ایک مرتبہ ڈاکٹر محمد اقبال ”مسولینی“ سے ملے تو دورانِ گفتگو حضور ﷺ کی اس پالیسی کا ذکر کیا کہ شہر کی آبادی میں غیر ضروری اضافے کے بجائے دوسرے شہر آباد کیے جائیں ۔ مسولینی یہ سن کر مارے خوشی کے اُچھل پڑا ۔ کہنے لگا : ” شہری آبادی کی منصوبہ بندی کا اس سے بہتر حل دنیا میں موجود نہیں ہے ” ۔

آج سے چودہ سو سال پہلے آپ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ مدینہ کی گلیاں کشادہ رکھو ۔ گلیوں کو گھروں کی وجہ سے تنگ نہ کرو ۔ ہر گلی اتنی کشادہ ہو کہ دو لدے ہوئے اونٹ آسانی سے گزرسکیں ۔ 14 سو سال بعد آج دنیا اس حکم پر عمل کررہی ہے ۔ شہروں میں تنگ گلیوں کو کشادہ کیا جارہا ہے ۔

آپ ﷺنے حکم دیا تھا کہ مدینہ کے بالکل درمیان میں مرکزی مارکیٹ قائم کی جائے ۔ اسے ”سوقِ مدینہ“ کا نام دیا گیا تھا ۔ آج کی تہذیب یافتہ دنیا کہتی ہے کہ جس شہر کے درمیان مارکیٹ نہ ہو وہ ترقی نہیں کرسکتا ۔

آپ ﷺنے کہا تھا : ” یہ تمہاری مارکیٹ ہے ۔ اس میں ٹیکس نہ لگاﺅ ۔ “ آج دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مارکیٹ کو ٹیکس فری ہونا چاہیے ۔ دنیا بھر میں ڈیوٹی فری مارکیٹ کا رجحان فروغ پارہا ہے ۔

آپ ﷺ نے سود سے منع فرمایا تھا ۔ آج پوری دنیا میں فری ربا انڈسٹری فروغ پا رہی ہے ۔

آپ ﷺ نے ذخیرہ اندوزی سے منع کیا ۔ آج دنیا اس حکم پر عمل کرتی تو خوراک کا عالمی بحران کبھی پیدا نہ ہوتا ۔

آپ ﷺ نے فرمایا تھا سٹے سے نفع نہیں نقصان ہوتا ہے ، آج عالمی مالیاتی بحران نے اس کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔

آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو منع کیا کہ درختوں کو نہ کاٹو ۔ کوئی علاقہ فتح ہو تو بھی درختوں کو آگ نہ لگاﺅ ۔ آج ماحولیاتی آلودگی دنیا کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے ۔ عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ۔ گلیشئرز پگھل رہے ہیں ۔ گرمی بڑھ رہی ہے ۔ یہ سب کچھ درختوں اور جنگلات کی کمی کی وجہ سے ہورہا ہے ۔

ایک شخص نے مدینہ کے بازار میں بھٹی لگالی ۔ حضرت عمرؓ نے اس کہا : ” تم بازار کو بند کرنا چاہتے ہو ؟ شہر سے باہر چلے جاﺅ ۔ “ آج دنیا بھر میں انڈسٹریل علاقے شہروں سے باہر قائم کیے جارہے ہیں ۔

رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے باہر ” محی النقیع “ نامی سیرگاہ بنوائی ۔ وہاں پیڑ پودے اس قدر لگوائے کہ وہ تفریح گاہ بن گئی ۔ گاہے گاہے رسول اللہ خود بھی وہاں آرام کے لیے تشریف لے جاتے ۔ آج صدیوں بعد ترقی یافتہ شہروں میں پارک قائم کیے جارہے ہیں ۔ آج کل شہریوں کی تفریح کے لیے ایسی تفریح گاہوں کو ضروری اور لازمی سمجھا جارہا ہے ۔

آپ ﷺ نے مدینہ کے مختلف قبائل کو جمع کرکے ”میثاقِ مدینہ“ تیار کیا ۔ 52 دفعات پر مشتمل یہ معاہدہ دراصل مدینہ کی شہری حکومت کا دستور العمل تھا ۔ اس معاہدے نے جہاں شہر کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ، وہیں خانہ جنگیوں کو ختم کرکے مضبوط قوم بنادیا ۔ آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی خانہ جنگی ہے ۔ کئی ملک اس آگ میں جل رہے ہیں ۔ اس آگ کو بجھانے کے لیے معاہدوں پر معاہدے رہے ہیں ۔

مدینہ میں مسجد نبوی کے صحن میں ہسپتال بنایا گیا تاکہ مریضوں کو جلد اور مفت علاج مہیا ہو ۔ آج ترقی یافتہ ممالک میں علاج حکومت کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے ۔ ماہانہ چیک اپ مفت کیے جاتے ہیں ۔

مسجد نبوی کو مرکزی سیکرٹریٹ کا درجہ حاصل تھا ۔ مدینہ بھر کی تمام گلیاں مسجد نبوی تک براہِ راست پہنچتی تھیں تاکہ کسی حاجت مند کو پہنچنے میں دشواری نہ ہو ۔ آج ریاست کے سربراہ اعلیٰ کی رہائش گاہ میں اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے ۔

آج سے صدیوں پہلے آپﷺ نے حکم دیا تھا کہ فجر کے بعد اور عصر کے بعد سونا نہیں چاہیے ۔ یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے ۔ آج پوری دنیا اس کو مان رہی ہے کہ ان اوقات میں سونا طبی لحاظ سے انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے ۔ جدید سائنسی کہتی ہے کہ ان اوقات میں مستقل سونے کی عادت اپنانے والوں کو 9 مہلک بیماریاں لگ جاتی ہیں ۔ اگر ان اوقات ورزش کی جائے تو صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ رات کو جلدی سونا چاہیے ۔ عشاءکے بعد فضول گپ شپ سے منع فرمایا تھا ۔ آج پوری دنیا مان رہی ہے کہ رات کو جلدی سونا صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ رات دیر تک جاگنا بھی ہے ۔

آپ:ﷺ نے فرمایا کہ کھانا پینا سادہ رکھیں اور تھوڑی سی بھوک رکھ کر کھایا کریں ۔ آج پوری طبی دنیا مانتی ہے کہ سادہ خوراک سے صحت بہتر ہوتی ہے اور زیادہ کھانے سے معدے خراب ہوتے ہیں اور بیسیوں بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔

آپﷺ نے فرمایا تھا کہ سیدھے ہاتھ سے کھایا کرو اور ہر اچھا کام دائیں ہاتھ سے کیا کرو ۔ آج پوری دنیا مان رہی کہ سیدھے ہاتھ سے کھانے اور کام کرنے چاھے ۔

ماخذ ۔۔۔ سیرتِ رسولﷺ کا اصل پیغام ۔

(معروف کالم نگار انور غازی صاحب کی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی پُرمغز اور خوبصورت تحریر )۔