رافضیت کا اثبات یا ردّ بلیغ؟

غلام مصطفےٰ نعیمی

مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

کچھ دن پہلے ایک فیس بکی مباحثہ میں یہ شعر موضوع بحث بنا:

“اگر جشنِ ولادِ مرتضیٰ ہے نام شیعت کا

خدا شاہد میں شیعہ ہوں میں شیعہ ہوں میں شیعہ ہوں”

بعض حضرات کے نقد پر شاعر نے محدث اعظم ہند کا یہ شعر بطور دلیل پیش کیا:

“تشیع نام گر باشد ولائے آلِ مولیٰ را

خدا داند ،خدا بیند، منم شیعہ منم شیعہ”

غالباً شاعر نے محدث اعظم ہند کے مذکورہ شعرکا یہ مفہوم مراد لیا ہے:

“اگر آل مولی کی محبت کا نام شیعیت ہے

تو خدا علیم وبصیر ہے کہ میں شیعہ ہوں میں شیعہ ہوں”

اس طرح کے مباحثہ میں امام شافعی علیہ الرحمہ کا بھی ایک شعر بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے:

إن كان رفضاً حب آل محمــــــــد

فليشهد الثقلان إني رافضـــي

امام شافعی کے شعر کا مفہوم بھی اسی سے ملتا جلتا بیان کیا جاتاہے:

“اگر رافضیت حبّ آل محمد کا نام ہے

تو جن وانس گواہ ہیں کہ میں رافضی ہوں”

فقیر کے ناقص ذہن کے مطابق بعض افراد اشعار کی درست تفہیم نہ ہونے کی وجہ سے تعبیر میں خطا کر بیٹھتے ہیں۔ اور حب اہل بیت کی تعبیر کے لیے عمومی طور پر ایسے جملے استعمال کر جاتے ہیں. جو اپنے پس منظر اور پیش منظر کے اعتبار سے درست نہیں ہے. مذکورہ اشعار کی درست تفہیم کے لئے چند اہم امور سمجھنا ضروری ہیں تاکہ تفہیم اشعار میں آسانی ہو۔

مقدمہ اول

مذکورہ اشعار یا اسی قبیل کے دیگر اشعار ایجابی اور مطلق نہیں ہیں بلکہ مشروط ہیں. اصول فن کے مطابق جملہ شرطیہ میں ثانی کا تحقق اول پر موقوف ہوتا ہے۔

الشرط هو اقتران أمر بأمر آخر بحيث لا يتحقق الثاني إلا بتحقق الأول۔

“شرط ایک امر کا دوسرے امر سے مقترن ہونا ہے بایں طور کہ اول کے تحقق کے بغیر ثانی کا تحقق نہ پایا جائے۔”

مقدمہ دوم

ایسے جملوں میں باہمی ربط بیان کرنے کے لئے حروف شرط استعال کئے جاتے ہیں۔اردو میں اگر ،جب ، جو جیسے حروف بطور شرط استعمال کئے جاتے ہیں، جبکہ عربی میں اِن ، کَانَ وغیرہ مستعمل ہیں !!

مقدمہ سوم

کلام عرب میں کسی ناممکن یا مشکل ترین بات کو حرف شرط سے بیان کرنے کا قدیم اسلوب ہے.امام بوصیری فرماتے ہیں:

والنفس كالطفل إن تهمله شب على

حب الرضاع وإن تفطمه ينفطم

“نفس ایک بچے کی مانند ہے اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو جوان ہونے تک بھی دودھ کی محبت نہیں چھوڑے گا اور اگر وقت پر قابو پالیا جائے تو قابو میں رہے گا۔”

مقدمہ چہارم

کسی ناممکن/محال بات کی نفی کرنے کے لیے قرآن کریم میں بھی اس اسلوب کی نظیر ملتی ہے:

قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ (سورہ زخرف ۸۱)

“تم فرماؤ بفرض محال رحمٰن کے کوئی بچہ ہوتا، تو سب سے پہلے میں پوجتا۔”

ان مقدمات کے بعد اشعار مذکورہ کی تفہیم میں یہ نکتہ ذہن میں رکھیں کہ دونوں بزرگوں کا شعری مضمون مطلق نہیں ہے.امام شافعی نے حب آل محمد” کو حرف اِن اور محدث اعظم ہند نے ولائے آل مولی کو لفظ گر سے مشروط کیا ہے۔

لفظ اِنْ حروف شرطیہ میں سے ہے. جس کا ترجمہ اردو میں”اگر” وغیرہ سے کیا جاتا ہے۔

“اِن” کے استعمال کے تعلق سے اصول الفقہ الاسلامی میں لکھا ہے:

وھی انما تدخل علی امر معدوم علی خطر الوجود(اصول الفقہ الاسلامی ص 410)

“اِن” کا دخول ایسے امر معدوم پر ہوتا ہے جس کا وجود متذبذب اور مشکوک ہو۔”

مقدماتی تفصیل کی روشنی میں مذکورہ اشعار کے دو اہم دعووں پر غور فرمائیں:

ان كان رفضاً حب آل محمــــــــد

فليشهد الثقلان إني رافضـــيی

“اگر(بفرض محال) رافضیت آل محمد سے محبت کا نام ہو تو جن وانس گواہ رہیں کہ میں رافضی ہوں۔”

تشیع نام گر باشد ولائے آلِ مولیٰ را

خدا داند خدا بیند منم شیعہ منم شیعہ

“اگر(بفرض محال) شیعیت حب آل مولی کا نام ہو۔تو خدا علیم و بصیر ہے کہ میں شیعہ ہوں میں شیعہ ہوں۔”

مذکورہ اشعار میں دو اہم دعوے ہیں:

1؍رافضیت کا حب آل محمد کی علامت ہونا۔

2؍تحقق کی صورت میں رافضی ہونے کا اقرار۔

لیکن یہ دونوں دعوے ایجابی اور مطلق نہیں بلکہ جملہ شرطیہ کے طور پر کیے گیے ہیں۔جس میں دعوی ثانی کا تحقق تبھی ہوگا جب دعوی اول کا تحقق ہوجائے۔اس لیے ہم پہلے دعوی اول پر غور کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ میں ثابت ہے کہ نہیں؟اس کے بعد دعوی ثانی کے تحقق پر کلام کریں گے۔

رافضیت اور دعوی حب اہل بیت:

آقائے کریم ﷺ کے اہل بیت کی محبت ہر صاحب ایمان پر واجب ہے۔لَا أسئَلُکُم عَلَیہِ اَجرًا اِلّاالمَوَدّۃَ فِی القُربیٰ۔(سورۃ الشوری آیت :۲۳) کی تفسیر میں صدرالافاضل فرماتے ہیں؛

“حضور ﷺ اور حضور کے اقارب کی محبت فرائض دین میں سے ہے۔ حضور سید عالم ﷺ کی آل میں سب سے پہلے آپ کی ازواج مطہرات شامل ہیں۔جن سے محبت کرنا ہر صاحب ایمان کے لیے ضروری ہے۔اگر رافضیت حب اہل بیت کا نام ہوتا تو رافضی جملہ اہل بیت رسالت سے محبت کرتے لیکن رافضی ازواج مطہرات کی شان اقدس میں شدید قسم کی گستاخیاں کرتے ہیں۔جو محب ہوگا،وہ گستاخ نہیں ہوگا اور جو گستاخ ہوگا وہ کبھی محب نہیں ہوسکتا۔ان کا دعوی محبت کذب محض ہے،حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

قال: كنت عند النبی ﷺوعنده علي فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا علي، سيكون في أمتي قوم ينتحلون حب أهل البيت لهم نبز، يسمون الرافضة،(رواہ الطبرانی،مجمع الزوائد،ج؛۱ص ۲۲؍)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے پاس تھا اور حضرت علی بھی آپ کے پاس موجود تھے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے علی! میری امت میں عنقریب ایسی قوم ہوگی جو اہل بیت سے محبت کا جھوٹا دعوی کرے گی ،ان کے لیے ہلاکت ہے ان کو رافضہ کہا جائے گا۔

ان شواہد کی روشنی میں معلوم ہوا کہ روافض کا دعوی حب اہل بیت صریح جھوٹ کا پلندہ ہے۔ حب اہل بیت کا زبانی دعوی تو ہے لیکن عملاً حب آل محمد سے بالکل خالی ہے۔ اس لئے جب رافضیت میں حب آل محمد کی شرط پائی نہیں گئی تو مشروط خود بخود باطل ہوگیا۔

“اذا وجد الشرط وجد المشروط” شرط کے وجود پر مشروط کا وجود موقوف ہے۔اس لیےشعر کا اصل مفہوم یہ بنے گا کہ اگر(بفرض محال) شیعیت حب آل محمد کا نام ہوتا تو میں شیعہ ہوتا۔لیکن شیعت ولائے آل مولیٰ کا نام نہیں ہے اس لئے میں شیعہ نہیں ہوں۔یعنی مذکورہ شعر میں شیعیت ورافضیت کا اثبات نہیں بلکہ ردّ بلیغ ہے۔یہی نکتہ صدرالافاضل علیہ الرحمہ نے اِن کان للرحمن ولد کے ضمن میں بیان کیا ہے:

“لیکن اس کے بچہ نہیں اور اس کے لئے اولاد محال ہے یہ نفی ولد میں مبالغہ ہے۔”

یعنی “اگر رحمٰن کے بچہ ہوتا” کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے بچہ نہیں ہے۔ اور یہاں مبالغہ کے ساتھ بچہ ہونے کی نفی کی جارہی ہے۔اسی لیے اعلی حضرت نے آیت مذکورہ میں اِنْ کا ترجمہ بفرض محال کیا ہے۔

آیت مذکورہ کے ظاہری مفہوم کو کافروں نے بھی ایجابی اور اپنے باطل عقیدے کا اثبات سمجھا تھا لیکن انہیں بتایا گیا کہ اس میں تمہارے عقیدے کا اثبات نہیں ردّ بلیغ ہے،جملہ شرطیہ کو مطلق سمجھنا ان کی بھول ہے،حضرت صدرالافاضل لکھتے ہیں:

“یہ آیت نضر بن حارث کے رد میں نازل ہوئی تھی جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتا تھا. جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے کہا کہ قرآن میں میری تصدیق ہوئی ہے۔اس پر ولید نے کہا:

“تیری تصدیق نہیں ہوئی بلکہ یہ فرمایا گیا کہ رحمن کے ولد نہیں ہے۔”(خزائن العرفان)

اسی طرح امام شافعی اور محدث اعظم کے قول میں رافضیت کا اثبات نہیں بلکہ ردّ بلیغ ہے۔امام شافعی علیہ الرحمہ جب متہھم باالرفض ہوئےتو حج بیت اللہ کے موقع پر الزام رافضیت کی تردید کرتے ہوئے وادی محصب میں یہ اعلان کرایا:

وَاخبِرھم اَنّی مِن النّفر الّذی

لِوِلاء اَھل البَیتِ لَیس بِنَاقِض

(دیوان شافعی ص 172)

“اور انہیں بتا دے کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں

جو اہل بیت سے محبت کے عہد کو توڑ نہیں سکتا

حاسدین نے آپ پر محبت اہل بیت کی بنا پر الزام رافضیت لگایا جس کی تردید کرتے ہوئے آپ نے یوں جواب دیا:

“اگر واقعی رافضیت اہل بیت سے محبت ہوتی تو ضرور میں رافضی ہوتا لیکن میں محب اہل بیت ہوں رافضی نہیں ہوں۔”

اس توضیح کے بعد ان دونوں اشعار کا وہی مفہوم درست قرار پائے گا جسے ہم نقل کر چکے ہیں۔حب اہل بیت کو بیان کرنے کے لیے ایسے اسلوب سے پرہیز کیا جائے جس سے شیعیت کو ذرہ برابر بھی اعتبار مل سکتا ہو. قرآنی اسلوب کی روشنی میں آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ مذکورہ اشعار میں شیعیت کے محب اہل بیت ہونے کی تصدیق نہیں بلکہ زبردست رد ہے۔ اس لئے مذکورہ اشعار کو درست مفہوم اور قرآنی توضیح کے مطابق پڑھا اور سمجھا جائے۔

19؍رجب المرجب 1441ھ

15؍مارچ 2020 بروز اتوار