تحریر ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)

آج ہمارے ایک دوست کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

عبد عاجز ابن طفیل الأزہری کے پاس ایک دوست آئے وہ نقیب تھے انہوں نے کہا آپ مجھے ایک سؤال کا جواب دیں أور جواب بالکل ٹو دا پوائنٹ ہو .

عبد عاجز نے پوچھا:

پیارے دوست!

سؤال کیا ہے؟

دوست نے جواب دیا:

میں نقیب ہوں ، أور جب کسی بھی نعت خواں یا عالم کو دعوت دیتا ہوں تو بہت سے ألقابات لگاتا ہوں إسکی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا احتراماً اور تکریما ألقاب دینا جائز ہیں؟

عبد عاجز نے جواب دیا:

دوست!

جب بھی کسی کو ألقاب دو تو ایک آیت کو یاد رکھنا وہ یہ کہ اللہ رب العزت نے فرمایا:

” ستکتب شهادتهم ويسئلون ” [الزخرف : 19 ]

ترجمہ:

ہم أنکی گواہی کو لکھتے ہیں أور ( قیامت کے دن) أن سے ( أس گواہی کے متعلق) پوچھا جائے گا.

کسی کو مختلف ألقابات دینا یہ آپکی طرف سے لوگوں کے لیے گواہی ہے کہ أس میں یہ قابلیت ہے تو اللہ رب العزت کے حکم سے یہ گواہی لکھی جاتی ہے أور قیامت کو آپ نے ہر دیے گئے لقب کے متعلق جواب دینا ہوگا .

یہ سننے کے بعد دوست کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگے۔۔۔ أور أنہوں نے سچی توبہ کی۔۔ بحمد اللہ تعالیٰ-

میری تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ ہم أپنے علماء کو یا شخصیات کو جو بھی ألقاب دیتے ہیں إسکے متعلق اللہ ہم سے پوچھے گا کہ تمہیں پتا تھا کہ وہ اسکا اہل نہیں تھا پھر بھی یہ لقب دیا اس لیے کہ وہ آپکی پسندیدہ شخصیت تھی یا آپکا ہم مسلک تھا ؟

لہذا بغیر حقیقت کے ألقابات دینا غیر شرعی ہے ، أور قرآن فرماتا ہے:

” وكل شيء عنده بمقدار “[ الرعد: 8 ]

ترجمہ:

أسی ( اللہ تعالیٰ) کے ہاں ہر شئے کی ایک مقدار ہے.

عبد عاجز ابن طفیل الأزہری نے دوست سے عرض کیا:

آج سے میں بھی سچی توبہ کرتا ہوں۔