*درس 039: (كِتَابُ الطَّهَارَةِ) (فَصْلٌ سُنَنُ الْوُضُوءِ)*

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(وَمِنْهَا): التَّسْمِيَةُ

وضو کی سنتوں میں سے *تسمیہ* یعنی بسم اللہ شریف پڑھنا ہے۔

وَقَالَ مَالِكٌ إنَّهَا فَرْضٌ إلَّا إذَا كَانَ نَاسِيًا فَتُقَامُ التَّسْمِيَةُ بِالْقَلْبِ مَقَامَ التَّسْمِيَةِ بِاللِّسَانِ دَفْعًا لِلْحَرِجِ

امام مالک کے نزدیک بسم اللہ شریف پڑھنا فرض ہے، ہاں اگرکوئی پڑھنا بھول جائے تو دل میں اللہ کا نام موجود ہونا زبان سے پڑھنے کے قائم مقام کردیا جاتا ہے تاکہ حرج دور ہوجائے۔

وَاحْتَجَّ بِمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ «لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يُسَمِّ».

امام مالک کی دلیل نبی کریمﷺ کا یہ فرمان ہے کہ ارشاد فرمایا: اس شخص کا وضو نہیں ہوتا جو بسم اللہ شریف نہ پڑھے۔

(وَلَنَا) أَنَّ آيَةَ الْوُضُوءِ مُطْلَقَةٌ عَنْ شَرْطِ التَّسْمِيَةِ فَلَا تُقَيَّدُ إلَّا بِدَلِيلٍ صَالِحٍ لِلتَّقْيِيدِ

اور ہماری دلیل یہ ہے کہ وضو کی آیت مطلق ہے، بسم اللہ شریف کی شرط ذکر نہیں ہے، تو بغیر کسی ایسی دلیل کہ جو مطلق کو مقید کردے، آیت کو مقید کرنا درست نہیں ہے۔

وَلِأَنَّ الْمَطْلُوبَ مِنْ الْمُتَوَضِّئِ هُوَ الطَّهَارَةُ، وَتَرْكُ التَّسْمِيَةِ لَا يَقْدَحُ فِيهَا؛ لِأَنَّ الْمَاءَ خُلِقَ طَهُورًا فِي الْأَصْلِ، فَلَا تَقِفُ طَهُورِيَّتُهُ عَلَى صُنْعِ الْعَبْدِ.

اوراسلئے بھی کہ وضو کرنے والے سے اصل مطلوب طہارت ہے اور بسم اللہ شریف نہ پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اسلئے کہ پانی اپنی اصل میں *طہور*ہے، لہذا اسکی طہوریت بندے کے فعل پر موقوف نہیں ہوسکتی۔

وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «مَنْ تَوَضَّأَ، وَذَكَرَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ كَانَ طَهُورًا لِجَمِيعِ بَدَنِهِ، وَمَنْ تَوَضَّأَ، وَلَمْ يَذْكُرْ اسْمَ الله كَانَ طَهُورًا لِمَا أَصَابَ الْمَاءَ مِنْ بَدَنِهِ»

اور اس موقف پر دلیل عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: جس نے وضو کیا اور اس کے ساتھ بسم اللہ شریف پڑھی تو وہ اسکے سارے بدن کی طہارت کا سبب بن جائے گا اور جس نے وضو کیا اور بسم اللہ شریف نہیں پڑھی تو یہ بدن کے اتنے ہی حصے کی طہارت کا سبب ہوگا جہاں تک پانی پہنچا۔

وَالْحَدِيثُ مِنْ جُمْلَةِ الْآحَادِ، وَلَا يَجُوزُ تَقْيِيدُ مُطْلَقِ الْكِتَابِ بِخَبَرِ الْوَاحِدِ

امام مالک کی پیش کردہ حدیث *خبر واحد* ہے، اور خبر واحد کے ذریعے کتاب اللہ کے مطلق کو مقید کرنا جائز نہیں ہے۔

ثُمَّ هُوَ مَحْمُولٌ عَلَى نَفْيِ الْكَمَالِ، وَهُوَ مَعْنَى السُّنَّةِ كَقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَا صَلَاةَ لِجَارِ الْمَسْجِدِ إلَّا فِي الْمَسْجِدِ»

نیز یہ حدیث *نفی ِ کمال* پر محمول ہے، اور یہی سنت کا مفہوم ہے جیسے نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: مسجد کے پڑوسی کی نماز کسی اور مسجد میں جائز نہیں ہے۔

وَبِهِ نَقُولُ: ” إنَّهُ سُنَّةٌ ” لِمُوَاظَبَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهَا عِنْدَ افْتِتَاحِ الْوُضُوءِ، وَذَلِكَ دَلِيلُ السُّنِّيَّةِ وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ «كُلُّ أَمْرٍ ذِي بَالٍ لَمْ يُبْدَأْ فِيهِ بِذِكْرِ اسْمِ اللَّهِ فَهُوَ أَبْتَرُ»

اور انہیں بنیادوں پر ہم کہتے ہیں کہ بسم اللہ شریف پڑھنا سنت ہے، اسلئے کہ نبی کریم ﷺ نے وضو کی ابتدا میں اس پر ہمیشگی اختیار فرمائی ہے اور یہ اسکے سنت ہونے کی دلیل ہے اور حضور سید عالم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ہروہ اہم کام جو بسم اللہ شریف سے شروع نہ کیا گیا ہو بے برکت ہوتا ہے۔

وَاخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ فِي أَنَّ التَّسْمِيَةَ يُؤْتَى بِهَا قَبْلَ الِاسْتِنْجَاءِ أَوْ بَعْدَهُ، قَالَ بَعْضُهُمْ: قَبْلَهُ لِأَنَّهَا سُنَّةُ افْتِتَاحِ الْوُضُوءِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَعْدَهُ لِأَنَّ حَالَ الِاسْتِنْجَاءِ حَالُ كَشْفِ الْعَوْرَةِ، فَلَا يَكُونُ ذِكْرُ اسْمِ اللَّهِ تَعَالَى فِي تِلْكَ الْحَالَةِ مِنْ بَابِ التَّعْظِيمِ.

اور ہمارے مشایخ کا اس میں اختلاف ہے کہ بسم اللہ شریف استنجا سے پہلے پڑھی جائے گی یا بعد میں۔۔۔ بعض مشایخ کی رائے ہے کہ یہ وضو شروع کرنے سے پہلے کی سنت ہے لہذا استنجا سے پہلے پڑھی جائے گی (اسلئے کہ استنجا بھی وضوکی ابتدائی سنتوں میں سے ہے) اور بعض مشایخ کی رائے یہ ہے کہ استنجا کے بعد پڑھی جائے اس لئے کہ استنجا ستر کھولنے کی حالت ہوتی ہے لہذا ایسی حالت میں اللہ عزوجل کا نام لینا تعظیم کے منافی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

*وضاحت:*

علامہ کاسانی نے پانچویں سنت *تسمیہ* ذکر کی ہے۔

*تسمیہ* کا مطلب ہے، اللہ عزوجل کا نام لینا۔ عموما اس سے مراد *بسم اللہ الرحمن الرحیم* ہوتا ہے۔

*وضو میں تسمیہ کی شرعی حیثیت*

امام مالک کے نزدیک تسمیہ فرض ہے۔ احناف میں علماء کے دو موقف ہیں: (1) سنت (2) مستحب

قدوری، طحاوی، کنزالدقائق، بدائع اور اکثر متاخرین کی رائے یہی ہے کہ تسمیہ سنت موکدہ ہے لیکن صاحبِ ہدایہ کاموقف یہ ہے کہ تسمیہ مستحب ہے اور کہاگیا ہے کہ ظاہرالرویۃ بھی اسی موقف پر دلالت کرتی ہے۔ بہارِ شریعت میں تسمیہ کو وضو کی سنتوں میں شمار کیا گیا ہے۔

*نیت اور تسمیہ میں سے کون سی سنت پہلے ہے۔۔؟؟*

قلب کے اعتبار سے نیت پہلی سنت ہے، زبان کے اعتبار سے تسمیہ پہلی سنت ہے۔ (رد المحتار)

*تسمیہ کے الفاظ*

اگر کسی نے مطلقا اللہ عزوجل کا نام لے لیا تو تسمیہ کی سنت ادا ہوجائے گی، مثلا لاالہ الا اللہ، سبحان اللہ وغیرہ کلمات کہہ دئے تو سنت ادا ہوجائے گی (البنایۃ شرح الہدایہ)

مگر روایات میں جو الفاظ واردہیں انہیں کا پڑھنا بہتر ہے۔ مثلا (بِاسْمِ اللَّهِ الْعَظِيمِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى الْإِسْلَامِ) یا (بِاسْمِ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لله۔)

*وضو سے پہلے تسمیہ بھول جائے تو۔۔!*

تسمیہ وضو سے پہلے سنت ہے لہذا اگر کوئی بھول جائے تو حدیث میں وارد فضیلت حاصل نہیں ہوسکے گی۔

اسے کھانے کے مسئلہ پر قیاس کرکے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ کھانے سے پہلے بسم اللہ شریف بھول گئے تو درمیان میں بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ پڑھ لیتے ہیں لہذا وضو میں بھی ایسا کرلیا جائے۔ اس سے سنت کا ثواب حاصل نہیں ہوگا اسلئے کہ حدیث صرف کھانے کے حوالے سے وارد ہوئی ہے وضو کے حوالے سے نہیں۔۔۔ ہاں اگرکوئی بسم اللہ شریف پڑھ لے تو ثواب ملے گا کیونکہ ہر عضو کے دھوتے وقت ذکرو درود مستحب ہے مگر سنت کا ثواب نہیں ملے گا۔

*اصول و ضوابط*

علامہ کاسانی نے اس مسئلہ میں فقہ کے دو اصولوں کا ذکر کیا ہے۔

(1) قرآن مجید کی مطلق (Unconditional) آیت کو مقید (Conditional) نہیں کیا جاسکتاہے، مقید کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دلیل بھی آیت کریمہ جیسی وزنی ہو اور وہ خود قرآن کی دوسری آیت ہوسکتی ہے یا حدیثِ متواتر۔

(2) خبر واحد کے ذریعے قرآن مجید کے مطلق حکم کو مقید کرنا جائز نہیں ہے۔

لہذا جب اللہ تعالی نے وضو کے حکم کو مطلق رکھا ہے تو اس سے پہلے تسمیہ کو فرض قراردینے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن مجید کی آیت یا حدیثِ متواتر سے دلیل دی جائے۔نیز امام مالک کی پیش کردہ حدیث خبرِ واحد ہے اور خبرِ واحد کے ذریعے قرآن مجید کے مطلق حکم کو مقید کرنا جائز نہیں ہے۔

*ابو محمد عارفین القادری*