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٠ ٢٩٦‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٥٥٩ )

یعلیٰ بن امیہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے ساتھ طواف کیا جب میں اس رکن کے پاس پہنچا جو حجرا سود کے پاس ہے تو میں نے ہاتھ سے اسکو تعظیمدی ‘ حضرت عمر نے پوچھا کیا تو نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ طواف نہیں کیا ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ! حضرت عمر نے کہا کیا تم نے آپ کو اس کی تعظیم کرتے ہوئے دیکھا ؟ میں نے کہا نہیں ! حضرت عمر نے کہا ابھی آپ کا زمانہ زیادہ تو نہیں گزرا ‘ بیشک تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں نہایت عمدہ نمونہ ہے۔ (مسند احمد ج ١ ص ٣٢‘ ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٨٢)

عیسیٰ بن عاصم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے سفر میں دن کے وقت فرض نماز پڑھی ‘ پھر انہوں نے بعض مسلمانوں کو نفل پڑھتے ہوئے دیکھا تو حضرت ابن عمر (رض) نے کہا اگر میں نفل نماز پڑھوں تو فرض کی پوری چار رکعت پڑھ لوں ‘ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کیا ہے ‘ آپ دن میں نفل نماز نہیں پڑھتے تھے ‘ اور میں نے حضرت ابوبکر (رض) کیساتھ حج کیا وہ بھی دن میں نفل نماز نہیں پڑھتے تھے ‘ اور میں نے حضرت عمر (رض) کے ساتھ حج کیا وہ بھی دن میں نفل نماز نہیں پڑھتے تھے اور میں نے حضرت عثمان (رض) کے ساتھ حج کیا وہ بھی دن میں نفل نہیں پڑھتے تھے ‘ پھر حضرت ابن عمر (رض) نے کہا تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں نہایت عمدہ نمونہ ہے۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٤٤٥٥‘ طبع جدید ‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے یہ نذر مانی کہ وہ اپنے آپ کو نحر (ذبح) کرے گا یا اپنے بیٹے کو نحر کرے گا اس کو چاہیے کہ ایک مینڈھے کو ذبح کردے ‘ پھر یہ آیت تلاوت کی :

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں تمہارے لیے نہایت عمدہ نمونہ ہے۔ (الاحزاب : ٢١ )

(مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٦١٨٥‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ ‘ مصنف ج ٨ ص ٤٦٠ قدیم)

اللہ کے ذکر میں کامل اجر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذکر مکمل جملہ ہو اور ذکر کرنے والے کو اس کا معنی معلوم ہو 

اس کے بعد فرمایا ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو۔

یعنی وہ شخص عذاب سے نجات ‘ جنت کے حصول اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے عبادت کرتا ہو ‘ پھر اس کو اس قید کے ساتھ مقید فرمایا اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو۔ علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

علامہ نووی نے لکھا ہے کہ شرعاً وہ ذکر معتبر ہوتا ہے جو عربی گرامر کے اعتبار سے مکمل جملہ ہو مثلا کوئی شخص کہے سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ اور اس طرح کے اور اذکار۔ اور جو جملہ نہ ہو مثلاً اللہ ‘ القادر ‘ السمیع ‘ البصیر تو جو شخص ان اسماء کا ورد کرے تو یہ شرعاً ذکر معتبر نہیں ہے ‘ جب تک کہ ان الفاظ سے مکمل کلام نہ ہو تو ذکر کرنے والے کو اس ذکر کا ثواب نہیں ملتا ‘ مثلاً کوئی شخص سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ پڑھتا رہے اور اس کے معنی سے غافل ہو یا اس کے ذہن میں اس کا معتی مستحضر اور ملحوظ نہ ہو تو اس پر اجماع ہے کہ اس کو اس کا ذکر کا ثواب نہیں ملے گا اور لوگ اس سے بھی غافل ہیں ‘ انا للہ وانا الیہ راجعون !

خلاصہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے جن اسماء اور صفات کا ذکر کرے تو اول تو وہ اذکار مکمل جملہ ہوں اور ثانیا یہ کہ اس کو جملہ کا معنی بھی معلوم ہو اور اس کا ذہن اس معنی کی طرف متوجہ ہو۔ (علامہ نووی نے صرف اتنا لکھا ہے کہ اللہ کے ذکر سے مقصود حضور قلب ہے اور یہ اس وقت حاصل وہ گا جب ذکر کے معنی میں آدمی غور کرے گا۔ یہ نہیں لکھا کہ اس کے بغبر ذکر کا ثواب حاصل نہیں ہوگا۔ (کتاب الاذکا رج ١ ص ١٥) اللہ کا نام لینے سے بہر حال اجر ملے گا خواہ جملہ مکمل نہ ہو یا اس کا معنی معلوم نہ ہو لیکن بہرحال کامل اجر اسی صورت میں ملے گا جس طرح علامہ آلوسی نے لکھا ہے۔ سعیدی غفرالہ) (روح المعانی جز ٢١ ص ٢٥٥‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 21