حدیث نمبر :714

روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیل بوٹوں والی چادر میں نماز پڑھی ۱؎ اس کے بیل بوٹے ایک نظر دیکھے جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میری یہ چادر ابوجہم کے پاس لے جاؤ اور ابوجہم سے انبجانیہ چادر لے آؤ ۲؎ اس چادر نے مجھے ابھی نماز سے بازرکھا۔(مسلم،بخاری)بخاری کی روایت میں یوں ہے کہ فرمایا میں اس کے بیل بوٹوں کونماز میں دیکھتا تھا مجھے خوف ہے کہ میری نماز خراب کردے۳؎

شرح

۱؎ عربی میں خمیصہ بیل بوٹے والی چادر ہی کوکہتے ہیں،لیکن علیحدہ اعلام کا ذکر کرناتجرید کی بناء پر ہے۔یہ اونی سیاہ چادرتھی جو ابوجہم نے ہدیۃً خدمت اقدس میں پیش کی تھی اس کو اوڑھ کرسرکارنماز پڑھ رہے تھے۔

۲؎ النبجانیہ شام کی ایک بستی کا نام ہے جہاں سادہ کپڑے تیار ہوتے ہیں اسی کی طرف اس کی نسبت ہے،جیسے ہمارے ہاں بھاگل،بوریا،ڈھاکہ کی ململ یا لائلپور کا لٹھا مشہورہے۔چونکہ چادر کا واپس کرنا ابوجہم کو ناگوارگزرتا۔ان کی دلداری کے لیے اس کے عوض دوسری چادر طلب فرمالی۔اور ابوجہم قرشی ہیں،عدوی ہیں،مشہورصحابی ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا احترام فرماتے تھے کیونکہ یہ بزرگانِ قریش میں سے تھے۔

۳؎ اس طرح کہ نماز میں ہمارا دھیان اس کے بیل بوٹوں کی طرف ہوجائے اور کامل خشوع خضوع نہ رہے۔صوفیاءفرماتے ہیں کہ لباس کا اثر دل پرہوتاہے خصوصًا صاف اور روشن دل جلدی اثر لیتے ہیں،جیسے سفیدکپڑے پر سیاہ دھبّہ معمولی بھی دور سے چمکتا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ محراب مسجد سادہ ہونا بہتر ہے تاکہ نمازی کا دھیان نہ بٹے۔بعض صوفیاءنقش ونگار والے مصلے کی بجائے سادہ چٹائی پرنماز بہتر سمجھتے ہیں،ان کا ماخذ یہی حدیث ہے۔خیال رہے کہ یہ سب اپنی امت کی تعلیم کے لئے ہے قلب پاک مصطفی کی واردات مختلف ہیں،کبھی کپڑے کے بیل بوٹے سے خضوع خشوع کم ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور کبھی میدان جہاد میں تلواروں کے سایہ میں نماز پڑھتے ہیں اورخشوع میں کوئی فرق نہیں آتا کبھی بشریت کا ظہور ہے اور کبھی نورانیت کی جلوہ گری۔