حدیث نمبر 91

روایت ہے حضرت عامرابن ربیعہ سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عمر ابن خطاب کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے ان دو رکعتوں میں نہایت آہستہ سورۂ یوسف اور سورۂ حج پڑھی ۲؎ ان سے کہا گیا کہ تب تو آپ فجرچمکتے ہی کھڑے ہوجاتے ہوں گے فرمایا ہاں ۳؎(مالک)

شرح

۱؎ آپ مشہورصحابی ہیں،عمر فاروق سے پہلے ایمان لائے،دوہجرتوں کے مہاجر ہیں،بدر اور تمام غزوات میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے،۳۲ ھ ؁ یا ۳۵ھ ؁ میں وفات پائی۔

۲؎ یعنی پہلی رکعت میں پوری سورۂ یوسف اور دوسری میں پوری سورۂ حج جیسا کہ اگلے کلام سے معلوم ہورہا ہے اور یقینًا آپ نے سورۂ حج کا سجدہ بھی ادا کیا ہوگا۔اس کی تحقیق پہلے کی جاچکی کہ اب سوا تراویح کے اور نمازوں میں عوام کے ساتھ آیتِ سجدہ نہیں پڑھنی چاہیے۔

۳؎ کیونکہ اتنی لمبی سورتیں جب ہی پڑھی جاسکتی ہیں جب کہ وقت زیادہ ملے۔خیال رہے کہ بعض آئمہ کے ہاں مستحب یہ ہے کہ فجر اندھیرے میں شروع کرے اور اجیالے میں ختم کرے،یہ حدیث ان کی دلیل ہے،ہمارےہاں شروع بھی اجیالے میں کرے اور ختم بھی۔حضرت فاروق اعظم کا یہ فعل اتفاقی ہے اور بیان جواز کے لیے۔