أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِذۡ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحۡدَى الطَّآئِفَتَيۡنِ اَنَّهَا لَـكُمۡ وَتَوَدُّوۡنَ اَنَّ غَيۡرَ ذَاتِ الشَّوۡكَةِ تَكُوۡنُ لَـكُمۡ وَيُرِيۡدُ اللّٰهُ اَنۡ يُّحِقَّ الۡحَـقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَيَقۡطَعَ دَابِرَ الۡـكٰفِرِيۡنَۙ ۞

ترجمہ:

اور (یاد کرو) جب اللہ نے دو گروہوں میں سے ایک (پر غلبہ) کا تم سے وعدہ فرمایا تھا کہ یہ تمہارے لیے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح گروہ (قافلہ) تمہارے ہاتھ لگے، اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات سے حق کو ثابت کردے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے

تفسیر:

7 ۔ 8:۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور (یاد کرو) جب اللہ نے دو گروہوں میں سے ایک (پر غلبہ) کا تم سے وعدہ فرمایا تھا کہ یہ تمہارے لیے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح گروہ (قافلہ) تمہارے ہاتھ لگے، اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات سے حق کو ثابت کردے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔ تاکہ وہ حق کو ثابت کردے اور ناحق کو باطل کردے خواہ مجرموں کو ناگوار ہو “

ابو سفیان کے قافلہ تجارت پر حملہ کو بعض صحابہ کے ترجیح دینے کا بیان 

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

عروہ بیان کرتے ہیں کہ ابو سفیان قریش کے چند سواروں کے ساتھ شام سے آرہا تھا، وہ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ جا رہے تھے، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قافلہ کا علم ہوا تو آپ نے اپنے اصحاب کو بلایا اور ان کو بتایا کہ اس قافلہ میں بہت مال اور سامان ہے اور اس کے محافظوں کی تعداد بہت کم ہے تو صحابہ مدینہ سے باہر نکلے، ان کا ارادہ صرف ابوسفیان اور اس کے سواروں پر حملہ کرنے کا تھا اور وہ صرف مال غنیمت کے حصول کے لیے نکلے تھے اور ان کو یہ خیال نہیں تھا کہ کوئی بہت بڑی جنگ ہوگی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح گروہ (تجارتی قافلہ) تمہارے ہاتھ لگے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : 12209)

علی بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے واذ یعدکم اللہ احدی الطائفتین کی تفسیر میں فرمایا ابوسفیان تجارتی قافلہ لے کر شام سے مکہ مکرمہ کی طرف جا رہا تھا، اہل مدینہ کو یہ خبر پہنچی تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قافلہ پر حملہ کرنے کے لیے نکلے، اہل مکہ کو یہ خبر پہنچ گئی تو وہ بہت عجلت میں قافلہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب اس قافلہ پر غالب نہ آجائیں۔ ادھر وہ قافلہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زد سے باہر نکل گیا، اللہ ت عالیٰ نے مسلمانوں سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا، صحابہ کے نزدیک قافلہ پر حملہ کرنا زیادہ آسان اور زیادہ پسندیدہ تھا اور اس میں مال غنیمت کے حصول کی زیادہ توقع تھی۔ جب وہ قافلہ مسلمانوں کے حملہ کی زد سے باہر نکل گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لشکر کفار سے مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا جو ابوسفیان کے قافلہ کی حفاظت کے قصد سے مدینہ کی سرحد پر پہنچ چکا تاھ، مسلمانوں کو ان کی عددی کثرت اور اسلحہ کی فراوانی کی وجہ سے ان سے مقابلہ کرنا ناگوار لگا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (جامع البیان رقم الحدیث : 12213) ۔ 

اس سے پہلے ہم نے دلائل النبوۃ کے حوالے سے جو ذکر کیا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قافلہ پر حملہ کرنے کے ارادہ سے ناراض ہوئے۔ یہ بعد کی بات ہے جو واذ یعدکم اللہ احدی الطائفتین نازل ہوچکی تھی اور یہاں جو ہم نے جامع البیان کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپ صحابہ کے ساتھ قافلہ پر حملہ کرنے ارادہ سے نکلے، یہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ 

ابن زید اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش کے قافلہ پر حملہ کرنے کے قصد سے بدر کی طرف روانہ ہوئے، ادھر شیطان سراقہ بن جعشم کی شکل میں اہل مکہ کے پاس گیا اور انہیں گمراہ کرنے کے لیے کہا (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب تمہارے قافلہ پر حملہ کرنے والے ہیں اور تمہاری شوکت اور قوت کے مقابلہ میں وہ لوگ ٹھہر نہیں سکتے، پھر وہ مسلح ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقام روحاء پر جاسوس بھیجے ہوئے تھے انہوں نے آ کر آپ کو لشکر کفار کی خبر دی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم سے تجارتی قافلہ یا لشکر کفار میں سے کسی ایک کا وعدہ فرمایا ہے، مسلمانوں کے نزدیک قافلہ پر حملہ کرنا زیادہ پسندیدہ تھا کیونکہ اس میں کسی بڑی جنگ کا خطرہ نہیں تھا، اس موقع پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث : 12216)

اس جگہ یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آیت :7 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات سے حق کو ثابت کردے۔ پھر آیت :8 میں فرمایا : تاکہ حق کو ثابت کردے اور ناحق کو باطل کردے اور بظاہر یہ تکرار ہے کیونکہ دونوں آیوں میں حق کو ثابت کرنے کا ذکر ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی آیت میں حق کو ثابت کرنے سے مراد یہ ہے کہ کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کو فتح اور نصرت عطا فرمائے اور دوسری آیت میں حق کو ثابت کرنے سے مراد یہ ہے کہ کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کو فتح اور نصرت عطا فرمائے اور دوسری آیت میں حق کو ثابت کرنے سے مراد ہے دین اسلام اور قرآن مجید کی حقانیت کو ثابت کرنا اور کفار کے باطل عقائد کا بطلان واضح کرنا اور معرکہ بدر میں مسلمانوں کی فتح دین اسلام کے غلبہ اور سرفرازی کا سبب بنی

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 7