اسلامی قربانی اور اغراض و مقاصد

محمد ہارون فتح پوری

پیرن پور، فتح پور

دنیا بھر کے مسلمان عید الاضحٰی کے موقعے پر اللہ کی رضا کے لیے اس کے حضور جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں، اور اس کا گوشت خود بھی کھاتے ہیں اور اپنے دوست احباب اور معاشرے کے غریب طبقے کو بھی کھلاتے ہیں۔

یوں تو قربانی کی رسم زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھی۔ من گھڑت دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے یا نذر و شکر کے پیش نظر قربانی کا عمل ان میں بھی پایا جاتا تھا۔ مگر زمانہ جاہلیت کی قربانی یہ تھی کہ ذبیحہ کو بت کے سامنے رکھ دیا جاتا، یا پہاڑوں پر چھوڑ دیا جاتا۔ اور اس قربانی کا مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ قربانی کرنے والے آفات و بلیات سے محفوظ رہ سکیں یعنی ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ہم نے دیوی دیوتاؤں کی خدمت میں قربانی پیش کر دی اب ہم آفات و بلیات سے محفوظ و مامون رہیں گے۔

لیکن اسلامی قربانی کو ذرا غور سے دیکھا جائے تو اس کے مقاصد میں ایسی سطحیت اور توہم پرستی کا شائبہ دور دور تک نظر نہیں آتا بلکہ اسلامی قربانی کے اغراض و مقاصد، حکمتیں اور مصالح و فوائد دیکھ کر اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ مذہب اسلام انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور اس کا یہ عمل انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کی روشنی میں قربانی کے کیا مقاصد ہیں ؟

١-: قرآن کریم، سورۃ الحج میں اللہ فرماتا ہے :

”لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ․ فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ. “

ترجمہ: “تاکہ حج کے لیے آنے وَالے اپنے اپنے فائدوں کو پہنچ جائیں اور تاکہ قربانی کے مقررَہ دِنوں میں خدا کا نام لے کر ذبح کریں ان مخصوص چوپایوں کو جو خدانے ان کو عطا کیے ہیں۔ تو اے اُمت محمدیہ! تم ان قربانیوں میں سے خود بھی کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو بھی کھلاؤ۔”

اِس آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ قربانی کا بنیادی مقصد خالق کائنات کی یاد اور اس کے احکام کی بجاآوری ہے اس جذبے کے ساتھ کہ ہمارے پاس جو بھی ہے سب اللہ کی عطا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ قربانی کے مقاصد و فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ اس کا گوشت خود بھی کھایا جائے اور غریبوں کو بھی کھلایا جائے۔

غور کریں، اس آیت کے ذریعہ اللہ ہمیں یہ درس دے رہا ہے کہ قربانی کا مقصد انسان کی قلبی کیفیت کا ایسا اِنقلاب ہے کہ وہ مال ومتاع کو اپنا نہ سمجھے بلکہ دل وجان سے اس عقیدے کی مشق کرے کہ حق تعالیٰ ہی اس کا حقیقی مالک ہے، لہذا حکم ملتے ہی اسے راہ خدا میں بے دریغ خرچ کیا جائے اور اس کے ذریعے غربا کی مدد کی جائے، یعنی قربانی کا عمل فتنۂ مال سے حفاظت کا دَرس دیتا ہے۔

٢-: اسی سورہ میں آگے ہے :

” وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ۔“

ترجمہ: ”اور ہم نے ہر اُمت کے لیے اس غرض سے قربانی کرنا مقرر کیا کہ وہ ان مخصوص چوپایوں کو قربان کرتے وقت اللہ کا نام لیا کریں، جو اللہ نے ان کو عطا کیے“۔

اس آیت میں بھی یہی درس دیا گیا کہ حکمِ قربانی کا بنیادی مقصد اس بات کی یاد دہانی کرانا ہے کہ انسان کے پاس جو بھی ہے وہ در حقیقت رب کائنات کا ہے لہذا حکم ربانی ملتے ہی اسے راہ خدا میں قربانی کر دیا جائے۔

٣-: سورة الأنعام میں اللہ فرماتا ہے :

”قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ”۔

ترجمہ : ” اے محبوب! تم کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانیاں اور میرا جینا اور مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔”

اس آیت میں صاف لفظوں میں یہ پیغام دیا گیا کہ مومن کی نماز، قربانی بلکہ اس کا جینا اور مرنا سب اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ گویا اسلام کے تمام احکام کا بنیادی مقصد بندے کے اندر جاں سپارِی اور جاں نثارِی کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔

٤-: سورۃ الحج میں اللہ فرماتا ہے :

“لن ينال الله لحومها و لا دماءها و لكن يناله التقوى منكم۔”

ترجمہ : ” اللہ کو ہرگز نہ ان قربانی کے جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمھاری پرہیز گاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔”

اس فرمان سے ظاہر ہو گیا کہ ﷲ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ ہمیں زمانۂ جاہلیت کی قربانی نہیں چاہیے کہ جانور ذبح کر کے اسے پہاڑوں پر رکھ دیا جائے یا بتوں کے سامنے میں رکھ دیا جائے، نہیں ہر گز نہیں، ہمیں تو صرف تقویٰ اور پرہیزگاری مطلوب ہے، ہمیں تو تمھارا اخلاص مقصود ہے، ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ تمھارے ہر عمل صرف اور صرف ہمارے لیے ہو۔ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو قربانی کے جانور کا گوشت اور اس کی کھال سے استفادہ کرنے کی اجازت دی گئی بس یہ شرط عائد کردی گئی کہ قربانی کرنے والے کی نیت خالص ہونی چاہیے کہ وہ ﷲ کی رضا کے لیے اس کا حکم پورا کرے اور اپنی عاجزی و خود سپردگی کا عملی مظاہرہ پیش کرے۔اگر یہ امر موجود ہے تو قربانی مقبول ہے اور یہ عمل روز محشر میں باعث نجات ہے-

٥-: سورۃ الصافات میں اللہ فرماتا ہے :

“فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ۔”

ترجمہ : ” تو جب ابراہیم و اسماعیل دونوں نے ہمارے حکم پر سر تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ، اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم! بےشک تم نے خواب سچ کر دکھایا، ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔”

اس واقعے کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں بڑھاپے میں ایک اولاد عطا کی۔ مختلف امتحانوں سے گزرنے کے بعد جب حضرت اسماعیل علیہ السلام لڑکپن کی عمر کو پہنچے اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کے دل میں ان کی بے پناہ محبت پیدا ہو گئی تو ﷲ تعالی نے ان کا امتحان لینے کے لئے انہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا حکم خواب میں دیا ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے یہ خواب اپنے صاحبزادے کو سنایا تو انہوں نے بھی فرمانبرداری اور اطاعت کے جذبے سے کہا کہ آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کر گزریں آپ مجھے شاکر و صابر پائیں گے۔

لیکن ﷲ تعالیٰ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی مقصود نہ تھی بلکہ یہ امتحان لینا تھا کہ باپ بیٹے ہمارے حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہیں یا نہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کے مقابل ﷲ کی محبت و اطاعت کو ترجیح دیتے ہیں یا نہیں۔۔۔۔ چنانچہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنا ارادہ انجام دینے کے لئے چھری چلاتے ہیں تو چھری نہیں چلتی اور اتنے ہی میں ایک جنتی مینڈھا من جانب اللہ چھری کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے اور چھری چلتی ہے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام قریب بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کی جگہ ایک مینڈھا ذبح ہو گیا ہے اور ندا آتی ہے کہ آپ نے خواب سچ کر دکھایا ہے اور آپ سچوں میں سے ہیں۔

اللہ رب العزت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اس نے قیامت تک کے مسلمانوں پر قربانی واجب کر دی اور سنت ابراہیمی کو زندہ رکھنا ضروری قرار دے دیا۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے :

“عَنْ أَبِي دَاوُدَ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ , قَالَ : قُلْنَا ” يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا هَذِهِ الأَضَاحِي ؟ قَالَ : سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السلام۔”

ترجمہ : “صحابۂ کرام نے پوچھا، یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ یہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔”

قرآن و حدیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی قربانی کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے اندر وہی روح اور وہی کیفیت پیدا کرنا ہے جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے اپنی زندگی میں کیا تھا۔ عیدالاضحٰی میں جانوروں کی قربانی اس بات کو یاد دلانے کے لیے کی جاتی ہے کہ یہ سرمایہ اور یہ جانور سب اللہ کے دیے ہوئے ہیں بلکہ ہماری اولاد اور خود ہماری جان در اصل ہماری نہیں، بلکہ ہماری جان، ہمارا مال سب اللہ کا ہے اور ہمارے پاس بطور امانت ہے لہذا ہم وقت آنے پر ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔

اس طرح قربانی کے مقصد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک اجتماعی مقصد اور دوسرا ذاتی مقصد ۔

قربانی کا اجتماعی مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے اہلِ ثروت اور مالدار لوگ اللہ کی راہ میں جانور قربان کریں اور اس کا گوشت غریبوں اور حاجت مندوں میں تقسیم کریں جو اپنی غربت اور فقر کی وجہ سے اچھی غذا سے محروم رہتے ہیں۔

اور قربانی کا ذاتی مقصد یہ ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کیا جائے ۔ قربانی کا مطلب ہی قربِ الٰہی کا حصول ہے۔ جب کوئی شخص قربانی کرتا ہے تو اللہ کی بارگاہ میں اس کا تقویٰ اور اخلاص دیکھاجاتا ہے۔ اور اس مقصد کا حصول اسی وقت ممکن ہوگا جب خالص اللہ کی رضا کے لیے قربانی کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات یہ نہیں دیکھتی کہ وہ جانور جو قربانی کے لیے پیش کیے گئے ان کی مالیت اور جسامت کیا ہے بلکہ وہ قربانی کرنے والے دلوں کی کیفیت پر نظر رکھتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ قربانی کرنے والے کی نیت کوئی مادی منفعت یا محض نام و نمود ہو ، اللہ رب العزت کو ایسی قربانی کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ اس قربانی کو قبول کرتا ہے جس کی اساس تقویٰ پر رکھی گئی ہو۔