حدیث نمبر :707

روایت ہے حضرت عطا ابن یسار سے ۱؎ فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے الٰہی میری قبر کو بت نہ بنانا جو پوجی جائے ۲؎ اس قوم پر اﷲ کا سخت غضب ہواجنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۳؎۔(مالک ارسالًا)

شرح

۱؎ آپ مشہور تابعی ہیں،حضرت ام المؤمنین میمونہ کے آزادکردہ غلام ہیں،۸۴ سال عمر پائی،۹۴ ھ ؁میں وفات پائی۔

۲؎ سبحان اﷲ!حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا ایسی قبول ہوئی کہ ہر سال لاکھوں جاہل و عالم زیارت کے لےا جاتے ہیں مگر نہ کوئی قبر انور کو سجدہ کرتا ہے نہ کوئی اس کی طرف نماز پڑھے یہ اس دعا کا اثر ہے۔خیال رہے کہ یہودونصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام وعزیز علیہ السلام کے ایک دو معجزے سن کر انہیں خدایا خدا کا بیٹا کہہ دیا،اوران کی عبادت کرنے لگے مگر مسلمان ہزار ہا معجزات سن کر بلکہ آنکھوں سے دیکھ کر نہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کہتے ہیں نہ خدا کا بیٹا،جاہل مسلمانوں کا بھی عقیدہ یہ ہے”عَبْدُاﷲِ وَرَسُوْلُہٗ”یہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا ہی کی برکت ہے۔

لطیفہ: بعض لوگ اس حدیث کے ماتحت یہ بیان کرتے ہیں کہ قبروں کی تعظیم کرنا،سال کے سال وہاں جانا،مجمع کرکے زیارتیں کرنا،وہاں چراغاں کرنا سب شرک ہے کیونکہ اس میں قبر پرستی ہے کہ قبر کو بت بنالیا گیا مگر یہ بالکل غلط ہے کیونکہ یہ سارے کام۱۳ سو برس سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور پر ہورہے ہیں،ہرسال زائرین کی بھیڑ ہوتی ہے،ہاتھ باندھ کر سرجھکا کر سلام پڑھا جاتا ہے،رات کو ایمان افروز روشنی ہوتی ہے،سارے علماء،صلحاء،اولیاء یہ کام کرتے ہیں۔فقہاء فرماتے ہیں کہ روضۂ انور پر سلام کرنے اس طرح ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جیسے نماز میں کھڑا ہوتاہے،اگر ان میں سے کوئی کام شرک ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر ہرگز نہ ہوتا کیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوچکی ہے۔ان نادانوں کی اس تفسیر سے لازم آئے گا کہ حضور کی یہ دعا رب نے بالکل رد کردی،لہذا یہ حدیث جواز عرس کے متعلق اہل سنت کی قوی دلیل ہے،حدیث سمجھنے کے لےل علم وعقل وعشق کی ضرورت ہے۔

۳؎ اس طرح کہ ان قبروں کی عبادت کرنے لگے یا ان کی طرف نمازیں پڑھنے لگے،پہلا کام شرک ہے دوسرا حرام۔خیال رہے کہ اگر اتفاقًا مسجد میں قبرہوتو نمازی اور قبر کے درمیان پوری آڑ چاہیئے،جیسے مسجد نبوی شریف میں روضۂ اطہر ہے جس کے چاروں طرف نمازیں ہوتی ہیں مگر قبر انور کی چوطرفہ دیواروں کی آڑیں ہیں۔اس کی پوری تحقیق پہلے ہوچکی۔