روزہ سائنس کی نظر میں: حکیم محمد طارق محمود چغتائی اپنی تصنیف ’’سنت نبوی اور جدید سائنس‘‘میں رقم طراز ہیں۔ ’’پروفیسر مورپالڈ آکسفورڈ یونیورسٹی کی پہچان ہیں، انہوں نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور روزے کے باب پر پہونچا توچونک پڑاکہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کتنا عظیم فارمولہ دیا ہے، اگر اسلام اپنے ماننے والوں کواور کچھ نہ دیتا صرف یہی روزے کا فارمولہ ہی دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس اور کوئی نعمت نہ ہوتی۔ میں نے سوچا کہ اس کو آزمانا چاہئے۔ پھر میں نے روزے مسلمانوں کے طرزپر رکھنا شروع کردئیے۔ میں عرصۂ درازسے معدے کے ورم”Stomach Inflammatin” میں مبتلا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی۔ پھر میں نے جسم میں کچھ اور تبدیلی بھی محسوس کی۔ اور کچھ ہی عرصہ بعد میں نے اپنے جسم کو نارمل پایا۔ حتیٰ کہ میں نے ایک ماہ کے بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی ‘‘

پوپ ایف گال کا تجربہ: یہ ہالینڈ کا بڑا پادری گزرا ہے۔ اس نے روزے کے بارے میں اپنے تجربات بیان کئے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔

’’میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں۔ میں نے اس طریقۂ کار کے ذریعہ جسمانی اور وزنی ہم آہنگی محسوس کی۔ میرے مریض مجھ پر مسلسل زوردیتے ہیں کہ میں انہیں کچھ اور طریقہ بتائوں لیکن میں نے یہ اصول وضع کرلیا کہ ان میں وہ مریض جو لا علاج ہیں ان کو تین یوم نہیں بلکہ ایک ماہ تک روزے رکھوائے جائیں‘‘۔

مولانا محمد شاکر علی رضوی نوری