أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنۡۢ بَحِيۡرَةٍ وَّلَا سَآئِبَةٍ وَّلَا وَصِيۡلَةٍ وَّلَا حَامٍ‌ ۙ وَّلٰـكِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يَفۡتَرُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ الۡـكَذِبَ‌ ؕ وَاَكۡثَرُهُمۡ لَا يَعۡقِلُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اللہ نے (جانوروں میں) کوئی بحیرہ نہیں بنایا اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حامی مگر یہ کافر جھوٹ بول کر اللہ پر بہتان تراشتے ہیں ‘ اور ان میں اکثر لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ نے (جانوروں میں) کوئی بحیرہ نہیں بنایا اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حامی مگر یہ کافر جھوٹ بول کر اللہ پر بہتان تراشتے ہیں ‘ اور ان میں اکثر لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔ (المائدہ : ١٠٣) 

اس سے پہلی آیتوں میں کثرت سوال سے منع فرمایا تھا ‘ مبادا کوئی چیز حرام نہ ہو اور تمہارے سوال کی وجہ سے حرام کردی جائے ‘ اور اس آیت میں فرمایا ہے کہ مشرکوں نے ازخود بعض جانوروں کو حرام کرلیا تھا ‘ اللہ نے ان کو حرام نہیں کیا ‘ وہ بدستور حلال ہیں ‘ سو جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام نہ کیا ہو ‘ اس کو حرام قرار دے کر شریعت سازی نہ کرو۔ 

البحیرہ : کا معنی : 

بحر کے معنی وسعت ہے ‘ جب کسی اونٹنی کے کان کو بہت لمبا چیر دیا جائے تو اسے بحیرہ کہتے ہیں ‘ جب کوئی اونٹنی دس بچے جنتی تو وہ اس کان چیر کر اس کو آزاد چھوڑ دیتے ‘ اس پر سواری کی جاتی نہ اس پر سامان لادا جاتا۔ (المفردات ‘ ص ٣٧‘ مطبوعہ ایران ‘ ١٣٦٢ ھ) 

مسروق نے بیان کیا کہ جب اونٹنی کے پانچ یا سات بچے ہوجاتے تو وہ اس کا کان چیر دیتے اور کہتے ہیں یہ بحیرہ ہے۔ 

قتادہ نے بیان کیا کہ جب کسی اونٹنی کے پانچ ہوجاتے تو وہ پانچویں بچے کو دیکھتے اگر وہ نر ہوتا تو اس اونٹنی کو ذبح کردیتے اور اس کو صرف مرد کھاتے ‘ اور اگر وہ وہ بچہ مردہ ہوتا تو اس اونٹنی میں مرد اور عورت دونوں شریک ہوتے اور اگر پانچویں بار اونٹنی مونث کو جنم دیتی تو اس کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ‘ اس کا دودھ دوہا جاتا نہ اس پر سواری کی جاتی ‘ نہ اس کے بالوں کو حاصل کیا جاتا اور نہ اس کو ذبح کیا جاتا۔ (جامع البیان ‘ جز ٧ ص ١٣٣۔ ١٢٠‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ) 

السائبہ کا معنی : 

جب کوئی اونٹنی پانچ بچے جن لے تو اس کو چراگاہ میں چھوڑ دیا جاتا تھا ‘ اور اس کو پانی اور چارے سے منع نہیں کیا جاتا تھا ‘ اس کو سائبہ کہتے تھے۔ (المفردات ‘ ص ٢٤٦‘ مطبوعہ ایران ‘ ١٣٦٢ ھ) 

شعبی نے بیان کیا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی اونٹنیوں اور بکریوں کو اپنے بتوں کے پاس ذبح کے لیے چھوڑدیتے تھے ‘ وہ لوگوں کی بکریوں کے ساتھ خلط سلط ہوجاتیں ‘ ان کا دودھ صرف دوہتے تھے ‘ اور جب ان میں سے کوئی مرجاتی تو مرد اور عورت دونوں اس کا گوشت کھاتے تھے۔ یہ سائبہ کی تفسیر ہے۔ 

سدی نے سائبہ کی تفسیر میں بیان کیا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی شخص کا مال بہت زیادہ ہوجاتا ‘ یا وہ کسی بیماری سے شفایاب ہوجاتا یا کسی سفر سے کامیاب لوٹتا تو وہ اپنی کسی اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیتا ‘ کوئی شخص اس سے نفع حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ ابن المسیب نے کہا جس اونٹنی کو وہ بتوں کے لیے چھوڑ دیتے وہ سائبہ کہلاتی۔ (جامع البیان ‘ جز ٧ ص ١٢٣۔ ١٢١‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ) 

سائبہ وہ اونٹنی ہے جس کی بتوں کے لیے نذر مانی جاتی اور اس کو بتوں کے خدام اور محافظوں کے سپرد کردیا جاتا۔ وہ جہاں چاہتی ‘ چرتی اس پر سامان لادا جاتا نہ اس کا اون کاٹا جاتا ‘ اور نہ اس کا دودھ دوہا جاتا ‘ البتہ مہمان مستثنی تھا۔ (التفسیر المنیر ‘ جز ٧‘ ص ٨٥‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت) 

الوصیلہ کا معنی : 

جب کسی شخص کی بکری نر اور مادہ دو بچے جنتی تو کہتے کہ بکری اپنے بھائی سے واصل ہوگئی ہے ‘ پھر اس بچے کی وجہ سے نر اور مادہ کو جنتی تو کہتے کہ یہ بکری اپنے بھائی سے واصل ہوگئی ہے ‘ پھر اس مادہ بچے کی وجہ سے نر بچے کو بھی نہیں کرتے تھے ‘ اس بکری کو مشرکین زمانہ جاہلیت میں ” الوصیلہ “ کہتے تھے۔ (المفردات ‘ ص ٥٥‘ مطبوعہ ایران ‘ ١٤٦٢ ھ) 

علقمہ نے الوصیلہ کی تعریف میں کہا : جب اونٹنی صرف نربچے کو جنم دیتی تو اس اونٹنی کو مرد کھاتے تھے ‘ اور جب ایک ساتھ نر اور مادہ کو جنتی تو کہتے یہ اپنے بھائی کے ساتھ واصل ہوگئی ہے ‘ پھر ان دونوں کو نہیں کھاتے تھے ‘ اور جب نر مرجاتا تو اس کو صرف مرد کھاتے تھے ‘ گویا نر کے ساتھ پیدا ہونے والی اونٹنی وصیلہ تھی۔ 

ابن المسیب نے بیان کیا کہ وصیلہ وہ اونٹنی تھی جو پہلی بار مادہ کو جنم دے ‘ دوسری بار پھر مادہ کو جنم دے ‘ وہ کہتے تھے کہ یہ وصیلہ ہے ‘ دو مادہ اونٹنیوں کے درمیان نر نہیں ہے ‘ اس اونٹنی کو وہ بتوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ (جامع البیان ‘ جز ٧ ص ١٢٣۔ ١٢٠‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ) 

الحامی کا معنی : 

وہ نر جو دس مرتبہ مادہ کو گیا بھن کر دے ‘ اس کو حامی کہتے تھے ‘ اس پر سامان لادا جاتا تھا ‘ نہ اس پر سواری کی جاتی تھی۔ (المفردات ‘ ص ١٣٣۔ ١٣٢‘ مطبوعہ ایران ‘ ١٤٦٢ ھ) 

قتادہ نے کہا جو اونٹ اور اس کا بیٹا دس مرتبہ گیا بھن کر دے ‘ وہ حامی ہے۔ 

امام ابن جریر نے کہا کہ جس اونٹ کی ضرب سے مسلسل دس اونٹنیاں پیدا ہوں ‘ درمیان میں نر نہ ہو ‘ اس کو حامی کہتے تھے ‘ اس پر سواری کی جاتی ‘ نہ اس پر سامان لادا جاتا ‘ نہ اس کا اون کاٹا جاتا ‘ اس کو پانی اور چراگاہ سے منع نہیں کیا جاتا تھا۔ (جامع البیان ‘ جز ٧ ص ١٢٣۔ ١٢٠‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ) 

بحیرہ اور سائبہ وغیرھما کے متعلق احادیث : 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

سعید بن المسیب نے بیان کیا کہ بحیرہ وہ اونٹنی ہے جس کا دودھ دوہنا بتوں کی وجہ سے منع کردیا جاتا تھا ‘ اور کوئی شخص اس کا دودھ نہیں دوہتا تھا ‘ اور سائبہ وہ اونٹنی ہے جس کو وہ اپنے بتوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے ‘ اور اس پر کسی چیز کو لادا نہیں جاتا تھا ‘ اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا ‘ وہ دوزخ میں اپنی آنتوں کو گھسیٹ رہا تھا ‘ اور یہی وہ شخص ہے جس نے سب پہلے سائبہ اونٹنیوں کو چھوڑا تھا ‘ اور وصیلہ وہ اونٹنی ہے جو پہلی بار اونٹ جنتی ہے اور دوسری بار اونٹنی جنتی ہے ‘ وہ اس کو اپنے بتوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے ‘ بشرطیکہ وہ یکے بعد دیگرے مادہ کو جنم دے اور اس کے در میان نر نہ ہو ‘ اور حامی نر اونٹ ہے ‘ جو چند معین مرتبہ گیا بھن کرے ‘ جب وہ اپنا عدد پورا کرے تو وہ اس اونٹ کو بتوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے ‘ اور اس پر سامان نہیں لادتے تھے ‘ اور اس کو الحامی کہتے تھے۔ 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے دیکھا کہ دوزخ کی بعض آگ بعض کو کھا رہی تھی ‘ اور میں نے دیکھا کہ عمرو اپنی آنتوں کو گھیسٹ رہا تھا اور یہ پہلا شخص تھا جس نے سائبہ اونٹنیوں کو چھوڑا۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث : ٤٦٢٤۔ ٤٦٢٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت) 

امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابو الاحوص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تمہاری اونٹنیاں پیدا ہوتی ہیں تو ان کے کان سالم ہوتے ہیں ‘ پھر تم استرا لے کر ان کے کان کاٹ ڈالتے ہو ‘ اور کہتے ہو کہ یہ بحیرہ ہے ‘ اور ان کے کان چیر دیتے ہو ‘ اور کہتے ہو کہ یہ حرام ہیں ؟ـ انہوں نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا اللہ کی کلائی بہت سخت ہے اور اس کا استرا بہت تیز ہے اور تمہارا ہر مال جو تمہارے لیے حلال ہے ‘ اس میں سے کوئی چیز حرام نہیں کی گئی۔ (مسند احمد ج ٥‘ رقم الحدیث : ١٥٨٨٨‘ سنن کبری للبیہقی ‘ ج ١٠‘ ص ١٠‘ جامی البیان ‘ جز ٧‘ ص ١١٩۔ ١١٨) 

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں : 

امام عبدالرزاق ‘ امام ابن ابی شیبہ اور امام ابن جریر نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اس شخص کو ضرور پہچانتا ہوں جس نے سب سے پہلے سائبہ اونٹنیوں کو چھوڑا اور بتوں کے بتوں کے سامنے ذبح کرنے کے پتھر نصب کیے اور جس شخص نے سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کو تبدیل کیا۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ شخص کون ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ شخص بنو کعب کا بھائی عمرو بن لحی ہے۔ میں نے اس کو دیکھا وہ دوزخ میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا تھا ‘ اور اس کی آنتوں کی بدبو سے دوزخیوں کو اذیت پہنچ رہی تھی ‘ اور میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جس نے سب سے پہلے بحیرہ کے کان چیرے۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ بنو مدلج کا ایک شخص ہے جس کی دو اونٹنیاں تھیں ‘ اس نے ان کے کان چیرے اور ان کا دودھ دوہنا اور ان پر سامان لادنا حرام کردیا ‘ پھر اس کو ضرورت ہوئی تو اس نے ان کا دودھ پیا اور ان کی پشت پر سوار ہوا میں نے اس کو دوزخ میں دیکھا ‘ وہ اونٹنیاں اس کو اپنے مونہوں سے بھنبھوڑ رہی تھیں اور اپنے کھروں سے روند رہی تھیں (یہ حدیث مرسل ہے) (درمنثور ‘ ج ٢ ص ٣٣٨‘ جامع البیان ‘ جز ٧‘ ص ١١٨‘ روح المعانی ‘ جز ٧‘ ص ٤٤) 

ایصال ثواب کے لیے نامزد جانوروں کا حلال اور طیب ہونا : 

اللہ تعالیٰ نے ان چار جانوروں کو حرام نہیں کیا لیکن زمانہ جاہلیت میں مشرکوں نے بحیرہ ‘ سائبہ ‘ وصیلہ اور حامی ٹھہرائے ‘ ان کو اپنے بتوں کے لیے نامزد کیا ‘ اور ان سے نفع حاصل کرنے کو حرام قرار دیا ‘ اور یہ محض اللہ پر افتراء ہے ‘ سو ان جانوروں کو جب مسلمان ‘ اللہ کے نام پر ذبح کرے گا تو ان کا کھانا حلال اور طیب ہوگا ‘ اسی طرح قربانی کے لیے جو جانور لوگوں کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں ‘ یہ عبداللہ کی گائے ہے ‘ یہ عبدالرحمن کا بکرا ہے ‘ اور اولیاء اللہ کو ایصال ثواب کرنے کے لیے جو جانور ان کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں کہ مثلا اس بکرے کو ذبح کرکے اس کے طعام کے صدقہ کے ثواب کو حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ یا حضرت داتا بخش علی ہجویری قدس سرہ کی روح کو پہنچایا جائے گا اور اس اعتبار سے کہا جاتا ہے۔ یہ غوث پاک کا بکرا ہے یا یہ داتا صاحب کا بکرا ہے ‘ تو جب اس کو مسلمان اللہ کے نام پر ذبح کرے گا تو اس کا گوشت بھی حلال اور طیب ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة آیت نمبر 103