آب زمزم کے فضائل ، خواص، فوائدوآداب

از : غلام نبی علیمی ، المجمع الاسلامی ملت نگر مبارک پور اعظم گڑھ

جس کے پیتے ہی کھلیں مومن پہ اسرار حیات

دین ابراہیم کی وہ مے اسی زمزم میں ہے

آب زمزم دنیا کے پانیوں میں سب سے افضل پانی ہے ، جو نہایت ہی مصفا ، پاکیزہ اور حیات بخش و جاں افروز چشمۂ رواں ہے ۔ اس سے زیادہ صحت بخش پانی کرئہ ارض پر اس کے سوا موجود نہیں ہے ، اگر اسے اس دنیا کا آب کوثر کہا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا ۔

آئیے دیکھیں کہ اس آب حیات کا چشمۂ فیض کیوں اور کیسے ابل پڑا ؟

آب زمزم کا تاریخی پس منظر : بعض مورخین کا کہنا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ابھی کم سن ہی تھے کہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا نے ان کی والدہ ہاجرہ کو از روئے غیرت گھر سے نکال دیا اور یہی صحیح روایت ہے ۔ اور جب سارہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا مجھے ہاجرہ کے ہمراہ ایک شہر میں مت رکھئے تو اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو مکہ میں زمزم کے مقام پر لا کر چھوڑ دیا ۔ پھر جب گزرنے لگے تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا اے ابراہیم ! کس نے آپ کو ہمیں ایسی سر زمین پر چھوڑنے کا حکم دیا ہے ۔ جو غیر ذی زرع ہے ۔ اور جس میں دودھ ، پانی ، اور کوئی توشہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی کو ئی مونس ہے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : مجھے میرے رب جل جلالہ نے حکم دیا ہے ۔ تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ پھر تو وہ ہمیں ضائع نہ فرمائے گا پھر جب دور نکل گئے تو ارشاد فرمایا : ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموا الصلوٰۃ فاجعل افئدۃ من الناس تہوی الیہم و ارزقہم من الثمرت لعلہم یشکرون (ابراہیم، ۱۴؍۳۷) پرور دگار میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو لا بسایا ہے پرور دگار میں نے اس لئے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں ۔ لہٰذا لوگوں کو ان کا مشتاق بنا ۔ اور انہیں کھانے کو پھل دے شاید کہ یہ شکر گزاربنیں ۔

پھر جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی تو وہ مثل مذبوح اپنے قدم زمین پر پٹکنے لگے ۔ جب حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے یہ منظر دیکھا تو دوڈ کر کوہِ صفا پر چڑھ گئیں تا کہ کوئی چیزنظر آجائے ۔ لیکن کوئی چیز نظر نہ آئی تو حضرت ہاجرہ وادی میں اتریں پھر دوڑ کر مروہ پر آگئیں اور کھڑی ہو کر بغور کوئی چیز دیکھنے لگیں ۔ لیکن کوئی چیز نظر نہ آئی تو ایسے ہی انہوں نے سات مرتبہ کیا اور یہی سعی صفا و مروہ کی بنیاد ہے ۔ پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاس آئیں جب کہ آپ مضطربانہ اپنے قدم زمین پر پٹک رہے تھے اور چشمۂ زمزم ابل رہا تھا ۔ تو پانی جمع کرنے کے لئے زمین کریدنے لگیں اور جب پانی جمع ہو گیا تو سے لے کر اپنے مشک میں بھرنے لگیں ۔ راوی فرماتے ہیں کہ نبی کریم ا نے ارشاد فرمایا:’’ یرحمہا اللہ لو ترکتہا لکانت عینا سائحۃ‘‘ اللہ رب العزت حضرت ہاجرہ پر رحم و کرم کی بارش فرمائے اگر وہ زمزم کو اس کی حالت پر چھوڑ دیتیں تو وہ رواں دواں چشمہ ہوتا ۔ (الکامل فی التاریخ لابن اثیر ج؍۱ ، ص ؍ ۹۳)

اور بعض دیگر مورخین فرماتے ہیں کہ حضرت جبرئیل نے آب زمزم کا چشمہ جاری فرمایا ، کیوں کہ حضرت جبرئیل ہی حضرت ہاجرہ کے پاس اس وقت اترے تھے جب وہ وادی میں دوڑ رہی تھیں تو جب حضرت ہاجرہ نے حضرت جبرئیل کی آہٹ سنی تو فرمایا میں نے تیری آہٹ کو سن لیا ہے ۔ تو تو میری مدد کر کہ میں گرداب ہلاکت میں آگئی ہوں ۔ اور میرا بیٹا بھی ہلاکت کے دہانے پر جا پہونچا ہے چنانچہ حضرت جبرئیل ، حضرت ہاجرہ کو زمزم کے مقام پر لائے پھر اپنے قدم سے زمین پر ایک ضرب لگائی تو چشمہ ابل پڑا اور پھر حضرت ہاجرہ جلدی جلدی اس کا پانی اپنے مشک میں انڈیلنے لگیں تو حضرت جبرئیل نے ان سے کہا : پیاس کا خوف نہ کر (الکامل فی التاریخ ، لابن اثیر ، ج ۱ ، ص؍ ۹۴،)

زمزم کے نام : آب زمزم حیات افروز چشمۂ رواں ہے ۔ اور اللہ عز و جل کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی ہے اور جس طرح اللہ جل جلالہ اور اس کے پیارے محبوب محمد رسول اللہ ا کے بے شمار نام ہیں اسی طرح اس آب حیات کے بھی متعدد نام ہیں ۔ جو اس کی فضیلتوں اور عظمتوں کے آئینہ دار ہیں ۔ ہم انہیں زیب قرطاس کرتے ہیں ۔

فاکھی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ احمد بن محمد بن ابراہیم جن کا شمار شرفائے مکہ میں ہوتا ہے انہوں نے مجھے ایک کتاب دی تو میں نے ان کی کتاب میں سے کچھ حصہ انہیں لکھ بھیجا تو انہوں نے کہا کہ یہ زمزم کے نام ہیں جن سے اسے موسوم کیا جاتا ہے اور وہ درج ذیل ہیں

yزمزم yہزمۃ جبرئیل y سقیا اسماعیل y لا تنزف y لاتذم y برکۃ y سیدۃ y نافعہ y مضنونہ yعونہ y بشریٰ y صافیہy برۃ yعصمۃ y ساعۃ y میمونہ y مبارکۃ y کافیہ y عافیہ y مغذیہy طاہرہ y حرمۃ y مرویہ y مؤنۃ y طعام طعم y شفاء سقم ۔

اور فاکھی کے علاوہ بعض لوگوں نے مزید اسماء ذکر کئے ہیں جو حسب ذیل ہیں :

٭ طیبہ ٭ تکتم ٭ شبّاَعۃ العیال ٭ شراب الابرار ٭ قریۃ النمل ٭ نقرۃ الغراب ٭ الاعصم ٭ ہزمۃ اسماعیل ٭ حفرۃ العباس ۔ اس نام کا ذکر یاقوت نے المشترک میں کیا ہے ۔ ٭ ہمزۃ جبرئیل میم کی زاء پر تقدیم کے ساتھ۔ اس کا ذکر سہیل نے کیا ہے ۔ ٭ شباعہ ۔ اس کا اضافہ بِکری نے کیا ہے ۔ ٭ رکضۃ جبرئیل ٭ حضرۃ عبد المطلب ۔ یہ دو اسماء ابو عمر زاہد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہیں (سبل الہدیٰ ج؍۱، ص؍۱۸۵)

زمزم کی وجہ تسمیہ : زمزم کی وجہ تسمیہ کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ زمزم کو زمزم اس کے پانی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے ۔

اور علامہ ابو عبید البِکری فرماتے ہیں کہ بولا جاتا ہے :ماء زمزم و زمزام ‘‘یعنی بہت پانی اور ابن تیان کی کتاب الموعب میں ہے کہ ماء زمزم و زمزام یعنی کثیر پانی اور بعض حضرات کا قول ہے کہ زمزم کو زمزم اس کے پانی کے زمزمہ سنجی کی وجہ سے کہا جاتا ہے اور بعض حضرات فرماتے ہیں زمزم کو اس کے پانی کے جمع رہنے کی وجہ سے زمزم کہا جاتا ہے ۔ یہ قول ابن ہشام سے منقول ہے ۔

اور مجاہدرحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ :

زمزم کا نام زمزم اس وجہ سے پڑا کہ زمزم مشتق ہے الہزمۃ سے اور الہزمۃ کا معنیٰ ایڑی زمین پر مارنا ہے ۔ رواہ الفاکہی بسند صحیح (سبل الہدیٰ و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد ، ج؍۱، ص؍۱۸۱)

لغات زمزم: زمزم میں مختلف لغتیں ہیں ۔ ٭ زَمْزَمْ ٭ زُمَزِّمْ ٭ زُمَزِمْ (ایضا ص؍۱۸۱)

احادیث فضائل زمزم : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا : روئے زمین پر بہترین پانی زمزم شریف کا پانی ہے ۔ جو سیر حاصل غذا اور بیماری کی شفا ہے ۔ (سبل الہدیٰ و الرشاد ، ج؍۱، ص؍ ۱۸۱۔ الترغیب و الترہیب ، ج؍۲، ص؍۱۶۶)

حضر ت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا : زمزم سیر حاصل غذااور بیماری کی شفا ہے ۔ حضر ت ابو طفیل بہ روایت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا ہم (زمانۂ جاہلیت )میں زمزم کو شباعۃ (سیراب کرنے والا )کہا کرتے تھے اور اسے حاجتمند کا بہترین مدد گار پاتے تھے ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں : کہ اللہ کے رسول ا نے ارشاد فرمایا : زمزم کا پانی جس مقصد کے لئے پیا جائے وہی اس سے حاصل ہوتا ہے ۔ اگر تو حصول شفاکی خاطر پئے گا تو اللہ تعالیٰ تجھے شفا عطا فرمائے گا ۔ اور اگر شکم سیری کے لئے پئے گا تو اللہ تعالیٰ تجھے سکم سیر فرمائے گا ۔ اگر پیاس بجھانے کے لئے پئے گا تو اللہ تعالیٰ تیری پیاس بجھا دے گا ۔ اور زمزم حضرت جبرئیل علیہ السلام کی ایڑی سے برآمد ہونے والا کنواں ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے سقیا (سیرابی) ہے ۔(الترغیب و الترہیب ج؍۲ص؍۱۶۶، ۱۶۷ )

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ارشاد فرمایا : اشربوا من شراب الابرار ۔ نیکوں کاروں کا مشروب زمزم پیو ۔

اور یہ بھی ارشاد فرمایا : کان رسول اللہ اذا اراد ان یتحف بتحفۃ سقاہ من ماء زمزم ۔ رسول اللہ ا جب کسی آدمی کو تحفہ سے نوازنا چاہتے تو اسے آب زمزم پلاتے ۔

اور عباد بن عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم نے ارشاد فرمایا : جب امیر معاویہ نے حج ادا فرمایا ، ہم نے بھی ان کے ہمراہ فریضۂ حج ادا کیا ۔ اور جب انہوں نے حج بیت اللہ کیا دو رکعت نماز مقام ابراہیم پر ادا فرمائی پھر کوہ صفاکے پاس تشریف لے جاتے ہوئے جب چاہ زمزم سے گزرے تو ارشاد فرمایا : ا نزع لی منہا دلوا یا غلام قال فنزع لہ منہا دلوا فاتیٰ بہ فشرب و صب علیٰ وجہہ و راسہ وہو یقول زمزم شفاء وہی لما شرب لہ ‘‘اے غلام میرے لئے چاہ زمزم سے ایک ڈول بھر کر آب زمزم نکال لائو ، عباد بن عبد اللہ فرماتے ہیں ۔ تو غلام نے اس سے ایک ڈول آب زمزم نکالا اور آپ کے پاس لے آیا ۔ پھر آپ نے آب زمزم نوش فرمایا ۔ اور یہ کہتے ہوئے اپنے چہرے پر انڈیل لیا ۔ زمزم شفاء وہی لما شرب لہ ۔ آب زمزم میں شفاء ہے اور اس سے ہر وہ مراد بر آتی ہے جس کے لئے اسے نوش کیا جائے ۔ (سبل الہدیٰ و الرشاد ، ج؍۱، ص؍ ۱۸۲)

حدیث پاک’’ ماء زمزم لما شرب لہ ‘‘یعنی آب زمزم سے وہی مقصد پورا ہوتا ہے جس کے لئے اسے نوش کیا جائے۔ کا اکابرین امت کی ایک جماعت نے تجربہ کیا ہے اور اسے صحیح پایا ہے ۔ قد صح عن جماعتہ من الائمہ انھم جربوا ھذا الحدیث فوجدوہ صحیحا سبل الھدی و الرشاد ص۱۸۳ ازمحمد بن یوسف الصالحی متوفی ۹۴۲

آب زمزم کی منتقلی ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آب زمزم کی فضیلت اسی وقت تک ہے جب تک وہ اپنی جگہ پر ہو تو جب منتقل ہو جائے بدل جاتا ہے صاحب در المقاصد الحسنہ نے یہی کہا ہے حالانکہ ـیہ بے سر و پا بات ہے ۔ کیوں کہ نبیٔ کریم ﷺ نے حضرت سہیل بن عمر کے پاس خط لکھا : ان جاء ک کتابی لیلا فلا تصبحن او نہارا فلا تمسین حتی تبعث الیَّ بماء زمزم ۔ اگر میرا پیغام تمہیں رات کو پہونچے تو صبح نہ کرو یا دن کو پہونچے تو رات نہ کرو یہاں تک کہ تم میرے پاس آب زمزم بھیج دو ۔ اس حدیث پاک میں محل استشہاد یہ ہے کہ حضرت سہیل بن عمرو نے نبیٔ کریم ﷺ کے لئے دو مشکیزہ آب زمزم اس وقت بھیجا جب آپ مدینہ طیبہ میں تھے ۔ اور مکہ فتح نہیں ہوا تھا یہ حدیث شواہد کی وجہ سے حسن ہے ۔ (سبل الہدیٰ و الرشاد ج؍۱ ، ص؍۱۸۳، از : محمد بن یوسف صالحی شامی مطبوعہ : داع الکتب العلمیہ ، بیروت )

اگر آب زمزم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے سے زمزم نہ رہتا یا اس کی فضیلت میں کوئی کمی واقع ہوتی تو رسول کریم ﷺ حضرت سہیل بن عمرو کو اس کی منتقلی کا حکم اتنی تاکید کے ساتھ کیوں دیتے ۔ جب کہ ہرشے کا ظاہر و باطن آپ پر روشن ہے ۔ اور تمام اسرار غیبیہ آپ پر آشکار ہیں ۔ آپ آمر بھی ہیں اور ناہی بھی ۔ آپ بندوں کو ان اعمال کو کرنے کی ترغیب دیتے ہیں جن سے دنیا میں بھی سرخروئی حاصل ہو اور آخرت میں بھی اعزازات و مناصب حاصل ہوں ۔ اوران اعمال کے کرنے سے روکتے ہیں جن سے دین و دنیا کا کوئی فائدہ وابستہ نہ ہو ۔ بلکہ دونوں جگہوں پر ذلت و نکبت کا طوق زیب گلو ہو ۔

نیز آب زمزم کے منتقل ہونے کے جواز پرائمۂ اربعہ رضی اللہ عنہم کا اتفاق کیوں کر ہوتا؟ علامہ محمد بن یوسف الصالحی الشامی رقم طراز ہیں : یجوز نقل ماء زمزم باتفاق الائمۃ الاربعۃ بل ہو مستحب عند الشافعیۃ و المالکیۃ والفرق عند الشافعیۃ بینہ و بین حجارۃ الحرم فی عدم جواز نقلہا و جوا ز نقل ماء زمزم ان الماء لیس شئیا یزول فلا یعود اشار الی ہذا الفرق الامام الشافعی ، کما حکاہ عنہ البیہقی (سبل الہدیٰ و الرشاد ، ج؍۱، ص؍۱۸۳)

آب زمزم کا منتقل کرنا باتفاق ائمۂ اربعہ جائز ہے ۔ بلکہ شافعیوں اور مالکیوں کے نزدیک مستحب ہے ۔ شافعیہ کے نزدیک آب زمزم اور حرم کے پتھر کے درمیان فرق یہ ہے کہ مؤخر الذکر کو منتقل کرنا جائز نہیں ۔ جب کہ آب زمزم کی منتقلی جائز ہے ۔کیوں کہ پانی کوئی ایسی چیز نہیں جو زائل ہو جاتی ہو اور لوٹائی نہ جاتی ہو ۔ امام شافعی نے بھی اس فرق کی طرف اشارہ فرمایا ۔ جیسا کہ بیہقی نے ان سے روایت کیا ہے ۔

ان عبارات کی روشنی میں یہ بات روشن ہو گئی کہ آب زمزم بعد انتقال بدلتا نہیں ۔ اور نہ ہی اس کی فضیلت میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے بلکہ جس طرح زمزم نوشی اس کے اپنے جائے وقوع پر مفید و صحت بخش اور باعث اجر و ثواب ہے ۔ یوں ہی انتقال کے بعد بھی وہ ان خصائص و فوائد سے بھر پور ہے ۔

خواص زمزم اقوال اکابرین کی روشنی میں

٭بخار کو ختم کرتا ہے ۔ اس بارے میں نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے جیسا کہ سنن نسائی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے ۔٭ درد سر دور کرتا ہے ۔ یہ ضحاک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے ۔ ٭ آب زمزم قیامت آنے سے پیش تر خشک نہیں ہو گا ۔ اور نہ ہی زمین کی گہرائیوں میں اترے گا ۔ جب تمام پانی خشک ہو جائیں یا زیر زمین سما جائیں ۔ یہ قول بھی ضحاک رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔ ٭ شرعی اور طبی نقطۂ نظر سے تمام روئے زمین کے پانیوں سے آب زمزم افضل و برتر ہے ۔ علامہ بدر الدین بن صامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے آب زمزم کا مکہ کے چشمے کے پانی سے موازنہ کیا تو میں نے آب زمزم کو چشمہ کے پانی سے چوگنا وزنی پایا ۔ پھر میں نے آب زمزم کو طب کے ترازو پر تولا تو اسے طب و شرع دونوںکی رو سے دنیا کے تمام پانیوں سے افضل پایا ۔ اور شیخ الاسلام علامہ بلقینی رحمۃ اللہ علیہ نے تو یہاں تک فرمایا کہ آب زمزم آب کوثر سے بھی افضل ہے ۔ ٭ آب زمزم ۱۵؍ویں شعبان کو شیریں اور خوش گوار ہو جاتا ہے ۔ ابن حاج نے’’ مناسک میں ‘‘ مکی بن ابو طالب سے نقلکرتے ہوئے اس کا ذکر کیا ہے : وہ فرماتے ہیں کہ شیخ مکی بن ابو طالب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

پندرہویں شعبان کو آب زمزم شیریں اور خوش ذائقہ ہو جاتا ہے ۔ اہل مکہ کہتے ہیں کہ سلوان چشمہ اس رات آب زمزم سے مل جاتا ہے ۔ اور اس رات پانی لینے پر خوب مال و دولت صرف کیا جاتا ہے اور قیامت کی بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے ۔ تو لوگوں میں جو بلند مرتبہ اور شرف و فضل والا ہوتا ہے وہی اس رات اس جام شیریں تک پہونچتاہے ۔

شیخ مکی بن ابو طالب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ ’’ عانیت ذلک ثلث سنین ‘‘ میں نے تین سال تک یہ مشقت برداشت کی ہے ۔

٭ ہر سال پندرہویں شعبان کو زمزم کا پانی اس طرح بڑھ جاتا ہے کہ زمزم کے کنویں سے بھی بہنے لگتا ہے ۔ جیساکہ بعض حضرات کا قول ہے لیکن عارفین ہی اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور شیخ صالح ابو الحسن معروف بہ ’’بکر باج‘‘ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا مشاہدہ کیا ہے ۔ ٭ چاہ زمزم میں جھانکنا آنکھ کی روشنی بڑھاتا ہے ۔ یہ ضحاک کا قول ہے ۔ ٭آب زمزم گناہوں اور پاپوں کو مٹاتا ہے ۔ اس کا ذکر ابوالحسن محمد بن مرزوق زعفرانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’مناسک ‘‘ میں کیا ہے ۔ اور ازرقی نے حضرت مکحول سے مرسلا روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ا نے ارشاد فرمایا ’’النظر فی زمزم عبادۃ وہی تحط الخطایا ‘‘ زمزم کی طرف نظر کرنا عبادت ہے اور زمزم گناہوں کو ختم کرتا ہے ۔٭ اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے آب زمزم کو نمکینیت کی خصوصیت عطا فرمائی تاکہ ایمانی نمکینیت اس کو نوش کرنے پر ٓمادہ کرے اگر اللہ جل جلالہ اسے خوب شیریں بنا دیتا تو انسان کی فطری عادت اس پر غالب آجاری اور اسی سیالو العلا معری کے اس قول کی تردیدی کی جاتی ہے ۔

لک الحمد امواہ البلاد باسرہا عذاب و خصت الملوحۃ زمزم

تیرے لئے حمد ہے (اس بات پر کہ )تمام شہروں کے پانی میٹھے ہیں اور زمزم کی خاصیت کھارا ہونا ہے ۔ ٭ جو شخص تین لپ آب زمزم اپنے سر پر ڈال لے وہ کبھی ذلیل نہیں ہو گا ۔ (سبل الہدیٰ و الرشاد ، ج؍۱ ، ص؍ ۱۸۴، ۱۸۵)

زمزم کے فوائد اطباء کی تحقیقات و تجربات کی روشنی میں

آب زمزم وہ آب حیات ہے جو حاصل شفا اور دافع بلا ہے اس سے جہاں سرطان ، ذیابیطس ، بلڈ پریسر اور تیزابیت اور بد ہضمی جیسی بیماریاں ختم ہوتی ہیں ۔ وہیں حافظہ کو قوت ملتی ہے ۔ اگر اس کے قطرات آنکھوں میں ڈالے جائیں تو جملہ امراض چشم سے خلاصی حاصل ہوتی ہے ۔ اور بینائی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اور یہ مبالغہ آرائی و لفاظی نہیں بلکہ ہزارہا اطباء کا آزمودہ اکسیری نسخہ ہے ۔ یہ ہیں ڈاکٹر غلام رسول قریشی جنہوں نے اپنی ذاتی لبارٹری میں آ ب زمزم کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے ۔ ڈاکٹر خالد غزنوی نے ان کا تعارف کراتے ہوئے ان کے اس تجزیہ کے حوالے سے آب زمزم میں پائے جانے والے کیمیاوی عناصر کا ذکر ان لفظوں میں کیا ہے ۔

’’ڈاکٹر غلام رسول قریشی لاہوری جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں علم الامراض کے پروفیسر ہیں ، انہوں نے آب زمزم کا تفصیلی تجزیہ اپنی ذاتی لبارٹری میں کیا ہے ۔ ان کے مشاہدات کے مطابق آب زمزم میں دیگر کیمیاوی عناصر کے علاوہ فولاد ، مگنیز ، جست اور وافر مقدار میں گندھک اور آکسیجن سے مرکب سلفیٹ اور سوڈیم ملتے ہیں ۔ پروفیسر قریشی صاحب کا کہنا ہے کہ ان کیمیاوی عناصر کے کافی مقدار میں آب زمزم میں پائے جانے کی وجہ سے آب زمزم خون کی کمی کو دور کرتا ہے ، دماغ کو تیز کرتا ہے اور ہاضمہ کی اصلاح کرتا ہے ۔(طب نبوی اور جدید سائنس ج؍۲، ص؍۴۵)

اور ڈاکٹر خالد غزنوی آب زمزم سے شفا یابی کا ایک مشاہداتی واقعہ حرم شریف کے ایک خادم کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ’’ حرم شریف کے ایک خادم نے ہمیں بتایا کہ اس نے کینسر کے ایک مریض کو دیکھا جو جاں بلب تھا ۔ لوگ اسے اٹھا کر نماز کے وقت مسجدمیں لاتے تھے وہ روزانہ زمزم کا پانی پیتا اور اسی پانی کو اپنی رسولیوں پر ڈال کر دن بھر کے لئے مزید پانی ہمراہ لے جاتا ۔ چند دن بعد وہ شخص اپنے پیروں سے چل کر آنا شروع ہوا اور پھر پوری طرح تندرست ہو گیا ۔ ‘‘

موصوف اپنے ذاتی مشاہدات بیان کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں : ’’ یہ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ذیابیطس کا جو بھی مریض حج کرنے گیا اور اس نے باقاعدگی سے زمزم پیا اس کے خون اور پیشاب سے شکر ختم ہو گئی جتنی دیر وہ حجاز مقدس میں رہا اسے انسولین لینے کی ضرورت نہیں پڑی ‘‘مشاہدات کا سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ اسی قسم کا ہمارامشاہدہ بلڈ پریشر کے بارے میں ہے ۔ حج کے دوران بلڈپریشر کے کسی مریض کو کبھی کسی دوائی کی ضرورت نہیں پڑی ۔ زمزم پینے کے بعد پیٹ کی گرانی فوراً ختم ہو جاتی ہے ۔ تیزابیت جاتی رہتی ہے ۔ اور بھوک باقاعدگی سے لگنے لگتی ہے ۔ باقاعدگی سے زمزم پینے کے بعد حافظہ بہتر ہو جاتا ہے ۔ (طب نبوی اور جدید سائنس، ج؍۱، ص؍ ۵۰)

زمزم نوشی کے آداب : زمزم نوشی کے آداب میں سے یہ ہے کہ زمزم کا پیالہ ہاتھ میں لیا جائے اور قبلہ رو کھڑے ہو کر اللہ کا نام لے کر تین سانسوں میں نوش کیا جائے ۔ ہر بار بسم اللہ سے شروع کیا جائے اور الحمد للہ پر ختم کیا جائے ۔ اور پیتے وقت دعا کی جائے کہ اس وقت کی دعا مقبول ہے ۔ رسول اللہ ا ارشاد فرماتے ہیں : زمزم جس مراد سے پیا جائے وہ بر آتی ہے ۔ لہٰذا آب زمزم کبھی قیامت کی پیاس بجھنے کے لئے پینا چاہئے ۔ کبھی عذاب قبر سے بچنے کے لئے کبھی محبت رسول ا بڑھنے کے لئے ۔ کبھی وسعت رزق ، کبھی شفاء امراض ، کبھی حصول علم اور کبھی دیگر دین و دنیا کی جائز مرادوں کے لئے پینا چاہئے ۔

(فتاویٰ رضویہ ، ج؍۴، ص؍۷۰۲، ملخصاً)

٭٭٭