حسد، عصر حاضر اور ملائیت

از: افتخار الحسن رضوی

جید و اکابر علماء و مشائخ کے اقوال، حالاتِ زندگی اور ان کو درپیش مسائل سے یہ حقیت ثابت ہو چکی ہے کہ علماء اور دینی پہچان رکھنے والوں میں حسد بکثرت پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ایسی روایات بھی موجود ہیں جہاں ایک عالم کی دوسرے عالم کے خلاف گواہی فقط اس لیے قبول نہ کی گئی کہ دونوں باہم حسد کا شکار تھے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ موجودہ دور کے بریلوی علماء باہم سخت حسد کا شکار ہیں۔ سوشل میڈیا نامی طوائف نے اس حسد کی آگ کو بھڑکانے میں تیل کا کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ افضلیت شیخین، ایمان ابو طالب، مشاجرات صحابہ ، صلح کلیت اور بد مذہبیت پر مضامین، تحاریر اور اس طرح کی اصطلاحات کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔

ایک بریلوی بھائی اس عنوان پر پوسٹ شئیر کرتا ہے تو دوسرے کو اپنی مردانہ صفات کمزور پڑتی محسوس ہوتی ہیں، وہ بھی فوراً کسی جھاڑی سے کچھ نہ کچھ اٹھا کر شئیر کرنے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ اس کی نیت رضائے الٰہی کا حصول یا اصلاحِ معاشرہ نہیں بلکہ حساب برابر کرنا ہوتا ہے اور دوسرے کو نیچا دکھانا ہوتا ہے اس لیے وہ تحقیق سے نہیں بلکہ کاپی پیسٹ سے کام چلاتا ہے۔

اسی طرح یہ دائمی مریض مختلف معروف خطباء کی تقاریر سے کچھ جملے لے کر ان پر چڑھ دوڑتے ہیں، سینے میں چھپے ہوئے دل کو پڑھنے اور کشف کی صلاحیات کا اظہار فیس بک پر اس انداز میں کرتے ہیں جیسے مؤمنانہ فراست انہی پر ختم ہو۔

یہ وہ ذہنی غریب، فکری یتیم اور معاشرتی مریض ہیں جن کے قلوب و اذہان پر حسد، منفی فکر اور صلاحیات کی خرابیوں کے تالے چڑے ہوئے ہیں۔ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ رفض و تفضیل یا ناصبیت آج کا مسئلہ نہیں ہے۔ وہ دور اس سے بد تر تھا جب سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو منبروں پر گالیاں دی جاتی تھیں، لیکن وہ دور گزر گیا، یہ بھی گزر جانے والا ہے۔ لیکن ان کی توجہ الحاد، سائنسی تحقیقات، علماء کے معاشی مسائل، مدارس دینیہ کی نصابی بہتری و ترقی، عمرانی و سماجی عنوانات، قرآن و حدیث کے موضوعاتی مطالعہ، مسلمانوں کی سوشل کمزوری، معاشی ترقی، علاقائی و عالمی سطح پر اسلام کو در پیش آفاقی نوعیت کے چیلنجز کی طرف نہیں جاتی۔۔۔ کیونکہ ان کے نزدیک ان کی ڈیڑھ انچ کی مسجد ہی “مرکز کل عالم” اور یہی مفتی اعظم ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصل مسائل وہی ہیں جو ان کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔

صرف ترجیحات بدل لیں، اور جس آقا ﷺ کو یہ “نبی غیب” دان ثابت کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے ہیں، اسے اپنے دل میں حاضر مان لیں تو ان کے اندر کا خبث باہر نکل جائے تاکہ یہ حسد و کینہ اور شدت و تکفیر سے باہر نکل کر حالات کے متقاضی کام کر سکیں۔