أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَتَذۡهَبَ رِيۡحُكُمۡ‌ وَاصۡبِرُوۡا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ‌ۚ ۞

ترجمہ:

اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں مخالفت نہ کرو، ورنہ تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں مخالفت نہ کرو، ورنہ تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے لکھنے اور پڑھنے کی نفی کو آپ کے اعلان نبوت سے پہلے کی قید سے مقید کیا ہے اور یہی مقصود ہے۔ کیونکہ اگر اعلان نبوت اور نزول قرآن سے پہلے آپ کا لکھنا پڑھنا ثابت ہوتا تو اس شبہ کی راہ نکل سکتی تھی اور اس آیت سے آپ کی نبوت اور قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے پر استدلال نہ ہوسکتا۔ اور اس قید لگانے کا یہ تقاضا ہے کہ اعلان نبوت کے بعد آپ سے لکھنے اور پڑھنے کا صدور ہوسکتا ہے اور بعد میں آپ کا لکھنا اور پڑھنا اس استدلال کے منافی نہیں ہے۔

علامہ آلوسی نے بعض اجلہ علماء کا یہ قول نقل کیا ہے :

اس قید سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قرآن مجدی کے نازل ہونے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھنے اور پڑھنے پر قادر تھے اور اگر اس قید کا اعتبار نہ کیا جائے تو یہ قید بےفائدہ ہوگی۔ (روح المعانی ج ٢١‘ ص ٥‘ مطبوعہ بیروت)

اس استدلال پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ یہ مفہوم مخالف سے استدلال ہے۔ اور فقہاء احناف کے نزدیک مفہوم مخالف سے استدلال معتبر نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مفہوم مخالفت کا استدلال میں معتبر نہ ہونا اتفاقی نہیں ہے کیونکہ باقی ائمہ مفہوم مخالف کا اعتبار کرتے ہیں ‘ خصوصاً جب کہ بکثرت احادیث صحیحہ سے بعثت کے بعد آپ کا لکھنا ثابت ہے ‘ جیسا کہ ہم عنقریب انشاء اللہ با حوالہ بیان کریں گے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیگرعلمی اور عملی کمالات عطا فرمائے ہیں اسی طرح آپ کو لکھنے پڑھنے کا بھی کمال عطا فرمایا ہے ‘ لکھنے کا علم ایک عظیم نعمت ہے ‘ قرآن مجید میں ہے : الذی علم بالقلم۔ علم الانسان مالم یعلم (العلق : ٤٠٥) ” جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ‘ اور انسان کو وہ علم دیا ‘ جس کو وہ جانتا نہ تھا “۔ امت کے ان گنت افراد کو پڑھنے اور لکھنے کا کمال حاصل ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کمال حاصل نہ ہو ! اور امی ہونے کا فقط یہ مفاد ہے کہ آپ نے کسی مخلوق سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو براہ راست یہ علم عطا فرمایا ہے اور بعثت سے پہلے آپ لکھنے اور پڑھنے میں مشغول نہیں رہے تاکہ آپ کی نبوت میں کسی شبہ نہ ہو اور بعثت کے بعد آپ نے پڑھا اور لکھا اور یہ ایک الگ معجزہ ہے۔ کیونکہ بغیر کسی مخلوق سے کسب فیض کے پڑھنا اور لکھنا خلاف عادت ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے پر سید مودودی کے اعتراضات اور ان کے جوابات 

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے پر اعتراض کرتے ہوئے سید مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ لکھتے ہیں۔

ان لوگوں کی جسارت حیرت انگیز ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ حالانکہ یہاں قرآن صاف الفاظ میں حضور کے ناخواندہ ہونے کو آپ کی نبوت کے حق میں ایک طاقتور ثبوت کے طور پر پیش کر رہا ہے ‘ جن روایات کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حضور لکھے پڑھے تھے یا بعد میں آپ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا ‘ وہ اوّل تو پہلی ہی نظر میں رد کردینے کے لائق ہیں کیونکہ قرآن کے خلاف کوئی روایت بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی ‘ پھر وہ بجائے خود بھی اتنی کمزور ہیں کہ ان پر کسی استدلال کی بنیاد قائم نہیں ہوسکتی ‘ ان میں سے ایک بخاری کی یہ روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کا معاملہ جب لکھا جا رہا تھا تو کفار مکہ کے نمائندے نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام کے ساتھ رسول اللہ لکھنے جانے پر اعتراض کیا۔ اس پر حضور نے کاتب (یعنی حضرت علی) حکم دیا کہ اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر محمد بن عبداللہ لکھ دیا۔ (الی قولہ) ہوسکتا ہے کہ صحیح صورت واقعہ یہ ہو کہ جب حضرت علی نے ” رسول اللہ “ کا لفظ مٹانے سے انکار کردیا تو آپ نے اس کی جگہ ان سے پچھ کر اور پھر ان سے یا کسی دوسرے کاتب سے ابن عبداللہ کے الفاظ کے الفاظ لکھوا دئے ہوں (الی قولہ) تاہم اگر واقعہ یہی ہو کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا نام اپنے ہی دست مبارک سے لکھا ہو تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ ان پڑھ لوگ صرف نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں ‘ باقی کوئی چیز نہ پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔ (تفہیم القرآن ج ٣‘ ص ٧١٣۔ ٧١٤ ملتحصا ‘ مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور۔

الجواب 

پہلی بات یہ ہے کہ سید مودودی کا یہ لکھنا غلط ہے کہ اعلان نبوت کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لکھنا قرآن مجید کی اس آیت اور اس استدلال کے خلاف ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید نے آپ کے لکھنے اور پڑھنے کی مطلقاً نفی نہیں کی ‘ بلکہ نزول قرآن سے پہلے آپ لکھنے اور پڑھنے کی نفی کی ہے۔ لہذا نزول قرآن کے بعد جن احادیث میں آپ کے لکھنے کا ثبوت ہے وہ روایات قرآن مجید کے خلاف نہیں ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم اور دیگر بکثرت کتب صحاح سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لکھنا ثابت ہے اور سید مودودی کا ان احادیث کو بجائے خود کمزور کہنا لائق التفات نہیں ہے۔ ثالثاً سید مودودی نے جو یہ تاویل کہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے کسی اور کاتب سے لکھوا دیا ہو سو یہ احتمال بلا دلیل ہے اور الفاظ کو بلا ضرورت مجاز پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ رابعاً اس بحث کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سید مودودی نے نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عام ان پڑھ لوگون پر قیاس کیا ہے اور لکھا ہے اگر آپ نے اپنا نام اپنے ہی دست مبارک سے لکھا ہو تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں ‘ باقی کوئی چیز نہیں پڑھ سکتے ‘ نہ لکھ سکتے ہیں۔ عام لوگوں کا ان پڑھ ہونا ان کا نقص اور ان کی جہالت ہے اور رسول اللہ کا امی ہونا ‘ آپ کا کمال ہے ‘ کہ دنیا میں کسی استاد کے آگے زانو تلمذتمہ نہیں کیا ‘ کسی مکتب میں جا کر لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا اور براہ راست خدائے لم یزل سے علم پاکر اولیں اور آخرین کے علوم بیان فرمائے اور پڑھ کر بھی دکھایا اور لکھ بھی دکھایا۔ 

یتیمے کہ ناکردہ قرآن درست 

کتب خانہ چند ملت بشت

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے کے ثبوت میں احادیث 

حضرت براء بن عازب ص بیان کرتے ہیں کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوالقعدہ میں عمرہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے منع کردیا ‘ حتی کہ اس بات پر صلح کی آپ آئندہسال عمرہ کریں اور مکہ میں صرف تین دن قیام کریں ‘ جب انہوں نے صلح نامہ لکھا تو اس میں یہ لکھا کہ یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ نے صلح کی ‘ کفار مکہ نے کہا کہ ہم اس کو نہیں مانتے۔ اگر ہم کو یہ یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو نہ منع کرتے لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا میں رسول اللہ ہوں اور میں محمد بن عبداللہ ہوں۔ پھر آپ نے حضرت علی بن ابی طالب سے فرمایا رسول اللہ (کے الفاظ) مٹا دو ‘ حضرت علی نے کہا نہیں ! خدا کی قسم ! میں آپ (کے الفاظ) کو ہرگز نہیں مٹائوں گا ‘ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (لکھنا شروع کیا ‘ اور آپ اچھی طرح (مہارت سے) نہیں لکھتے تھے۔ پس آپ نے لکھا یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی کہ کوئی شخص مکہ میں ہتھیار لے کر داخل نہیں ہوگا ‘ سو اس کے کہ تلوار نیام میں ہو۔ (الحدیث) 

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٢٥١‘ مسند احمد ج ٤‘ ص ٢٩٨‘ جامع الا صول ج ٨ رقم الحدیث : ٦١٣٣)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 46