📌’’شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذمہ دار کون؟

اکابر کے فتاوی کی روشنی میں‘‘

حال ہی میں مفکر اسلام مفتی منیب الرحمن حفظہ اللہ من شرور الاشرار نے ایک پروگرام میں کہا کہ:

” میرے پاس تاریخ کے جو شواہد ہیں ان میں ایسی کوئی صریح عبارت نہیں ہے کہ یزید نے کسی کو مامور کیا ہو کہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو معاذاللہ قتل کردو ۔‘‘

اس پر ذاکرین سے واقعہ کربلا سننے والے رافضیوں اور رافضیت مائل سنیوں نے مفتی صاحب مدظلہ کی ذات پر بہت کیچڑ اچھالا اور آپ کے کردار کو داغدار کرنے کی کوشش کی حتی کہ آپ پر ناصبیت کا الزام لگانے کی جسارت بھی کی گئی۔

کاش کہ وہ مفتی صاحب کے اس سے متصل کہے گئے جملے بھی بغور سنتے ،جن میں مفتی صاحب واضح طور پر کربلا میں ڈھائے جانے والے مظالم کو دل خراش و دل سوز سانحہ قرار دے رہے ہیں اور اسے تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا ظلم قرار دے رہے ہیں۔

در اصل ان طاعنینِ مفکرِ اسلام حفظہ اللہ کو شیعہ ذاکرین نے رافضیت کی ایسی گڑتی دی ہوئی ہے کہ اگر کبھی کہیں محقق علماء دائرہ سنیت میں رہتے ہیں تاریخی واقعات کے متعلق اپنی رائے ذکر کریں تو مطالعہ سے باغی ان کلاب الھوایہ کو یہ بات بالکل ہضم نہیں ہوتی۔

👈 اصل مسئلہ یہ ہے کہ یزید علیہ ما علیہ کا فاسق و فاجر ہونا اہلسنت کا اتفاقی عقیدہ ہے۔

جیسا کہ امام اہلسنت رضی اللہ عنہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:

’’اس (یزید)کے فسق وفجور سے انکار کرنا اور امام مظلوم پر الزام رکھنا ضروریات مذہب اہل سنت کے خلاف ہے اور ضلالت و بدمذہبی صاف ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ جلد 16)

👈 اس قدر پر اہلسنت کا اتفاق ہے، مگر کیا امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم بھی یزید ہی نے دیا تھا؟ ایسا علی التعیین بالتصریح ثابت بھی ہے یا نہیں؟ تو اس میں جہاں پر کئی علماء یزید کو ہی شہادت امام حسین کا اٰمِر اور اصل ذمہ دار قرار دیتے ہیں ،وہیں پر کئی علماء قطعی و یقینی ثبوت نہ ہونے کی بنا پر شہادتِ امام کی نسبت یزید کی طرف کرنے سے احتیاط کرتے ہیں اور اس مسئلہ میں سکوت کرتے ہیں۔ کہ بغیر کسی یقینی دلیل کے عام مومن کے قتل کا الزام کسی پر لگانا درست نہیں چہ جائیکہ وہ نواسہ رسول ،شہزادہ بتول امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا الزام ہو۔

البتہ شہادتِ امام کے بعد قاتلین کا محاسبہ نہ کرنے اور ان کو کیفر کردار تک نہ پہنچانے کا الزام بھی یزید ہی کے سر ہے،کہ اس کی حکومت میں تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا ظلم ہو گیا اور وہ مداہنت و بے شرمی کی انتہاؤں میں بھٹکتا رہا۔

👈 ذیل میں شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمہ اللہ کے فتاوی شارح بخاری کے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں جنہیں پڑھ کر قارئین کو اندازہ ہو گا کہ مفتی منیب الرحمن صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ بعینہ یہی بات اکابر سے بھی منقول ہے،

1) چنانچہ فتاوی شارح کے بخاری جلد دوم کے صفحہ 101 پر ایک فتوی میں شارح بخاری یوں رقمطراز ہوتے ہیں:

’’یزید کے بارے میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ اس نے حضرت امام حسین کو شہید کرنے کا حکم دیا ہو، اس نے بیعت لینے کا حکم دیا تھا، اس سے زائد جو کچھ شرارت ہے ابن زیاد اور شمر وغیرہ کی ہے۔‘‘

(فتاوی شارح بخاری جلد2 صفحہ 101)

2) ایک سطر بعد پھر لکھتے ہیں:

’’یزید کے سر حضرت امام علی مقام رضی اللہ عنہ کے شہید کرنے کا الزام قطعی طور پر ثابت نہیں۔‘‘

(فتاوی شارح بخاری جلد2 صفحہ 101)

3) اسی فتاوی کے صفحہ نمبر 103 پر لکھتے ہیں:

’’یزید پر کوئی ایسا الزام قطعی طور پر ثابت نہیں جس کی بنا پر اسے کافر کہا جائے۔‘‘

4) چند سطور بعد رقمطراز ہوتے ہیں:

’’اس کی کہیں کوئی روایت نہیں کہ اس نے امام حسین کو شہید کرنے کا حکم دیا ہو، شہادت کی خبر ملنے پر روایتیں متضاد ہیں، کچھ روایتوں میں یہ ہے کہ اس نے قاتلین کو سخت و سست کہا، ڈانٹا حتی کہ رویا اور بعض روایتوں میں یہ ہے کہ خوش ہو کر اشعار پڑھے ، قطعی الثبوت نہ پہلی روایتیں ہیں نہ دوسری، دونوں قسم کی روایتں خبر آحاد ہیں وہ بھی مشکوک راویوں کے ذریعے مروی، یقینی طور پر کسی پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

(فتاوی شارح بخاری جلد2 صفحہ 103)

5) ایک دوسرے فتوی میں شارح بخاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’واقعہ کربلا کے سلسلے میں روایتیں متعارض ہیں، یہ تو طے ہے کہ اس نے یہ حکم نہیں دیا تھا کہ حضرت امام حسین کو شہیید کیا جائے اس نے صرف بیعت لینے کا حکم دیا تھا ، ساری شرارت ابن زیاد بدنہاد کی ہے۔ شہادت کی اطلاع ملنے پر یہ بھی روایت آئی ہے کہ وہ ابن زیاد وغیرہ پر بہت ناراض ہوا اور یہ بھی روایت آئی ہے کہ خوش ہوا ۔ ان میں سے کسی ایک کو ترجیح نہیں۔‘‘

(فتاوی شارح بخاری جلد2 صفحہ 105)

6) صفحہ نمبر 112 میں ایک اور فتوی میں لکھتے ہیں:

’’کسی روایت سے ثابت نہیں کہ یزید نے امام حسین رضی اللہ عنہ یا ان کے ساتھیوں کے شہید کرنے کا حکم دیا ہو یا یہ حکم دیا ہو کہ کعبہ پر پتھر اور آگ برسائے۔ جو کچھ کیا فوجیوں نے کیا اس نے صرف بیعت لینے کا حکم دیا تھا۔‘‘

(فتاوی شارح بخاری جلد2 صفحہ 112)

👈 صرف شارح بخاری ہی نہیں بلکہ اعلی حضرت رحمہ اللہ بھی فتاوی رضویہ میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے دفاع کے ضمن میں امام غزالی کی عبارت سے سند پکڑتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’امام حجۃ الاسلام غزالی قدس سرہ الشریف احیاء العلوم شریف فرماتے ہیں : فان قیل ھل یجوز لعن یزید لانہ قاتل الحسین واٰمربہ قلنا ھذالم یثبت اصلا فلا یجوز ان یقال انہ قتل او امربہ مالم یثبت ۔‘‘

’’اگر سوال کیا جائے کہ کیا یزید پر لعنت کرنا جائز ہے کیونکہ وُہ امام حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہ کاقاتل ہے یا اس نے آپ کے قتل کا حکم دیا ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ یہ اصلاًثابت نہیں جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے تو اسےقاتل یا اس کا آمر نہ کہا جائے۔‘‘

(فتاوی رضویہ جلد10 صفحہ 193)

👈 یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کہ یزید کے معاملہ قتل کی نسبت کرنے میں ان علماء کرام کی احتیاط کی وجہ کیا ہے؟ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ واقعہ کربلا کے متعلق کتابوں میں ایسی سینکڑوں روایتیں ہیں جو جعلی اور من گھڑت ہیں اور روافض و نواصب کی کارستانیاں ہیں ، محققین جانتے ہیں کہ خطباء اور ذاکرین کی مرچ مصالحہ لگا کر واقعہ کربلا بیان کرنے کی یہ روش نئی نہیں بلکہ پرانی چلی آرہی ہے جس کی وجہ سے عوام الناس کے ہاں اس واقعہ کی کئی جزئیات جذباتی بنیادوں پر حقیقت سمجھی جانے لگی ہیں کہ اب اگر کوئی ان کا انکار کرے تو وہ مبغضین اہل بیت میں شامل کر دیا جاتا ہے ۔

👈ایسی روایات کے متعلق شارح بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’واقعہ شہادتِ(امام حسین رضی اللہ عنہ) میں دونوں طرف کے انتہاء پسندوں نے ایک نہیں سینکڑوں روایتیں گھڑ لی ہیں، موافقت میں بھی اور مخالفت میں بھی۔‘‘

(فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 71)

’’اتنی بات بطریق تواتر ثابت ہے کہ کربلا میں حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء شہید کیے گئے، اور اس کے بہت جزئیات بھی ثابت ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہزاروں جعلی من گڑھت روایتیں واعظین نے پھیلا دی ہیں۔‘‘

(فتاوی شارح بخاری جلد2 صفحہ112)

👈 دوسری طرف محققین علماء علم و تحقیق کی بنیاد پر ہی کسی بات کو درجہ ثبوت میں رکھتے ہیں ، اس حوالے سے شارح بخاری رحمہ اللہ کے کلماتِ نصیحت پڑھیے:

’’کسی بھی حکم شرعی کو جذباتی طور پر حل نہیں کرنا چاہیے ، حقائق کی روشنی میں ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔‘‘

(فتاوی شارح بخاری ج2 ص59)

اور اسی فتاوی کے صفحہ 69 پر لکھتے ہیں:

’’تاریخی واقعات جذبات سے نہیں جانچے جاتے ۔ حقائق اور روایات کی بنیاد پر جانچے جاتے ہیں۔‘‘

(فتاوی شارح بخاری ج2 ص69)

حق بات سن کر اسے تسلیم کرنے والوں کیلیے اکابر کے اس قدر کلمات کافی ہیں، اگر اب بھی کوئی مفتی صاحب حفظہ اللہ پہ طعن کرنے سے باز نہ آئے تو یہ اختلاف لوجہ اللہ ہر گز نہیں بلکہ ذاتی مخاصمت ،ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔

✍️ فقیرالمصطفی

25/09/2019