لفظ “بریلوی” کیوں ضروری ہے..؟؟

منطقی,قولی اور تاویل صحیح کے اعتبار سے ملاحظہ فرمائیں..

از قلم محمد فہیم رضا خان

ابن مولانا محمد نعیم اللہ خان

ساکن:بریلی شریف

اھل علم و فن کا دستور رہا ہے کہ جب کسی شئی کی کما حقہ معرفت کراتے ہیں تو اسکا معرف جامع و مانع لاتے ہیں اور جامعیت مابہ الاشتراک سے آتی ہے اور مانعیت مابہ الامتیاز سے تاکہ معرَّف یعنی جسکی معرفت کرانا مقصود ہوتی ہے اسکا وجود اغیار سے ممتاز ہوکر ذہن میں متصور ہوجائے جیسے علماء نحو نے “کلمہ” کی معرفت کرائی تو صرف “الکلمة لفظ” سے نہ کرائی بلکہ “وضع لمعنی مفرد” کی قید کے ساتھ کرائی کہ یہاں “لفظ” مابہ الاشتراک کی حیثیت کا حامل ہے جو “موضوع و مہمل لفظ” دونوں کو شامل ہے اور یہ کلمہ کے لئے جنس قریب ہے چاہتے تو جنس بعید سے معرفت کراتے یعنی “الکلمة شئی” کہدیتے لیکن یہ تعریف حد تام نہ ہوتی یہاں تام کا بھی لحاظ رکھا گیا تاکہ مطلوب اغیار قریبہ سے بھی ممتاز ہوکر متصور ہوجائے اور “وضع لمعنی مفرد” مابہ الامتیاز کی حیثیت کا حامل ہے جس سے مہملات اور وہ الفاظ نکل گئے جو کسی معنی پر باعتبار وضع دال نہیں ہیں اور “حروف تہجی” نکل گئے اور مرکب نکل گئے خوا تام ہو یا ناقص اور اس جامعیت اور مانعیت کے لحاظ سے کلمہ کی کما حقہ معرفت حاصل ہوئی اور وہ اغیار بعیدہ و قریبہ سے ممتاز ہوکر ذہن میں متصور ہوا معلوم ہوا کسی شئی کی کما حقہ معرفت حاصل کرنے کے لئے مابہ الاشتراک کے ساتھ ساتھ مابہ الامتیاز کی ضرورت پڑتی ہے مابہ الامتیاز کے بغیر کما حقہ معرفت ہرگز نہیں حاصل ہوسکتی جیسے مناطقہ انسان کی تعریف حیوان ناطق سے کرتے ہیں یہاں حیوان مابہ الاشتراک ہے اور ناطق مابہ الامتیاز جس کی بنا پر انسان کے اغیار یعنی فرس و غنم و غیرہ انسان کی تعریف میں داخل نہ ہوسکے اور انسان کی تعریف جامع و مانع رہی لیکن اگر انسان کی تعریف صرف حیوان سے کی جائے تو اس سے انسان کی تعریف دخول غیر سے مانع نہ رہے گی یعنی فرس و غنم بھی تعریف میں شامل ہوجائیں گے اور انسان کا وجود اغیار سے ممتاز ہوکر متصور نہ ہوپائےگا

اگر مابہ الامتیاز نہ ہو تو معرف یعنی جسکی معرفت کرانی مقصود ہوتی ہے اسکا وجود ذہن میں اغیار سے ممتاز ہوکر نہیں ہوگا بلکہ ابہام باقی رہےگا اور تعریف کا مقصد اصلی فوت ہوجائے گا

پہلے زمانے میں صرف کلمہ پڑھنا ہی اھل حق کا امتیازی نشان رہا ہے یہی اھل حق و باطل کے مابین ممیِز و فصل کا کام کرتا رہا لیکن جب اِنھیں کلمہ پڑھنے والوں میں معتزلہ و جبریہ قدریہ جیسے فرقے وجود میں آئے جو نت نئے طریقوں سے اسلام کو نقصان پہچانے میں مشغول ہونے لگے اور قران و حدیث کے غلط معانی اور مطالب بیان کرنے لگے تو اشتراک پیدا ہوا کہ جو لوگ کلمہ طیب پڑھتے تھے ان میں ایسے نظریات رکھنے والوں کی شرکت ہوئی کہ معرَّف کی معرفت میں ابہام پیدا ہوا اور عوام الناس ابہام کی تاریکی میں گمراہی کے راستے پر چل پڑی اور اھل حق کی معرفت کرنا اندھیرے میں ہاتھ مارنے کے مترادف ہوگیا کیونکہ کوئی خط امتیاز نہ رہا جسکی بنا پر سب میدان اشتراک میں نظر آنے لگے اسلئے کہ عرف میں اصل مسلمان کی پہچان مشکل ہوگئی تھی لھذہ ایسا معرِّف جو معرَّف یعنی اصل مسلمان کی ایسی معرفت کرائے جس سے اصل مسلمان کی شناخت ہوسکے کہ اشتراک ختم ہو کی اشد ضرورت آن پڑی کہ اھل حق و باطل کے مابین تمیز ہوجائے تو اس وقت حضرت ابو الحسن اشعری رحمۃ الله علیه نے معتزلہ سے علیحدگی اختیار کی اور انکے رائے سے اختلاف کیا اور انکے متبعین معتزلہ کی رائے کے باطل کرنے میں مشغول ہوئے اور انھوں نے سنت کی اتباع کی تو انکا نام “اھل سنت و جماعت” ہوا…(جیسا کہ شرح عقائد میں ذکر ہے) تو اسی نام (معرِف) نے اپنے معرَف کی ایسی معرفت کرائی کہ جس سے معتزلہ وغیرہ نکل گئے اور اھل حق جنکی معرفت مشکل تھی,مبہم تھی اب واضح ہوگئی،عیاں ہوگئی اور یہی نام اھل حق کا امتیازی نشان بنارہا ہے کہ جو خود کے بارے میں یہ کہتا تھا کہ ہم “اھل سنت و جماعت” ہیں تو وہی اھل حق جانا جاتا تھا،پہچانا جاتا تھا لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ہم صرف مسلمان ہیں تو یہ کہنے سے اسکی پہچان نہیں ہوپاتی تھی بلکہ لفظ مسلمان کے ساتھ ساتھ اسے “اھل سنت و جماعت” کی قید لگانی پڑتی تھی تبھی اھل حق میں شمار کیا جاتا تھا ورنہ معتزلہ وغیرہ بھی خود کو مسلمان کہتے تھے اسکے بعد ایک ایسا دور آیا کہ “اھل سنت و جماعت” میں سے ایسے فرقے وجود میں آئے جو قطعیات کے خلاف بکواس کرنے لگے کہ یہ خود کو “اھل سنت و جماعت” کہتے تھے جیسے وہابیہ دیابنہ لھذا پھر اھل حق کی معرفت امتیازی حیثیت سے محروم ہوگئی غیر بھی شامل ہونے لگے,

لھذا ایسے معرِف کی ضرورت آن پڑی جو ان باطل عقائد کے حاملین کو نکال سکے, اور اھل حق کا کوئی امتیازی نشان ہوجائے تاکہ اصل اھل سنت کی معرفت غیروں کے تصور سے ممتاز ہوکر ہوسکے تو اس وقت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے انکے باطل عقائد کا رد فرمایا انکے رائے سے اختلاف,ان سے علیحدگی اختیار فرمائی,انکے متبعین و معتقدین نے ان فرقوں کی رائے باطل کرنے میں سرگرم رہے لھذا اصل اھل سنت و جماعت کی پہچان عرف میں پھر فصل ممیز کی محتاج ہوگئی تو ہمارے علماء و اکابر نے بنام “مسلک اعلی حضرت” کی اصطلاح کو پسند فرمایا جس کو استعمال کرکے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ شخص اصل اھل سنت و جماعت ہے اور افکار اعلی حضرت رحمۃ الله علیه کی طرف نسبت کرنے کے لئے خود کو “بریلی” کی طرف منسوب کیا

(جیسے ماترید ایک جگہ کا نام ہے لیکن حضرت ابو منصور علیہ الرحمہ کے نظریات کی طرف نسبت کرنے کے لیے ماتریدی کہا جاتا ہے)

کہ اس سے اصل “اھل سنت و جماعت” کی معرفت ہوئی کہ ہم نہ دیوبندی ہیں نہ وہابی بلکہ اصلی سنی ہیں یہی عرفا بطور امتیاز مستعمل ہوا یہی اھل حق کا امتیازی نشان رہا ‘اھل سنت و جماعت” کے ساتھ یہ ایسی قید ہے کہ جس سے عقائد باطلہ کے حاملین خارج ہوگئے اور اس معرِف سے “اھل سنت و جماعت” کی معرفت جامع و مانع طریقے سے ہوگئی اصل “اھل سنت جماعت کی معرفت کے لئے خود کو صرف بریلوی کہدینا ہی کافی ہوگیا جیسے پہلے “اھل سنت و جماعت” ہی کہدینا کافی تھا اصل مسلمان کی شناخت کے لئے اور اس سے پہلے صرف کلمہ طیب ہی پڑھنا کافی تھا اھل حق و باطل کے مابین امتیاز پیدا کرنے کے کے لیے

اب جس جگہ جو اھل حق کا امتیازی نشان رہےگا جیسے باہر ممالک میں لفظ “صوفی” مابہ الامتیاز ہے لھذا یہی اھل حق کا امتیازی نشان ہے

اھل و علم و فن کے دستور کو اپناتے ہوئے کس طرح اھل سنت کے مقتدر و معتبر علماء نے لفظ “بریلوی” کو پسند فرمایا.

ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

حضرت علامہ سید مظفر حسین کچھوچھوی زندگی بھر اس لفظ کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے رہے..

علامہ ارشد القادری علیہ رحمہ نے “لفظ بریلوی کو اھل سنت کا علامتی نشان بتایا” یہاں تک کہ علامہ موصوف علیہ رحمہ کی ایک کتاب کا نام بھی یہی ہے کہ “بریلوی دور حاضر کا علامتی نشان ہے”

حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ رحمہ کا بیان ہے “بریلویت ہماری شناخت ہے اور اس پر ہم فخر کرتے ہیں”

علامہ کامل سہرامی تاحیات اپنی بریلویت پر فخر کرتے رہے..

علامہ مفتی بدر الدین احمد قادری علیہ رحمہ فرماتے ہیں:

“بریلویت ہمارا امتیازی نشان ہے”

حضرت علامہ اشفاق حسین نعیمی فرماتے ہیں کہ “لفظ بریلوی سن کر دل کی کلیاں مسکرانے لگتی ہیں”

حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن پوری بوکھیروی بیان فرماتے ہیں:

“ہمیں بریلوی کہاجاتا ہے اور حق کہا جاتا ہے..

پیغام رضا ممبئی اپریل تا جون ۲۰۰۹

۳۷۹ پر ہے..

اسی پر بس نہیں آگے دیکھیں

بریلوی پر ایک عہد کا اتفاق:

پیغام رضا ممبئی اپریل راجون ۲۰۰۹

۳۸۰ پر ہے..

کچھ جدت پسند حضرات لفظ بریلویت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سرکار مفتی اعظم علیہ رحمہ کا لفظ بریلوی کے تعلق سے ارشاد گرامی ہے کہ “جب اھل سنت کو “بریلوی” کہہ کر خطاب کیا جائے تو اس جدید خطاب سے شدت کے ساتھ انکار کرنا چاہئے ہم وہی چودہ سو سالہ قدیم اھل سنت و جمات ہیں یہ جدید نام وہابیہ ملاعنہ اھل سنت کو دیتے ہیں” (باحوالہ اھل سنت میں اختلاف و تفریق کے المناک واقعات)

معترض کہتے ہیں کہ بریلوی نہیں کہنا چاہیے خواہ امتیازی طور پر ہی کیوں نہ ہو سرکار مفتی اعظم علیہ رحمہ کے قول سے ثابت ہے…

معترضین حضرات کو چاہیے کے قول پر غور کریں کہ یہاں لفظ بریلویت کا استعمال کس انداز میں ہوا تو ممنوع ہے سیاق و سباق اس پر دال ہیں

وہابیہ ملاعنہ جب ہمیں بریلوی اس انداز سے کہیں کہ بریلوی نیا فرقہ ہے نیا دین ہے تو اس جدید خطاب سے شدت کے ساتھ انکار کرنے کا حکم دیا ہے ہاں یہ بالکل صحیح بھی ہے کہ ہمارا کوئی جدید عقیدہ نہیں ہم وہی اھل سنت ہیں جیسے زید خود کو بشر کہے اور آپ اسے بشر اس انداز میں کہو کہ بشر کوئی جدید نوع ہے کوئی نیا نام ہے بشر انسان نہیں ہے تو زید اپکی اس بات سے شدت کے ساتھ انکار کرے گا اور کہےگا کہ ایسا نہیں ہے کہ میں انسان نہیں ہوں بلکہ میں انسان ہوں حیوان ناطق ہوں

اب آپ کہوگے کہ جب انسان ہو تو بشر کیون کہتے ہو تو یہ غیر اصولی بات ہے کیونکہ بشر اور انسان دونوں مترادف ہیں چاہے انسان کہا جائے یا بشر جیسے بریلوی اور اھل سنت مترادف ہیں خواہ بریلوی کہا جائے یا اھل سنت و جماعت

جیسا کہ مفہوم بالا سے ظاہر ہوتا ہے کہ قول میں دو احتمال ہے ایک یہ کہ بریلوی مطلقا نہ کہا جائے خواہ امتیازی طور پر ہو,

دوسرا یہ کہ بحیثیت یہ کہ ہم کو وہابیہ اھل سنت سے علیحدہ کہتے ہیں بالواسطہ لفظ بریلوی

مگر یہاں دوسرے احتمال کو دور فرمایا گیا ہے اور احتمال دور کرنے لیے قرینہ چاہیے اور دوسرا احتمال یوں دور ہوا کہ اس پر قرینہ “ہم وہی چودہ سو سالہ قدیم اھل سنت و جمات ہیں” یہ عبارت ہے اس سے صاف ظاہر ہوا کہ وہابیہ بریلوی کا لفظ بول کے ہمیں ھل سنت سے الگ کہیں تبھی “

ہم وہی چودہ سو سالہ قدیم اھل سنت و جمات ہیں”

اس جملہ کی ضرورت پڑی گویا وہ جملہ دفع الدخل المقدر ہے “وہابیہ ہمکو بریلوی کہہ کے اھل سنت سے الگ کہیں ” اس بہتان کا جواب ہے

لھذا سرکار مفتی اعظم علیہ رحمہ کے قول سے “لفظ بریلوی امتیازی طور پر استعمال کیا جائے” اس جملہ کا زوال بالکل نہیں ہورہا اس کے ثبوت میں دیکھیں

پیر طریقت مرشدی و سندی سرکار تاج الشریعہ کا قول مبارک ہے کہ بریلوی کہنے سے وہابیہ دیوبندیا سے امتیاز ہوتا ہے اور

علامہ ارشد القادری و علامہ عاشق الرحمن صاحب و علامہ مدنی میاں صاحب کا بھی قول ہے کہ بریلوت علامت سنیت ہے اور اسکے ثبوت میں علامہ عاشق الرحمن صاحب نے کتاب بھی تحریر فرمائی ہے اگر سرکار مفتی اعظم علیہ رحمہ کا قول

“بریلوی نہ کہا جائے خواہ امتیازی طور پر ہو” اسکے ثبوت میں ہوتا تو مرشدی سرکار تاج الشریعہ اور علامہ ارشد القادری صاحب اور علامہ عاشق الرحمن اور علامہ مدنی میاں صاحب کبھی بھی اس لفظ کو امتیازی طور پر بھی استعمال نہیں کرتے…..

نوٹ: سرکار تاج الشریعہ کی اوڈیو مذکورہ تعلق سے میرے پاس محفوظ ہے اور علامہ عاشق الرحمن صاحب کی کتان بھی محفوظ ہے….

الحق المبین کی عبارت سے بھی یہی باور کرایا جارہا ہے لفظ بریلوی کوئی نیا فرقہ نہیں ہے اھل سنت جب نیا فرقہ کہہ کر معرفت کرائیں تو اسکی شدت کے ساتھ رد کرنا چاہیے کیونکہ ہم تو وہی قدیم چودہ سو سالہ اھل سنت و جماعت ہے

ڈاکٹر مسعود احمد صاحب قبلہ کی تحریر سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ بریلوی کہنا غلط ہے,بلکہ انکی تحریر سے اس کا عکس یہ ثابت ہو گیا کہ بریلوی کہنا صحیح ہے اور اس طرح کہ جب اھل سنت کو بریلویت سے تعبیر کرنے کا عرف ہوگیا..جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے لکھا

“بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ سواد اعظم اھل سنت کے مسلک قدیم کو عرف عام میں بریلویت سے تعبیر کیا جاتا ہے”

جناب جب سواد اعظم اھل سنت کو عرف میں بریلوی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور عرف خود ایک حجت شرعیہ ہے پھر بریلوی کہنا غلط کیسے؟اور عرف تو غالب ہے قیاس پر..

اور یہ کہنا کہ جب ہم بریلوی کہتے ہیں تو وہابیہ خود کو اھل سنت و جماعت کہنے لگے تو محترم آپ یہ کہنا آپکے ناقص مطالعہ پر بالالتزام دال ہے

ملاحظہ فرمائیں

(ذیل میں موجود مواد کو کسی نامعلوم بریلوی صاحب نے یکجا فرمایا مجھے نام معلوم نہیں..اللہ تعالی موصوف کے وسعت مطالعہ میں اور ترقی عطا فرمائے)

((فقیر کو مولانا اصدق صاحب کے محدود مطالعہ اور عدم واقفیت و لاعلمی پر رہ رہ کر افسوس ہوتا ہے اور کچھ نہیں تو وہ اکابر علماء بدایوں شریف کی سیدنا مجدد اعظم اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ سے بہت پہلے کی کتاب سیف الجبار اور مجاہد جلیل وعظیم شیر حق علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ کی کتاب برد وہابیہ تحقیق الفتویٰ لسلب الطغویٰ اور بوارق محمدیہ وغیرہ ملاحظہ فرماتے اور تو اور مقالات سرسید میں خود مولوی اسماعیل پانی پتی وہابی فخریہ طور پر اپنی اور اپنے فرقہ کی وہابیت کا برملا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں اور ’’انگلش گورنمنٹ ہندوستان میں خود اس فرقہ کے لئے جو وہابی کہلاتا ہے، ایک رحمت ہے جو سلطنتیں اسلامی کہلاتی ہیں ان میں بھی وہابیوں کو ایسی آزادی مذہب ملنا دشوار بلکہ ناممکن ہے (مسلم) سلطان کی عمل داری میں وہابی کا رہنا مشکل ہے‘‘ (مقالات سرسید حصہ نہم ص 211-212، از مولوی اسماعیل پانی پتی وہابی و علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ بابت 2 فروری 1889ئ)

دیوبندی خود کو دیوبندی کہتے ہیں اور وہابی ہونے کا اقرار و اعتراف بھی کرتے ہیں۔ اس عنوان اور اس موضوع پر مولانا اصدق جتنے حوالے ثاہیں نقد بہ نقد موجود ہیں۔ ان کی ضیافت طبع کے لئے چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں۔

دیوبندیت وہابیت ہند کے امام دوم بانی ثانی مدرسہ دیوبند مولوی رشید احمد گنگوہی وہابیت اور بانی وہابیت عبدالوہاب شیخ نجدی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں۔ ان کے عقائد عمدہ تھے، وہ عامل بالحدیث تھا۔ شرک و بدعت سے روکتا تھا‘‘ (ملحضاً از فتاویٰ رشیدیہ جلد 1ص 111 و ص 551)

دیوبندی حکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی بدیں الفاظ اپنی وہابیت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں ’’بھائی یہاں وہابی رہتے ہیں، یہاں فاتحہ نیاز کیلئے کچھ مت لایا کرو‘‘ (اشرف السوانح جلد 1ص 45)

یہی تھانوی صاحب کہتے ہیں ’’اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں‘‘ (الاضافات الیومیہ جلد 5ص 67)

مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپوری بڑے ظریف تھے۔ کسی نے ان سے بدعتی اور وہابی کے معنی پوچھے تو عجیب تفسیر کی، فرمایا ’’بدعتی کے معنی ہیں باداب، بے ایمان اور وہابی کے معنی ہیں بے ادب باایمان‘‘ (ملفوظات حکیم الامت جلد 2ص 326)

دیوبندی وہابیوں کے منظور مضرور مناظر اعظم مدیر الفرقان کہتے ہیں ’’ہم خود اپنے بارے میں بڑی صفائی سے عرض کرتے ہیں کہ ہم بڑے سخت وہابی ہیں‘‘ (سوانح مولانا محمد یوسف کاندھلوی تبلیغی وہابی ص 192)

مولوی محمد ذکریا امیر تبلیغی جماعت کہتے ہیں ’’مولوی صاحب! میں خود تم سے بڑا وہابی ہوں‘‘ (سوانح مولانا محمد یوسف تبلیغی وہابی ص 193)

فقیر انہی چند حوالہ جات پر اکتفا کرتا ہے، ورنہ بحمدہ تعالیٰ ایسے بیسیوں حوالے مزید پیش کئے جاسکتے ہیں۔ ان حوالہ جات سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ وہابی دیوبندی اکابر اپنے آپ کو فخریہ وہابی کہتے ہیں اور اسی طرح وہابی دیوبندی خود کو دیوبندی اور دیوبندی مسلک و مسلک دیوبندی کہتے اور لکھتے ہیں، ملاحظہ ہوں… مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند جس کا مقدمہ قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے لکھا ہے، میں صاف صاف لکھا ہے، مسلک دیوبند ص 424و ص 428 و ص 431 و ص 476 بیسوں صفحات پر مسلک دیوبند، دیوبندی مسلک لکھا ہوا ہے۔

کتب خانہ مجیدیہ ملتان کے شائع کردہ المہند عقائد علماء دیوبند کے مصنفہ مولوی خلیل انبیٹھوی کے صفحہ 20 صفحہ 21، صفحہ 164، صفحہ 165، صفحہ 187 پر بار بار مسلک دیوبند مسلک حق دیوبند، دیوبندی مسلک لکھا ہے۔ انجمن ارشاد المسلمین کے پاکستانی ایڈیشن حفظ الایمان کے متعدد صفحات پر دیوبندی، بریلوی، دیوبندی لکھا ہے۔ پاکستان دیوبندیوں کے مصنف اعظم مولوی سرفراز صفدر گکھڑوی نے اپنی کتاب عبارات اکابر کے صفحات 143,115,58,18,15 پر بار بار دیوبندی مسلک دیوبندی مسلک لکھا ہے۔

مولوی منظور سنبھلی مولوی رفاقت حسین دیوبندی کی کتاب بریلی کا دلکش نظارہ کے پاکستانی ایڈیشن شائع کردہ مکتبہ مدینہ صفحہ 35، صفحہ 181وغیرہ پر متعدد صفحات پر دیوبندی بریلوی دیوبندی دیوبندی لکھا ہے۔

مولوی خلیل بجنوری بدایونی کی کتاب انکساف حق کی پاکستانی ایڈیشن کے صفحہ 6 صفحہ 7 پر دیوبندی، بریلوی، بریلوی دیوبندی ہر دو اہلسنت لکھا ہے۔

مولوی عارف سنبھلی ندوۃ العلماء کی کتاب بریلوی فتنہ کا نیا روپ صفحہ 121، صفحہ 124پر مسلک دیوبندی، علماء دیوبند کا مسلک لکھا ہے۔

دیوبندیوں کے خر دماغ ذہنی مریض کذاب مصنف پروفیسر خالد محمود مانچسٹروی اپنی تردید شدہ کتاب مطالعہ بریلویت جلد اول کے صفحہ 401، صفحہ 402 پر دیوبندی مسلک دیوبندی دیوبندی لکھتا ہے۔ اسی کتاب کی جلد 3 کے صفحہ 202 پر اہلسنت بریلوی دیوبندی لکھا ہے۔

مطالعہ بریلویت جلد دوم صفحہ 16 پر دیوبندی بریلوی، مطالعہ بریلویت صفحہ 234 پر دیوبندی بریلوی، صفحہ 235 جلد 4 دیوبندیوں، بریلویوں دیوبندیوں جلد 4 صفحہ 237، دیوبندیوں صفحہ 238 جلد 4 دیوبندیوں بریلیوں، بار بار دیوبندیوں بریلویوں صفحہ 239، دیوبندیوں، دیوبندی بار بار دیوبندی صفحہ 240، جلد 4 دیوبندیوں صفحہ 316، اہلسنت والجماعۃ دیوبند مسلک، دیوبندی بریلوی، صفحہ 317، دیوبندی، دیوبندیوں، دیوبندی مسلک، مسلک دیوبند وغیرہ وغیرہ، بکثرت مقامات پر دیوبندیوں نے خود کو بقلم خود دیوبندی لکھا ہے۔

مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی الاقاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 220، دیوبندیوں اور بریلیوں، مولوی انور کاشمیری صدر مدرس و شیخ الحدیث مدرسہ دیوبند کتاب حیات انور صفحہ 333، مضمون وقت کی پکار نوائے وقت لاہور، 8 مارچ 1976، جماعت دیوبندی

دیوبندی امیر شریعت عطاء اﷲ بخاری احراری دیوبندی لکھتے ہیں… مولانا غلام اﷲ خان دیوبندی بھی اہلسنت و الجماعت ہین، وہ ابن تیمیہ کے پیروکار ہیں (مکتوب بنام فقیر محمد حسن علی قادری رضوی) دیوبندی جمعیت العلماء اسلام کے ناظم اعلیٰ مولوی غلام غوث ہزاروی لکھتے ہیں … اہلسنت و جماعت مسلمانوں کی تمام شاخیں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث سب مسلمان ہیں (خدام الدین لاہور)

قصص الاکبر ص 205 میں تھانوی لکھتے ہیں ’’میرا مسلک شیخ الہند کا مسلک‘‘ (دیوبندی مسلک، الافاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 135) میرا مسلک تھانوی (اشرف السوانح جلد 3ص 153 وصفحہ 164، تھانوی مسلک۔

ایک کتاب ’’آئینہ بریلویت‘‘ مولوی عبدالرحیم رائے پوری دیوبندی اور مولوی حسن احمد ٹانڈوی وغیرہ اکابر دیوبند کے پڑپوتے مرید مولوی عبدالرحمن شاہ عالمی مظفر گڑھ کی ہے ۔اس کے صفحہ 24، 27، 30، 34، 40، 42، 43، 45، 54، 57، 61، 63، چالیس صفحات پر بار بار دیوبندی مسلک، مسلک دیوبند، دیوبندیوں، دیوبندی اہلسنت دیوبندی لکھا ہے اور فخریہ طور پر اپنے دیوبندی ہونے کا اقرار کیا ہے۔

ایک کتاب تسکین الاتقیاء فی حیاۃ الانبیاء مرتبہ مولوی محمد مکی دیوبندی صفحہ 79 مسلک اکابر دیوبند، صفحہ 99، اکابر دیوبند کا مسلک صفحہ 100اکابردیوبند کا مسلک، صفحہ 01 مسلک دیوبند، صفحہ 102 علماء دیوبند کا مسلک، صفحہ 103، علماء دیوبند کا مسلک، صفحہ 106، صفحہ 107 بار دیوبندی دیوبندی… اس کتاب پر پاکستان کے صف اول کے اکابردیوبند مولوی محمد یوسف بنوری شیخ الجامعہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی، مولوی شمس الحق افغانی، صدر وفاق المدرس العربیہ دیوبند، مفتی محمد حسن مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور، مفتی محمد شفیع سابق مفتی دیوبند مہتمم دارالعلوم کراچی، مولوی عبدالحق دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، مولوی ظفر احمد عثمانی شیخ الحدیث دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار سندھ، مولوی محمد ادریس کاندھلوی شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاوہر، مولوی محمد رسول خان جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور، مولوی احمد علی امیر خدام الدین وامیر جمعیت العلماء اسلام، مولوی محمد صادق، ناظم محکمہ امور مولوی حامد میاں جامعہ مدینہ، مولوی مسعود احمد سجادہ نشین درگاہ دین پور وغیرہ اٹھارہ اکابر دیوبند کی تصدیقات ہیں۔ اس قسم کے حوالے اگر فقیر چاہے تو پچاسوں نقل کرسکتا ہے۔

رضوی ہے کرم مجھ پہ میرے غوث ورضا

ہر بحر سخن سہل تریں میرے لئے ہے)))

جب یہ حقیقت ہے کہ لفظ بریلوی اھل سنت و جماعت سواد اعظم ہی ہے اور اس زمانے میں اھل سنت و جماعت کا علامتی نشان یہی ہے اور جب آپکے بقول ہمارے مخالفین ہی خود کو اھل سنت کہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ایسے وقت میں اھل سنت بریلوی لکھ کر امتیازی حیثیت حاصل کریں نہ کہ انکے ساتھ اس امر میں مشترک ہوجائے جو تبلیغ کے لیے نہایت مضر ہے کیونکہ تبلیغ تو مابہ الامتیاز کی جائےگی یا مابہ الاشتراک کی

مابہ الامتیاز تو بالکل تو نہیں چھوڑا جائےگا ورنہ نوعیت کہا متحقق ہوگی؟

اور جو اھل حق و باطل کے مابین امتیازی نشان ہے ہر جگہ بلکہ مسجدوں میں اپنے بچوں کو یہی سمجھایا جائے کہ موجودہ لفظ بریلوی کا مفہوم جو عرف میں مقول ہے وہی اھل حق کا امتیازی نشان ہے اور وہی اھل سنت و جماعت ہے اسکے ثبوت میں کثیر دلائل ہیں,لفظ بریلوی کا استعمال کتنا ضروری ہے اذہان کو یہ باور کرانا چاہیے نہ کہ اشتراک کی طرف لےجاکر اندھیرے میں ہاتھ مارنا چاہیے….